مسلم لیگ کی منشور کمیٹی
عرفان صدیقی صاحب کی منشور کمیٹی میں اور کون کون شامل ہو گا، یہ ابھی واضح نہیں
سوال کرنے والے بھی خوب تھے لیکن جواب دینے والا استاد ثابت ہوا۔ یہ ذکر سینیٹر عرفان صدیقی صاحب کا ہے۔ اس سوال جواب کی تفصیل پر بھی بات ہوگی لیکن مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس سے قبل تھوڑی بات سوال جواب کی تہذیب کے بارے میں کر لی جائے۔
صحافت کی دنیا میں آنے سے قبل ہم نے اہل صحافت کو دیکھا اور ان سے اس پیشے کے اسرار و رموز سیکھے۔ ان میں ایک ملک محمد معظم بھی ہیں۔ملک صاحب شاہینوں کے شہر یعنی سرگودھا کی رونق ہیں۔
صحافت کا آغاز بھی اسی شہر سے کیا اور اس پیشے کے عروج تک پہنچے۔ پیشہ ورانہ ذمے داریاں انھیں لاہور اور راولپنڈی لے گئی لیکن اپنے شہر سے تعلق توڑ نہ پائے، پلٹ کر وہیں لوٹے جہاں سے چلے تھے۔
ایک بار بتایا کہ سوال کرنے کا اصول یہ ہے کہ کوئی ایسا سوال نہ کیا جائے جس کا جواب آ چکا ہو۔ ملک صاحب کی یاد عرفان صدیقی صاحب سے کیے جانے والے ایک سوال سے آئی۔ پوچھا گیا کہ جیسا میاں نواز شریف جنرل فیض اور جنرل باجوہ کے بارے میں چاہتے ہیں، منشور میں یہ معاملہ کیسے ظاہر ہو گا؟
عرفان صدیقی صاحب نے یہ سوال سنا، مسکرائے اور کہا کہ منشور ٹھوس نظریاتی بنیادوں کے مطابق قابل عمل نکات پر مشتمل ہو گا، افراد کو موضوع نہیں بنائے گا۔ وہ جواب دے چکے تو پھر سوال ہوا کہ پھر ان لوگوں کا احتساب کیسے ہو گا؟ سوال دہرانے کا اصول کیا ہے؟ ملک معظم صاحب نے ایک بار بتایا تھا کہ سوال کا دہرایا جانا بھی دراصل صحافی کی ناقص تربیت اور اس کی پیشہ ورانہ کمزوری کا عکاس ہے۔
خیر، عرفان صاحب سے پوچھے گئے سوالات بر محل تھے یا بے محل، انھوں نے جواب خوب دیے اور پیالی میں طوفان اٹھانے کی خواہش پیالی کی تہہ میں ہی پڑی رہ گئی ہوں۔ یہ ثابت ہو گیا کہ انتخابی منشور کی تیاری کے لیے ان کا انتخاب موزوں ترین ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ کیسے موزوں ہیں، اس کا ایک پیمانہ تو ظاہر ہے منشور کمیٹی کی قیادت سنبھالنے کے بعد ذرایع ابلاغ سے ان کی گفتگو بنی لیکن فی الاصل میں اس معاملے کو تاریخی تناظر میں دیکھ رہا ہوں۔
آئینی اور نظریاتی معاملات کے لیے استاد محترم پروفیسر متین الرحمان مرتضیٰ نے بتایا تھا کہ قائد اعظم نے نہایت پڑھے لکھے، روشن خیال اور جہاندیدہ بزرگوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جو آئین سازی سمیت دیگر اہم امور کے بارے میں اپنا ہوم ورک قیام پاکستان سے بھی پہلے مکمل کر چکی تھی۔ یہ بزرگ کون تھے، فوری طور پر ان میں ایک کا نام ذہن میں آ رہا ہے۔ وہ تھے ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی۔ ایک ایسے عالم اور زیرک مدبر جن کی عظمت کا سکہ آج بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔
میاں نواز شریف ڈھائی تین برس کی جلا وطنی کے بعد وطن واپس لوٹے تو یوں سمجھئے کہ ایک طرح سے انھوں نے نئی سیاسی زندگی کا آغاز کیا ہے۔ وطن واپسی سے قبل مشاورت کے لیے انھوں نے عرفان صدیقی صاحب کو لندن طلب کیا تو حیرت ہوئی۔ ہماری سیاسی روایت تو یہ ہے کہ بڑے سیاسی مواقع پر قیادت دولت مند اور قبیلہ جاتی اثر و رسوخ رکھنے والے لوگوں کو اہمیت دیتی ہے۔ مسلم لیگ کی سیاست کو بھی اس سے استثنا نہیں ہے۔
