بی جے پی کا اقتدار ہندوستان کے لیے پریشان کن ثابت ہوگا اشیش رنجن
اِس خطے کے نصاب پر ’’نیشنل ازم‘‘ حاوی ہے، پاکستان اور ہندوستان نے ایک دوسرے کو ’’ولن‘‘ بنا کر پیش کیا، اشیش رنجن
ایک ریاست، چاہے کتنی ہی سماجی اکائیوں میں منقسم ہو، ماضی کو ایک ہی نقطۂ نظر سے پرکھتی ہے۔
رائج نصاب ایک اجتماعی زاویے سے تاریخ بیان کرتا ہے۔ اب اگر وہی خطہ تین الگ الگ ریاستوں میں بٹ جائے، تو کیا ماضی کو دیکھنے اور سمجھنے کا نقطۂ نظر بھی بدل جائے گا؟ اور اگر ایسا ہی ہوگا، تو پھر وہ ریاستیں کن وسائل کی بنیاد پر اپنی تاریخ کا نصاب مرتب کریں گی؟
اِن ہی پُرپیچ سوالات نے اشیش رنجن کو تحقیق پر مائل کیا۔ دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ تعلیم سے منسلک یہ صاحب سفر پر نکل پڑے۔ اس سمے ہندوستان، پاکستان اور بنگلادیش میں، انٹرمیڈیٹ کی سطح پر، رائج تاریخ کے نصاب کا تقابلی جائزہ لینے میں جٹے ہیں۔ تھیسس اُن کا قبل از تاریخ سے موجودہ عہد تک کا احاطہ کرتا ہے۔ اِسی سلسلے میں جب پروفیسر صاحب کا پاکستان آنا ہوا، تو اُن کے ساتھ ایک نشست ہوئی۔
اشیش رنجن کے مطابق پاکستان اور ہندوستان دو الگ الگ ملک ضرور ہیں، مختلف نقطۂ نگاہ سے اپنی تاریخ بیان کرتے ہیں، لیکن انھیں ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کا بھی احترام کرنا چاہیے۔ دشمنیاں بھول کر آگے کی سمت بڑھنا چاہیے۔ انھیں شکایت ہے کہ دونوں ہی ملکوں نے، جذبۂ حب الوطنی کے فروغ کے لیے، اپنے نصاب میں ایک دوسرے کو ''ولن'' بنا کر پیش کیا۔ حقائق پر ''نیشنل ازم'' غالب آگیا۔ یہ طریقہ نصاب کی تشکیل میں لازم قرار پایا، مگر اب دھیرے دھیرے ہی سہی، تبدیلی آرہی ہے۔ ''پاکستان اور ہندوستان کے پڑھے لکھے طبقات تبدیلی کے خواہش مند ہیں۔ یہاں آغا خان بورڈ اور لمز کا نصاب بہت بَڑھیا ہے۔ وہاں بھی ایسی مثالیں ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ پاکستانی میڈیا کی کیا رائے ہے، مگر انڈیا کا سنجیدہ میڈیا بھی یہی چاہتا ہے کہ اس سوچ میں تبدیلی آئے۔''
اشیش کے مطابق نصاب میں، اپنے دعویٰ کو حقیقت ثابت کرنے کے لیے من چاہا مواد منتخب کیا جاتا ہے۔ ''ہندوستان میں پاکستان کا پوائنٹ آف ویو چھوڑ دیا گیا۔ پاکستان میں بنگلادیش کا پوائنٹ آف ویو چھوڑ دیا گیا۔ مگر یہ سلسلہ اب ترک ہونا چاہیے۔ بے شک ہم اپنے نظریے سے مکمل طور پر کنارہ کش نہیں ہو سکتے، لیکن اپنا دائرہ تھوڑا وسیع ضرور کرسکتے ہیں۔ اِس میں اساتذہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ وہ طالب علموں کو تحریک دیں کہ چلیں، ہندوستان کا نقطۂ نظر تو ہم نے پڑھ لیا، تھوڑا پاکستان کا نقطۂ نظر بھی سمجھ لیں۔''
