جنگ نہیں نسل کشی
ہر طرف لاشیں ہیں، خون ہے، خوف ہے اور موت کا رقص ہے
اسرائیلی بربریت کو دوسرا ہفتہ چل رہا ہے غزہ لہو لہان ہے معصوم بچے والدین سے محروم ہو گئے ہیں والدین بچوں سے محروم ہوگئے۔
ہر طرف لاشیں ہیں، خون ہے، خوف ہے اور موت کا رقص ہے اسرائیل مسلسل شہری آبادیوں پر بم باری کر رہا ہے جو جنگی جرائم میں شمار ہوتا ہے مگر امریکی اور یورپی ممالک کا ضمیر بالکل خاموش ہے کسی کے منہ سے یہ نہیں نکل رہا کہ تم انسانوں کا قتل عام کر رہے ہو، تم جنگ نہیں لڑ رہے۔
جنگ کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں اور بہادر قومیں ان اصولوں کے تحت ہی جنگ کرتی ہیں مگر اسرائیل کے بزدل حکمران تمام انسانی قدروں اور جنگی اخلاقیات کو پامال کرتے ہوئے انسانیت سوز جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں، مگر اس اسرائیلی وحشیانہ کارروائی کی سب سے پہلے حمایت کرنے والے ممالک امریکا نے انسانیت کی نوحہ خوانی نہیں کی بلکہ کہا تو یہ کہا کہ خبردار کوئی اسرائیل کے مدمقابل آنے کی کوشش نہ کرے ورنہ نتائج کا خود ذمے دار ہوگا۔
دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک کی طرف سے بڑی بے ضرر سی آوازیں سنائی دی ہیںجن میں اسرائیل کو اس بربریت سے دست بردار ہونے کی درخواست کی گئی ہے۔ کیا ہم یہ تسلیم کر لیں کہ حماس نے اسرائیل پر حملہ کرکے سخت غلطی کی۔ اس نے خود اپنی طاقت کا ہی غلط اندازہ نہیں لگایا بلکہ اپنے مددگاروں کی حمایت سے بھی ناواقف ہے۔
لیکن مسئلہ جنگ کا ہے ہی نہیں، مسئلہ ہے انسانی المیہ کا۔ اسرائیل جنگ نہیں کر رہا وہ فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے اس کے مدمقابل نہ کوئی باقاعدہ فوج ہے نہ کوئی نشانہ۔ وہ آسمان سے اہل زمین پر آگ برسا رہا ہے محض بم باری جاری ہے اور وہ بھی اسپتالوں پر، عورتوں بچوں اور عام انسانوں پر اس کا مقابلہ کسی باقاعدہ فوج سے ہے ہی نہیں نہ فوجی مقابلہ اس کے پروگرام میں داخل ہے۔ انسانوں کی اس بے قدری پر اسرائیل کے مربیوں میں سے کسی کی زبان پر کوئی لفظ ایسا نہ آسکا جو اس کی آدم کشی کی مخالفت میں ہو۔
بھارت کے نشریاتی ادارے البتہ بار بار یہ کہہ کر مسلمانوں سے عجیب و غریب ہمدردی کر رہے ہیں کہ اسرائیل غزہ میں انسانیت سوزی کر رہا ہے لیکن 57 اسلامی ممالک بھی مل کر اس پر قابو نہیں پا رہے۔ دراصل وہ سیاسی زبان میں یہ کہہ رہا ہے کہ تم تعداد میں کتنے بھی ہو، چھوٹے سے اسرائیل پر غلبہ نہیں پا رہے اور اس بے چارگی پر اپنی ہمدردی کا اظہار کرتا رہا ہے۔
رہے 57 اسلامی ممالک تو یہ قوموں کا مقدرہوتا ہے جب وہ اپنی اصل کو فراموش کر دیتے ہیں اور خصوصاً مسلمان جب حکم الٰہی کو بالائے طاق رکھ دیں تو پھر ان کی تعداد کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ انسانی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ میدان جنگ کم تعداد مگر مقصدیت کے حامل افراد ہمیشہ بھاری اکثریت پر غالب آتے رہے ہیں اس وقت مسلمانوں کی حالت اتنی قابل رحم ہے کہ وہ زبانی کلامی بھی غزہ کی حمایت سے قاصر ہیں۔
دور کیوں جائیے ہمارے اپنے ملک میں جماعت اسلامی نے اسلام آباد میں احتجاج کرنا چاہا اور ایک جگہ جمع ہوئے مگر اسلام آباد میں پہلے سے دفعہ 144 لگی ہوئی تھی جس کے تحت نقص امن کے خطرے کے پیش نظر اگر کسی جگہ چار بار ایک سے زیادہ افراد جمع ہوں تو یہ جرم ہے اور اس کے ارتکاب پر سزا دی جا سکتی ہے۔
حالاں کہ یہ مسئلہ پاکستان کی کسی ایک سیاسی جماعت کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا ہے۔ ہم تو سرکاری سطح پر بھی اسرائیل کو ہنوز تسلیم نہیں کرتے پھر ہمارے اسی اصولی موقف کے بالکل برخلاف اس کارروائی کی کیا ضرورت تھی؟ یہ غور طلب بات تو ہے نا۔
