دہشت گردی کی وارداتیں

مارے گئے دہشت گرد کی شناخت ٹی ٹی پی کے خودکش بمبار اسامہ کے نام سے ہوئی ہے

مارے گئے دہشت گرد کی شناخت ٹی ٹی پی کے خودکش بمبار اسامہ کے نام سے ہوئی ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان ایئرفورس کے میانوالی ٹریننگ بیس پر دہشت گردوں نے الصبح حملہ کیا ہے، جسے بروقت کارروائی کرکے ناکام بنادیا گیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق دہشت گردوں کے خلاف کلیئرنس آپریشن مکمل کر لیا گیا ہے ، کلیئرنس آپریشن کے دوران تمام 9 دہشت گرد مارے گئے ہیں۔

میڈیا نے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے حوالے سے بتایا ہے کہ میانوالی میں ایئرفورس کے ٹریننگ بیس پر ہونے والے حملے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے کامیاب کارروائی کرتے ہوئے کلیئرنس آپریشن مکمل کر لیا اور حملہ آور ہونے والے تمام 9 دہشت گرد جامع منصوبہ بندی اور ایکشن کے بعد واصل جہنم کر دیے۔

بتایا گیا ہے کہ ایئرفورس کے فنکشنل آپریشنل اثاثوں میں سے کسی کو نقصان نہیں پہنچا، حملے کے دوران 3 غیر آپریشنل طیاروں کو معمولی نقصان پہنچا۔ادھر بلوچستان کے علاقے پسنی اور اورماڑہ میں بھی دہشت گردوں کے حملے میں 14 جب کہ خیبرپختونخواہ کے ضلع لکی مروت میں مقابلے کے دوران دو اور ڈیرہ اسماعیل خان میں دیسی ساختہ دھماکے میں ایک فوجی جوان نے جام شہادت نوش کرلیا، دہشت گردی کے ان واقعات میں 17 فوجی جوان شہید ہوئے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق 3 نومبرکو خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے تین اور بلوچستان میں ایک واقعہ پیش آیا۔ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے روڑی میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کیا گیا، جس کے دوران فائرنگ کے شدید تبادلے میں ایک دہشت گرد ہلاک اور دو زخمی ہوئے۔ مارے گئے دہشت گرد کی شناخت ٹی ٹی پی کے خودکش بمبار اسامہ کے نام سے ہوئی ہے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق دہشت گرد علاقے میں ایک ہائی پروفائل واقعہ کو انجام دینے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ترجمان پاک فوج کے مطابق ضلع لکی مروت میں کی گئی دوسری کارروائی میں ایک دہشت گرد کو جہنم واصل کیا گیا۔ خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کا تیسرا واقعہ ڈیرہ اسماعیل خان میں پیش آیا جہاں کلاچی کے علاقے میں دیسی ساختہ بم دھماکے میں حوالدار شاہد اقبال نے جام شہادت نوش کیا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق پسنی اور اورماڑہ جانے والی فورسز کی 2 گاڑیوں پر دہشت گردوں نے گھات لگا کر حملہ کیا۔ پاکستان میں دہشت گردوں کی کارروائیاں نئی نہیں ہے۔ پاکستان سیکیورٹی فورسز برسوں سے دہشت گردوں کا مقابلہ کررہی ہیں۔

پاکستان کے ہزاروں فوجی افسر اور جوان، پولیس افسر اور جوان اور عام شہری دہشت گردی کی وارداتوں میں شہید ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں عبادت گاہیں اور درگاہیں تک دہشت گردوں سے محفوظ نہیں رہیں۔ اس لیے گزشتہ روز دہشت گردوں نے جو حملے کیے ہیں، ان پر کسی کو حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔

دہشت گرد کون ہیں؟ کہاں سے آتے ہیں؟ کہاں قیام پذیر ہوتے ہیں اور کس ملک کی سرزمین کو استعمال کر رہے ہیں؟ یہ حقائق اب کسی سے بھی ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے سسٹم میں چھپے ہوئے وہ کون سے بااثر لوگ ہیں جو دہشت گردوں کی سہولت کاری کرتے ہیں؟ دہشت گردی کی وجوہات کی آڑ میں اگر مگر اور چونکہ چنانچہ کی گردان کر کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، دہشت گردوں کو گلوری فائی کرتے ہیں، انھیں نظریاتی اور مالی غذا فراہم کرتے ہیں؟

پاکستان کے اندر وہ کونسے گروہ ہیں جن کے کاروباری اور مالی مفادات دہشت گردوں کے سرپرستوں،نگہبانوں اورہنڈلرز کے مفادات سے جڑے ہوئے ہیں؟ان حوالوں سے کئی شک دور ہوچکے ہیں، جو شکوک تاحال موجود ہیں، وہ بھی جلد دور ہوجائیں گے۔ کالعدم ٹی ٹی پی، پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں کو کھلے عام تسلیم کررہی ہے، اس گروہ کی وفاداری کہاں ہے؟اس کے عزائم کیا ہیں؟اس کے فنانشنل سورسز کون سے ہیں اور اس گروہ کی فنانشل لائف لائن کہاں کہاں سے گزر کر اس تک پہنچتی ہے؟


اس کے بارے میں بھی کئی چھپے ہوئے راز منظر پر آچکے ہیں۔ بلوچستان میں برسرپیکار مسلح گروہ کہاں سے آپریٹ ہوتے ہیں، اس کے بارے میں بھی حکومتی ادارے اچھی طرح آگاہ ہیں۔ ٹی ٹی پی، بی ایل اے وغیرہ کے مشترکہ مفادات کہاں ملتے ہیں، جرائم پیشہ وائٹ کالر کریمنلز کا اس معاملے میں کیا کردار ہے، اس کے بارے میں بھی خاصی حد تک منظرنامہ واضح ہو رہا ہے۔

