سیاسی تیل کی دھار کا معاملہ

اگر وہ بند گلی سے نکل جاتے ہیں تو کیا گارنٹی ہے کہ پھر ٹھڈ کرا کر گرایا نہیں جائے گا؟

Warza10@hotmail.com

ملک میں انتخابات کا طبل بجادیا گیا ہے اور 2024 کا 8 فروری دوبارہ سے جمہوریت کو پٹری پر لانے کے لیے چنا گیا ہے، موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی اپنی بنچ کی حد تک تیزی سے زیر التوا کیسز کو منطقی انجام تک پہنچا رہے ہیں۔

دوسری جانب صحافت آج بھی ایک ذمے دارانہ انداز سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے،جس میں اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ صحافت کی آئینی اور اظہار کی آزادی میں '' اداروں'' کی بے جا مداخلت اور دباؤ کو عدالتی سطح پر روکا جائے،یقین ہے کہ صحافت کی آزادی کے آئینی حق کو بھی دیگر آئینی حقوق کی طرح نہ صرف محفوظ کیا جائے گا بلکہ صحافت پر سے حکومت اور اداروں کے دباؤ کو کم کرنے اور صحافتی حقوق کی مکمل ضمانت فراہم کرنے میں بھی اعلیٰ عدلیہ اپنا آئینی اور کلیدی کردار ادا کرے گی۔

موجودہ سیاسی ماحول میں میرا استدلال رہا ہے کہ جب بھی پاکستان کی سیاسی اشرافیہ بند گلی میں پھنس جاتی ہے تو اسے جمہوریت کی یاد آنا شروع ہوجاتی ہے اور اس میں بھی طاقتور اشرافیہ کے پیش نظر قطعی طور سے عوامی یا ملکی مفاد ہر گز نہیں ہوتا بلکہ اشرافیہ عالمی دباؤ کے نتیجے میں جمہوریت کی راگنی چھیڑتی ہے۔

موجودہ سیاسی ہلچل میں میرا اس بات سے اتفاق نہیں کہ ن لیگ کو نظر آنے والی پلیئنگ فیلڈ دینے کی وجوہات کے پیچھے کوئی ڈیل ہے، بلکہ میرا استدلال یہ ہے کہ بند گلی میں پھنسی ہوئی اشرافیہ دوبارہ ایک کمزور سے،جمہوری سمجھوتے کی طرف بڑھ رہی ہے جس کے لیے آزمائے ہوئے سیاستدان ان کی ضرورت یا نجات دہندہ کا کردار ادا کرنے جارہے ہیں،اس ضمن میں دیکھنا یہ ہے کہ ملک میں تمام بنائی گئی سیاسی جماعتیں اور بطور خاص ن لیگ اس بحران سے خود کیسے نکل سکتی ہے اور کس قدر اپنی سیاسی ساکھ بچا سکتی ہے اور ملک میں حقیقی جمہوری قدروں کا فروغ کس طرح کرتی ہے؟

راجن پور کے ہمارے کامریڈ میاں داؤد سے گفتگو کے دوران موجودہ سیاسی بحران پر تفصیلی بات چیت ہوئی،میں اور کامریڈ داؤد اس بات پر یکساں تھے کہ اشرافیہ خود کو بحران سے نکالنے کے لیے ہاتھ پیر چلا رہی ہے،جس کے لیے جمہوری حکومت یا انتخابات عوام کے بجائے اشرافیہ کی ضرورت ہے،جب کہ کامریڈ داؤد کا استدلال تھا کہ آج کل سیاست ٹام اینڈ جیریز سیریز کی مانند قدیمی ہے۔سو ایک بار پھر سے پیش ہیں تعاون والے اور ایک بار پھر آزمائے ہوئے سیاستدان کو نجات دہندہ کے طور پر چنا گیا ہے۔

اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ حالات و واقعات کا بغور مشاہدہ کرتے ہوئے دیکھا جائے کہ آخر ایسی ضرورت پھر سے کیوں پیش آ گئی اور اب کی بار ایسا کیا انوکھا یا اہم یا ضروری ہونے جا رہا ہے یا ہو سکتا ہے جس کے واسطے یہ سیاستدان ناگزیر نہ بھی ہوں تو بند گلی میں کھڑی اشرافیہ کی مجبوری ضرور بن چکے ہیں۔پروجیکٹ تحریک انصاف کی ناکامی نے سارے اندازوں پر پانی پھیر دیا اور سونے پہ سہاگا یہ ہوا کہ نو مئی ہو گیا۔ ضرورت بدل گئی، حالات بدل گئے۔

نئے صاحب جس ڈیل کے زیر اثر آئے ہیں وہ جلد یا بدیر سامنے آ ہی جائے گی مگر جو کام کرنے آئے ہیں ۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ یہ کام اشرافیہ چیئرمین تحریک انصاف سے کروانا چاہتی تھی مگر قبلہ خان صاحب پلے بوائے کی طرح شام کو کمٹ کرتے اور صبح کابینہ کے اجلاس میں یوٹرن لے لیتے،سو تخلیق کار اب موجودہ بندوبست کی طرف بڑھ رہے ہیں،اب اس کی کامیابی یا ناکامی کا اندازہ قبل از وقت ہے،لہٰذا ہم موجودہ سیاسی بحران سے نمٹنے کی ضرورت کو ہی پیش نظر رکھتے ہیں۔