اِس موضوع پر بھی انھوں نے تحقیق کہ تاریخ آخر وجود میں کیسے آئی، اور اُسے بہ طور مضمون پڑھاتے ہوئے کیا دقت پیش آتی ہے۔ تحقیق کو کتاب "History, Contest and Challenges" میں سمویا، جو 2009 میں شایع ہوئی۔2011 میں بین الاقوامی ادارے International Baccalaureate Organization کے نصاب کا دو ہندوستانی بورڈز کے نصاب سے موازنہ کیا۔ اُسے کتابی شکل دی۔ ٹیچر ایجوکیشن کے موضوع پر بھی ایک کتاب تحریر کی۔ یہ خیال بھی دامن گیر رہا کہ امیر اور غریب؛ دونوں کے بچوں کو ایک درس گاہ، ایک جماعت میں تو اکٹھا کر دیا گیا ہے، مگر کم زور طبقہ ہنوز بے آواز ہے۔
اُنھیں متحرک کیسے کیا جائے، یہی اُن کی تازہ کتاب "Subaltern Voices of India" کا موضوع ہے۔ اشیش کے بہ قول،''فقط یک ساں تعلیمی نظام کم زور طبقات کو سماج میں شامل کرنے کے لیے کافی نہیں، اُنھیں دیگر سہولیات بھی مہیا کرنی ہوں گی، تاکہ غریب کے بچے کو اسکول کے باہر، سماج میں بھی برابری کا احساس ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ چاہے پاکستان ہو یا ہندوستان، سیاست دانوں کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں ہی میں پڑھائیں، اس سے سرکاری درس گاہوں میں بہتری آئے گی۔''
حالاتِ زندگی کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ اشیش رنجن 24 اکتوبر 1969 کو ہندوستانی ریاست بہار کے شہر پٹنا میں پیدا ہوئے۔ والد، چندر شیکھر شرما معالج تھے۔ چار بہنوں کے اکلوتے بھائی ہیں۔ والد سے دوستانہ روابط رہے۔ کیریر کے چناؤ کی آزادی تھی، جو شعبۂ تدریس کی سمت لائی۔ ابتدائی تعلیم پٹنا سے حاصل کی۔ پھر بنارس کا رخ کیا۔ ساتویں ہی میں خود کو ہاسٹل کی زندگی کا عادی بنالیا۔ میٹرک کے بعد دہلی پہنچے۔ سینٹ اسٹیفنس کالج، دہلی سے 91ء میں گریجویشن کیا۔ تاریخ کے مضمون کا یوں چناؤ کیا کہ بچپن ہی سے قدیم مقبرے اور آثار اپنی سمت کھینچتے آئے تھے۔ 93ء میں ماسٹرز کی سند حاصل کی۔
اب تدریس کی جانب آگئے۔ دہلی کے ایک اسکول سے پیشہ ورانہ سفر کا آغاز کیا۔ مزید پختگی کے لیے 98ء میں بی ایڈ اور 2002 میں ایم ایڈ کی سند حاصل کی۔ 2005 میں دہلی یونیورسٹی کا حصہ بن گئے۔ تدریس کی تاریخ اُن کا موضوع ہے۔ بی ایڈ کے طلبا کو تربیت فراہم کرتے ہیں۔ تاریخ اور تعلیم؛ دونوں مضامین پڑھانے کا تجربہ یک سر مختلف رہا۔ بہ قول اُن کے،''تاریخ پڑھاتے ہوئے طلبا کو صرف Facts کے بارے میں بتایا کرتا تھا، مگر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں آنے کے بعد سوچ بدل گئی۔ سمجھ میں آیا کہ پڑھانا تو ایک کلا ہے۔''
2006 میں تحقیقی سفر شروع کیا۔ ''ہندوستان، پاکستان اور بنگلادیش میں تاریخ کے نصاب کا تقابلی جائزہ'' جیسا پیچیدہ موضوع چنا۔ پروفیسر شام بی مینن اور ڈاکٹر نینا ڈے گپتا اُن کے سپروائزر ہیں۔
