زرداری صاحب سے مشورہ کریں
وزیراعظم اگر اس وقت کوئی ٹھوس فیصلہ نہیں کرپا رہے تو پھر انھیں اپنے چھوٹے بھائی آصف علی زرداری سے مشورہ کر لینا چاہیے
ہمیں بہر حال آصف علی زرداری کو داد دینی ہوگی' یہ میاں نواز شریف کے مقابلے میں سیاسی لحاظ سے زیادہ بالغ ثابت ہوئے ہیں' یہ اقتدار کے شروع میں جان گئے تھے' یہ امریکا' فوج اور اپوزیشن سے لڑ کر حکومت نہیں کر سکیں گے چنانچہ انھوں نے تینوں کو نہ صرف اقتدار میں شیئر ہولڈر بنا لیا بلکہ انھوں نے پورے پانچ سال انھیں الجھائے بھی رکھا' امریکا اس خطے کا سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر ہے' یہ شاید پاکستان کے ایٹم بم' افغانستان کے طالبان' ایران کی سخت پالیسیوں' بھارت کی مارکیٹ اور چین کی معاشی طاقت کی وجہ سے ہمیشہ اس خطے کا سٹیک ہولڈر رہے گا۔
صدر زرداری یہ سمجھ گئے چنانچہ انھوں نے امریکا کو پانچ سال انگیج رکھا' امریکی آتے تھے تو یہ انھیں کبھی جی ایچ کیو بھجوا دیتے تھے' کبھی آئی ایس آئی کے حوالے کر دیتے تھے' کبھی طالبان کی طرف روانہ کر دیتے تھے اور کبھی میاں نواز شریف' مولانا فضل الرحمن اور مذہبی جماعتوں کی طرف روانہ کر دیتے تھے' امریکی پانچ سال ایک دفتر سے دوسرے دفتر اور ایک شخص سے دوسرے شخص کے درمیان گھومتے رہے' صدر زرداری یہ بھی جان گئے' فوج بھی اقتدار کی بڑی سٹیک ہولڈر ہے' ہم اسے فیصلہ سازی سے باہر رکھ کرحکومت نہیں کر سکیں گے چنانچہ یہ فوج کی ہر بات مانتے رہے یہاں تک کہ جب جنرل کیانی نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کا مشورہ دیا تو صدر نے یہ مشورہ بھی مان لیا۔
صدر نے جنرل کیانی کی مدت ملازمت میں بھی تین سال اضافہ کر دیا' آصف علی زرداری کے دور میں ڈی جی آئی ایس آئی نے پارلیمنٹ کو بریفنگ تک دی اور صدر ایبٹ آباد کے امریکی آپریشن کے بعد بھی خاموش رہے' زرداری صاحب کے پانچ برسوں میں کئی ایسے مواقع آئے جب اقتدار اور فوج کے درمیان پیالی اور ہونٹوں کا فاصلہ رہ گیا تھا مگر زرداری صاحب کی ''گنجائش دے دو'' کی پالیسی نے معاملات سنبھال لیے' میمو اسکینڈل کے بعد ایک ایسا وقت بھی آیا جب صدر زرداری اور جنرل کیانی کے درمیان جھگڑا ہو گیا لیکن جب معاملہ بگڑنے لگا تو صدر بیمار ہو گئے اور علاج کے لیے دبئی شفٹ ہو گئے یوں ان کی ''بیماری'' نے معاملات سنبھال لیے۔
صدر زرداری کے دور میں فوج اور آئی ایس آئی ہر معاملے میں آزاد تھی اور صدر زرداری یہ بھی جان گئے تھے' میں نے اگر دوسری سیاسی جماعتوں کو اقتدار میں شریک نہ کیا تو یہ مجھے آرام سے حکومت نہیں کرنے دیں گی چنانچہ زرداری صاحب نے ایم کیو ایم' جے یو آئی (ف) اور اے این پی کو اپنا شریک اقتدار بنالیا جب کہ پاکستان مسلم لیگ ن کو پنجاب دے دیا' پاکستان مسلم لیگ ق اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان خاندانی لڑائی تھی' فیصل صالح حیات اور آصف علی زرداری ایک دوسرے کے ذاتی مخالف تھے لیکن زرداری صاحب نے نہ صرف فیصل صالح حیات کو حکومت میں شامل کر لیا بلکہ چوہدری صاحبان کو بھی اقتدار کے کیک کا بڑا حصہ عنایت کردیا' یہ پانچ سال تک ایم کیو ایم کے ساتھ بھی کھیلتے رہے' ایم کیو ایم آتی رہی' جاتی رہی اور پھر آتی رہی' جاتی رہی مگر زرداری صاحب نے تعلقات کا دھاگہ نہیں ٹوٹنے دیا۔
