جب صحافت کو بیڑیاں پہنانے کا آغاز ہوا

پاکستان میں سینسرشپ کے ابتدائی12 سال کا جائزہ

پاکستان میں سینسرشپ کے ابتدائی12 سال کا جائزہ ۔ فوٹو : فا؛ل

''سینسرشپ'' کا نام آتے ہی جکڑے ذہنوں کی تصویر ابھر کر سامنے آجاتی ہے۔ اگر پاکستان میں ذرائع ابلاغ پر سینسرشپ کا جائزہ لیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کی ابتدائی تاریخ سے ہی ابلاغ پر پابندی کا آغاز ہوجاتا ہے۔ ابتدا میں سینسرشپ سے متعلق کوئی قانون سازی تو موجود نہیں تھی لیکن طاقت ور طبقات کی پسند اور ناپسند سے پاکستان کے ابلاغ کی سمت متعین کرنے کی کوششیں شروع کردی گئی تھیں۔

ابتدائی دہائی کو اس لیے منتخب کیا گیا کیوںکہ یہاں سے ہمارے رجحانات کی سمت متعین ہوتی ہے۔ حکمرانوں کو ملک کو آگے بڑھانے کے لیے سرمایہ کے ساتھ ادارے مستحکم کرنے تھے۔ سیاست دانوں، عدلیہ اور مقننہ نے جہاں پاکستان کو آگے بڑھایا وہیں سیاسی اکھاڑپچھاڑ نے عوامی توقعات کو متاثر کیا۔ اس لیے اس تحریر میں ابتدائی سالوں میں صحافت پر لگنے والی قدغن پر بات کی گئی ہے، تاکہ قارئین جان سکیں کہ صحافت کو روکنے کے لیے کیا کیا جتن کیے گئے اور حکم رانوں کی ترجیحات کیا تھیں۔

پچاس کی دہائی میں ابلاغ، اخبارات اور رسائل کے اردگرد گھومتا تھا اور انہیں کنٹرول کرنے کے لیے ''پبلک سیفٹی ایکٹ'' سے کام لیا جاتا تھا، لہٰذا 10سال تک ملک کو سینسرشپ سے متعلق کسی پالیسی یا ایجنڈے کی ضرورت نہیں پڑی۔ پبلک سیفٹی ایکٹ کے احاطے میں سب آجاتا تھا اور پسند اور ناپسند کی بنیاد پر ابلاغ کی لگامیں بھی کھنچ جاتی تھیں۔

اس دور میں حکومت پر کھل کر تنقید کرنے کی وجہ سے اخبارات اور رسائل پر پہلے پہل چھے ماہ کی پابندی لگتی۔ پھر اگلے مرحلے میں انہیں بند کرکے اخبارات کے ایڈیٹروں کو گرفتار کیا اور جیل بھیج دیا جاتا۔ یہ سلسلہ پاکستان کی پہلی دہائی میں وقفے وقفے سے چلتا رہا۔ پھر 8 اکتوبر 1958کو مارشل لا لگتا ہے اور اس کے پہلے ہی ہفتے میں اخبارات اور اشاعتی اداروں کی تنقید جب حکم رانوں کی برداشت سے باہر ہوگئی تو انہیں بے لگام ابلاغ کو کنٹرول کرنے کا ایک ہی ذریعہ پریس اینڈ پبلیکشنز آرڈینینس نظر آیا۔

کیا قائد اعظم کی تقریر بھی سینسرشپ کی زد میں آئی؟

پاکستان میں سینسرشپ کے ابتدا ئی شواہد ہمیں قائد کی زندگی میں نشر ہونے والی ان کی تقاریر اور بیانات کو بھی کنٹرول کرنے کی کوشش سے ملتے ہیں۔

''شب گزیدہ سحر'' میں ڈ اکٹر جعفر احمد لکھتے ہیں،''پاکستانی بیوروکریسی کے بابائے اعظم سمجھے جانے والے چوہدری محمد علی قائداعظم کی 11 اگست 1947کی تقریر پر قینچی چلانے اور اس کے کچھ حصوں کو حذف کرنے کی کوشش کر چکے تھے۔'' وہ مزید لکھتے ہیں کہ ا س تقریر میں قائد اعظم نے فرقہ پرستی سے پاک ایک روشن خیال پاکستان کی بشارت دی تھی، جس میں شہری اپنے سیاسی، مذہبی و مسلکی اختلاف کے باوجود قانون کی نظر میں برابر ہیں۔

