اسلام اور دورِ حاضر کے شبہات اور مغالطے

جس وقت تو اللہ کا نام لیتا ہے اور ’’اللہ‘‘ کہتا ہے تو یہ تیرا ’’اللہ‘‘ کہنا ہی اللہ کی طرف سے جواب ہے


Rafiuzzaman Zuberi November 05, 2023

مولانا محمد عمر انور نے اسلام اور دور حاضر کے شبہات اور مغالطوں کے بارے میں مفتی تقی عثمانی کے خطبات سے کچھ مضامین منتخب کیے ہیں۔ ان کا مقصد اسلامی نظام زندگی سے متعلق ان غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے جو اکثر و بیشتر لوگوں کے ذہنوں میں پائی جاتی ہیں۔

تقدیر کے عقیدہ کے بارے میں مفتی تقی عثمانی کہتے ہیں کہ یہ عجیب و غریب عقیدہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب ایمان کو عطا فرمایا ہے۔ اس عقیدے کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگ طرح طرح کی غلط فہمیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ''پہلی بات یہ ہے کہ کسی واقعے کے پیش آنے سے پہلے تقدیر کا عقیدہ کسی انسان کو بے عملی پر آمادہ نہ کرے، مثلاً ایک انسان تقدیر کا بہانہ کرکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے اور یہ کہے کہ جو تقدیر میں لکھا ہے وہ پورا ہو کر رہے گا، میں کچھ نہیں کرتا۔

یہ عمل حضور اقدسؐ کی تعلیم کے خلاف ہے بلکہ حکم یہ ہے کہ جس چیز کے حاصل کرنے کی جو تدبیر ہے اس کو اختیار کرو، اس کے اختیار کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑو۔ دوسری بات یہ ہے کہ تقدیر کے عقیدے پر عمل کسی واقع کے پیش آنے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ مثلاً کوئی واقعہ پیش آ چکا تو ایک مومن کا کام یہ ہے کہ وہ یہ سوچے کہ میں نے جو تدبیریں اختیار کرنی تھیں وہ کر لیں، اور اب جو واقعہ ہماری تدبیر کے خلاف پیش آیا وہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے، ہم اس پر راضی ہیں۔

لہٰذا واقعہ پیش آ چکنے کے بعد اس پر بہت زیادہ پریشانی، بہت زیادہ حسرت اور تکلیف کا اظہار کرنا اور یہ کہنا کہ فلاں تدبیر اختیار کر لیتا تو یوں ہو جاتا، یہ بات عقیدۂ تقدیر کے خلاف ہے۔ ان دو انتہاؤں کے درمیان اللہ تعالیٰ نے ہمیں اعتدال کی یہ راہ بتا دی ہے کہ جب تک تقدیر پیش نہیں آئی، اس وقت تک تمہارا فرض ہے اپنی سی پوری کوشش کر لو، احتیاطی تدابیر بھی اختیار کر لو، اس لیے کہ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ تقدیر میں کیا لکھا ہے۔''

زکوٰۃ کے بارے میں لوگوں کی غلط فہمی کا ذکر کرتے ہوئے، مفتی تقی عثمانی کہتے ہیں۔ ''یہ کہنا کہ رمضان ہی میں زکوٰۃ نکالیں گے صحیح نہیں ہے۔ خوب اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ ہر آدمی کے لیے زکوٰۃ ادا کرنے کی تاریخ وہ ہے جس تاریخ کو وہ پہلی مرتبہ صاحب نصاب بنا تھا۔ پھر جب اگلے سال وہی تاریخ آئے گی تو اس دن اس پر زکوٰۃ فرض ہو جائے گی۔ مثلاً ایک شخص یکم ربیع الاول کو نصابِ زکوٰۃ مال کا مالک بن گیا تو اگلے سال یکم ربیع الاول کو ہی اس پر زکوٰۃ فرض ہوگی۔ اب اس شخص کو آیندہ ہمیشہ یکم ربیع الاول ہی کو اپنے اموالِ زکوٰۃ کا حساب لگانا چاہیے، یہ نہ ہو کہ صاحبِ نصاب تو آپ یکم ربیع الاول کو بنے اور حساب یکم رمضان کو لگا رہے ہیں، یہ طریقہ درست نہیں ہے۔''

