عام انتخابات 2024ء محروم طبقات کی شمولیت یقینی بنانا ہوگی

شرکاء کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال


فوٹو : وسیم نیاز

8 فروری کو ملک میں عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں، ایسے میں سب سے اہم یہ ہے کہ معاشرے میں موجود تمام طبقات کی انتخابی عمل میں شمولیت یقینی بنائی جائے تاکہ کوئی بھی شہری اپنے بنیادی انسانی حق سے محروم نہ رہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں سوا کروڑ کے قریب خواتین کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کے ووٹ کا اندراج نہیں ہوسکا جبکہ خواجہ سراء و دیگر طبقات بھی مسائل کا شکار ہیں۔

اس صورتحال کے پیش نظر ''ایکسپریس فورم'' میں ''محروم طبقات کی انتخابی عمل میں شمولیت'' کے موضوع پر خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں الیکشن کمیشن، اکیڈیمیا اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

شبیر خان

(ڈپٹی ڈائریکٹرالیکشن کمیشن پنجاب)

صاف، شفاف، غیرجانبدار اور شراکتدار انتخابات ہمارا مشن بھی ہے اور ذمہ داری بھی جسے ہم بخوبی نبھانے کیلئے کام کر رہے ہیں۔ ہر صوبائی ہیڈ کوارٹر میں 2016ء سے صنفی و سماجی شراکتداری کا ونگ موجود ہے جو خواتین، خواجہ سرائ، خصوصی افراد، مذہبی اقلیتوں سمیت تمام محروم طبقات کی انتخابی عمل میں شمولیت یقینی بنا رہا ہے۔

انتخابات میں تمام طبقات کی شمولیت یقینی بنانے کیلئے الیکشن کمیشن ہر ممکن اقدامات کر رہا ہے۔ الیکشن ایکٹ 2017 ء کے مطابق جس حلقے میں 10 فیصد سے کم خواتین ووٹ کاسٹ کریں وہاں الیکشن کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔

اس حوالے سے سوات کے ایک حلقے میں الیکشن کالعدم قرار دیا جا چکا ہے۔ اسی طرح ایکٹ کے مطابق تمام سیاسی جماعتیں خواتین امیدواروں کو 5 فیصد ٹکٹ دینے کی پابند ہیں، یہ قانون مخصوص نشستوں کیلئے نہیں بلکہ جنرل سیٹوں کیلئے ہے۔

الیکشن کمیشن نے اپنے ادارے میں خواتین اور محروم طبقات کو شامل کیا۔ 29 خصوصی افراد ، 64 اقلیتی افراد اور 150 سے زائد خواتین الیکشن کمیشن میں کام کر رہی ہیں۔ ادارے میں ہراسمنٹ کمیٹیاں، ڈے کیئر سینٹرز و دیگر سہولیات موجود ہیں۔

خواتین، خصوصی افراد اور خواجہ سراء کی کم ووٹر رجسٹریشن کے حوالے سے الیکشن کمیشن نے سروے کرایا جس میں سامنے آیا کہ سماجی و ثقافتی وجوہات کے ساتھ ساتھ ووٹ کے عدم اندراج کی ایک بڑی وجہ شناختی کا رڈ کا نہ ہونا ہے لہٰذا ا ن کی ووٹر رجسٹریشن بڑھانے اورووٹر لسٹ میں جینڈر گیپ کم کرنے کیلئے خصوصی اقدامات کیے گئے۔

2017ء میں 116 اضلاع جہاں جینڈر گیپ 10 فیصد سے زائد تھا، وہاں خواتین کے ووٹ کی رجسٹریشن مہم شروع کی گئی۔

2018ء میں 21 ملین نئے ووٹرز کو شامل کیا گیا جن میں 11 ملین خواتین تھی،ا س طرح جینڈر گیپ 12.7 ملین سے کم ہو کر 10 ملین پر آگیا۔ پنجاب میں 13.84 ملین ووٹرز شامل ہوئے جن میں سے 7.55 ملین خواتین تھی، اس کے بعد پنجاب میں جینڈر گیپ 7 فیصد پر آگیا۔