اگر ڈان اخبار کے ایڈیٹر الطاف حسین پریس اینڈ انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کے افسران کو مذکورہ تقریر کے متعلقہ حصوں کو شائع نہ کرنے کے حکم کو قائد سے براہ راست توثیق کی دھمکی نہ دیتے تو شاید قائد کی تقریر اگلے روز مکمل اشاعت کا حصہ نہ بنتی۔ ضمیرنیازی اپنی کتاب ''صحافت پابندسلاسل'' میں حامد جلال کے حوالے سے لکھتے ہیںکہ قائد کی پہلی تقریر پریس ایڈوائس کی پہلی کڑی بن گئی، جو پاکستان کی انتظامیہ کی جانب سے جاری کی جاتی رہیں۔

پبلک سیفٹی ایکٹ قانون کا باربار بطور سینسرشپ استعمال

1947 میں ملک جن طوفانوں کی زد میں تھا قائداعظم کی وفات نے ان طوفانوں کو مزید بڑھادیا۔ اس دور میں سیاسی کھینچاتانی اور جمہوری کم زوریوں نے بیوروکریسی کو ایک طاقت ور طبقے کی صورت میں ابھرنے میں مدد فراہم کی۔

ہم دیکھتے ہیں کہ بیوروکریسی اتنی طاقت ور ہوچکی تھی کہ اس نے سیاست میں قدم جمانا شروع کردیے۔ ابتدا میں سینسرشپ کی شکل رسالوں اور اخبارات کو دباؤ میں لینے کی رہی۔ انداز ضرور بدلتے رہے کہیں صرف چھے ماہ ہی پابندی لگی کہیں ایڈیٹر گرفتار ہوئے اور کہیں پورے کا پورا اخبار ضبط کرلیا گیا۔

جہاں قائد کی تقریر پر قینچی چلانے کا سوچا جاسکتا ہو وہاں صحافیوں ، ادیبوں اور شاعروں کو کس طرح آزادی فکرواظہار کی اجازت ملتی۔ لہٰذا سینسرشپ کا پہلا کیس 1948 میں پنجاب کی حکومت کے حکم پر آیا، جس میں ''پروگریسیو پیپرز لیمٹیڈ'' کے تین موقر ادبی جریدوں نقوش، سویرا اور ادیب لطیف پر پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت پابندی لگادی گئی۔

یعنی پروگریسیو پیپرز لمیٹڈ پہلا اشاعتی ادارہ بن گیا، جو حکم راں اور بیورکریسی کی آنکھوں میں کھٹکنے لگا۔ صحافی ضمیرنیازی نے اپنی کتاب ''صحافت پابندسلاسل'' میں لکھا ہے کہ یہ صحافت پر پہلا حملہ تھا۔ نقوش پر سعادت حسن منٹو کے افسانے ''کھول دو'' کی وجہ سے پابندی لگائی گئی۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ یہی نہیں چھے ماہ بعد 31 جنوری1949کو ان رسائل سے پابندی ہٹی اور سویرا کا پہلا شمارہ آیا تو زرضمانت کے طور پر6000 روپے طلب کیے گئے۔ اس طرح ''سویرا'' وہ پہلا رسالہ تھا جس کا زرضمانت مانگا گیا تھا۔

آگے بڑھنے سے پہلے ''پبلک سیفٹی ایکٹ'' کے بارے میں جان لیں کہ یہ ایکٹ، 1835 سے حکومت ہند کا حصہ چلا آرہا تھا، لیکن اسے کبھی صحافت یا نشرواشاعت پر لاگو نہیں کیا گیا تھا۔ پاکستان کرونیکل کے مطابق 8 اکتوبر 1949 کو حکومت پاکستان نے ایک نیا پبلک سیفٹی ایکٹ جاری کیا، جس کے تحت حکومت کو ناپسندیدہ اخبارات اور صحافیوں پر پابندی لگانے کا اختیار حاصل ہوگیا۔