چیئرمین تحریک انصاف جو غیر روایتی اور غیر وراثتی سیاست کے نعرے کے ساتھ میدان سیاست میں کودے تھے، وہ تو دوسروں سے بڑھ کر اس روایت کے اسیر نکلے اور انھوں نے جس کد و کاوش کے ساتھ الیکٹیبلز کے ہاتھ پر بیعت کی، تاریخ میں ہمیشہ یہ مثال چمکتی دمکتی رہے گی۔
خیر، ذکر میاں نواز شریف کا تھا۔ وطن واپسی کا فیصلہ کرتے ہی انھوں نے پہلے عرفان صاحب کو لندن بلایا پھر واپسی کے سفر کے دوران انھیں ابو ظہبی بلایا، یوں لندن کے بعد یہاں مختصر قیام کے دوران بھی ان سے مشاورت کا سلسلہ جاری رہا۔ اب وطن واپسی کے بعد کھلا کہ وہ عرفان صدیقی سے کیا کام لینا چاہتے ہیں۔
مسلم لیگ کے منشور کے بارے میں صحافیوں کے سوال جواب کا سلسلہ تو چلتا رہے گا اور عرفان صدیقی انھیں جواب دے کر یا ٹال کر آگے بڑھتے رہیں گے۔
سوال یہ ہے کہ اپنی سیاسی زندگی کے اس اہم ترین معرکے کے موقع پر مسلم لیگ کا منشور کیسا ہو گا؟ اس سوال کا ایک جواب تو میاں نواز شریف نے اپنے مینار پاکستان کے جلسے میں فراہم کر دیا ہے کہ ان کے دل میں کوئی کدورت ہے اور نہ غصہ، ان کی کوئی آرزو ہے تو فقط یہ کہ ان کی قوم خوش حال ہو جائے۔
ترجیحات کے اعتبار سے میاں صاحب کے بیان کردہ نکات کی روشنی میں کوئی بھی پڑھا لکھا شخص منشور کے عنوان سے ایک دستاویز تیار کر سکتا ہے لیکن سوال پھر یہی ہے کہ عرفان صدیقی کیوں؟ میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس سوال کا جواب ہم نے پا لیا تو سمجھئے کہ میاں نواز شریف کی مستقبل کی سیاسی حکمت عملی اور ان کے عزائم سمجھنے میں بھی کامیاب ہو جائیں گے جنھیں وہ اپنے سینے میں چھپائے جبری جلاوطنی کے خاتمے کے بعد واپس وطن لوٹے ہیں۔
یہ پہلی بار ہے کہ مسلم لیگ ن جیسی جماعت نے منشور کی تیاری کے لیے اس کلاس کو ترجیح دینے کے بجائے ورکنگ کلاس کے ایک دانش ور کو یہ ذمے داری سونپی ہے۔
منشور جیسی اہم دستاویز کی تیاری کے لیے عرفان صدیقی صاحب کا انتخاب یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے اس سیاسی دور کا آغاز نہ ٹیکنوکریٹس کی تصوراتی خواہشات سے کرنا چاہتے ہیں جن پر عمل درآمد ممکن نہ ہو اور نہ وہ سیاسی اشرافیہ کے سپرد یہ ذمے داری کرنا چاہتے ہیں جو عام طور پر اپنے طبقے کو ہمیشہ ترجیح دیتی ہے۔
عرفان صدیقی صاحب کے سپرد یہ ذمے داری کر کے میاں صاحب نے قوم کو یہ پیغام دیا ہے کہ ان کی جماعت انتخابات میں کامیابی کے بعد ایک ایسے پروگرام کو عملی جامہ پہنانا چاہتی ہے جو عوام کی اکثریت یعنی مڈل کلاس، لوئر مڈل کلاس اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے لوگوں کی قسمت بدل سکے۔ اس مقصد کے لیے عرفان صدیقی جیسی شخصیت سے زیادہ مناسب کوئی نہیں تھا جو زندگی کے تمام تر تلخ و شیریں تجربات سے گزر کر اس مقام تک پہنچے ہیں اور انھوں نے اپنی اصل سے آج بھی ناتا نہیں توڑا۔
