عام انتخابات اور سیاسی چیلنج
ابہام پیدا کرنے والے او ربہت سے لوگ ہیں او راگر کچھ میڈیا میں بھی ہیں تو ضرور ان کو بھی گریز کرنا چاہیے
سپریم کورٹ کی ہدایت پر صدر اور الیکشن کمیشن سمیت اٹارنی جنرل کی باہمی مشاورت کے بعد 8فروری کو ملک میں عام انتخابات کا اعلان کردیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے بقول 8مئی کی تاریخ حتمی بھی ہے اور پتھر پر لکیر بھی ہے ۔اگر اب کسی نے بھی اس تاریخ سے انحراف کیایا اس پر عملدرآمد سے انکار کیا تو عدالت اپنا راستہ خود اختیار کرے گی ۔90دن میں عام انتخابات سے گریز اور آئین پر عملدرآمد نہ کرنا، اس کی ذمے داری صدر، الیکشن کمیشن اور اتحادی حکومت پر بھی عائد ہوتی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ کی یہ بات وزن رکھتی ہے کہ الیکشن میں تاخیر میں سابقہ اتحادی حکومت ،الیکشن کمیشن اور صدر سب ہی برابر کے ذمے دار ہیں ۔ ہمارا حکمران طبقہ سیاسی مسائل کا حل سیاسی فورمز پر کرنے کے بجائے عدالتوں کا سہارا لیتے ہیں یا سیاسی معاملات پر عدالتوں کو ہی فیصلے کرنے پڑتے ہیں ۔عدالت کے بقول انتخابات کا معاملہ غیر ضروری طور پر عدالت میں لایا گیا او رجان بوجھ کر الیکشن کمیشن اور صدر کے درمیان معاملات میں التوا یا طوالت اختیار کرگیا۔
8فروری کو الیکشن کا انعقاد اور سپریم کورٹ کا سختی سے اس پر عملدرآمد کرنے کا حکم غیر معمولی سمجھا جانا چاہیے ۔صدر مملکت کی جانب سے 8فروری کی تاریخ پر اتفاق کے بعد یہ بحران بھی اپنے اختتام کو پہنچا کہ تاریخ دینے کا صوابدیدی اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے یا صدر مملکت کی ذمے داری ہے۔
یہ کہنا کہ عام انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار صرف الیکشن کمیشن ہی کے پاس ہے ، غلط ثابت ہوا ہے ۔عدالت کے بقول اگر صدر مملکت کو مشورہ درکار تھا تو وہ آئین کے آرٹیکل 187کے تحت سپریم کورٹ آسکتے تھے، عجیب بات ہے کہ صدر نے وہ اختیار استعمال کیا جو ان کا نہیں تھا۔
چیف جسٹس پاکستان کو یہ کریڈیٹ ضرور جاتا ہے کہ انھوںنے بغیر آئینی تشریح کے عام انتخابات کی تاریخ کے تعین کا مسئلہ حل کردیا ہے۔ سپریم کورٹ میں جاری اس مقدمہ نے بہت سے قانونی ابہام دور کیے ہیں یا سوالات کے جواب دیے ہیں۔
انتخابات کی تاریخ کا اعلان کس نے کرنا ہے، صدر او رالیکشن کمیشن کے کیا اختیارات ہیں اورالیکشن کمیشن کی اپنی کیا آئینی ذمے داریاں ہیں ، یہ وہ تمام سوالات اور ابہام تھے جنھیں جان بوجھ کر الجھایا جاتا رہا،سیاسی و قانونی شخصیات نے نہ صرف کافی ابہام پیدا کیا بلکہ آئین کی من مرضی کی تشریح بھی کی ۔
سپریم کورٹ کی وجہ سے عام انتخابات کے حوالے سے ابہام ، شکوک وشبہات اورعام انتخابات نہ ہونے کی جو بحث سیاسی اور قانونی مجالس کا حصہ تھیں، اس کا خاتمہ ہوا ہے اور سیاسی ماحول میں روشنی کی کرن پیدا ہوئی ہے ۔اس پورے عمل سے یہ بھی سبق سامنے آیا جب ہماری سیاسی قیادت سیاسی مسائل سیاسی فورم پر طے نہیں کریں گی، سیاسی کھنچا تانی اور تنازعات کو اعلیٰ عدالتوں میں لے کر جائیں گی تو اس سے سیاسی بحران حل نہیں ہوگا بلکہ مزید گہرا ہوجائے ، سیاسی مقدمات کے فیصلوں میں قانونی موشگافیاں اور تشریحات نئے قانونی و آئینی ابہام پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کی پہلی اور آخری ترجیح شفاف انتخابات تک محدود ہونی چاہیے ۔یہ تاثر نہیں آنا چاہیے کہ کسی سیاسی جماعت کو سہولت دی جارہی ہے اور کسی کو نہیں دی جارہی ہے۔ الیکشن کمیشن کی یہ بھی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے اٹھ رہے سوالات کا جواب دے۔