پاکستان کرونیکل کے مؤلف عقیل عباس جعفری صاحب مزید لکھتے ہیں کہ ابراہیم جلیس نے اس ایکٹ کے خلاف پبلک سیفٹی ریزر کے عنوان سے ایک طنزیہ مضمون لکھا، جسے شائع کرنے کی پاداش میں احمد بشیر اور طفیل محمد خان کے ہفت روزہ قندیل کی ادارت سے مستعفی ہونا پڑا اور حمید نظامی کو معافی مانگنی پڑی۔

یہی نہیں بلکہ پاکستان کرونیکل کے مطابق 27 نومبر 1948کو کراچی کے پانچ اخبارات کے سندھ میں داخلے پر چھے ماہ کی پابندی لگادی گئی۔ ان میں ڈان انگریزی، اردو اور گجراتی کے ساتھ سندھ آبزرور، جنگ، انجام اور سندھ شامل تھے۔

یہاں بھی حکومت سندھ نے پبلک سیفٹی ایکٹ کا سہارا لیا۔ اس پابندی کا پس منظر یہ تھا کہ ایک ماہ پہلے اکتوبر کے آخری ہفتے میں ان اخبارات نے سندھ کے وزیراعلٰی پیرالٰہی بخش کی اقرباپروری کا راز فاش کیا تھا۔

28 اکتوبر کو پانچوں اخبارات نے مشترکہ اداریہ ''پیرالٰہی بخش مستعفی ہوجائیں'' لکھا تھا، جس کے ایک ماہ بعد ان اخبارات کو سندھ میں داخلے پر پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اچھی بات یہ ہوئی کہ حکومتی پارٹی نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ پاکستان مسلم لیگ کے صدر چوہدری خلیق الزماں نے ڈان کے قائم مقام ایڈیٹر مسٹر عشیر کے ہمراہ سندھ کے گورنر سے ملاقات کی اور دو دن کے بعد یہ پابندی ہٹالی گئی، اور اخبارات پر ناجائز دباؤ ختم ہوا۔

پاکستان کرونیکل ہی کے مطابق 20 جنوری کو کراچی کے تین اخبارات پر پابندی لگی، جن میں ہفت روزہ فیئرلیس چھے ماہ، روزنامہ مسلمان اور ہفت روزہ فریڈم پر تین ماہ کی پابندی لگائی گئی۔ 10 مارچ 1949 کو حکومت پر تنقید کی وجہ سے غیوراسلام کی ادارت میں نکلنے والا ہفت روزہ ''نیواورینٹ'' کو اس کے ساتویں شمارے کی اشاعت پر حکومت نے ضبط کرکے بند کردیا۔ یہ کراچی سے نکلنے والا پہلا اخبار تھا جسے حکومت پر تنقید کی وجہ سے ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑا۔ جعفر احمد ''شب گزیدہ سحر'' میں لکھتے ہیں، ''1949 میں ہی روزنامہ 'سرحد' کا ڈیکلیریشن منسوخ کرکے اس کے ایڈیٹر کو گرفتار کرلیا گیا۔

مولانا غلام رسول مہر اور عبدالمجید سالک کے 'انقلاب' کے خلاف بھی کارروائی کی گئی، جس کے بعد بائیس برس تک آزادی کی جدوجہد کرنے والا اخبار انقلاب 1949 میں بند ہوگیا۔'' جن دیگر اخبارات اور رسائل کے خلاف کاروائیاں ہوئیں، ان میں مولانا وقار انبالوی کا اخبار سفینہ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ سلسلہ یہاں رکا نہیں 1950میں سویرا کے مدیر ظہیرکاشمیری سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار ہوئے اور پھر 30 مئی 1950 کو حکومت پنجاب نے پاکستان ٹائمز اور امروز کے پرنٹر اور پبلیکیشن کی ضمانت ضبط کر لی۔

سول اینڈ ملٹری گزٹ پر پابندی

13 مئی 1949 کو حکومت پاکستان نے اینگلو انڈین اخبار ''سول اینڈ ملٹری گزٹ'' پر پاکستان کے صف اول کے صحافیوں کے مطالبے پر پابندی لگا دی۔

یہ اخبار پہلی بار 1872 میں لاہور اور شملہ سے بیک وقت جاری کیا گیا اور 1932 تک جاری رہا، جب کہ کراچی سے 1945 سے 1949 تک اس کی اشاعت جاری رہی۔ یہ ہندوستان کے چار اخبارات سے مل کر بنا تھا، جن میں کلکتہ کے اخبار The Mofssilite، پنجاب ٹائم، لاہور کرونیکل اور انڈین پبلک اوپنین سے مل کر بنا تھا۔ یعنی یہ ایک تاریخی اخبار تھا۔ عمومی طور پر اس کا جھکاؤ پاکستان کی طرف تھا۔