مولانا فضل الرحمان بھی تمام تر تحفظات کے باوجود پانچ سال زرداری صاحب سے بندھے رہے' صدر آصف علی زرداری کی سیاست صرف یہاں تک محدود نہیں تھی بلکہ یہ پارٹی کے ساتھ بھی کھیلتے رہے' یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ میں پھنسائے رکھا' راجہ پرویز اشرف رینٹل پاور پلانٹس میں کرپشن کے الزامات کے ساتھ وزیراعظم بنے' مخدوم امین فہیم کے پاس وزارت قبول کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں چھوڑا گیا اور پیچھے رہ گئے چھوٹے دھڑے تو ان میں سے ہر دھڑا مستقبل کا وزیراعظم تھا اور یوں زرداری صاحب پانچ سال پورے کر گئے' ملک میں پہلی بار ایک جمہوری حکومت نے اقتدار دوسری جمہوری حکومت کے ہاتھ منتقل کیا اور یہ زرداری صاحب کی کامیابی تھی۔
میاں نواز شریف اس معاملے میں کمزور نکلے' یہ پاکستان پیپلز پارٹی کے مقابلے میں 93 نشستیں زیادہ لے کر ایوان میں پہنچے' میاں صاحب کے پاس ٹیم بھی اچھی ہے' ملک معاشی لحاظ سے بھی ترقی کر رہا ہے' میگا پراجیکٹ شروع ہو چکے ہیں' لوڈ شیڈنگ میں بھی کمی ہو رہی ہے' روزگار اسکیمیں بھی دھڑا دھڑ سامنے آ رہی ہیں' لاء اینڈ آرڈر کی حالت بھی بہتر ہے' ڈرون حملے بھی بند ہیں' طالبان کا زور بھی ٹوٹ رہا ہے اور پاکستان سے مایوس سرمایہ کار بھی واپس آ رہے ہیں چنانچہ اگر دیکھا جائے تو حکومت کی ایک سال کی کارکردگی غیر تسلی بخش نہیں لیکن اس کے باوجود حکومت کے سر پر تلوار لٹک رہی ہے اور ہر دوسرا شخص پوچھ رہا ہے ''کیا میاں صاحب پانچ سال پورے کر لیں گے'' یہ سوال اور یہ تلوار ثابت کرتی ہے' حکومت کی حکمت عملی میں کہیں نہ کہیں کوئی خرابی موجود ہے۔
یہ لوگ اپنے لیے بلاوجہ مسائل پیدا کر رہے ہیں' ان مسائل کی ایک وجہ حکومت کے اندر موجود گروپنگ ہے' چوہدری نثار علی خان اور میاں شہباز شریف فوج کے ساتھ بنا کر رکھنا چاہتے ہیں'ان کا خیال ہے' ہمیں طیب اردگان کی طرح پرفارمنس پر توجہ دینی چاہیے' ہم نے اگر عوام کی حالت بدل لی تو ہم بڑی آسانی سے جنرل پرویز مشرف جیسے لوگوں کا احتساب کر لیں گے جب کہ خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق جیسے لوگ جنرل پرویز مشرف اور ان کے ادارے کو ''مرد کا بچہ'' بنانا چاہتے ہیں' حکومت کے ان دونوں دھڑوں کی چپقلش نے حکومت اور فوج کو آمنے سامنے کھڑا کر دیا' وزیراعظم ابھی یہ آگ نہیں بجھا پائے تھے کہ جیو کا تنازعہ پیدا ہوگیا' جیو کا تنازعہ 18 اپریل کو دی نیوز اور جنگ میں چھپنے والی ایک چھوٹی سی خبر سے شروع ہوا' 17 اپریل کوقومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس تھا۔