2024 کے انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومت کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ بھارت سے تعلقات اچھے کرے اور تجارتی راہداری کھولے جو خطے کی معاشی بحالی کے لیے ضروری ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ سب سے اہم ٹاسک کیسے اور کیونکر پورا کیا جاتا ہے۔ اس ٹاسک میں ضروری کام افغانستان ٹریڈ ٹرانزٹ کو بھارت تک بڑھانا اور چائنہ کو اس میں شامل کرنا کلیدی کام کے طور پر رکھا گیا ہے۔ پاکستان کے ایک جانب سوا ارب کی آبادی والا ملک چائنہ ہے تو دوسری جانب ارب سے اوپر آبادی والا ملک بھارت۔

لگ بھگ دنیا کی آدھی آبادی تو ان دو ممالک میں بس رہی ہے،سو معاشی بحالی اور تجارت کے لیے یہ دونوں ملک اس وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ مودی سرکار سے تعلقات کی کنجی میاں نواز شریف کے پاس ہے،گو بھارت سے تجارتی تعلقات کی بحالی کا کام بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا کیونکہ بھارت سے تجارت ہمارے مفاد میں ہے اور مفادات کا تحفظ ہر ریاست کرتی ہے۔

اس پورے انتظام میں محمد بن سلمان، یو اے ای اور قطر سے پچاس بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری لانا، ریکوڈک منصوبے میں سعودیہ کو پچیس فیصد شیئرز فروخت کرنے پر یقینی راضی کرنااہم ہے،اسی واسطے اصرار تھا کہ پہلے پانچ سالہ مستحکم حکومت بنا لیں پھر بات آگے بڑھاتے ہیں،قرائن بتاتے ہیں کہ میاں صاحب کی گارنٹی بھی وہیں سے آئی ہے۔

بجلی پیدا کرکے مہنگے داموں عوام تک پہنچانے والی عالمی سرمایہ داروں کی چہیتی آئی پی پیز کا جائزہ لے کر دوبارہ تخمینہ لگا کر ڈسکوز کو صوبوں کے تحت دینا بھی ایک اہم مرحلہ ہے تاکہ وفاق سے بوجھ کم ہو۔

ہمارے ہاں اداروں کے خسارے میں ہونے کی وجوہات کو تلاش کرنے کے عمل میں ''پر'' جلتے ہیں،البتہ ''مٹی پاؤ''کے فلسفے پر چلتے ہوئے ملک کو صنعتی بنانے کے بجائے ٹریڈنگ بنانے پر کام جاری رہتا ہے سو اب پی آئی اے،اسٹیل مل اور دیگر خسارتی اداروں کی نجکاری کرنا ایک ضروری امر بتایا جا رہا ہے تاکہ خسارے سے جان چھڑوائی جائے،اس ضمن میں پی آئی اے کو قطر ائیرلائن کے ذمے لگانے کا پلان ہے اور اسی طرح دیگر اداروں کو پرائیویٹائز کرنے کا منصوبہ ہے۔

تحریک انصاف پروجیکٹ سے سی پیک پر ناراض چائنہ کو دوبارہ منانا اور منصوبوں پر کام تیزی سے آگے بڑھانا بھی مستقبل کے منصوبوں کا حصہ ہے۔ کچھ سالوں کے لیے پراپرٹی سیکٹر، آٹو موبائل اور تعمیراتی سیکٹر پر چھوٹ دینا معاشی ضرورت کے طور پر سامنے لایا جائے گا تاکہ پیسہ گردش میں آ پائے۔ یعنی کالے دھن پر آنکھیں بند کر لینا۔ پیسہ کہاں سے آ رہا ہے، کس چینل سے آ رہا ہے، اس پر کوئی پوچھ گچھ نہیں ہو گی۔

ایک اور ملک گیر ایمنسٹی اسکیم کا اعلان ملکی مفادکے پردے میں کیا جا سکتا ہے۔منصوبہ سازوں کے مذکورہ منصوبے اگر کامیاب ہوتے ہیں تو شاید معیشت سنبھل جائے اور پاکستان کے معاشی حالات بہتر ہو جائے، مگر اہم سوال یہ ہے کہ اگر تین چار سالوں میں معیشت ان منصوبہ کے مطابق سنبھل جاتی ہے تو اس کی کیا گارنٹی ہے کہ نئی سیج سجانے کا شوق پھر نہیں اُٹھے گا؟

اگر وہ بند گلی سے نکل جاتے ہیں تو کیا گارنٹی ہے کہ پھر ٹھڈ کرا کر گرایا نہیں جائے گا؟ اس کا جواب تلاش کرنا اہل فکر و نظر پر چھوڑ دیتا ہوں۔ عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ ڈیلز ایک مدت بعد ایکسپائر ہو جاتی ہیں اور پھر سیاسی شہادت واقع ہو جاتی ہے۔
Load Next Story