حال کا تجزیہ کرنے کے لیے ماضی کا بھی باریک بینی سے جائزہ لیا۔ ایک سبب اس کا تاریخ میں اُن کی بے پناہ دل چسپی بھی تھی۔ اندازہ ہوا کہ اوائل میں یہاں مذہبی درس گاہیں تو تھیں، مگر نصاب اور درجات کا تصور نہیں تھا۔ کہتے ہیں،''برصغیر میں رسمی تعلیم کا آغاز 1801 میں، انگریزوں کی آمد کے بعد ہوا۔ اِس سے قبل فقط بالادست طبقہ ہی اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کا اختیار اور حق رکھتا تھا، عوام کے لیے ایسا کوئی تصور نہیں تھا۔ اُس زمانے میں پنڈت اور مولوی حضرات تدریس کا فریضہ انجام دیا کرتے تھے۔ 'ماس ایجوکیشن' کا تصور انگریزوں کے دور میں آیا۔''
عوام کو تعلیم سے دُور رکھنے کا ایک واضح سبب تھا۔ کہتے ہیں،''تعلیم طاقت کا درجہ رکھتی ہے۔ تو بالادست طبقہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ ہر ایک کے پاس تعلیم ہو، تاکہ اُس کا تسلط قائم رہے۔ برہمن اور کھتریوں نے ایک گرینڈ الائنس بنا لیا، معاشرے کو طبقات میں بانٹ دیا۔''
برصغیر میں مسلمانوں کی آمد بھی اِس سلسلے میں معاون ثابت نہیں ہوئی۔ ''مغلوں کے دور میں فروغ تعلیم کی تھوڑی بہت کوششیں ہوئیں۔ ریاضی، طب اور حکمت کی تعلیم کو اہمیت دی گئی، مگر عوام کے لیے نصاب کی تیاری اور تعلیمی سہولیات کا سلسلہ شروع نہیں ہوسکا۔ انگریز یوں تو سولہویں صدی میں یہاں آگئے تھے، مگر انیسویں صدی کے اوائل میں اُنھوں نے تعلیم کے لیے ایک لاکھ روپے مختص کر دیے۔''
اِس عمل کو، توقع کے عین مطابق بارسوخ طبقوں نے ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا۔ الزام عاید کیا کہ یہ ان کی ثقافت تباہ کرنے کی کوشش ہے۔ اس فکر کو بدلنے کے لیے اشیش رنجن کے بہ قول، لالچ کو بہ طور ہتھیار استعمال کیا گیا۔ ''اُنھوں نے کہا، جو انگریزی تعلیم حاصل کرے گا، اسے سرکاری ملازمت دی جائے گی۔ آغاز میں ہندو اِس جانب متوجہ ہوئے۔ جاگیر داروں کے بچے اسکول جانے لگے۔ اِس ضمن میں راجا رام موہن رائے نے اہم کردار ادا کیا، جنھیں ہم First Modern Man of India بھی کہتے ہیں۔''
یہ تعلیم ہی تھی، جس نے ہندو طبقے کی سوچ تبدیل کی۔ اگلے مرحلے میں مسلمان اِس جانب متوجہ ہوئے۔ کہتے ہیں،''دھیرے دھیرے ہندوؤں میں یہ احساس اجاگر ہونے لگا کہ اگر دشمن کو ہرانا ہے، تو اُس کی زبان سیکھنی پڑے گی۔ گاندھی اور دیگر لیڈروں نے باہر جا کر تعلیم حاصل کی۔ آہستہ آہستہ مسلمان بھی تعلیم کی طرف آنے لگے۔ سرسید احمد خان نے تحریک چلائی۔''
تعلیم نسواں کے تصور کو، اُن کے بہ قول، برصغیر میں بہت دیر میں تسلیم کیا گیا۔ اس معاملے میں مہاراشٹر کی پنڈتا راما بائی کی کوششوں کو سراہتے ہیں۔ کولکتا میں کھلنے والے بیھتون کالج کا بھی تذکرہ کرتے ہیں۔ ''کام تو ہوا، مگر اس کی رفتار سست رہی۔ 47ء میں یہاں خواتین میں 'لٹریسی ریٹ' صرف 8 فی صد تھا۔ یہاں ہمیں 'لٹریسی' اور 'ایجوکیشن' کا فرق سمجھنا ہوگا۔ اُس وقت 'لٹریسی' تو نہیں تھی، مگر لوگوں میں سماجی شعور تھا۔ وہ زندگی گزارنے کا طریقہ جانتے تھے۔ یہ فہم پیڑھی در پیڑھی منتقل ہوتا رہا، مگر رسمی تعلیم عام ہونے کے بعد وہ دھیرے دھیرے ختم ہوگیا۔ میرے نزدیک یہ بہت بڑا نقصان تھا۔''