اجلاس میں ڈی جی آئی ایس آئی کو ارکان کے سخت سوالوں کا سامنا کرنا پڑا' مخبروں کا کہنا ہے' خواجہ آصف نے اجلاس کی کارروائی حامد میر کو بتائی تھی اور حامد میر نے یہ معلومات جیو کے رپورٹر اعزاز علی سید کو دے دیں' اعزاز سید نے خبر فائل کر دی' جنگ گروپ نے یہ خبر جنگ اور دی نیوز کے ''فرنٹ پیج'' پر نمایاں کر کے شایع کر دی' یوں ناراضی پیدا ہوگئی' 19 اپریل کے واقعے نے اس ناراضی کو بڑھا دیا' ڈی جی آئی ایس آئی پر الزام لگا اور یہ الزام معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن پر لے گیا' ہمارے چند صحافی بھائیوں کی اطلاع کے مطابق حکومت اور جیو گروپ اس معاملے پر ایک پیج پرتھے' حکومت نے 19 اپریل کے واقعے کے بعد عدالتی کمیشن بنا دیا' حکومت ڈی جی آئی ایس آئی کو معطل کر کے کمیشن کے رحم و کرم پر چھوڑنا چاہتی تھی مگر یہ فوج کے رد عمل کی وجہ سے ایسا نہ کر سکی۔
یہ افواہ کس حد تک درست ہے ہم کوئی حتمی رائے نہیں دے سکتے لیکن 19 اپریل سے 20 مئی تک حکومت کا کردار انتہائی معنی خیز رہا' فوج کے دبائو کی وجہ سے 22 اپریل کو وزیر دفاع خواجہ آصف نے وزارت اطلاعات کے ماتحت ادارے ''پیمرا'' میں جیو کے لائسنس منسوخ کرنے کی درخواست جمع کرا دی' یہ حکومت کی ایک وزارت کی طرف سے دوسری وزارت کو درخواست تھی' پیمرا کے کل ارکان کی تعداد 12 ہے' ان میں سات ارکان سرکاری ہیں' یہ ارکان براہ راست حکومت کے ماتحت ہیں' پہلی میٹنگ 23 اپریل کو ہوئی' اس میٹنگ میں وزارت اطلاعات کے ماتحت ادارے ''پیمرا'' نے وزارت قانون سے قانونی رائے مانگ لی۔
سینیٹر پرویز رشید بیک وقت اطلاعات و نشریات اور قانون کی وزارت کے وفاقی وزیر ہیں' آپ دلچسپ صورتحال ملاحظہ کیجیے' حکومت کی ایک وزارت (دفاع) حکومت کی دوسری وزارت(اطلاعات) کو تحریری شکایت کرتی ہے اور دوسری وزارت یہ معاملہ تیسری وزارت(قانون) کی طرف بھجوا دیتی ہے اور دوسری اور تیسری وزارت کے وزیر ایک ہی ہیں' 20مئی کو ''پیمرا'' کی میٹنگ ہوئی' سرکاری ارکان میٹنگ میں شریک نہیں ہوئے' پانچ پرائیویٹ ارکان نے میٹنگ کی اور جیو کے تین لائسنس معطل کر دیے' پیمرا کے ترجمان نے بعد ازاں اس فیصلے اور اس میٹنگ کو غیر قانونی قرار دے دیا لیکن حکومت اس معاملے سے لاتعلق رہی' حکومت آج بھی لاتعلق ہے' کیوں لاتعلق ہے؟ پورا ملک اس سوال کا جواب تلاش کر رہا ہے!۔
میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان جیو تنازعے سے قبل 16 اپریل کو اسلام آباد میں میٹنگ ہوئی' آصف علی زرداری نے اس میٹنگ میں میاں نواز شریف کو ہر قسم کی لڑائی سے باز رہنے کا مشورہ دیا تھا' زرداری صاحب کا کہنا تھا' آپ حکومت پر توجہ دیں' آپ جنرل پرویز مشرف کو جانے دیں' یہ آپ کی حکومت کو لے کر ڈوب جائے گا' زرداری صاحب ہی کے مشورے سے جنرل مشرف کو کراچی شفٹ کیا گیا اور اب زرداری صاحب ہی انھیں ملک سے باہر بھجوائیں گے' یہ معاملہ یوں نبٹ جاتا لیکن ''جیو'' کے تنازعے نے حالات مزید خراب کر دیے' یہ تنازعہ اب آہستہ آہستہ حکومت کو نگلتا جا رہا ہے'مجھے کل کوئی صاحب بتا رہے تھے' حکومت بیک وقت دونوں فریقین کو خوش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