ضمیر نیازی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جناح کی وفات کے بہ مشکل سات ماہ بعد اپریل 1949میں سول اینڈ ملٹری گزٹ نے اپنے دہلی کے نمائندے اے این کمار کی ایک رپورٹ شائع کی، جس سے اشارہ ملتا تھا کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشمیر کی تقسیم کا فارمولا زیربحث ہے اور جلد ہی اس بارے میں کوئی معاہدہ ہونے والا ہے۔

حکومت پاکستان نے اس خبر کی فوراً تردید کردی۔ اگلے روز گزٹ نے بھی اپنے پہلے صفحے پر اس خبر کی تردید کرتے ہوئے معذرت شائع کی۔ معذرت میں بغیر تصدیق کیے خبر دینے پر رپورٹر کو برطرف کرنے کا اعلان بھی شامل تھا۔

اخبار کے خلاف 6 مئی کو مغربی پاکستان کے11 اخبارات نے ایک مشترکہ اداریہ شائع کیا، جب کہ عقیل عباس جعفری کے مطابق 16 اخبارات کے ایڈیٹروں نے مشترکہ اداریہ چھاپا۔ ان میں ڈان کے الطاف حسین اور پاکستان ٹائمز کے فیض احمد فیض بھی شامل تھے۔

صرف امروز کے چراغ حسن حسرت نے یہ اداریہ شائع کرنے سے انکار کیا لیکن وہ بھی چوبیس گھنٹے سے زیادہ دباؤ برداشت نہ کرسکے اور اگلے دن یہ اداریہ امروز کا بھی حصہ بنا۔ اداریے کا عنوان ''غداری'' تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ اس رپورٹ میں صحافتی اصولوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ پنجاب کے گورنر سے اخبار کے خلاف فوری طور پر تعزیری کارروائی کرتے ہوئے پابندی کا مطالبہ کیا گیا۔

کہا گیا کہ اگر گورنر یہ کارروائی کرنے سے قاصر رہیں تو مرکزی حکومت سے مداخلت کرے۔ پاکستان کرونیکل کے مطابق مشترکہ اداریہ کراچی کے ایک انگریری روزنامے کے ایڈیٹر نے تحریر کیا تھا۔ اس کاوش پر اخبار کو چھے ماہ کے لیے بند کردیا گیا۔ سرکاری اقدام کے بعد یہ اخبار پھر کبھی سنبھل نہیں سکا۔

سینسرشپ کی ایک نئی شکل پنڈی سازش کیس کے وقت سامنے آئی، جب 13 مئی1951 کو ''سیکیوریٹی آرمی ایکٹ'' پیش کیا گیا۔ یہ بالکل ایک الگ موضوع ہے، جس پر پھر کبھی بات کی جائے گی۔ پنڈی سازش کیس کا پس منظر سمجھنے کے لیے جعفر صاحب کے پاس چلتے ہیں جن کے مطابق امریکانواز سمجھے جانے والے ایوب خان کمانڈر ان چیف 17 جنوری 1951 کو بنے۔ اس کے صرف دو ماہ بعد پنڈی سازش کیس سامنے آیا۔

سیکیوریٹی آرمی ایکٹ پر کل بھی پاکستانی صحافت کو دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تھا اور آج بھی۔ 1951 میں بھی صحافی تنظیمیں منتشر نظر آتی تھیں اور آج بھی۔ پاکستان کرونیکل میں عقیل عباس جعفری لکھتے ہیں کہ صحافیوں نے 25 مئی کو اس ایکٹ کے خلاف احتجاج کیا اور اسے یوم سیاہ کے طور پر منایا۔


اس پورے دور کے ذرائع ابلاغ اور انھیں بار بار روکنے کی پالیسی کو سمجھنے کے لیے اشتیاق حسین قریشی کی کتاب کے پیش لفظ کا حوالہ ہی کافی ہے، جی سے ضمیر نیازی صاحب نے اپنی کتاب کا حصہ بنایا ہے۔ قریشی صاحب لکھتے ہیں، ''پاکستانی صحافت ابتدائی گیارہ سال میں سب سے زیادہ آزاد تھی۔ اور یہ جمہوریت کے وسیع تجربے کے بعد ہی ممکن ہوگا کہ پاکستان صحافت اتنی آزا د ہوسکے جس کا مظاہرہ اس نے ابتدا میں کیا تھا۔