عرفان صدیقی صاحب کی منشور کمیٹی میں اور کون کون شامل ہو گا، یہ ابھی واضح نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ جس کسی سے بھی یہ خدمت لینی چاہیں گے، وہ خوشی کے ساتھ ان کا ہاتھ بٹائے گا لیکن میری خواہش ہے کہ وہ اپنی جماعت کے ان طبقات تک بھی پہنچیں جن کا تعلق خود ان کے طبقے سے ہے اور وہ سیاست کے سرد و گرم جھیل کر آج بھی پورے قد سے کھڑے ہیں جیسے احسن اقبال ، پرویز رشید۔ نوجوان قیادت میں مریم اورنگ زیب صاحبہ خاص اہمیت کی حامل ہیں جنھوں نے گزشتہ چند برسوں کے دوران میں نہایت بہادری اور دانش مندی کے ساتھ عوام تک پارٹی کا پیغام پہنچایا۔
اسی طرح مصدق ملک نے اپنی دانش مندی سے پارٹی میں اپنی اہمیت ثابت کی ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ نمایاں اور معروف لوگوں پر تو عام طور پر نگاہ پڑ ہی جاتی ہے لیکن خوبی یہ ہے کہ وہ ان لوگوں تک بھی پہنچیں جو کہنی مار کر جگہ بنانے کے فن سے آگاہ نہیں۔
میرے خیال میں ایسے لوگ ہی عرفان صاحب کے مزاج کے قریب بھی ہو سکتے ہیں اور کار آمد بھی۔ فوری طور پر ایک ایسے ہی مسلم لیگی کارکن کا نام ذہن میں آتا ہے جن کی فکری پختگی اور سیاسی دانش نے ایم آر ڈی اور بعد میں بننے والے اتحادوں کے زمانے میں نواب زادہ نصراللہ خان اور بے نظیر بھٹو جیسی شخصیات کو متاثر کیا۔
یہ سبب تھا کہ نواب زادہ صاحب ان اتحادوں کی بنیادی دستاویزات، اہم اعلامیے اور قراردادیں اکثر ان ہی سے لکھوایا کرتے تھے۔ یہ ہیں ناصر الدین محمود۔ مسلم لیگ ن کراچی ڈویژن کے جنرل سیکریٹری۔ خیر، یہ تذکرہ طویل ہو گیا۔ منشور سازی کا کام اب عرفان صدیقی صاحب کے ہاتھ میں آ گیا ہے، اس لیے یقین رکھنا چاہیے کہ بہت کچھ اچھا ہو جائے گا اور ن لیگ کو موقع میسر آ گیا تو اس خاکے میں یقینا رنگ بھی بھرا جائے گا۔
صحافت کی دنیا میں آنے سے قبل ہم نے اہل صحافت کو دیکھا اور ان سے اس پیشے کے اسرار و رموز سیکھے۔ ان میں ایک ملک محمد معظم بھی ہیں۔ملک صاحب شاہینوں کے شہر یعنی سرگودھا کی رونق ہیں۔
صحافت کا آغاز بھی اسی شہر سے کیا اور اس پیشے کے عروج تک پہنچے۔ پیشہ ورانہ ذمے داریاں انھیں لاہور اور راولپنڈی لے گئی لیکن اپنے شہر سے تعلق توڑ نہ پائے، پلٹ کر وہیں لوٹے جہاں سے چلے تھے۔
ایک بار بتایا کہ سوال کرنے کا اصول یہ ہے کہ کوئی ایسا سوال نہ کیا جائے جس کا جواب آ چکا ہو۔ ملک صاحب کی یاد عرفان صدیقی صاحب سے کیے جانے والے ایک سوال سے آئی۔ پوچھا گیا کہ جیسا میاں نواز شریف جنرل فیض اور جنرل باجوہ کے بارے میں چاہتے ہیں، منشور میں یہ معاملہ کیسے ظاہر ہو گا؟
عرفان صدیقی صاحب نے یہ سوال سنا، مسکرائے اور کہا کہ منشور ٹھوس نظریاتی بنیادوں کے مطابق قابل عمل نکات پر مشتمل ہو گا، افراد کو موضوع نہیں بنائے گا۔ وہ جواب دے چکے تو پھر سوال ہوا کہ پھر ان لوگوں کا احتساب کیسے ہو گا؟ سوال دہرانے کا اصول کیا ہے؟ ملک معظم صاحب نے ایک بار بتایا تھا کہ سوال کا دہرایا جانا بھی دراصل صحافی کی ناقص تربیت اور اس کی پیشہ ورانہ کمزوری کا عکاس ہے۔
