اسرائیلی وزیر اعظم کا اعتراف جرم

وہ وقت قریب ہے جب سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد سے گزشتہ صدیوں کے جھوٹ کا پلندہ بے نقاب کر دیا جائے گا

www.facebook.com/shah Naqvi

ترک صدر رجب طیب اردوان نے غزہ پر وحشیانہ بمباری پر اسرائیل کی حمایت کرنے یا خاموش تماشائی بنے رہنے والے مغربی ممالک کے دوہرے معیار پر سخت تنقید کرتے ہوئے یہ وارننگ دی ہے کہ اگر مغرب ایک بار پھر صلیب اور ہلال کی جنگ چاہتا ہے تو اسے جان لینا چاہیے کہ ہم ابھی زندہ ہیں۔

استنبول میں لاکھوں افراد کی ایک بڑی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے جو ایئرپورٹ روڈ پر منعقد ہوئی ان کا کہنا تھا کہ ہم پوری دنیا کو بتائیں گے کہ اسرائیل جنگی مجرم ہے اور اسرائیلی مظالم میں مرکزی مجرم مغربی طاقتیں ہیں۔

ان کی حمایت کے بغیر اسرائیل یہ سب کچھ نہیں کر سکتا۔ ترک صدر کا کہنا تھا کہ آپ یوکرین میں مرنے والوں کے لیے آنسو بہاتے نہیں تھکتے لیکن غزہ کے بچوں کے لیے مغرب سے کوئی آواز بلند نہیں ہوئی آخر ایسا کیوں ہے؟

انھوں نے اسرائیل کے اتحادیوں پر الزام لگایا کہ وہ صلیبی جنگ کا ماحول پیدا کر رہے ہیں تاہم مغرب اگر ایک بار پھر صلیب اور ہلال کی جنگ چاہتا ہے تو جان لے کہ ترکیہ کے لوگ ابھی زندہ ہیں۔ ترک صدر نے اسرائیل کی حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے سوال کیا کہ 1947میں فلسطین کیا تھا اور آج کیا ہے۔

اسرائیل وہاں کیسے آیا؟ اسرائیل غاصب ہے جنگی مجرم ہے۔ غزہ میں بدترین جارحیت جاری ہے اور کتنے بچے بوڑھے مریں گے تو جنگ بندی کی جائے گی؟ رجب طیب اردوان کے اس خطاب پر اسرائیلی وزیر خارجہ نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیل کے سفارتی عملے کو ترکیہ سے واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔

بہت کم لوگوں کو اس سچائی کا پتہ ہے کہ اسرائیل کے "بانی"بھی اس کا ناجائز ریاست ہونا تسلیم کرتے ہیں وہ مانتے ہیں کہ اس ملک کا قیام فلسطینیوں کی سرزمین پر ناجائز قبضہ کر کے عمل میں لایا گیا ہے۔

اس لیے اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی جدوجہد برحق ہے ۔ اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بن گوریان نے عالمی یہودی کانگریس کے صدر ناہم گولڈ مین کو لکھے گئے اپنے تاریخی اہمیت کے حامل خط میں اس سچائی کا برملا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ "اگر میں کوئی عرب لیڈر ہوتا تو اسرائیل سے کبھی سمجھوتہ نہ کرتا۔ یہ ایک فطری بات ہے ہم نے ان سے ان کا ملک چھینا ہے۔

اگرچہ یہ درست ہے کہ ہمارا تعلق اسرائیل سے ہے لیکن یہ دو ہزار سال پہلے کی بات ہے فلسطینیوں کا بھلا اس سے کیا واسطہ۔ ہاں دنیا میں یہود مخالف، نازی، ہٹلر، آش وٹز جہاں یہودیوں کو گیس چیمبر میں زندہ جلایا گیا سب رہے ہیں مگر کیا اس کے ذمے دارفلسطینی ہیں؟ وہ فلسطینی صرف ایک چیز دیکھتے ہیں۔

ہم یہاں آئے اور ہم نے ان کا ملک چرا لیا۔ آخر وہ اس چیز کو کیوں قبول کریں؟" ارض فلسطین پر اسرائیل کی ناجائز ریاست کا قیام اتنا بڑا ظلم عظیم تھا کہ اسرائیل کے بانی اور پہلے وزیر اعظم کا ضمیر بھی ملامت کیے بغیر نہ رہ سکا اور حق سچ بات آخر کار ان کی زبان پر آ ہی گئی۔ وہ لوگ جو اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں وہ اب کیا کہیں گے ڈیوڈ بن گوریان کے اس خط کی روشنی میں جو 1956میں ورلڈ جیوش کانگریس کے صدر ناہم گولڈ مین کو لکھا گیا۔