اُن کی تحقیق کا ایک حصہ پاکستان سے متعلق ہے۔ تو یہاں رائج تاریخ کے نصاب کو کیسا پایا؟ کہتے ہیں،''آپ کے ہاں 2010 کی جو ایجوکیشن پالیسی ہے، اُس میں جمہوری اقدار کے فروغ کی بات کی گئی ہے، مگر اُس کا ابھی اطلاق نہیں کیا گیا۔ 2006 کی پالیسی ہی 'فالو' کی جارہی ہے۔ ویسے تو اُس میں کوئی خاص خامی نہیں، البتہ اُس پر خاصا مذہبی رنگ غالب ہے۔ میرے خیال میں نصاب کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ ریاست کی 'نیچر' کا بھی جائزہ لیں۔ ہندوستان خود کو سیکولر جب کہ پاکستان خود کو تھیوریٹیکل اسٹیٹ قرار دیتا ہے۔ تھیوریٹیکل اسٹیٹ کی مجبوری ہے کہ اس کا نصاب اس کے دعویٰ کو Justify کرے۔''
71ء کے واقعے کو، اُن کی تحقیق کے مطابق، پاکستان اور بنگلادیش کے نصاب میں کس طرح بیان کیا گیا؟ کہتے ہیں،''بنگلادیش کے نصاب میں پاکستان کا بہت منفی امیج ملتا ہے۔ وہ 70 اور 71 کے واقعات کو نسل کشی قرار دیتے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان کے نصاب میں 71ء کا تذکرہ بہت مختصر ہے۔ 'سرینڈر' کا لفظ بھی استعمال نہیں کیا گیا۔ یعنی اسے تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ یہ حقیقت سے انکار کرنے کے مترادف ہے۔ میرے نزدیک اچھا برا جو بھی ہوا، اُسے بھول کر آگے بڑھا جائے۔''
کیا پاکستان کے مانند ہندوستان میں بھی آرٹس کے مضامین اور زبانیں اپنی معاشی حیثیت کھو چکی ہیں؟ اِس سوال کا جواب وہ اثبات میں دیتے ہیں۔ کہنا ہے، کامرس کے مضامین خصوصی اہمیت اختیار کر گئے ہیں، انگریزی زبان ہندی پر غالب آگئی۔ استاد اور طالب علم کے درمیان کبھی احترام کا مضبوط رشتہ ہوا کرتا تھا، مگر عالم گیریت نے اس پر خاصا منفی اثر ڈالا۔
اشیش کے مطابق اِس خطے میں ہڑپا تہذیب کے بعد شروع ہونے والے ویدک دور (1500 تا 600 قبل مسیح) میں تعلیمی نقطۂ نگاہ سے جو کام ہوا، گو اُس پر مذہبی رنگ غالب ہے، مگر وہ قابل تعریف ہے۔ اشوک دور میں مزید بہتری آئی۔
پاکستانی مورخین میں وہ ڈاکٹر مبارک علی اور عائشہ جلال کو سراہتے ہیں۔ ہندوستان میں عرفان حبیب اور ڈاکٹر رُملا تھا پر کا نام لیتے ہیں۔ ان کے نقوش پا کا تعاقب کرنے کی آرزو ہے۔ ان کے مطابق برصغیر میں بائیں بازو کے مورخین نے تاریخ نویسی میں بہت مثبت کردار ادا کیا، جب کہ دائیں بازو والوں نے من پسند واقعات اور شخصیات کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا، جس سے حقائق کو نقصان پہنچا۔
مہادیوی ورما اور ساحر کی شاعری انھیں اچھی لگتی ہے۔ پریم چند کی کہانیوں کے مداح ہیں۔ کے عباس کی فلموں کو سراہتے ہیں۔ ''دوبوند پانی'' بہت پسند ہے۔ امیتابھ بچن کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ کشور کمار کی آواز اچھی لگتی ہے۔ 2003 میں شادی ہوئی۔ زوجہ بھی تدریس سے منسلک ہیں۔ دو بیٹیاں ہیں۔ دونوں میں مطالعے کا شوق منتقل ہوا۔
رائج نصاب ایک اجتماعی زاویے سے تاریخ بیان کرتا ہے۔ اب اگر وہی خطہ تین الگ الگ ریاستوں میں بٹ جائے، تو کیا ماضی کو دیکھنے اور سمجھنے کا نقطۂ نظر بھی بدل جائے گا؟ اور اگر ایسا ہی ہوگا، تو پھر وہ ریاستیں کن وسائل کی بنیاد پر اپنی تاریخ کا نصاب مرتب کریں گی؟
اِن ہی پُرپیچ سوالات نے اشیش رنجن کو تحقیق پر مائل کیا۔ دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ تعلیم سے منسلک یہ صاحب سفر پر نکل پڑے۔ اس سمے ہندوستان، پاکستان اور بنگلادیش میں، انٹرمیڈیٹ کی سطح پر، رائج تاریخ کے نصاب کا تقابلی جائزہ لینے میں جٹے ہیں۔ تھیسس اُن کا قبل از تاریخ سے موجودہ عہد تک کا احاطہ کرتا ہے۔ اِسی سلسلے میں جب پروفیسر صاحب کا پاکستان آنا ہوا، تو اُن کے ساتھ ایک نشست ہوئی۔
اشیش رنجن کے مطابق پاکستان اور ہندوستان دو الگ الگ ملک ضرور ہیں، مختلف نقطۂ نگاہ سے اپنی تاریخ بیان کرتے ہیں، لیکن انھیں ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کا بھی احترام کرنا چاہیے۔ دشمنیاں بھول کر آگے کی سمت بڑھنا چاہیے۔ انھیں شکایت ہے کہ دونوں ہی ملکوں نے، جذبۂ حب الوطنی کے فروغ کے لیے، اپنے نصاب میں ایک دوسرے کو ''ولن'' بنا کر پیش کیا۔ حقائق پر ''نیشنل ازم'' غالب آگیا۔ یہ طریقہ نصاب کی تشکیل میں لازم قرار پایا، مگر اب دھیرے دھیرے ہی سہی، تبدیلی آرہی ہے۔ ''پاکستان اور ہندوستان کے پڑھے لکھے طبقات تبدیلی کے خواہش مند ہیں۔ یہاں آغا خان بورڈ اور لمز کا نصاب بہت بَڑھیا ہے۔ وہاں بھی ایسی مثالیں ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ پاکستانی میڈیا کی کیا رائے ہے، مگر انڈیا کا سنجیدہ میڈیا بھی یہی چاہتا ہے کہ اس سوچ میں تبدیلی آئے۔''
اشیش کے مطابق نصاب میں، اپنے دعویٰ کو حقیقت ثابت کرنے کے لیے من چاہا مواد منتخب کیا جاتا ہے۔ ''ہندوستان میں پاکستان کا پوائنٹ آف ویو چھوڑ دیا گیا۔ پاکستان میں بنگلادیش کا پوائنٹ آف ویو چھوڑ دیا گیا۔ مگر یہ سلسلہ اب ترک ہونا چاہیے۔ بے شک ہم اپنے نظریے سے مکمل طور پر کنارہ کش نہیں ہو سکتے، لیکن اپنا دائرہ تھوڑا وسیع ضرور کرسکتے ہیں۔ اِس میں اساتذہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ وہ طالب علموں کو تحریک دیں کہ چلیں، ہندوستان کا نقطۂ نظر تو ہم نے پڑھ لیا، تھوڑا پاکستان کا نقطۂ نظر بھی سمجھ لیں۔''