خیر، عرفان صاحب سے پوچھے گئے سوالات بر محل تھے یا بے محل، انھوں نے جواب خوب دیے اور پیالی میں طوفان اٹھانے کی خواہش پیالی کی تہہ میں ہی پڑی رہ گئی ہوں۔ یہ ثابت ہو گیا کہ انتخابی منشور کی تیاری کے لیے ان کا انتخاب موزوں ترین ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ کیسے موزوں ہیں، اس کا ایک پیمانہ تو ظاہر ہے منشور کمیٹی کی قیادت سنبھالنے کے بعد ذرایع ابلاغ سے ان کی گفتگو بنی لیکن فی الاصل میں اس معاملے کو تاریخی تناظر میں دیکھ رہا ہوں۔
آئینی اور نظریاتی معاملات کے لیے استاد محترم پروفیسر متین الرحمان مرتضیٰ نے بتایا تھا کہ قائد اعظم نے نہایت پڑھے لکھے، روشن خیال اور جہاندیدہ بزرگوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جو آئین سازی سمیت دیگر اہم امور کے بارے میں اپنا ہوم ورک قیام پاکستان سے بھی پہلے مکمل کر چکی تھی۔ یہ بزرگ کون تھے، فوری طور پر ان میں ایک کا نام ذہن میں آ رہا ہے۔ وہ تھے ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی۔ ایک ایسے عالم اور زیرک مدبر جن کی عظمت کا سکہ آج بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔
میاں نواز شریف ڈھائی تین برس کی جلا وطنی کے بعد وطن واپس لوٹے تو یوں سمجھئے کہ ایک طرح سے انھوں نے نئی سیاسی زندگی کا آغاز کیا ہے۔ وطن واپسی سے قبل مشاورت کے لیے انھوں نے عرفان صدیقی صاحب کو لندن طلب کیا تو حیرت ہوئی۔ ہماری سیاسی روایت تو یہ ہے کہ بڑے سیاسی مواقع پر قیادت دولت مند اور قبیلہ جاتی اثر و رسوخ رکھنے والے لوگوں کو اہمیت دیتی ہے۔ مسلم لیگ کی سیاست کو بھی اس سے استثنا نہیں ہے۔
چیئرمین تحریک انصاف جو غیر روایتی اور غیر وراثتی سیاست کے نعرے کے ساتھ میدان سیاست میں کودے تھے، وہ تو دوسروں سے بڑھ کر اس روایت کے اسیر نکلے اور انھوں نے جس کد و کاوش کے ساتھ الیکٹیبلز کے ہاتھ پر بیعت کی، تاریخ میں ہمیشہ یہ مثال چمکتی دمکتی رہے گی۔
خیر، ذکر میاں نواز شریف کا تھا۔ وطن واپسی کا فیصلہ کرتے ہی انھوں نے پہلے عرفان صاحب کو لندن بلایا پھر واپسی کے سفر کے دوران انھیں ابو ظہبی بلایا، یوں لندن کے بعد یہاں مختصر قیام کے دوران بھی ان سے مشاورت کا سلسلہ جاری رہا۔ اب وطن واپسی کے بعد کھلا کہ وہ عرفان صدیقی سے کیا کام لینا چاہتے ہیں۔
مسلم لیگ کے منشور کے بارے میں صحافیوں کے سوال جواب کا سلسلہ تو چلتا رہے گا اور عرفان صدیقی انھیں جواب دے کر یا ٹال کر آگے بڑھتے رہیں گے۔
سوال یہ ہے کہ اپنی سیاسی زندگی کے اس اہم ترین معرکے کے موقع پر مسلم لیگ کا منشور کیسا ہو گا؟ اس سوال کا ایک جواب تو میاں نواز شریف نے اپنے مینار پاکستان کے جلسے میں فراہم کر دیا ہے کہ ان کے دل میں کوئی کدورت ہے اور نہ غصہ، ان کی کوئی آرزو ہے تو فقط یہ کہ ان کی قوم خوش حال ہو جائے۔
ترجیحات کے اعتبار سے میاں صاحب کے بیان کردہ نکات کی روشنی میں کوئی بھی پڑھا لکھا شخص منشور کے عنوان سے ایک دستاویز تیار کر سکتا ہے لیکن سوال پھر یہی ہے کہ عرفان صدیقی کیوں؟ میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس سوال کا جواب ہم نے پا لیا تو سمجھئے کہ میاں نواز شریف کی مستقبل کی سیاسی حکمت عملی اور ان کے عزائم سمجھنے میں بھی کامیاب ہو جائیں گے جنھیں وہ اپنے سینے میں چھپائے جبری جلاوطنی کے خاتمے کے بعد واپس وطن لوٹے ہیں۔
یہ پہلی بار ہے کہ مسلم لیگ ن جیسی جماعت نے منشور کی تیاری کے لیے اس کلاس کو ترجیح دینے کے بجائے ورکنگ کلاس کے ایک دانش ور کو یہ ذمے داری سونپی ہے۔
منشور جیسی اہم دستاویز کی تیاری کے لیے عرفان صدیقی صاحب کا انتخاب یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے اس سیاسی دور کا آغاز نہ ٹیکنوکریٹس کی تصوراتی خواہشات سے کرنا چاہتے ہیں جن پر عمل درآمد ممکن نہ ہو اور نہ وہ سیاسی اشرافیہ کے سپرد یہ ذمے داری کرنا چاہتے ہیں جو عام طور پر اپنے طبقے کو ہمیشہ ترجیح دیتی ہے۔
عرفان صدیقی صاحب کے سپرد یہ ذمے داری کر کے میاں صاحب نے قوم کو یہ پیغام دیا ہے کہ ان کی جماعت انتخابات میں کامیابی کے بعد ایک ایسے پروگرام کو عملی جامہ پہنانا چاہتی ہے جو عوام کی اکثریت یعنی مڈل کلاس، لوئر مڈل کلاس اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے لوگوں کی قسمت بدل سکے۔ اس مقصد کے لیے عرفان صدیقی جیسی شخصیت سے زیادہ مناسب کوئی نہیں تھا جو زندگی کے تمام تر تلخ و شیریں تجربات سے گزر کر اس مقام تک پہنچے ہیں اور انھوں نے اپنی اصل سے آج بھی ناتا نہیں توڑا۔
عرفان صدیقی صاحب کی منشور کمیٹی میں اور کون کون شامل ہو گا، یہ ابھی واضح نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ جس کسی سے بھی یہ خدمت لینی چاہیں گے، وہ خوشی کے ساتھ ان کا ہاتھ بٹائے گا لیکن میری خواہش ہے کہ وہ اپنی جماعت کے ان طبقات تک بھی پہنچیں جن کا تعلق خود ان کے طبقے سے ہے اور وہ سیاست کے سرد و گرم جھیل کر آج بھی پورے قد سے کھڑے ہیں جیسے احسن اقبال ، پرویز رشید۔ نوجوان قیادت میں مریم اورنگ زیب صاحبہ خاص اہمیت کی حامل ہیں جنھوں نے گزشتہ چند برسوں کے دوران میں نہایت بہادری اور دانش مندی کے ساتھ عوام تک پارٹی کا پیغام پہنچایا۔
اسی طرح مصدق ملک نے اپنی دانش مندی سے پارٹی میں اپنی اہمیت ثابت کی ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ نمایاں اور معروف لوگوں پر تو عام طور پر نگاہ پڑ ہی جاتی ہے لیکن خوبی یہ ہے کہ وہ ان لوگوں تک بھی پہنچیں جو کہنی مار کر جگہ بنانے کے فن سے آگاہ نہیں۔
میرے خیال میں ایسے لوگ ہی عرفان صاحب کے مزاج کے قریب بھی ہو سکتے ہیں اور کار آمد بھی۔ فوری طور پر ایک ایسے ہی مسلم لیگی کارکن کا نام ذہن میں آتا ہے جن کی فکری پختگی اور سیاسی دانش نے ایم آر ڈی اور بعد میں بننے والے اتحادوں کے زمانے میں نواب زادہ نصراللہ خان اور بے نظیر بھٹو جیسی شخصیات کو متاثر کیا۔
یہ سبب تھا کہ نواب زادہ صاحب ان اتحادوں کی بنیادی دستاویزات، اہم اعلامیے اور قراردادیں اکثر ان ہی سے لکھوایا کرتے تھے۔ یہ ہیں ناصر الدین محمود۔ مسلم لیگ ن کراچی ڈویژن کے جنرل سیکریٹری۔ خیر، یہ تذکرہ طویل ہو گیا۔ منشور سازی کا کام اب عرفان صدیقی صاحب کے ہاتھ میں آ گیا ہے، اس لیے یقین رکھنا چاہیے کہ بہت کچھ اچھا ہو جائے گا اور ن لیگ کو موقع میسر آ گیا تو اس خاکے میں یقینا رنگ بھی بھرا جائے گا۔