ہر طرف لاشیں ہیں، خون ہے، خوف ہے اور موت کا رقص ہے اسرائیل مسلسل شہری آبادیوں پر بم باری کر رہا ہے جو جنگی جرائم میں شمار ہوتا ہے مگر امریکی اور یورپی ممالک کا ضمیر بالکل خاموش ہے کسی کے منہ سے یہ نہیں نکل رہا کہ تم انسانوں کا قتل عام کر رہے ہو، تم جنگ نہیں لڑ رہے۔
جنگ کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں اور بہادر قومیں ان اصولوں کے تحت ہی جنگ کرتی ہیں مگر اسرائیل کے بزدل حکمران تمام انسانی قدروں اور جنگی اخلاقیات کو پامال کرتے ہوئے انسانیت سوز جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں، مگر اس اسرائیلی وحشیانہ کارروائی کی سب سے پہلے حمایت کرنے والے ممالک امریکا نے انسانیت کی نوحہ خوانی نہیں کی بلکہ کہا تو یہ کہا کہ خبردار کوئی اسرائیل کے مدمقابل آنے کی کوشش نہ کرے ورنہ نتائج کا خود ذمے دار ہوگا۔
دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک کی طرف سے بڑی بے ضرر سی آوازیں سنائی دی ہیںجن میں اسرائیل کو اس بربریت سے دست بردار ہونے کی درخواست کی گئی ہے۔ کیا ہم یہ تسلیم کر لیں کہ حماس نے اسرائیل پر حملہ کرکے سخت غلطی کی۔ اس نے خود اپنی طاقت کا ہی غلط اندازہ نہیں لگایا بلکہ اپنے مددگاروں کی حمایت سے بھی ناواقف ہے۔
لیکن مسئلہ جنگ کا ہے ہی نہیں، مسئلہ ہے انسانی المیہ کا۔ اسرائیل جنگ نہیں کر رہا وہ فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے اس کے مدمقابل نہ کوئی باقاعدہ فوج ہے نہ کوئی نشانہ۔ وہ آسمان سے اہل زمین پر آگ برسا رہا ہے محض بم باری جاری ہے اور وہ بھی اسپتالوں پر، عورتوں بچوں اور عام انسانوں پر اس کا مقابلہ کسی باقاعدہ فوج سے ہے ہی نہیں نہ فوجی مقابلہ اس کے پروگرام میں داخل ہے۔ انسانوں کی اس بے قدری پر اسرائیل کے مربیوں میں سے کسی کی زبان پر کوئی لفظ ایسا نہ آسکا جو اس کی آدم کشی کی مخالفت میں ہو۔
بھارت کے نشریاتی ادارے البتہ بار بار یہ کہہ کر مسلمانوں سے عجیب و غریب ہمدردی کر رہے ہیں کہ اسرائیل غزہ میں انسانیت سوزی کر رہا ہے لیکن 57 اسلامی ممالک بھی مل کر اس پر قابو نہیں پا رہے۔ دراصل وہ سیاسی زبان میں یہ کہہ رہا ہے کہ تم تعداد میں کتنے بھی ہو، چھوٹے سے اسرائیل پر غلبہ نہیں پا رہے اور اس بے چارگی پر اپنی ہمدردی کا اظہار کرتا رہا ہے۔
رہے 57 اسلامی ممالک تو یہ قوموں کا مقدرہوتا ہے جب وہ اپنی اصل کو فراموش کر دیتے ہیں اور خصوصاً مسلمان جب حکم الٰہی کو بالائے طاق رکھ دیں تو پھر ان کی تعداد کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ انسانی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ میدان جنگ کم تعداد مگر مقصدیت کے حامل افراد ہمیشہ بھاری اکثریت پر غالب آتے رہے ہیں اس وقت مسلمانوں کی حالت اتنی قابل رحم ہے کہ وہ زبانی کلامی بھی غزہ کی حمایت سے قاصر ہیں۔
دور کیوں جائیے ہمارے اپنے ملک میں جماعت اسلامی نے اسلام آباد میں احتجاج کرنا چاہا اور ایک جگہ جمع ہوئے مگر اسلام آباد میں پہلے سے دفعہ 144 لگی ہوئی تھی جس کے تحت نقص امن کے خطرے کے پیش نظر اگر کسی جگہ چار بار ایک سے زیادہ افراد جمع ہوں تو یہ جرم ہے اور اس کے ارتکاب پر سزا دی جا سکتی ہے۔
حالاں کہ یہ مسئلہ پاکستان کی کسی ایک سیاسی جماعت کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا ہے۔ ہم تو سرکاری سطح پر بھی اسرائیل کو ہنوز تسلیم نہیں کرتے پھر ہمارے اسی اصولی موقف کے بالکل برخلاف اس کارروائی کی کیا ضرورت تھی؟ یہ غور طلب بات تو ہے نا۔