الیکشن کمیشن کا یہ موقف درست ہے کہ انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے ہمیں بلاوجہ متنازعہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، عام انتخابات کی شفافیت کے لیے جو کام سیاسی جماعتوں کو کرنا چاہیے، وہ اس سے گریز کرتی ہیں، سیاسی جماعتوں کی قیادت، انتخابی امیدوار اور کارکن انتخابی قواعد و ضوابط پر عمل نہیں کرتے، سرکاری اہکاروں کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا جاتا ہے، اس کے بعد بھی اگر کوئی جماعت ہار جاتی ہے تو انتخابی دھاندلی کا نعرہ سامنے آجاتا ہے اور پورے سیاسی نظام کو ٹکراو کی سیاست کی طرف دکھیلا جاتا ہے۔
سپریم کورٹ نے میڈیا کو خبردار کیا ہے کہ اب وہ انتخابات کے انعقاد پر ابہام پیدا نہ کرے اور بلاوجہ ایسی بدگمانیاں نہ پیدا کرے جس سے لوگوں میں نئے وسوسے پیدا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ اگر سیاسی معاملات آئین او رقانون کے دائرہ کار میں آگے چلتے ہیں تو میڈیا کیونکر ابہام کو پیدا کرے گا۔
ابہام پیدا کرنے والے او ربہت سے لوگ ہیں او راگر کچھ میڈیا میں بھی ہیں تو ضرور ان کو بھی گریز کرنا چاہیے ۔ لیکن اب بڑا سوال عام انتخابات کی شفافیت ہوگا، نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کی یہی ذمے داری ہے ۔
سپریم کورٹ کے بقول 8مئی کی تاریخ حتمی بھی ہے اور پتھر پر لکیر بھی ہے ۔اگر اب کسی نے بھی اس تاریخ سے انحراف کیایا اس پر عملدرآمد سے انکار کیا تو عدالت اپنا راستہ خود اختیار کرے گی ۔90دن میں عام انتخابات سے گریز اور آئین پر عملدرآمد نہ کرنا، اس کی ذمے داری صدر، الیکشن کمیشن اور اتحادی حکومت پر بھی عائد ہوتی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ کی یہ بات وزن رکھتی ہے کہ الیکشن میں تاخیر میں سابقہ اتحادی حکومت ،الیکشن کمیشن اور صدر سب ہی برابر کے ذمے دار ہیں ۔ ہمارا حکمران طبقہ سیاسی مسائل کا حل سیاسی فورمز پر کرنے کے بجائے عدالتوں کا سہارا لیتے ہیں یا سیاسی معاملات پر عدالتوں کو ہی فیصلے کرنے پڑتے ہیں ۔عدالت کے بقول انتخابات کا معاملہ غیر ضروری طور پر عدالت میں لایا گیا او رجان بوجھ کر الیکشن کمیشن اور صدر کے درمیان معاملات میں التوا یا طوالت اختیار کرگیا۔
8فروری کو الیکشن کا انعقاد اور سپریم کورٹ کا سختی سے اس پر عملدرآمد کرنے کا حکم غیر معمولی سمجھا جانا چاہیے ۔صدر مملکت کی جانب سے 8فروری کی تاریخ پر اتفاق کے بعد یہ بحران بھی اپنے اختتام کو پہنچا کہ تاریخ دینے کا صوابدیدی اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے یا صدر مملکت کی ذمے داری ہے۔