خرابی حکومت کی جانب سے کھلی یا پوشیدہ طور پر لگائی جانے والی پابندیوں، اخبارات میں متانت اور ذمے داری کی کمی، دونوں ہی باتوں میں ہے۔ سیاسی انتشار نے بھی ملکی صحافت کو متاثر کیا۔ پے درپے حکومتیں بدلتی رہیں، اندازہ لگائیں کہ صرف 1947-1958 تک کل 9 وزیراعظموں کی حکومت رہی۔''

ماہ نامہ ''مرر آف دی منتھ'' پر پابندی

بنگال سے تعلق رکھنے والی زیب النساء حمید اللہ، پاکستان کی پہلی خاتون کالم نگار، پولیٹیکل کمینٹیٹر اور پبلشر کے طور پر جانی جاتی ہیں۔

ان کا ایک تعارف کراچی کی معروف سڑک ''زیب النساء اسٹریٹ'' بھی ہے۔ ''پاکستان کرونیکل'' کے خالق عقیل عباس جعفری لکھتے ہیں کہ زیب النساء حمید اللہ نے پاکستان میں صحافت کی ابتدا ''ڈان'' اخبار سے کی۔ ڈان کے مدیر الطاف حسین سے اختلاف کے بعد انہوں نے اپنا انگریزی ماہ نامہ ''مررآف دی منتھ'' جاری کیا۔ لیکن یہ ماہ نامہ مشہور صرف ''مرر'' کے نام سے ہوا۔ یہ ماہ نامہ اکتوبر 1951 میں کراچی سے انگریزی زبان میں پہلی بار شائع ہوا۔

یہاں ان کا ذکر اس لیے ہوا کہ نومبر 1957 میں پاکستان کی پہلی خاتون ایڈیٹر زیب النساء حمید اللہ کی زیرنگرانی نکلنے والے ماہنامے ''مرر'' پر بھی پابندی لگی۔ اس وقت پاکستان میں سیاسی اکھاڑپچھار کا دوردورہ تھا۔1957 مرر پر بجلی اس لیے گری کیوںکہ زیب النساء نے حسین شہید سہروردی کی حکومت گرانے پر تنقید کی تھی۔

ان کا یہ اداریہ حکومت پر گراں گزرا، جس کی وجہ سے ''مرر'' پر چھے ماہ کی پابندی لگا دی گئی۔ عقیل عباس جعفری پاکستان کرونیکل میں لکھتے ہیں کہ اگلے دن ایک صحافی کے ذریعے بیگم زیب النساء حمیداللہ کو کہلوایا گیا کہ اگر وہ اپنے اداریے پر معافی مانگ لیں تو پابندی ہٹادی جائے گی، لیکن انھوں نے انکار کردیا۔

ان کی مدد کے لیے ملک کے ممتاز وکیل اے کے بروہی نے سپریم کورٹ میں اس پابندی کو چیلینج کرتے ہوئے کیس دائر کردیا۔ چند سماعتوں کے بعد ہی 20 دسمبر 1957 کو پابندی ہٹا دی۔ لیکن یہ ماہ نامہ 1972 میں ان کے شوہر حمید اللہ کے ہالینڈ تبادلے کی وجہ سے بند کرنا پڑا۔

ایوب خان کی حکومت اور ابلاغ پر پابندی کے رجحانات

ذرائع ابلاغ کو کنٹرول کرنے کی پالیسی ایوب خان کے ذہن میں چلی آرہی تھی۔ کئی حوالوں میں موجود ہے کہ وہ سمجھتے تھے کہ ذرائع ابلاغ ایک طاقت ور ہتھیار کے طور پر استعمال ہونا چاہے۔ لیکن وہ اسے کھلی چھوٹ دینے یا اتنی آزادی دینے کے بھی قائل نہیں تھے کہ جو ان کے بتائے ہوئے سچ کو چھوٹا قرار دے دے۔ لہٰذا ابتدا سے ہی انہیں ایسے کئی اقدامات کرنے کرے پڑے جس سے ذرائع ابلاغ حکومتی کنٹرول میں آگئے۔