پاکستان سے افغانستان کے مہاجرین اور غیرقانونی باشندوں کے انخلا کے نتیجے میں افغانستان کی طالبان حکومت کے سرکردہ افراد نے جو زبان استعمال کی ہے، وہ ہرگز کسی مہذب حکومت کے نمایندے کی نہیں ہے۔پاکستان میں جو افغان پناہ گزین رہائش پذیر ہیں، چاہے وہ قانونی مہاجر ہیں یا غیر قانونی ہیں، وہ افغانستان کے شہری ہیں، اس حقیقت سے افغانستان کی کوئی حکومت انکار نہیں کرسکتی۔

افغانستان کی حکومت کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی جان ومال کا تحفظ کرے اور افغانستان کے جو شہری کسی ڈر، خوف، بدامنی، خانہ جنگی وغیرہ کی وجہ سے دوسرے ملکوں میں چلے گئے ہیں، انھیں واپس لائے اور ان کی آبادکاری کا بندوبست کرے۔ پاکستان کے ساتھ الجھنے کا کوئی جواز اور منطق نہیں ہے۔

افغانستان کی طالبان حکومت کے اکابرین کو اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ عبوری سیٹ اپ کی نمایندگی کرتے ہیں۔ انھیں افغانستان کے عوام نے اپنے ووٹوں سے منتخب نہیں کیا ہے۔ ان کا مینڈیٹ صرف یہ ہے کہ قطر میں ایک معاہدہ ہوا، جس کے تحت افغان طالبان کے لیے کابل کے دروازے کھل گئے ہیں۔

ایک ذمے دار حکومت کا پہلا فرض یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کام کرے۔ اپنے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرے اور جتنی جلدی ممکن ہو سکے، ملک میں جمہوری ماحول پیدا کر کے انتخابات کرائے تاکہ افغانستان پر ایک ڈی جیور منتخب حکومت اقتدار میں آ جائے۔

پاکستان کو جن مسائل کا سامنا ہے، وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ اب افغانستان میں نہ تو کوئی جہاد ہو رہا ہے، نہ وہاں کوئی غیرملکی قابض فورس موجود ہے، اس لیے پاکستان اور دیگر ملکوں میں رہائش پذیر افغان پناہ گزینوں کا مسلسل قیام پذیر رہنے کا جواز ختم ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے کرتا دھرتاؤں کو بھی حقائق کو سامنے رکھ کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔

افغانستان میں سوویت یونین کی فوجیں آئیں، تب مہاجرین پاکستان، ایران اور ترکی میں آئے۔ سوویت فوجوں کی واپسی کے بعد خانہ جنگی کا دور دورہ ہوا، تب بھی افغان باشندے ملک چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں چلے گئے۔ طالبان کا پہلا دورِ حکومت آیا تب بھی بہت سے لوگ پاکستان اور دوسرے ملکوں میں چلے گئے۔ اب دوبارہ طالبان آئے ہیں تو بہت سے لوگ پاکستان اور دیگر ملکوں میں چلے گئے ہیں۔ افغانستان کے مقتدر لوگوں کو اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کو سامنے رکھ کر خود احتسابی کے عمل سے گزرنا چاہیے۔

افغانستان میں پچھلے پینتیس چالیس برس کے دوران جو کچھ ہوا، اس کا الزام پاکستان یا دوسرے ملکوں پر عائد کرنا درست نہیں ہے۔ افغانستان کی رولنگ کلاس چاہے اس کا تعلق ثور انقلاب سے ہو، شاہ پرستوں سے ہو یا مذہبی اور جہادی قیادت سے ہو، ان سب کا افغانستان کی بربادی میں برابر کا حصہ ہے۔ آج بھی اگر افغانستان کے باشندے اپنے ملک کے بجائے دوسرے ملکوں میں رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں، تو اس کی وجہ بھی افغانستان کے مختلف حکمرانوں اور حکومتوں کی آمرانہ روش تھی اور اب بھی ہے۔
پاکستان دہشت گردی کا شکار ہو رہا ہے، اس حوالے سے پاکستان مین اسٹریم سیاسی قیادت کا رویہ اور میلان مبہم، ڈھلمل اور غیرنظریاتی ہے۔ کسی حد تک پیپلزپارٹی نے دہشت گردی کے حوالے سے واضح مؤقف رکھا ہے لیکن مسلم لیگ (ن) اور دیگر سیاسی پارٹیوں کی قیادت نے کبھی دہشت گردی کے حوالے سے ٹھوس اور دو ٹوک مؤقف نہیں اختیار کیا۔ ملک کی مذہبی سیاسی جماعتوں کی قیادت نے تو ملک میں نظریاتی کنفیوژن پیدا کرنے کے سوا کوئی کردار ادا نہیں کیا۔

ریاست کیا ہوتی ہے، اس کے شہریوں کے مفادات کا تقاضا کیا ہے، اس حوالے سے پاکستان کی مذہبی قیادت کا رویہ ہمیشہ بیگانگی کے اصول پر استوار رہا ہے۔ اب پانی سر سے گزر چکا ہے، پاکستان کو بچانے کے لیے اور پاکستان کے شہریوں کے جان ومال اور کاروبار کے تحفظ کے لیے سرکاری مشینری، سیاسی جماعتوں کی قیادت، مذہبی جماعتوں کی قیادت، سول سوسائٹی، دانشور اور اہل علم کو اپنی سوچ اور فکر میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کو دوسروں کی چراگاہ نہ بنایا جائے۔ دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو ان کی زبان میں سبق دینا ضروری ہو چکا ہے۔ مفاہمت، نرمی اور مذاکرات کا وقت گزر گیا۔
Load Next Story