سول سوسائٹی ملکی مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ الیکشن کمیشن سول سوسائٹی و دیگر اداروں کے ساتھ مل کر ووٹر رجسٹریشن و آگاہی مہم چلا رہا ہے۔ ہم نے 2016 ء میں40 سے زائد قومی و بین الاقوامی این جی اوز پر مشتمل 'جینڈر اینڈ ڈس ایبیلٹی ورکنگ گروپ' کا آغاز کیا جوخواتین، خواجہ سرائ، خصوصی افراد اور اقلیتوں کی انتخابی عمل میں شمولیت کیلئے کام کر رہا ہے۔ووٹر کی آگاہی کیلئے بھی ان کا کردار اہم ہے ۔

ضلعی سطح پر ووٹر ایجوکیشن کمیٹیاں بنائی گئی ہیں، اس میں سول سوسائٹی بھی آن بورڈ ہے۔ تمام پولنگ سٹیشنز خواتین، خصوصی افراد و دیگر ووٹرز کو مدنظر رکھ کر بنائے جاتے ہیں۔ حاملہ خواتین، خصوصی افراد، خواجہ سراء سمیت بڑی عمر کے ووٹرز کو بھی سہولیات دی جاتی ہیں۔ تمام پولنگ سٹیشنز کو قابل رسائی بنایا جاتا ہے، خصوصی افراد کو پوسٹل بیلٹ کی سہولت بھی دی جاتی ہے۔

خواتین کیلئے الگ پولنگ سٹیشنز اور بوتھ بنائے جاتے ہیں اور پریزائڈنگ افسر و عملہ بھی خواتین پر مشتمل ہوتا ہے۔تمام طبقات کو مدنظر رکھتے ہوئے عملے کی تربیت کی جاتی ہے، مسائل پر نظر رکھنے کیلئے مانیٹرنگ ٹیمیں موجود ہیں، جہاں مسئلہ ہو وہاں بروقت ایکشن بھی لیا جاتا ہے۔ لوگوں کو آگاہی دینے اور سوک ایجوکیشن کے لیے بھی الیکشن کمیشن نے کافی کام کیا ہے اور کر رہا ہے۔ 2021ء سے اب تک ہم نے 3 ہزار سے زائد آگاہی سیشنز اور پروگرامز منعقد کروائے ہیں جن میں سٹوڈنٹ ووٹر آگاہی سیشن، میڈیا پروگرامز ودیگر شامل ہیں۔

ووٹرز کی رہنمائی اور آگاہی کیلئے میڈیا و سوشل میڈیا پر بھی مہم چلائی جاتی ہے۔لوگ 8300 پر اپنا شناختی کارڈ نمبر بھیج کر اپنے ووٹ کی مکمل معلومات لے سکتے ہیں۔ ہمارا سسٹم دنیا کا بہترین سسٹم ہے،اس پر الیکشن کمیشن کو ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔

آئندہ الیکشن میں 127 ملین ووٹرز کیلئے 1.7 ملین سٹاف درکار ہوگا۔ اس حوالے سے کام جاری ہے۔ نوجوان، خواتین سمیت معاشرے کے تمام طبقات ووٹ کا حق استعمال کریں، الیکشن کمیشن ہر طرح آپ کے ساتھ ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر عظمیٰ عاشق

(سربراہ سوشل ورک ڈیپارٹمنٹ جامعہ پنجاب )

کسی بھی ملک کی ہائر ایجوکیشن کی یوتھ ٹرینڈ سیٹر ہوتی ہے مگر ہمارے ہاں یوتھ بے راہ روی کا شکار ہے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے لوگوں کے پاس انفارمیشن تو موجود ہے لیکن صرف انفارمیشن کا ہونا کافی نہیں ہے بلکہ اس کی روشنی میں عمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ خواتین کی بات کریں تو انہیں ووٹ کے حوالے سے درست آگاہی نہیں ہے۔