ایوب خان نے بھی ابتدا میں سیفٹی ایکٹ کو بطور ہتھیار اپنایا۔ اور چار اخبارات کو ضبط کرکے ایڈیٹروں کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ ضمیرنیازی اس دن کو اس طرح یاد کرتے ہیں،''8 اکتوبر1958کو ایوب خان کا مارشل لا نافذ ہوا۔ اس کے پہلے ہفتے میں ہی سیفٹی ایکٹ کے تحت لیل و نہار کے ایڈیٹر سبط حسن گرفتار ہوئے اور چار دن بعد احمد ندیم قاسمی کی ادارت میں چلنے والا امروز بھی بند ہوا۔ پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹرفیض احمد فیض، حفیظ جالندھری کے ساتھ تاشقند میں ایک ادبی کانفرنس میں گئے ہوئے تھے۔

لہٰذا واپسی پر وہ بھی دیگر ایڈیٹروں کے ساتھ جیل پہنچا دیے گئے۔ ان تینوں ایڈیٹروں کو سی کلاس دی گئی۔ اس وقت جسٹس ایم آر کیانی وہ واحد قانون داں تھے جنہوں نے قانون کی حکم رانی، شہری حقوق اور آزادیٔ اظہار کے حق میں فیصلے دیے۔ ان کے حکم پر فروری 1959 میں تمام ایڈیٹروں کو رہائی ملی۔''

ایوب خان کے دور میں جس دوسری چیز پر کام ہوا وہ ''پریس کمیشن'' تھا۔ یہ مارشل لا دور کی پیداوار نہیں تھا، کیوںکہ 1954 کے آئین کے تحت پریس کمیشن کا قیام عمل میں آچکا تھا۔ لیکن اس کا بطور سینسر پالیسی استعمال ایوب خان کے دور میں ہوا۔ شہاب نامہ میں قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ صدر ایوب خان کو شکایت تھی کہ پاکستان کا پریس بہت زیادہ زودحس ہے۔

شہاب نے یہ بھی لکھا ہے کہ پریس کمیشن کا تاریخی پس منظر بھی دل چسپی سے خالی نہیں۔ یہ کمیشن ستمبر 1954 میں قائم ہوا۔ ہائی کورٹ کا ایک سابق جج اس کا چیئرمین تھا اور کمیشن میں 13میں سے 9 ارکان اخبارات کے ایڈیٹر تھے۔ لیکن ایڈیٹروں کی متوازی تنظیمیں ہونے کی وجہ سے بیشتر معاملات پر اتفاق رائے کا شدید فقدان تھا۔

پورے چار برس یہ کمیشن غیرفعال رہا۔ مارشل لا کے نفاذ کے ایک ماہ قبل ستمبر 1958میں حکومت نے اس کی تنظیم نو کی تھی، جس میں کمیشن کا چئیرمین اور 5 ارکان مقرر کرلیے گئے۔ لیکن مزے کی بات یہ تھی کہ اس کمیشن میں صرف ایک صحافی شامل تھا۔ مارشل لا کے دور میں کمیشن پر پہلی رپورٹ آٹھ ماہ کے اندر آگئی، جس میں دو باتوں کی نشان دہی کی گئی۔ ایکThe Working Journalists (conditions of Service) Ordinance, 1960 سامنے آیا۔ اسے 27 اپریل کو ایوب خان کے دستخطوں کے ساتھ آئین کا حصہ بنا لیا گیا۔ ویج بورڈ قائم ہوا، صحافیوں کی تنخواہیں اور ملازمت کی شرائط مرتب کی گئیں۔ ساتھ ہی پریس اینڈ پبلیکشن آرڈیننس کی ڈرافٹنگ بھی کر لی گئی۔

پروگریسو پیپرز لمٹیڈ پر حملہ

پاکستان کے ابتدائی سالوں میں صحافت پر قدغنیں لگائی جاتی رہیں، لیکن پاکستان کا پہلا مارشل لا لگتے ہی پہلی کاری ضرب بائیں بازو کی صحافت پر لگی۔ جب اخبارات کی ضبطی اور ایڈیٹروں کے جیل بھیجنے سے بھی حکومتی امور پر تنقید جاری رہی اور کام نہیں چلا تو پھر سیکیوریٹی ایکٹ میں ترمیم کرکے پورے پورے اداروں کو حکومتی دائرۂ کار میں لے لیا گیا۔