چوہدری نثار فوج کا ساتھ دے رہے ہیں' پرویز رشید ''جیو'' کا سہارا بن کر کھڑے ہیں اور وزیراعظم خاموش بیٹھ کر صورتحال کو ''انجوائے'' کر رہے ہیں جب کہ میڈیا ایک دوسرے سے دست و گریبان ہے' یہ تنازعہ 20 مئی کو ''پیمرا''کو لے کر بیٹھ گیا' یہ اب وزیراطلاعات اور وزیر دفاع کی طرف بڑھ رہا ہے' مجھے خطرہ ہے یہ دونوں کہیں اس بے مقصد لڑائی کے شہید نہ بن جائیں !' کاش وزیراعظم 19 اپریل کو ایکٹیو ہو جاتے'یہ اسکرین سے ڈی جی آئی ایس آئی کی تصویر اتروا دیتے' یہ 25 اپریل کو بھی ایکٹو ہو جاتے' یہ جیو سے معذرت کرواتے اور آئی ایس آئی اور جیو کی صلح کروا دیتے' کاش یہ شائستہ واحدی کی غلطی کے وقت ہی ایکٹو ہو جاتے۔
یہ ایک آدھ دن کے لیے جیو کو ''آف ائیر'' کر دیتے تو فتوئوں کی نوبت نہ آتی اور کاش یہ 20 مئی کو ہی ایکٹو ہو جاتے تو آج پیمرا کی ساکھ متاثر نہ ہوتی مگر وزیراعظم خاموش ہیں اور مجھے خطرہ ہے ان کی خاموشی کہیں پورے نظام کو ''ڈی ریل'' نہ کر دے اور پاکستان کی آخری منتخب حکومت گھر نہ چلی جائے' وزیراعظم کو فوراً اپنی کھچار سے باہر آنا چاہیے اور وزیراعظم اگر اسی طرح انجوائے کرتے رہے تو پورا ملک تباہ ہو جائے گا' وزیراعظم اگر اس نازک وقت پر کوئی ٹھوس فیصلہ نہیں کر پا رہے تو پھر انھیں اپنے چھوٹے بھائی آصف علی زرداری سے مشورہ کر لینا چاہیے کیونکہ آصف علی زرداری لاٹھی بھی بچا لیتے ہیں اور سانپ بھی مار دیتے ہیں' یہ میاں نواز شریف سے زیادہ ماہر ہیں۔
صدر زرداری یہ سمجھ گئے چنانچہ انھوں نے امریکا کو پانچ سال انگیج رکھا' امریکی آتے تھے تو یہ انھیں کبھی جی ایچ کیو بھجوا دیتے تھے' کبھی آئی ایس آئی کے حوالے کر دیتے تھے' کبھی طالبان کی طرف روانہ کر دیتے تھے اور کبھی میاں نواز شریف' مولانا فضل الرحمن اور مذہبی جماعتوں کی طرف روانہ کر دیتے تھے' امریکی پانچ سال ایک دفتر سے دوسرے دفتر اور ایک شخص سے دوسرے شخص کے درمیان گھومتے رہے' صدر زرداری یہ بھی جان گئے' فوج بھی اقتدار کی بڑی سٹیک ہولڈر ہے' ہم اسے فیصلہ سازی سے باہر رکھ کرحکومت نہیں کر سکیں گے چنانچہ یہ فوج کی ہر بات مانتے رہے یہاں تک کہ جب جنرل کیانی نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کا مشورہ دیا تو صدر نے یہ مشورہ بھی مان لیا۔