اِس موضوع پر بھی انھوں نے تحقیق کہ تاریخ آخر وجود میں کیسے آئی، اور اُسے بہ طور مضمون پڑھاتے ہوئے کیا دقت پیش آتی ہے۔ تحقیق کو کتاب "History, Contest and Challenges" میں سمویا، جو 2009 میں شایع ہوئی۔2011 میں بین الاقوامی ادارے International Baccalaureate Organization کے نصاب کا دو ہندوستانی بورڈز کے نصاب سے موازنہ کیا۔ اُسے کتابی شکل دی۔ ٹیچر ایجوکیشن کے موضوع پر بھی ایک کتاب تحریر کی۔ یہ خیال بھی دامن گیر رہا کہ امیر اور غریب؛ دونوں کے بچوں کو ایک درس گاہ، ایک جماعت میں تو اکٹھا کر دیا گیا ہے، مگر کم زور طبقہ ہنوز بے آواز ہے۔
اُنھیں متحرک کیسے کیا جائے، یہی اُن کی تازہ کتاب "Subaltern Voices of India" کا موضوع ہے۔ اشیش کے بہ قول،''فقط یک ساں تعلیمی نظام کم زور طبقات کو سماج میں شامل کرنے کے لیے کافی نہیں، اُنھیں دیگر سہولیات بھی مہیا کرنی ہوں گی، تاکہ غریب کے بچے کو اسکول کے باہر، سماج میں بھی برابری کا احساس ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ چاہے پاکستان ہو یا ہندوستان، سیاست دانوں کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں ہی میں پڑھائیں، اس سے سرکاری درس گاہوں میں بہتری آئے گی۔''
حالاتِ زندگی کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ اشیش رنجن 24 اکتوبر 1969 کو ہندوستانی ریاست بہار کے شہر پٹنا میں پیدا ہوئے۔ والد، چندر شیکھر شرما معالج تھے۔ چار بہنوں کے اکلوتے بھائی ہیں۔ والد سے دوستانہ روابط رہے۔ کیریر کے چناؤ کی آزادی تھی، جو شعبۂ تدریس کی سمت لائی۔ ابتدائی تعلیم پٹنا سے حاصل کی۔ پھر بنارس کا رخ کیا۔ ساتویں ہی میں خود کو ہاسٹل کی زندگی کا عادی بنالیا۔ میٹرک کے بعد دہلی پہنچے۔ سینٹ اسٹیفنس کالج، دہلی سے 91ء میں گریجویشن کیا۔ تاریخ کے مضمون کا یوں چناؤ کیا کہ بچپن ہی سے قدیم مقبرے اور آثار اپنی سمت کھینچتے آئے تھے۔ 93ء میں ماسٹرز کی سند حاصل کی۔
اب تدریس کی جانب آگئے۔ دہلی کے ایک اسکول سے پیشہ ورانہ سفر کا آغاز کیا۔ مزید پختگی کے لیے 98ء میں بی ایڈ اور 2002 میں ایم ایڈ کی سند حاصل کی۔ 2005 میں دہلی یونیورسٹی کا حصہ بن گئے۔ تدریس کی تاریخ اُن کا موضوع ہے۔ بی ایڈ کے طلبا کو تربیت فراہم کرتے ہیں۔ تاریخ اور تعلیم؛ دونوں مضامین پڑھانے کا تجربہ یک سر مختلف رہا۔ بہ قول اُن کے،''تاریخ پڑھاتے ہوئے طلبا کو صرف Facts کے بارے میں بتایا کرتا تھا، مگر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں آنے کے بعد سوچ بدل گئی۔ سمجھ میں آیا کہ پڑھانا تو ایک کلا ہے۔''
2006 میں تحقیقی سفر شروع کیا۔ ''ہندوستان، پاکستان اور بنگلادیش میں تاریخ کے نصاب کا تقابلی جائزہ'' جیسا پیچیدہ موضوع چنا۔ پروفیسر شام بی مینن اور ڈاکٹر نینا ڈے گپتا اُن کے سپروائزر ہیں۔
حال کا تجزیہ کرنے کے لیے ماضی کا بھی باریک بینی سے جائزہ لیا۔ ایک سبب اس کا تاریخ میں اُن کی بے پناہ دل چسپی بھی تھی۔ اندازہ ہوا کہ اوائل میں یہاں مذہبی درس گاہیں تو تھیں، مگر نصاب اور درجات کا تصور نہیں تھا۔ کہتے ہیں،''برصغیر میں رسمی تعلیم کا آغاز 1801 میں، انگریزوں کی آمد کے بعد ہوا۔ اِس سے قبل فقط بالادست طبقہ ہی اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کا اختیار اور حق رکھتا تھا، عوام کے لیے ایسا کوئی تصور نہیں تھا۔ اُس زمانے میں پنڈت اور مولوی حضرات تدریس کا فریضہ انجام دیا کرتے تھے۔ 'ماس ایجوکیشن' کا تصور انگریزوں کے دور میں آیا۔''