مفتی صاحب کہتے ہیں کہ لوگوں میں دعاؤں کی قبولیت کے بارے میں بھی بہت غلط فہمیاں ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ''آج لوگ یہ کہتے ہیں کہ اتنی دعائیں کی گئیں اللہ تعالیٰ سے اتنا مانگا تھا، لیکن ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ یہاں تک کہ لوگوں کے ایمان متزلزل ہو رہے ہیں، یہ شکوک اور شبہات پیدا ہو رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری مدد کو کیوں نہیں آیا۔ ہماری مدد کیوں نہیں کی گئی لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا عالم اسباب بنائی ہے۔ جب تم اپنی حالت کو بدلنے کے لیے تیار نہیں ہو، تم اللہ کو بھلا بیٹھے ہو اور رسول کو بھی بھلا بیٹھے ہو تو پھر اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کیوں کریں گے؟

البتہ یہ اشکال ہوتا ہے کہ بعض اوقات جب تکلیف کے اندر اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہیں اس کے باوجود وہ تکلیف اور پریشانی نہیں جاتی اور دعا قبول نہیں ہوتی تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرنے اور عرض و معروض کرنے کی توفیق مل جانا ہی اس بات کی علامت ہے کہ ہماری دعا قبول ہوگئی۔ ورنہ دعا کرنے کی بھی توفیق نہیں ملتی، اور اب اس صورت میں تکلیف پر الگ انعام ملے گا اور اس دعا کرنے پر الگ انعام حاصل ہوگا اور اس دعا کے بعد دوبارہ دعا کرنے کی جو توفیق ہوگی اس پر الگ انعام ملے گا لہٰذا یہ تکلیف درجات کے بڑھنے کا ذریعہ بن رہی ہے۔

مولانا رومی فرماتے ہیں کہ جس وقت تو اللہ کا نام لیتا ہے اور ''اللہ'' کہتا ہے تو یہ تیرا ''اللہ'' کہنا ہی اللہ کی طرف سے جواب ہے اور اس بات کی علامت ہے کہ اللہ نے تمہاری پکار کو سن لیا اور اس کو قبول بھی کر لیا۔ لہٰذا دعا کی توفیق ہوجانا ہی اللہ کی طرف سے دعا کی قبولیت کی علامت ہے، البتہ یہ اللہ کی حکمت کا تقاضا ہے کہ کب وہ اس پریشانی کو تم سے دور کرتا ہے اور کب تک اس کو باقی رکھتا ہے۔ تم جلد باز ہو اس لیے اس تکلیف کو جلدی دور کرانا چاہتے ہو لیکن اگر اس تکلیف کو کچھ دیر بعد دور کیا جائے گا تو اس کے نتیجے میں تمہارے درجات بہت زیادہ بلند ہو جائیں گے لہٰذا تکلیف پر گلہ شکوہ نہیں ہونا چاہیے، البتہ یہ دعا ضرور کرنی چاہیے کہ یا اللہ! میں کمزور ہوں، مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا ہے، مجھ سے یہ تکلیف دور فرما دیجیے۔''

مولانا محمد عمر انور نے مفتی محمد تقی عثمانی کی تالیفات اور خطبات سے مختلف موضوعات پر جن کے بارے میں عوام میں شبہات ہیں یا غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں یہ جو کتاب مرتب کی ہے وہ ایک قابل قدر اور قابل تحسین کوشش ہے۔ اس کی ضرورت بھی تھی۔ اس میں قرآن و حدیث، ایمان اور عقیدہ، دعا و مناجات، گناہ و توبہ، سنت اور بدعت، امانت و خیانت، معیشت اور امربالمعروف ونہی عن المنکر جیسے اہم موضوعات شامل ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں