مہمان پرندے روٹھ گئے

سندھ میں آنے والے ہجرتی پرندوں کی آمد میں نمایاں کمی کی کیا وجوہات ہیں؟

سندھ میں آنے والے ہجرتی پرندوں کی آمد میں نمایاں کمی کی کیا وجوہات ہیں؟ ۔ فوٹو زوہیب احمد

سندھ میں سائبیریا اور وسطی ایشیا سے آنے والے ہجرتی پرندوں کی آمد گذشتہ کئی سالوں سے غیرمعمولی کمی آچکی ہے۔ تین عشروں قبل سندھ میں لاکھوں ہجرتی پرندوں کی آمد ہوتی تھی، لیکن اب صرف 30 فی صد یہاں آتے اور اپنا مسکن بناتے ہیں۔

اگرچہ متعلقہ اداروں کی جانب سے گذشتہ سالوں سے ہونے والی پرندہ شماری کے ڈیٹا کے تحت ہجرتی پرندوں کی آمد میں اضافہ ہوا ہے لیکن ہماری تحقیق کے مطابق ہجرتی پرندوں کی صحیح طریقے سے مہمان داری نہ ہونے اور ان کے بے تحاشا شکار، بالخصوص جال لگا کر پکڑنے کی وجہ سے بڑی تعداد میں مہمان پرندے اب یہاں ٹھہرنے کے بجائے پڑوسی ملک کوچ کررہے ہیں۔

سندھ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے گذشتہ چھے سالوں کے دوران آبی پرندہ شماری کے اعدادوشمار کے مطابق 2018 میں 204,445 آبی پرندے شمار کیے گئے، 2019ء میں 98,158 کی گنتی کی گئی، 2020ء میں 7لاکھ 42 ہزار 43پرندے مقامی جھیلوں پر آئے، 2021ء میں 612,397 پرندے آئے۔

2022 میں 664,537 پرندے شمار کیے گئے، 2023ء میں 6 لاکھ 13ہزار 851 پرندے شمار کیے گئے۔ واضح رہے کہ یہ پرندہ شماری سندھ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے تحت ہر سال جنوری میں کی جاتی ہے۔ اس میں ہجرتی اور مقامی پرندے دونوں کی گنتی ہوتی ہے لیکن اہم ہدف ہجرتی پرندوں کا شمار ہوتا ہے۔



سندھ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے ایک اہل کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہر صوبے کا وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ اپنے محکمے کی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر دکھاتا ہے۔ اس ضمن میں سندھ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ بھی پرندہ شماری کے اعداد و شمار میں کچھ نہ کچھ اضافہ کرکے دکھاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ 2023ء میں سندھ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے سرکاری سطح پر 6 لاکھ13ہزار پرندوں کا شمار کیا گیا، جب کہ یہ تعداد زیادہ سے زیادہ 4 لاکھ ہوگی۔ متعلقہ اہل کار نے بتایا کہ سندھ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ عالمی اصولوں کے تحت کئی سال سے ٹیلی اسکوپ کے ذریعے ان ہجرتی پرندوں کو شمار کررہا ہے۔

کراچی، بدین اور دیگر سمندری کناروں سمیت سندھ کی 12 سے 15اہم جھیلوں کا سروے کیا جاتا ہے اور یہ سروے ہر سال جنوری میں انجام دیا جاتا ہے۔ گذشتہ سال کینجھر، ہالیجی، ہڈیرو، لنگھ، حمل، منچھر، ڈیہائی آکڑو، نراردی مہرانو اور دیگر جھیلوں کا جائزہ لیا گیا۔ متعلقہ اہل کار نے کہا کہ آبی پرندوں کے مسکن کی تباہی کی وجہ سے پرندے اپنا راستہ بھٹک جاتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ قدرتی طور پر مہمان پرندوں کا صدیوں پرانا راستہ سندھ سے ہوتا ہوا ہم سایہ ملک جاتا ہے، ان کی بڑی تعداد سندھ میں اترتی تھی لیکن مسکن کی تباہی کی وجہ سے سندھ میں اترنے والے پرندے بھی اب ہم سایہ ملک کا رخ کر رہے ہیں۔

ایکسپریس کے سروے کے مطابق صوبائی حکومت جنگلی حیاتیات کے تحفظ میں مکمل طور پر ناکام ہے اور صوبائی محکمۂ وائلڈ لائف اسٹاف، گاڑیوں اور فنڈز کی کمی کی وجہ سے عمومی طور پر غیرفعال ادارہ بن کر رہ گیا ہے۔

ہر سال اندرون سندھ صرف 13 مقامات پر شکار کی اجازت دی جاتی ہے اور بقیہ 34 جنگلی حیات کی پناہ گاہیں جو ہجرتی پرندوں کا مسکن ہیں، وہاں شکار کی ممانعت رہتی ہے۔ رواں سیزن میں سرکاری سطح پر شکار کھیلنے کی اجازت کا نوٹی فیکشن ابھی جاری نہیں ہوا ہے، تاہم تمام مقامات پر غیرقانونی شکار کا آغاز ہوچکا ہے اور جال لگاکر پرندوں کو پکڑنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

ہجرتی پرندوں کی تصویرکشی کرنے والے زوہیب احمد کا کہنا ہے کہ پاکستان بالخصوص سندھ میں ہجرتی پرندوں میں کمی کی تین بڑی وجوہات ہیں جن میں سب سے بڑی وجہ موسمیاتی تبدیلی اور انسانی اقدامات ہیں، جن کی وجہ سے مہمان پرندوں کے مسکن تباہ و برباد ہوچکے ہیں۔ کراچی اور اندرون سندھ میں کئی آبی گزرگاہوں پر قبضہ ہوچکا ہے۔

ان مقامات کو زرعی اراضی اور ماہی پروری کے لیے استعمال کیا جارہا ہے یا پھر سڑکیں اور رہائشی منصوبے تعمیر کیے جاچکے ہیں۔ سندھ میں کئی سال بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے خشک سالی رہی، جس سے کئی چھوٹی جھیلیں سوکھ گئیں۔




پھر 2010ء اور 2022ء میں طوفانی بارشوں کے باعث سیلاب آیا تو کئی چھوٹی جھیلیں وجود میں آگئیں اور سوکھی جھیلیں پھر سے آباد ہوگئیں۔ تاہم ایک بار جب مسکن ختم ہوجائے اور پھر دوبارہ عارضی طور آباد ہو تو ہجرتی پرندے فوری طور پر راغب نہیں ہوتے، البتہ پرندوں کی کچھ تعداد ضرور اترتی ہے۔ مسکن وہ ہے جہاں آبی پرندوں کو غذا، رہائش اور حفاظت کا احساس مستقل بنیادوں پر میسر ہو، یہ مہمان پرندے وہاں اپنا ڈیرا جمانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔

کراچی میں ساحل سمندر کے قریب واقع اربن فاریسٹ کے نگراں مسعود لوہار نے بتایا کہ انھوں نے اپنے اخراجات سے ایک مصنوعی lagoon (سمندری پانی کی جھیل) بنائی تھی۔

ادارہ ترقیات کراچی کی جانب سے ایک مقام پر کھدائی کے سبب پانی کا اخراج ہوگیا جس کے سبب وہ مصنوعی جھیل شدید متاثر ہوئی۔ گذشتہ سالوں کے دوران یہاں فلیمنگو اور دیگر مہمان پرندوں کی بڑی تعداد آئی تھی۔ رواں سیزن میں فلیمنگو بڑی تعداد میں دیکھے جاسکتے ہیں، لیکن پانی کم ہونے کی وجہ سے گذشتہ کئی سال سے مہمان پرندوں کی تعداد کم ہے۔

زوہیب احمد کا کے مطابق آبی پرندوں کی آمد میں کمی کا سلسلہ تین عشروں سے بتدریج جاری ہے۔ سندھ میں اس وقت بے دریغ شکار اور اس سے کہیں زیادہ ہونے والی جال کے ذریعے پرندے پکڑنے سے مہمان آبی پرندوں کی رہی سہی کی تعداد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے اور فطرت دوست شہریوں کو سخت مایوسی کا سامنا ہے۔

زوہیب احمد نے کہا کہ اب جب کہ آبی پرندے اتنی کم تعداد میں رہ گئے ہیں تو صوبائی حکومت ان کے شکار بالخصوص جال بچھا کر پرندے پکڑنے پر پابندی عائد کیوں نہیں کرتی؟ اور اس مافیا کے خلاف ٹھوس اقدامات کیوں نہیں اٹھائے جاتے؟

سندھ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے افسر رشید احمد خان نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے اس بات کی تردید کی کہ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ پرندہ شماری کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے۔ انھوں کہا کہ ملک بھر میں سندھ میں پرندہ شماری بہترین اور درست طریقے سے کی جاتی ہے اور اس کے اعداد و شمار بالکل درست ہوتے ہیں۔



ماہر شکاری فرخ شیخ اور اقبال احمد کا کہنا ہے کہ وہ 1984ء سے شکار کھیل رہے ہیں۔ اُس وقت لاکھوں کی تعداد میں ہجرتی پرندے سندھ میں آتے تھے اور اب اس تعداد کا صرف 30فیصد آرہا ہے، ماضی میں لوگ شوقیہ اور محدود پیمانے پر شکار کھیلتے تھے جس کے لیے حکومت اجازت نامہ جاری کرتی تھی۔ گذشتہ دس سال سے اندرون سندھ شکار اب تجارت بن گیا ہے۔

ٹنڈومحمد خان، سجاول، کینجھر جھیل اور دیگر مقامات پر بااثر وڈیرے نجی طور پر اور تجارتی بنیادوں پر شکار کھلواتے ہیں۔ ایک کلومیٹر پر محیط ایک گیم ریزرو بنادیا جاتا ہے، جس پر ایک مورچہ قائم کیا جاتا ہے۔ ایک مورچہ میں پانچ سے آٹھ شکاریوں کے شکار کھیلنے کی اجازت ہوتی ہے اور یہ مورچہ ڈیڑھ لاکھ میں فروخت ہوتا ہے۔ اس طرح کئی مورچے قائم کرکے ہجرتی پرندوں کا شکار کھیلا جاتا ہے۔

سندھ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے ڈپٹی کنزرویٹر ممتازسومرو کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال مون سون سیزن میں طوفانی بارشوں کے سبب اندرون سندھ کئی چھوٹی سوکھی جھیلیں تازہ پانی سے بھرگئیں، جہاں آبی پرندے آنے شروع ہوگئے، اس موقع پر سندھ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کو اسٹاف اور گاڑیوں کی کمی کا سامنا تھا، اس لیے ان تمام مقامات کا دورہ کرنا ممکن نہیں تھا۔



اس لیے سندھ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ نے گذشتہ سال پورے سندھ میں شکار پر پابندی لگادی تھی۔ انھوں نے کہا کہ وہ چھوٹی جھیلیں تقریباً سوکھ گئی ہیں اس لیے سندھ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ نے صوبائی حکومت سے شکار پر سے پابندی اٹھانے کی درخواست کی ہے، جیسے ہی یہ درخواست منظور ہوگئی پرندوں کے شکار کی اجازت دے دی جائے گی۔

انھوں نے کہا کہ سندھ وائلڈلائف ڈیپارٹمنٹ محدود پیمانے پر شکار کھیلنے کی اجازت دیتا ہے۔ ایک شارٹ گن پر ایک لائسنس جاری کیا جاتا ہے جس کے تحت ایک شکاری ہفتہ اور اتوار کو شکار کھیل سکتے ہیں۔

ایک لائسنس پر 15مرغابی اور 10تیتر شکار کرنے کی اجازت ہے۔ انھوں نے کہا کہ سندھ میں صرف تیتر، بٹیر اور، مرغابی کے شکار کی اجازت ہے، دیگر پرندوں کے شکار کی اجازت نہیں۔ خلاف ورزی پر سخت قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔
Load Next Story