عوام کو تعلیم سے دُور رکھنے کا ایک واضح سبب تھا۔ کہتے ہیں،''تعلیم طاقت کا درجہ رکھتی ہے۔ تو بالادست طبقہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ ہر ایک کے پاس تعلیم ہو، تاکہ اُس کا تسلط قائم رہے۔ برہمن اور کھتریوں نے ایک گرینڈ الائنس بنا لیا، معاشرے کو طبقات میں بانٹ دیا۔''
برصغیر میں مسلمانوں کی آمد بھی اِس سلسلے میں معاون ثابت نہیں ہوئی۔ ''مغلوں کے دور میں فروغ تعلیم کی تھوڑی بہت کوششیں ہوئیں۔ ریاضی، طب اور حکمت کی تعلیم کو اہمیت دی گئی، مگر عوام کے لیے نصاب کی تیاری اور تعلیمی سہولیات کا سلسلہ شروع نہیں ہوسکا۔ انگریز یوں تو سولہویں صدی میں یہاں آگئے تھے، مگر انیسویں صدی کے اوائل میں اُنھوں نے تعلیم کے لیے ایک لاکھ روپے مختص کر دیے۔''
اِس عمل کو، توقع کے عین مطابق بارسوخ طبقوں نے ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا۔ الزام عاید کیا کہ یہ ان کی ثقافت تباہ کرنے کی کوشش ہے۔ اس فکر کو بدلنے کے لیے اشیش رنجن کے بہ قول، لالچ کو بہ طور ہتھیار استعمال کیا گیا۔ ''اُنھوں نے کہا، جو انگریزی تعلیم حاصل کرے گا، اسے سرکاری ملازمت دی جائے گی۔ آغاز میں ہندو اِس جانب متوجہ ہوئے۔ جاگیر داروں کے بچے اسکول جانے لگے۔ اِس ضمن میں راجا رام موہن رائے نے اہم کردار ادا کیا، جنھیں ہم First Modern Man of India بھی کہتے ہیں۔''
یہ تعلیم ہی تھی، جس نے ہندو طبقے کی سوچ تبدیل کی۔ اگلے مرحلے میں مسلمان اِس جانب متوجہ ہوئے۔ کہتے ہیں،''دھیرے دھیرے ہندوؤں میں یہ احساس اجاگر ہونے لگا کہ اگر دشمن کو ہرانا ہے، تو اُس کی زبان سیکھنی پڑے گی۔ گاندھی اور دیگر لیڈروں نے باہر جا کر تعلیم حاصل کی۔ آہستہ آہستہ مسلمان بھی تعلیم کی طرف آنے لگے۔ سرسید احمد خان نے تحریک چلائی۔''
تعلیم نسواں کے تصور کو، اُن کے بہ قول، برصغیر میں بہت دیر میں تسلیم کیا گیا۔ اس معاملے میں مہاراشٹر کی پنڈتا راما بائی کی کوششوں کو سراہتے ہیں۔ کولکتا میں کھلنے والے بیھتون کالج کا بھی تذکرہ کرتے ہیں۔ ''کام تو ہوا، مگر اس کی رفتار سست رہی۔ 47ء میں یہاں خواتین میں 'لٹریسی ریٹ' صرف 8 فی صد تھا۔ یہاں ہمیں 'لٹریسی' اور 'ایجوکیشن' کا فرق سمجھنا ہوگا۔ اُس وقت 'لٹریسی' تو نہیں تھی، مگر لوگوں میں سماجی شعور تھا۔ وہ زندگی گزارنے کا طریقہ جانتے تھے۔ یہ فہم پیڑھی در پیڑھی منتقل ہوتا رہا، مگر رسمی تعلیم عام ہونے کے بعد وہ دھیرے دھیرے ختم ہوگیا۔ میرے نزدیک یہ بہت بڑا نقصان تھا۔''