یہ کہنا کہ عام انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار صرف الیکشن کمیشن ہی کے پاس ہے ، غلط ثابت ہوا ہے ۔عدالت کے بقول اگر صدر مملکت کو مشورہ درکار تھا تو وہ آئین کے آرٹیکل 187کے تحت سپریم کورٹ آسکتے تھے، عجیب بات ہے کہ صدر نے وہ اختیار استعمال کیا جو ان کا نہیں تھا۔
چیف جسٹس پاکستان کو یہ کریڈیٹ ضرور جاتا ہے کہ انھوںنے بغیر آئینی تشریح کے عام انتخابات کی تاریخ کے تعین کا مسئلہ حل کردیا ہے۔ سپریم کورٹ میں جاری اس مقدمہ نے بہت سے قانونی ابہام دور کیے ہیں یا سوالات کے جواب دیے ہیں۔
انتخابات کی تاریخ کا اعلان کس نے کرنا ہے، صدر او رالیکشن کمیشن کے کیا اختیارات ہیں اورالیکشن کمیشن کی اپنی کیا آئینی ذمے داریاں ہیں ، یہ وہ تمام سوالات اور ابہام تھے جنھیں جان بوجھ کر الجھایا جاتا رہا،سیاسی و قانونی شخصیات نے نہ صرف کافی ابہام پیدا کیا بلکہ آئین کی من مرضی کی تشریح بھی کی ۔
سپریم کورٹ کی وجہ سے عام انتخابات کے حوالے سے ابہام ، شکوک وشبہات اورعام انتخابات نہ ہونے کی جو بحث سیاسی اور قانونی مجالس کا حصہ تھیں، اس کا خاتمہ ہوا ہے اور سیاسی ماحول میں روشنی کی کرن پیدا ہوئی ہے ۔اس پورے عمل سے یہ بھی سبق سامنے آیا جب ہماری سیاسی قیادت سیاسی مسائل سیاسی فورم پر طے نہیں کریں گی، سیاسی کھنچا تانی اور تنازعات کو اعلیٰ عدالتوں میں لے کر جائیں گی تو اس سے سیاسی بحران حل نہیں ہوگا بلکہ مزید گہرا ہوجائے ، سیاسی مقدمات کے فیصلوں میں قانونی موشگافیاں اور تشریحات نئے قانونی و آئینی ابہام پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کی پہلی اور آخری ترجیح شفاف انتخابات تک محدود ہونی چاہیے ۔یہ تاثر نہیں آنا چاہیے کہ کسی سیاسی جماعت کو سہولت دی جارہی ہے اور کسی کو نہیں دی جارہی ہے۔ الیکشن کمیشن کی یہ بھی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے اٹھ رہے سوالات کا جواب دے۔
الیکشن کمیشن کا یہ موقف درست ہے کہ انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے ہمیں بلاوجہ متنازعہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، عام انتخابات کی شفافیت کے لیے جو کام سیاسی جماعتوں کو کرنا چاہیے، وہ اس سے گریز کرتی ہیں، سیاسی جماعتوں کی قیادت، انتخابی امیدوار اور کارکن انتخابی قواعد و ضوابط پر عمل نہیں کرتے، سرکاری اہکاروں کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا جاتا ہے، اس کے بعد بھی اگر کوئی جماعت ہار جاتی ہے تو انتخابی دھاندلی کا نعرہ سامنے آجاتا ہے اور پورے سیاسی نظام کو ٹکراو کی سیاست کی طرف دکھیلا جاتا ہے۔
سپریم کورٹ نے میڈیا کو خبردار کیا ہے کہ اب وہ انتخابات کے انعقاد پر ابہام پیدا نہ کرے اور بلاوجہ ایسی بدگمانیاں نہ پیدا کرے جس سے لوگوں میں نئے وسوسے پیدا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ اگر سیاسی معاملات آئین او رقانون کے دائرہ کار میں آگے چلتے ہیں تو میڈیا کیونکر ابہام کو پیدا کرے گا۔
ابہام پیدا کرنے والے او ربہت سے لوگ ہیں او راگر کچھ میڈیا میں بھی ہیں تو ضرور ان کو بھی گریز کرنا چاہیے ۔ لیکن اب بڑا سوال عام انتخابات کی شفافیت ہوگا، نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کی یہی ذمے داری ہے ۔