18 اپریل 1959 کو لیل و نہار، پاکستان ٹائمز اور امروز کے اشاعتی ادارے پروگریسیو پیپرزلیمیٹڈ پر قبضہ کیا گیا، جسے بائیں بازو کا رجحان رکھنے والے مشہور سیاسی راہ نما میاں افتخار الدین چلا رہے تھے۔ وہ پاکستان کے ابتدائی سالوں میں پنجاب کے وزیرِبحالیٔ مہاجرین رہے تھے۔ سن 50 میں انھوں نے ''آزاد پاکستان پارٹی'' کی بنیاد رکھی۔

پنجاب کے بائیں بازو کے رجحانات رکھے والے بہت سے سیاست داں اس پارٹی کا حصہ رہے۔ سردار شوکت حیات، محمود علی قصوری، شیخ محمد رشید اور خواجہ محمد افضل وغیرہ کے نام پارٹی کے بنیادی ارکان میں آتے ہیں۔ اس پارٹی کے خیال میں زرعی اصلاحات کا نفاذ اور جاگیرداری نظام خاتمہ ضروری تھا۔

اس پس منظر اور رجحانات کی وجہ سے پروگریسیو پیپرز کے اخبارات اور رسائل کو سزا کے طور پر کبھی ضبطی کا سامنا کرنا پڑا اور کبھی مکمل پابندی لگتی رہی۔ لیکن 18 اپریل 1959 کو اس اشاعتی ادارے کے تحت چلنے والے چاروں اخبارات کو حکومتی تحویل میں لے لیا گیا، جن میں پاکستان ٹائم ، امروز کراچی اور لاہور اور ہفت روزہ لیل و نہار شامل تھے۔

یہ بھی پاکستان سیکیوریٹی ایکٹ کی دفعہ نمبر 2 کے تحت کیا گیا، جس میں صدارتی حکم نامے کے تحت 16 اپریل 1959 کو ایک ترمیم کردی گئی تھی، جس میں دفعہ نمبر 2 کے دائرۂ کار میں اضافہ کرکے حکومت کو اختیار دے دیا گیا تھا کہ وہ ایسے اخبارات جن میں شایع شدہ مواد سے دفاع، امورخارجہ یا پاکستان کی سلامتی کو خطرہ ہو، کی اشاعت پر مکمل پابندی کے بجائے ان کی انتظامیہ کو تبدیل کرسکتی ہے۔

حکومت نے اس آرڈیننس کے تحت بورڈ آف ڈائریکٹرز کو توڑ دیا اور ادارہ محمد سرفراز، جو سابق ڈائریکٹر تعلقات عامہ رہ چکے تھے، کی زیرنگرانی دے دیا گیا۔

مظہر علی خان کے بیٹے طارق علی نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ حکومتی انتظامیہ چاہتی تھی کہ مظہر علی خان ایڈیٹر ان چیف کا عہدہ برقرار رکھیں، لیکن انھوں نے انتظامیہ کی اجارہ داری تسلیم نہیں کی۔ امریکا پروگریسیو پیپرلیمیٹڈ کو کمیونسٹ رجحان رکھنے والا ادارہ سمجھتا تھا، لہٰذا امریکا کی ایما پر اس ادارے کے تحت چلنے والے تمام اخبارات کو حکومتی تحویل میں لے لیا گیا۔

شہاب نامہ میں قدرت اللہ شہاب اس دن کی روداد تفصیلی انداز میں سناتے ہیں، جس کا لب لباب کچھ یوں ہے،''ہم کراچی سے لاہور کے ہوائی اڈے پر پہنچے جہاں چند فوجی افسروں نے ہمیں سیدھے فلیگ اسٹاف ہاؤس پہنچا دیا۔ وزیرداخلہ جنرل کے ایم شیخ بھی لاہور سے آئے ہوئے تھے۔ مجھے اکیلا چھوڑ کر بریگیڈیئر ایف آر خان چلے گئے۔