اُن کی تحقیق کا ایک حصہ پاکستان سے متعلق ہے۔ تو یہاں رائج تاریخ کے نصاب کو کیسا پایا؟ کہتے ہیں،''آپ کے ہاں 2010 کی جو ایجوکیشن پالیسی ہے، اُس میں جمہوری اقدار کے فروغ کی بات کی گئی ہے، مگر اُس کا ابھی اطلاق نہیں کیا گیا۔ 2006 کی پالیسی ہی 'فالو' کی جارہی ہے۔ ویسے تو اُس میں کوئی خاص خامی نہیں، البتہ اُس پر خاصا مذہبی رنگ غالب ہے۔ میرے خیال میں نصاب کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ ریاست کی 'نیچر' کا بھی جائزہ لیں۔ ہندوستان خود کو سیکولر جب کہ پاکستان خود کو تھیوریٹیکل اسٹیٹ قرار دیتا ہے۔ تھیوریٹیکل اسٹیٹ کی مجبوری ہے کہ اس کا نصاب اس کے دعویٰ کو Justify کرے۔''
71ء کے واقعے کو، اُن کی تحقیق کے مطابق، پاکستان اور بنگلادیش کے نصاب میں کس طرح بیان کیا گیا؟ کہتے ہیں،''بنگلادیش کے نصاب میں پاکستان کا بہت منفی امیج ملتا ہے۔ وہ 70 اور 71 کے واقعات کو نسل کشی قرار دیتے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان کے نصاب میں 71ء کا تذکرہ بہت مختصر ہے۔ 'سرینڈر' کا لفظ بھی استعمال نہیں کیا گیا۔ یعنی اسے تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ یہ حقیقت سے انکار کرنے کے مترادف ہے۔ میرے نزدیک اچھا برا جو بھی ہوا، اُسے بھول کر آگے بڑھا جائے۔''
کیا پاکستان کے مانند ہندوستان میں بھی آرٹس کے مضامین اور زبانیں اپنی معاشی حیثیت کھو چکی ہیں؟ اِس سوال کا جواب وہ اثبات میں دیتے ہیں۔ کہنا ہے، کامرس کے مضامین خصوصی اہمیت اختیار کر گئے ہیں، انگریزی زبان ہندی پر غالب آگئی۔ استاد اور طالب علم کے درمیان کبھی احترام کا مضبوط رشتہ ہوا کرتا تھا، مگر عالم گیریت نے اس پر خاصا منفی اثر ڈالا۔
اشیش کے مطابق اِس خطے میں ہڑپا تہذیب کے بعد شروع ہونے والے ویدک دور (1500 تا 600 قبل مسیح) میں تعلیمی نقطۂ نگاہ سے جو کام ہوا، گو اُس پر مذہبی رنگ غالب ہے، مگر وہ قابل تعریف ہے۔ اشوک دور میں مزید بہتری آئی۔
پاکستانی مورخین میں وہ ڈاکٹر مبارک علی اور عائشہ جلال کو سراہتے ہیں۔ ہندوستان میں عرفان حبیب اور ڈاکٹر رُملا تھا پر کا نام لیتے ہیں۔ ان کے نقوش پا کا تعاقب کرنے کی آرزو ہے۔ ان کے مطابق برصغیر میں بائیں بازو کے مورخین نے تاریخ نویسی میں بہت مثبت کردار ادا کیا، جب کہ دائیں بازو والوں نے من پسند واقعات اور شخصیات کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا، جس سے حقائق کو نقصان پہنچا۔
مہادیوی ورما اور ساحر کی شاعری انھیں اچھی لگتی ہے۔ پریم چند کی کہانیوں کے مداح ہیں۔ کے عباس کی فلموں کو سراہتے ہیں۔ ''دوبوند پانی'' بہت پسند ہے۔ امیتابھ بچن کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ کشور کمار کی آواز اچھی لگتی ہے۔ 2003 میں شادی ہوئی۔ زوجہ بھی تدریس سے منسلک ہیں۔ دو بیٹیاں ہیں۔ دونوں میں مطالعے کا شوق منتقل ہوا۔