صدر نے جنرل کیانی کی مدت ملازمت میں بھی تین سال اضافہ کر دیا' آصف علی زرداری کے دور میں ڈی جی آئی ایس آئی نے پارلیمنٹ کو بریفنگ تک دی اور صدر ایبٹ آباد کے امریکی آپریشن کے بعد بھی خاموش رہے' زرداری صاحب کے پانچ برسوں میں کئی ایسے مواقع آئے جب اقتدار اور فوج کے درمیان پیالی اور ہونٹوں کا فاصلہ رہ گیا تھا مگر زرداری صاحب کی ''گنجائش دے دو'' کی پالیسی نے معاملات سنبھال لیے' میمو اسکینڈل کے بعد ایک ایسا وقت بھی آیا جب صدر زرداری اور جنرل کیانی کے درمیان جھگڑا ہو گیا لیکن جب معاملہ بگڑنے لگا تو صدر بیمار ہو گئے اور علاج کے لیے دبئی شفٹ ہو گئے یوں ان کی ''بیماری'' نے معاملات سنبھال لیے۔
صدر زرداری کے دور میں فوج اور آئی ایس آئی ہر معاملے میں آزاد تھی اور صدر زرداری یہ بھی جان گئے تھے' میں نے اگر دوسری سیاسی جماعتوں کو اقتدار میں شریک نہ کیا تو یہ مجھے آرام سے حکومت نہیں کرنے دیں گی چنانچہ زرداری صاحب نے ایم کیو ایم' جے یو آئی (ف) اور اے این پی کو اپنا شریک اقتدار بنالیا جب کہ پاکستان مسلم لیگ ن کو پنجاب دے دیا' پاکستان مسلم لیگ ق اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان خاندانی لڑائی تھی' فیصل صالح حیات اور آصف علی زرداری ایک دوسرے کے ذاتی مخالف تھے لیکن زرداری صاحب نے نہ صرف فیصل صالح حیات کو حکومت میں شامل کر لیا بلکہ چوہدری صاحبان کو بھی اقتدار کے کیک کا بڑا حصہ عنایت کردیا' یہ پانچ سال تک ایم کیو ایم کے ساتھ بھی کھیلتے رہے' ایم کیو ایم آتی رہی' جاتی رہی اور پھر آتی رہی' جاتی رہی مگر زرداری صاحب نے تعلقات کا دھاگہ نہیں ٹوٹنے دیا۔
مولانا فضل الرحمان بھی تمام تر تحفظات کے باوجود پانچ سال زرداری صاحب سے بندھے رہے' صدر آصف علی زرداری کی سیاست صرف یہاں تک محدود نہیں تھی بلکہ یہ پارٹی کے ساتھ بھی کھیلتے رہے' یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ میں پھنسائے رکھا' راجہ پرویز اشرف رینٹل پاور پلانٹس میں کرپشن کے الزامات کے ساتھ وزیراعظم بنے' مخدوم امین فہیم کے پاس وزارت قبول کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں چھوڑا گیا اور پیچھے رہ گئے چھوٹے دھڑے تو ان میں سے ہر دھڑا مستقبل کا وزیراعظم تھا اور یوں زرداری صاحب پانچ سال پورے کر گئے' ملک میں پہلی بار ایک جمہوری حکومت نے اقتدار دوسری جمہوری حکومت کے ہاتھ منتقل کیا اور یہ زرداری صاحب کی کامیابی تھی۔
میاں نواز شریف اس معاملے میں کمزور نکلے' یہ پاکستان پیپلز پارٹی کے مقابلے میں 93 نشستیں زیادہ لے کر ایوان میں پہنچے' میاں صاحب کے پاس ٹیم بھی اچھی ہے' ملک معاشی لحاظ سے بھی ترقی کر رہا ہے' میگا پراجیکٹ شروع ہو چکے ہیں' لوڈ شیڈنگ میں بھی کمی ہو رہی ہے' روزگار اسکیمیں بھی دھڑا دھڑ سامنے آ رہی ہیں' لاء اینڈ آرڈر کی حالت بھی بہتر ہے' ڈرون حملے بھی بند ہیں' طالبان کا زور بھی ٹوٹ رہا ہے اور پاکستان سے مایوس سرمایہ کار بھی واپس آ رہے ہیں چنانچہ اگر دیکھا جائے تو حکومت کی ایک سال کی کارکردگی غیر تسلی بخش نہیں لیکن اس کے باوجود حکومت کے سر پر تلوار لٹک رہی ہے اور ہر دوسرا شخص پوچھ رہا ہے ''کیا میاں صاحب پانچ سال پورے کر لیں گے'' یہ سوال اور یہ تلوار ثابت کرتی ہے' حکومت کی حکمت عملی میں کہیں نہ کہیں کوئی خرابی موجود ہے۔
یہ لوگ اپنے لیے بلاوجہ مسائل پیدا کر رہے ہیں' ان مسائل کی ایک وجہ حکومت کے اندر موجود گروپنگ ہے' چوہدری نثار علی خان اور میاں شہباز شریف فوج کے ساتھ بنا کر رکھنا چاہتے ہیں'ان کا خیال ہے' ہمیں طیب اردگان کی طرح پرفارمنس پر توجہ دینی چاہیے' ہم نے اگر عوام کی حالت بدل لی تو ہم بڑی آسانی سے جنرل پرویز مشرف جیسے لوگوں کا احتساب کر لیں گے جب کہ خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق جیسے لوگ جنرل پرویز مشرف اور ان کے ادارے کو ''مرد کا بچہ'' بنانا چاہتے ہیں' حکومت کے ان دونوں دھڑوں کی چپقلش نے حکومت اور فوج کو آمنے سامنے کھڑا کر دیا' وزیراعظم ابھی یہ آگ نہیں بجھا پائے تھے کہ جیو کا تنازعہ پیدا ہوگیا' جیو کا تنازعہ 18 اپریل کو دی نیوز اور جنگ میں چھپنے والی ایک چھوٹی سی خبر سے شروع ہوا' 17 اپریل کوقومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس تھا۔
اجلاس میں ڈی جی آئی ایس آئی کو ارکان کے سخت سوالوں کا سامنا کرنا پڑا' مخبروں کا کہنا ہے' خواجہ آصف نے اجلاس کی کارروائی حامد میر کو بتائی تھی اور حامد میر نے یہ معلومات جیو کے رپورٹر اعزاز علی سید کو دے دیں' اعزاز سید نے خبر فائل کر دی' جنگ گروپ نے یہ خبر جنگ اور دی نیوز کے ''فرنٹ پیج'' پر نمایاں کر کے شایع کر دی' یوں ناراضی پیدا ہوگئی' 19 اپریل کے واقعے نے اس ناراضی کو بڑھا دیا' ڈی جی آئی ایس آئی پر الزام لگا اور یہ الزام معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن پر لے گیا' ہمارے چند صحافی بھائیوں کی اطلاع کے مطابق حکومت اور جیو گروپ اس معاملے پر ایک پیج پرتھے' حکومت نے 19 اپریل کے واقعے کے بعد عدالتی کمیشن بنا دیا' حکومت ڈی جی آئی ایس آئی کو معطل کر کے کمیشن کے رحم و کرم پر چھوڑنا چاہتی تھی مگر یہ فوج کے رد عمل کی وجہ سے ایسا نہ کر سکی۔
یہ افواہ کس حد تک درست ہے ہم کوئی حتمی رائے نہیں دے سکتے لیکن 19 اپریل سے 20 مئی تک حکومت کا کردار انتہائی معنی خیز رہا' فوج کے دبائو کی وجہ سے 22 اپریل کو وزیر دفاع خواجہ آصف نے وزارت اطلاعات کے ماتحت ادارے ''پیمرا'' میں جیو کے لائسنس منسوخ کرنے کی درخواست جمع کرا دی' یہ حکومت کی ایک وزارت کی طرف سے دوسری وزارت کو درخواست تھی' پیمرا کے کل ارکان کی تعداد 12 ہے' ان میں سات ارکان سرکاری ہیں' یہ ارکان براہ راست حکومت کے ماتحت ہیں' پہلی میٹنگ 23 اپریل کو ہوئی' اس میٹنگ میں وزارت اطلاعات کے ماتحت ادارے ''پیمرا'' نے وزارت قانون سے قانونی رائے مانگ لی۔