باہر آنے اور جانے پر پابندی تھی۔ پردہ و پوشی، رازداری اور سکوت کی یہ فضا میرے لیے بڑی پراسرار تھی۔ ایک دو بار خیال آیا کہ ہمیں شاید ہندوستان کی جانب سے حملے کا خطرہ ہے۔ پھر خیال آیا شاید کشمیر میں کوئی مہم ہو۔ لیکن مجھے ساتھ لانے کی کیا تک؟ لیکن شام 4 بجے بریگیڈیئر ایف آر خان نے نہایت رازداری سے سرگوشی کی کہ آج رات اچانک چھاپا مار کر میاں افتخار الدین کی کمپنی پروگریسیو پیپرز لمیٹڈ پر قبضہ کرلیا جائے گا۔ اتنا بڑا پہاڑ کھودنے پر مجھے ہنسی آگئی۔''

اگلے دن ادارتی صفحہ پر قدرت اللہ شہاب کا لکھا ہوا اداریہ تھا، جس کا عنوان نیا ورق تھا، جس میں لکھا گیا،''یہ تمام اخبارات گھر میں اجنبی بن گئے تھے۔'' شہاب لکھتے ہیں کہ جنرل شیخ اور بریگیڈیئر ایف آر خان ہاتھ دھو کر میرے پیچھے پڑ گئے کہ آج کا اداریہ میں لکھوں۔ مجھے اس پر کلام تھا کیوںکہ میں صحافی نہیں تھا۔

لیکن بریگیڈیئر انتہائی ضدی اور اڑیل ثابت ہوئے۔ میں نے جنرل شیخ کے بتائے ہوئے خطوط پر ایک مختصر سا اداریہ گھسیٹ دیا، جو Leaf Newکے عنوان سے پاکستان ٹائمز میں اگلے دن چھپا۔ لیکن جنگ اخبار کے سابق ایڈیٹر محمود شام سمجھتے ہیں کہ شہاب صاحب ساٹھ اور ستر کی دہائی کی میڈیا کنٹرول کرنے کی پالیسیز اور قانون سے دامن نہیں چھڑا سکتے۔ ان کے خیال میں وہ بھی ان تمام اقدامات اور قانون سازی میں شامل رہے ہیں۔

ضبطی کی اثرات:

ایوب خان نے پہلے پہل میڈیا ایڈوائسز سے کام چلانے کی کوشش کی۔ بقول مظہر علی خان، ہمارا حکومتی مشیروں سے ''پریس ایڈوائزری'' کی شکل میں رشتہ قائم تھا، پھر پورا پروگریسیو پیپرز گروپ ضبط اور ایڈیٹروں کو جیل میں بھیج کر اخبار ورسائل کو اپنے مطابق چلانے کی کوشش کی گئی۔

فروری 1959 میں جسٹس ایم اے کیانی نے ایڈیٹروں کی گرفتاری غیرقانونی قرار دے دی اور چاروں گرفتار ایڈیٹروں کو جیل سے رہائی ملی۔ اس سارے ماحول میں ایوب خان کو اپریل 1959 میں پہلا صحافتی کنٹرول ایکٹ ''پریس اینڈ پبلیکشن آرڈیننس'' لانا ہی پڑا، جو آگے چل کر 1963میں پاکستان کا پہلا ذرائع ابلاغ کو کنٹرول کرنے کا قانون بنا، جسے صحافی اور ان کی تنظیمیں ''کالا قانون'' سمجھتی ہیں۔ شہاب اس حوالے سے کہتے ہیں کہ اس قانون کا پھندا وقتاً فوقتاً اور مختلف ترمیموں کے ساتھ آج تک ہماری صحافت کے گلے میں پڑا ہے۔

یہ پاکستان کی صحافت میں پہلی بار ہوا تھا۔ اس سے پہلے کبھی اخبارات کو ضبط اور پابندی کا سامنا کرنا پڑا تو کبھی ایڈیٹر جیل بھیجے گئے ابتدائی 10سالوں میں سیفٹی ایکٹ کارآمد اور صحافت کے لیے سبق آموز رہا۔ لیکن مارشل لا کے آتے ہی اندازِحکم رانی تبدیل ہوئے، جس کا براہ راست اثر ذرائع ابلاغ پر بھی پڑا۔ ایوب خان اور ان کے مشیروں نے صحافت کو کنٹرول کرنے کے لیے باقاعدہ قانونی ترمیم اور ایکٹ نافذ کرنے کا سوچا۔
Load Next Story