یہ بڑی حیرت انگیز بات ہے کہ یہودی واحد قوم ہے جس پر تمام دنیا کی اقوام ظلم کرتی رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسا ہونے کی وجہ کیا ہے۔

سب سے زیادہ ظلم تو عیسائیوں نے یہودیوں پر کیا اس الزام پر کہ یہودیوں نے حضرت عیسی کو صلیب پر لٹکایا۔ دوہزار سال سے بقول ان کے ان پر ظلم ہو رہا ہے۔ ماضی قریب میں یہی کام ہٹلر نے یہودیوں کے ساتھ کیا۔

اس نے کہا کہ میں جرمنی میں یہودیوں کی ایک تعداد کو زندہ اس لیے چھوڑ رہا ہوں ورنہ ان کا بھی خاتمہ کر دیتا کہ دنیا کو پتہ چلے کہ یہ یہودی کتنے مکار سازشی اور غدار ہیں۔ جو سر زمین بھی انھیں پناہ دیتی ہے سازشوں سے وہاں کے وسائل پیداوار اور دولت پر قبضہ کر کے اسی ملک و قوم کے خلاف پس پردہ یا سامنے رہ کر اس کے اقتدار اعلیٰ پر قبضہ کر لیتے ہیں۔

بلاشبہ یہودی ذہین قوم ہے مگر وہ تاریخی طور پر ہمیشہ ہی اپنی ذہانت کا منفی استعمال کرتے رہے ہیں اور آج بھی کر رہے ہیں۔ تمام دنیا کے بینکوں مالیاتی اداروںاسٹاک ایکسچینجزپر ان کا قبضہ ہے۔ اس طرح سے انھوں نے بالواسطہ اور بلاواسطہ امریکا یورپ سمیت دنیا پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس میں ان کا سب سے بڑا مددگار عالمی میڈیا ہے جس کے ذریعے وہ عالمی حالات و معاملات کی ایسی منظر کشی کرتے ہیں کہ دنیا جھوٹ کو بھی سچ ماننے پر مجبور ہو جاتی ہے۔

اسرائیل جب سے وجود میں آیا ہے اس نے اپنی تمام مخالف عرب قوتوں کو شکست دی ہے۔ 75سال بعد اسرائیل کے دیرینہ خواب پورے ہونے والے تھے جب تمام عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کر لیتے لیکن حماس نے اس خواب کو چکنا چور کر دیا کیونکہ ایران نے حماس کو راکٹ اور میزائل ٹیکنالوجی سے لیس کر دیا تھا۔ ایران اسرائیل جنگ براہ راست کبھی نہیں ہوئی۔

حماس اور حزب اﷲ عسکری گروہ ہیں ۔ریاست نہیں۔ ایران کا اسرائیل کے ساتھ براہ راست جنگ میں شامل ہونا ایٹمی جنگ کا آغاز ہوگا کہ اسرائیل مدت سے اس ایٹمی حملے کے لیے بے چین ہے۔ اگر ایرانی مزاحمت کا خاتمہ ہوتا ہے تو پورا مشرق وسطی اسرائیل کے لیے کھلا میدان ہوگا۔ اسرائیل اور امریکا کی دیرینہ آرزو پوری ہو جائے گی۔

خطے کے ممالک غلامی کے ایسے شکنجے میں جکڑے جائینگے جسکا تصور ہی ہولناک ہے۔ اس وقت پورے خطے میں اسرائیل کے خلاف مزاحمتی قوتیں حماس اور حزب اﷲ ہیں جنکا پشت پناہ مددگار ایران ہے۔

ہٹلر کو کیونکہ شکست ہوئی اس لیے صہیوینوں اور ان کے مغربی اتحادیوں نے اپنی مرضی کا سچ دنیا پر نافذ کر دیا۔ عالمی تاریخ میں یہ ظلم مسلسل ہوتا رہا ہے اور آج بھی ہو رہا ہے کہ طاقت کے زور پر اپنی مرضی کا سچ انسانوں پر تھونپا جائے۔

ہر دور کا بادشاہ طاقتور اور آمر اپنی مرضی کا سچ لکھوا کر بے بس انسانوں کے دل و دماغ میں یہ زہر انڈیلتا رہا ہے۔ ہزاروں سال سے سادہ لوح اور بے خبر انسان اسی کو سچ سمجھنے پر مجبور ہیں۔ وہ وقت قریب ہے جب سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد سے گزشتہ صدیوں کے جھوٹ کا پلندہ بے نقاب کر دیا جائے گااور نئی عالمی تاریخ لکھی جائے گی۔

غزہ کے حوالے سے مزید اہم تاریخیں 7-8-9 نومبر سے 17-18-19-20نومبر ہیں۔ یہ تاریخیں خطے کے حوالے سے نیا ٹرننگ پوائنٹ لے کر آئینگی۔
Load Next Story