خواتین کی ایک بڑی تعداد کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے جڑے مالی فائدے کی وجہ سے بے شمار خواتین نے اپنے شناختی کارڈ بنوائے لہٰذا اگر خواتین کو ان کے ووٹ سے جڑے فوائد کے بارے میں آگاہی دی جائے تو ووٹر رجسٹریشن میں اضافہ ہوگا۔ اس ضمن میں میڈیا، سوشل میڈیا اور سول سوسائٹی کو آن بورڈ لے کر بڑے پیمانے پر آگہی مہم چلائی جائے۔

جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں خواتین کو 33 فیصد کوٹہ دیا گیا، میں اس ریسرچ ٹیم کا حصہ رہی۔ اس وقت کہا جاتا تھا کہ خواتین کو تحفہ دیا گیا، سوال یہ ہے کہ تحفہ کیوں،حق کیوں نہیں؟ ہمیں اس سوچ کو بدلنا ہوگا۔ ہمارا المیہ ہے کہ سماجی و ثقافتی مسائل کی وجہ سے خواتین کو آج تک ان کا جائز حق نہیں مل سکا اور نہ ہی حکومت کے مختص کردہ کوٹہ پر صحیح معنوں میں عملدرآمد ہوا۔ افسوس ہے کہ گھروں میں بھی خواتین فیصلہ سازی میں شامل نہیں، یہی رویہ معاشرے میں پھیلتا ہے اور مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

اسی طرح خواجہ سراء و دیگر طبقات بھی نظر انداز ہو رہے ہیں۔ انہیں بنیادی انسانی حقوق بھی حاصل نہیں ہیں۔ اب انتخابات قریب ہیں لہٰذا تمام محروم طبقات کو انتخابی عمل کا حصہ بنانا ہوگا۔ ہمیں معاشرے میں مثبت رویوں کو فروغ دینا ہے۔

اس کیلئے لوگوں کو آگاہی دی جائے، انہیں ووٹ کے لیے راضی کیا جائے اور ووٹ کی آزادی کے حوالے سے خاندان کی بھی تربیت کی جائے۔ ہمارے ملک کی بڑی آبادی خواتین پر مشتمل ہے، اگر انہیں ووٹ کا حق نہ دیا گیا، اہمیت نہ دی گئی تو ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ میری رائے ہے کہ ارلی سے ہائر ایجوکیشن تک، سوک ایجوکیشن، ووٹ اور شناختی کارڈ کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے اور طلبہ کو ذمہ دار شہری بنایا جائے۔ ہمیں آگاہی مہم میں کمیونٹی کو شامل کرنا چاہیے، پرسنیلٹی گرومنگ پر توجہ دینی چاہیے، رسمی و غیر رسمی برین سٹارمنگ سیشنز منعقد کرنے چاہئیں۔ لوگوں کو آگاہی دینے کیلئے مساجد سے بھی تربیت دینی چاہیے، اسکے اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔

آمنہ افضل

(نمائندہ سول سوسائٹی)

آئین پاکستان 18 برس کے ہر شہری کو ووٹ کا حق دیتا ہے مگر بدقسمتی سے اس وقت ملک میں ایک کروڑ 20 لاکھ خواتین جبکہ پنجاب میں 65 لاکھ خواتین کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کے ووٹ کا اندراج نہیں ہوسکا۔

ہم نے ننکانہ صاحب میں جینڈر گیپ ختم کرنے کیلئے 23 ہزار خواتین کے شناختی کارڈ بنوائے ہیں، ان میں 90 برس کی خاتون بھی شامل ہے۔ شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے خواتین تعلیم، صحت، وراثت، بینک اکاؤنٹ، حکومتی سکیموں سمیت 23 مختلف سہولیات و حقوق سے محروم ہیں۔ 2018 میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 50 فیصد رہا۔ 4 کروڑ65 لاکھ خواتین رجسٹرڈ ووٹرز میں سے 2 کروڑ 16 لاکھ خواتین نے ووٹ کاسٹ کیا۔

اتنی بڑی تعدا دمیں خواتین کا ووٹ نہ کرنا سوالیہ نشان ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ انہیں ووٹ کاسٹ کرنے میں بڑے مسائل درپیش ہیں۔ فافن کی 2018ء کی رپورٹ کے مطابق لاہور کے 37 پولنگ سٹیشنز پر خواتین ووٹرز کی تعداد انتہائی کم رہی، ہم نے مختلف اداروں کے ساتھ مل کر ان علاقوں میں خواتین کی کپیسٹی بلڈنگ کی، اس وقت لاہور میں مرد و خواتین رجسٹرڈ ووٹرز میں فرق 11 لاکھ سے کم ہوکر 5 لاکھ رہ گیا ہے جو حوصلہ افزاء ہے۔

سال 2021ء پنجاب کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن کی جینڈر پیرٹی رپورٹ کے مطابق خواتین کے شناختی کارڈ بنوانے کی شرح میں 38 فیصد اضافہ ہوا۔ خواجہ سراء کی بات کریں تو اس رپورٹ کے مطابق 67 شناختی کارڈ بنے جبکہ 18 ہزار 632 خصوصی خواتین کے خصوصی افراد لوگو والے شناختی کارڈ بنے۔ الیکشن ایکٹ 2017 ء میں خواتین کو انتخابی عمل میں شامل کرنے کیلئے خصوصی اقدامات کیے گئے ہیں۔

سیکشن 47 کے تحت الیکشن کمیشن پابند ہے کہ خواتین کے ووٹ رجسٹر کروانے میں خصوصی اقدامات کرے۔ سیکشن 170(A) کے مطابق الیکشن میں کسی کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روکا جاسکتا۔ سیکشن 206 کے مطابق الیکشن میں ہر سیاسی جماعت کو 5 فیصد ٹکٹ خواتین کو دینے کا پابند کیا گیا، اسی طرح سیکشن 9 کے مطابق جن حلقوں میں 10 فیصد سے کم خواتین کے ووٹ کاسٹ ہونگے، وہاں الیکشن کالعدم قرار دیا جائے گا۔

یہ یقینا بڑے اقدامات ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ شناختی کارڈ بنوانے کیلئے خونی رشتے کو ساتھ لانا پڑتا ہے۔ اس کیلئے بائیو میٹرک تصدیق آن لائن ہونی چاہیے یا پھر قریبی نادرا سینٹر میں ایسی سہولت دینی چاہیے کہ جس علاقے میں خونی رشتہ رہتا ہو وہ وہاں جا کر تصدیق کروالے اور ڈیٹا شیئر کر لیا جائے تاکہ خواتین آسانی سے شناختی کارڈ بنوا سکیں۔ تمام پولنگ سٹیشنز کو خواتین بشمول خصوصی افراد کیلئے قابل رسائی بنایا جائے۔

تمام سیاسی جماعتی الیکشن سے پہلے اپنے باقاعدہ منشور شیئر کریں اور اس میں خواتین کی 50 فیصد نشستیں یقینی بنائیں۔ سیاسی جماعتوں سے مطالبہ ہے کہ صرف الیکشن کے بجائے پورا سال ووٹر رجسٹریشن کو اپنے منشور کا حصہ بنائیں، میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کی سطح پر ووٹ اور شناختی کارڈ کی اہمیت کو نصاب میں شامل کیا جائے تاکہ طلبہ میں اس کا رجحان پیدا ہوسکے۔ پیدائش کے وقت بچے کی پیدائش کا اندراج لازمی کروانے پر زور دیا جائے، نادرا کو ہسپتالوں سے لنک کیا جائے اور آن لائن درخواست کا طریقہ کار وضع کیا جائے۔

فیلڈ سٹاف کی تربیت بھی کروائی جائے تاکہ لوگوں کو بار بار نادرا کا چکر نہ لگانا پڑے۔ شناختی کارڈ اور ووٹر رجسٹریشن پر آگاہی سیمینارز اور سیشنز منعقد کیے جائیں اور سوشل میڈیا پر مہم بھی چلائی جائے۔ ہماری 64فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جو سوشل میڈیا پر کافی متحرک ہے، انہیں اس میں شامل کیا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