سینیٹر پرویز رشید بیک وقت اطلاعات و نشریات اور قانون کی وزارت کے وفاقی وزیر ہیں' آپ دلچسپ صورتحال ملاحظہ کیجیے' حکومت کی ایک وزارت (دفاع) حکومت کی دوسری وزارت(اطلاعات) کو تحریری شکایت کرتی ہے اور دوسری وزارت یہ معاملہ تیسری وزارت(قانون) کی طرف بھجوا دیتی ہے اور دوسری اور تیسری وزارت کے وزیر ایک ہی ہیں' 20مئی کو ''پیمرا'' کی میٹنگ ہوئی' سرکاری ارکان میٹنگ میں شریک نہیں ہوئے' پانچ پرائیویٹ ارکان نے میٹنگ کی اور جیو کے تین لائسنس معطل کر دیے' پیمرا کے ترجمان نے بعد ازاں اس فیصلے اور اس میٹنگ کو غیر قانونی قرار دے دیا لیکن حکومت اس معاملے سے لاتعلق رہی' حکومت آج بھی لاتعلق ہے' کیوں لاتعلق ہے؟ پورا ملک اس سوال کا جواب تلاش کر رہا ہے!۔
میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان جیو تنازعے سے قبل 16 اپریل کو اسلام آباد میں میٹنگ ہوئی' آصف علی زرداری نے اس میٹنگ میں میاں نواز شریف کو ہر قسم کی لڑائی سے باز رہنے کا مشورہ دیا تھا' زرداری صاحب کا کہنا تھا' آپ حکومت پر توجہ دیں' آپ جنرل پرویز مشرف کو جانے دیں' یہ آپ کی حکومت کو لے کر ڈوب جائے گا' زرداری صاحب ہی کے مشورے سے جنرل مشرف کو کراچی شفٹ کیا گیا اور اب زرداری صاحب ہی انھیں ملک سے باہر بھجوائیں گے' یہ معاملہ یوں نبٹ جاتا لیکن ''جیو'' کے تنازعے نے حالات مزید خراب کر دیے' یہ تنازعہ اب آہستہ آہستہ حکومت کو نگلتا جا رہا ہے'مجھے کل کوئی صاحب بتا رہے تھے' حکومت بیک وقت دونوں فریقین کو خوش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
چوہدری نثار فوج کا ساتھ دے رہے ہیں' پرویز رشید ''جیو'' کا سہارا بن کر کھڑے ہیں اور وزیراعظم خاموش بیٹھ کر صورتحال کو ''انجوائے'' کر رہے ہیں جب کہ میڈیا ایک دوسرے سے دست و گریبان ہے' یہ تنازعہ 20 مئی کو ''پیمرا''کو لے کر بیٹھ گیا' یہ اب وزیراطلاعات اور وزیر دفاع کی طرف بڑھ رہا ہے' مجھے خطرہ ہے یہ دونوں کہیں اس بے مقصد لڑائی کے شہید نہ بن جائیں !' کاش وزیراعظم 19 اپریل کو ایکٹیو ہو جاتے'یہ اسکرین سے ڈی جی آئی ایس آئی کی تصویر اتروا دیتے' یہ 25 اپریل کو بھی ایکٹو ہو جاتے' یہ جیو سے معذرت کرواتے اور آئی ایس آئی اور جیو کی صلح کروا دیتے' کاش یہ شائستہ واحدی کی غلطی کے وقت ہی ایکٹو ہو جاتے۔
یہ ایک آدھ دن کے لیے جیو کو ''آف ائیر'' کر دیتے تو فتوئوں کی نوبت نہ آتی اور کاش یہ 20 مئی کو ہی ایکٹو ہو جاتے تو آج پیمرا کی ساکھ متاثر نہ ہوتی مگر وزیراعظم خاموش ہیں اور مجھے خطرہ ہے ان کی خاموشی کہیں پورے نظام کو ''ڈی ریل'' نہ کر دے اور پاکستان کی آخری منتخب حکومت گھر نہ چلی جائے' وزیراعظم کو فوراً اپنی کھچار سے باہر آنا چاہیے اور وزیراعظم اگر اسی طرح انجوائے کرتے رہے تو پورا ملک تباہ ہو جائے گا' وزیراعظم اگر اس نازک وقت پر کوئی ٹھوس فیصلہ نہیں کر پا رہے تو پھر انھیں اپنے چھوٹے بھائی آصف علی زرداری سے مشورہ کر لینا چاہیے کیونکہ آصف علی زرداری لاٹھی بھی بچا لیتے ہیں اور سانپ بھی مار دیتے ہیں' یہ میاں نواز شریف سے زیادہ ماہر ہیں۔