سماجی تبدیلی

سماجی تبدیلی کے اس لہر کو قبول کرنے کی ضرورت ہے استاد بھی محترم ہے، مولوی بھی اور ادارے بھی.


سماجی تبدیلی کے اس لہر کو قبول کرنے کی ضرورت ہے استاد بھی محترم ہے، مولوی بھی اور ادارے بھی.

یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں بس کچھ ہی سالوں پہلے کی بات ہے جب عوام نجی ٹی وی چینلز کی بھرمار سے لاتعلق اور بے گانہ ہوا کرتے تھے ۔ ایک پی ٹی وی ہی تھا جس پر تنقید تو تھی مگر شہد سے زیادہ میٹھی، اور شاید وجہ تھی کہ اصل سیاست تو گلی کوچوں میں ہوا کرتی تھی۔ محلوں میں بزرگ و جوان رات دیر تک نجی محفلیں سجا کر ملکی سیاست سمیت مختلف موضوعات پر طویل بحث و مباحثہ اور دل کھول کر ملکی سیاست پر تنقید کیا کرتے تھے ایسا لگتا تھا اگرہمارےماموں ملک کا صدر بن جاتے تو سب کی خیر ہوجاتی۔ہم بچے اس زمانے میں پی ٹی وی پر چلنے والی پاک فوج کے نوجوانوں کے پروگرام روزانہ دیکھ کر فوجی افسر بننے کے خواب دیکھتے تھے۔


بات محض خوابوں تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ ہم باقاعدہ مشقیں بھی کرتے تھےکھبی کھڑے ہوکر گھر کی دیوار پر چڑھنا، کبھی چھت سے چھلانگ لگانا کبھی کسی درخت سے لٹکنا غرض یہ کہ فوجی افسر بننے کی تگ و دو میں مسلسل جدوجہد کرنا ہمارا نصب العین بن گیا تھا۔اور ساتھ ساتھ یہ بھی سوچ لیا تھا کہ اگر فوجی نہ بھی بنے تو کشمیر کو تو ضرور کافروں سے آزاد کریں گے کیوں کہ اس وقت جب پاکستان کے اندرونی حالات بہتر تھے تو مساجد سے لیکر اخبارات تک سب میں جہادِ کشمیر کامواد دل کھول کر موجود ہوتا تھا اس کے علاوہ افغان مجائدین کے کارناموں کی کمی بھی نہیں تھی الغرض ہم وہی سوچتے تھے جو دیکھتے تھے یا یوں کہیں وہی سوچتے تھے جو ہمیں دکھایا اور پڑھایا جاتا تھا۔


وقت پلک جھپکتے ہی بدل گیا۔ امن کی فاختہ شہر سے پرواز کر گئی اب نہ وہ راتوں کی محفلیں رہیں نہ سیاست نہ پوری رات فٹبال ورلڈ کپ پر کالونی میں شور و غل ۔ اب اگر رات گئے کچھ سنائی دیتا ہے تو وہ فورسز کا گشت اور سائرن کی آوازیں۔


مختلف قسم کی تحریکوں اور مذہبی خون خرابے نے عوام اور نوجوانوں کو خوف اور سنجیدگی کے دلدل میں دھکیل دیا اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بجی ٹی وی چینلز نے سماج کو یکسر بدل کے رکھ دیا ۔ ٹاک شوز اور دیگر پروگرامات نے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی دوڑ میں سچ اور انکشافات کرنے کا رجحان بڑھایا اور اس رجحان کا نتیجہ صحافیوں کی جان کو خطرے کی صورت میں نکلا ساتھ ساتھ موجودہ نسل کے بچوں کی معصومیت چین لی گئی اور سب ہی آج کل سیاست داں بن گئے ہیں ۔


اگرسوشل میڈیا کی بات کی جائے تو اُس نے تو سونے پر سہاگہ والا کام کیا۔ سماج کے بدلنے کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو معاشرےکے قدامت پسندانہ روایات کا باغی بنا کر انکار کرنا سکھا دیا، سوال پوچھنا سکھا دیا۔ آسان لفظوں میں یوں کہیں کہ الیکٹرونک اور سوشل میڈیا نے معاشرے کو جذباتیت سے نکال کر عقل کی دنیا میں لاکر چلنا سکھا دیا ہے۔ جس کا واضع ثبوت ہمارے موجودہ دور کی جواں نسل کا رویہ ہے جس میں مہم جوئی کا فقدان پایا جاتا ہے آج بھی فورسزمیں بھرتی ہونے کے خواہش مندنوجوانوں کی کمی نہیں مگر آئے روز کی دہشتگردی اور آنکھوں سے دیکھے جانے والے خون خرابہ کے واقعات نے نوجوانوں میں مہم جوئی کی خواہشات کو بہت کم کردیا ہے۔


قوموں میں جنگی خواہشات کی کمی تب پیدا ہونے لگتی ہے جب وہ جنگی حالات سے شدید متاثر ہوئے ہوں تب وہ امن کی طرف متوجہ ہونے لگتے ہیں اور اپنی اصلاح کی جانب سفر کا آغاز کرتے ہیں تب نہ کوئی ادارہ، نہ کوئی محترم مولوی نہ استاد اور نہ ہی سیاستدان نوجوانوں کے تند و تیز سوالات سے بچ سکتے ہے۔ سماجی تبدیلی کے اس لہر کو قبول کرنے کی ضرورت ہے استاد بھی محترم ہے، مولوی بھی اور ادارے بھی مگر مقدس کوئی نہیں لہذا سوالات کا جواب دلائل سے اور قلم کا جواب قلم سے دینے کی خوبصورت علمی سفرکا آغاز ہی قوموں کو زوال سے نکال کر عروج کی جانب لیکر جاتی ہے۔


نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں