آپا جی

میری نانی کے گھر سے ملحق ایک کنواں تھا جس سے سارے محلے والے پانی لیتے تھے ۔۔۔

Amjadislam@gmail.com

سوموار 19 مئی کی دوپہر ایک ایسی خاتون اس دنیا سے پردہ کر گئی ہیں جو ایک اعتبار سے میری ماں جیسی تھیں کہ وہ میری سگی چچی ہونے کے ساتھ ساتھ میری ساس بھی تھیں۔ پرانے جوائنٹ فیملی سسٹم میں بعض رشتوں کے نام خود بخود انفرادی سے اجتماعی کی شکل اختیار کر جاتے تھے مثال کے طور پر میری تائی جان کو ان کے دیور ''بھابی جی'' کہتے تھے سو بعد کی نسلیں جن سے ان کا رشتہ پھوپھی' چچی اور خالہ کا تھا وہ بھی انھیں بھابی جی کہنے لگیں اور پھر یہ سلسلہ تاحیات ان کے ساتھ چلتا رہا کہ تیسری نسل کے بچے بھی انھیں اسی نام سے پکارتے تھے کم و بیش یہی صورت حال میری ان مرحومہ چچی اور ساس رضیہ بیگم زوجہ حاجی محمد اشرف نسیم کے ساتھ پیش آئی کہ ہم سب بڑے چھوٹے انھیں ''آپا جی'' کہہ کر بلایا کرتے تھے۔

جب وہ 1950 میں بیاہ کر آئیں تو اس وقت ہم 44 فلیمنگ روڈ (جو اب آقا بیدار بخت روڈ کہلاتی ہے) پر ایک کٹری نما احاطے میں واقع ایک ایسے تین منزلہ مکان میں رہا کرتے تھے جس کا کل رقبہ تقریباً 4 مرلے تھا اس وقت نہ تو ڈرائنگ رومز کا رواج عام تھا اور نہ ٹی وی لائونج کا، سو غریب اور نچلے متوسط طبقے کے گھر صرف کچھ ملٹی پرپز کمروں پر مشتمل ہوا کرتے تھے جو one in all کا کام دیتے تھے غسل خانے اور بیت الخلا بھی سانجھے ہوا کرتے تھے اور ہر کمرے کے ساتھ ملحقہ باتھ روم کا تو اس طرح کے گھروں میں ابھی تصور بھی رائج نہیں ہوا تھا۔

میرے والد صاحب چھ بھائی تھے اور اشرف نسیم صاحب کا نمبر اس فہرست میں پانچواں تھا، آپا جی کی شادی کے وقت ان کے چاروں جیٹھوں کی شادیاں ہو چکی تھیں اور وہ اپنے بچوں سمیت اسی چھوٹے سے گھر میں (پتہ نہیں کس طرح) رہ رہے تھے جب کہ گھر کا انتظام میری دادی مرحومہ حسن بی بی کی زیر نگرانی چلتا تھا کہ دادا جان الحاج قطب دین ان کے چھٹوں بیٹے' پانچوں بہویں اور کم و بیش دس بارہ پوتے پوتیاں سب کے سب کسی بھی کام کی اجازت لینے کے لیے انھی کی طرف دیکھتے تھے۔

آپا جی اور چچا اشرف کو جو چھوٹا سا کمرہ رہنے کے لیے ملا وہ اس گھر کا سب سے تاریک کمرہ تھا مگر قدرت نے دونوں کو ایسے غیر معمولی بشری حسن سے نوازا تھا کہ صرف ان کی موجودگی سے ہی یہ کمرہ روشن روشن سا لگنے لگتا تھا۔ جب میں بچپن کی یادوں کو کریدتا ہوں تو آپا جی مجھے ایک بہت خوب صورت گڑیا کی طرح نظر آتی ہیں کہ وہ شروع سے ہی کم گو اور دھیمے انداز میں گفتگو کی عادی تھیں، یہ عجیب اتفاق ہے کہ میری مرحومہ والدہ نور صفیہ اور آپا جی اپنی اپنی شادی سے قبل بھی ہمسائیاں تھیں کہ دونوں کے آبائی گھر میانہ پورہ سیالکوٹ کی ایک ہی گلی کنگزلے اسٹریٹ میں واقع تھے۔

میری نانی کے گھر سے ملحق ایک کنواں تھا جس سے سارے محلے والے پانی لیتے تھے اور جس کے تھڑا نما پلیٹ فارم کو دن کے وقت محلے بھر کی عورتیں اور شام ڈھلے اور اس کے بعد مرد حضرات ایک کھلی بیٹھک کے طور پر استعمال کیا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے جب کبھی ہم لوگ چھٹیوں میں نانی اماں کے گھر جاتے تو ہمارا بہت سا وقت آپا جی کے ننھیال میں بھی گزرتا تھا کہ یہ بے تکلفی سے ایک دوسرے کے گھروں میں آنا جانا اس وقت کی معاشرت کا ایک بہت حسین روپ تھا آج کل کی طرح نہیں کہ لوگ اپنے بچوں کے گھروں میں بھی وقت لے کر ملاقات کے لیے جاتے ہیں۔

44 فلیمنگ روڈ والے اس تنگ و تاریک' مختصر مگر باہمی محبت سے بھرپور مکان سے ہم لوگ 1957 میں شفٹ ہو کر اس نسبتاً خاصے بڑے اور کشادہ مکان میں آ گئے جو ایک زمانے میں موٹے کا اسکول (غالباً اپنے مالک نما ہیڈ ماسٹر کی فربہ تنی کے باعث) کہلاتا تھا، 65 فلیمنگ روڈ پر واقع اس مکان کے عین سامنے ایک بزرگ شاہ ولی اﷲ کا مزار تھا۔ جلد ہی ہمارا یہ نیا گھر حاجیوں کے گھر کے نام سے مشہور ہو گیا کہ ماشاء اللہ اس کے بیشتر بڑی عمر کے افراد اس سعادت سے بہرہ یاب ہو چکے تھے۔


شروع شروع میں ہمارا پورشن آپا جی کے رہائشی حصے کے بالکل سامنے واقع تھا چند برس بعد اس میں کچھ نئے حصوں کا اضافہ کیا گیا تو گرائونڈ فلور پر میرے دادا اور دادی جان اس کے اوپر چچا اشرف نسیم اور تیسری منزل پر ہمارے لیے رہائشی حصہ تعمیر کیا گیا جو دو چھوٹے اور ایک نسبتاً بڑے تین متصل کمروں پر مشتمل تھا اور یہی صورت درمیانی یعنی آپا جی اور ان کی فیملی والے حصے کی تھی یوں تو میرے لیے تمام ہی تائیاں اور چچیاں ماں کے برابر تھیں کہ مشترکہ رہائش پذیر خاندانوں میں عام طور پر بچے اپنی ان بزرگ خواتین کو ''ماں جی'' یا ''امی جی'' ہی کہہ کر بلایا کرتے تھے لیکن جیسا میں نے شروع میں عرض کیا چچی رضیہ مرحومہ کو میں نے ہوش سنبھالتے ہی آپا جی کہنا سیکھا اور پھر یہ طرز تخاطب زندگی بھر اسی طرح قائم رہا۔

میرے خاندان میں دو افراد ایسے گزرے ہیں جنھیں میں نے اپنی ہوش میں بلند آواز سے بولتے نہیں سنا ایک تو میرے دادا جان الحاج قطب دین تھے اور دوسری حاجن رضیہ اشرف یعنی آپا جی وہ ایک انتہائی خدمت گزار بیوی اور شفیق ماں تھیں، صبر اور قناعت ان کی فطرت کا حصہ تھے کہ نہ میں نے کبھی غربت کے دنوں میں انھیں کسی کمی کا گلہ کرتے سنا اور نہ ہی خوش حالی کے دور میں کبھی کسی بات پر تکبر کرتے دیکھا۔

آغاز کے چند برسوں کے بعد ان کی ساری زندگی مالی اور مادی سہولیات کے حوالے سے خاصی فراغت سے گزری مگر ان کی طبیعت میں جو ایک نیم صوفیانہ انداز کا ٹھہرائو تھا وہ ہمیشہ قائم رہا، خاندان کے تمام بچوں سے محبت تو ان کا وتیرہ تھا ہی مگر میری اور فردوس کی شادی کے بعد سے میرے لیے ان کی محبت میں جو گہرائی اور وسعت پیدا ہوئی وہ میری زندگی کا ایک خوب صورت حصہ ہے بالخصوص 2000ء میں میری والدہ کی وفات کے بعد انھوں نے مجھے وہ محبت دی جس کا نعم البدل صرف سگی ماں کی محبت ہی ہو سکتی ہے۔

آپا جی نے اپنے شوہر یعنی میرے چچا حاجی اشرف نسیم مرحوم کی سنگت میں خوشگوار بلکہ شاندار ازدواجی زندگی کے 58 برس گزارے ان کی وفات کے وقت ان کی عمر تقریباً 76 برس تھی اور اگرچہ عمر کے ساتھ ساتھ ان کے حسین چہرے اور چال و حال میں ایک خاص طرح کی grace اور متانت پیدا ہو چکی تھی وہ اپنی عمر سے بہت کم کی دکھائی دیتی تھیں، گزشتہ چھ برس میں چچا جان کی وفات کے بعد سے ان کی صحت مسلسل گرنے لگی اور شریک حیات کے اٹھ جانے سے پیدا ہونے والے خلا کی دہشت نے ان کی روح کے اندر کچھ ایسا ڈیرا ڈال دیا کہ اولاد کی تمام تر محبت اور دیکھ بھال کے باوجود وہ زندہ رہنے کی خواہش اور ہمت کھوتی چلی گئیں اور آخر کے چند ماہ تو انھوں نے تقریباً نیم بے ہوشی میں گزارے، یہ ایک ایسا تکلیف دہ منظر تھا جسے دیکھنے کی ہمت خود میرے اندر سے ختم ہونے لگی۔

سو میں جب بھی انھیں دیکھنے جاتا چند لمحوں سے زیادہ نہ رک سکتا، ایسی زندگی سے بھرپور اور مائوں جیسی محبوب خاتون کو ایسی بے بسی کے عالم میں دیکھنا کم از کم میرے بس میں نہیں تھا۔ کل شام قبرستان میں ان کی تدفین کے دوران اپنی والدہ کی قبر کی پائنتی بیٹھ کر (جو آپا جی کی قبر سے ان دونوں کے آبائی گھروں کے دروازوں سے بھی کم فاصلے پر ہے) میں بہت دیر تک یہی سوچتا رہا کہ رب کریم نے جو انسان سے اپنی محبت کو ماں کی محبت سے تشبیہہ دے کر سمجھایا ہے تو اس میں کتنی ایسی کیفیتیں ہیں جو صرف محسوس کی جا سکتی ہیں بتائی اور سمجھائی نہیں جا سکتیں اور پتہ نہیں کیوں ان کے آخری دنوں میں مجھے میر تقی میر سے منسوب یہ شعر بار بار یاد آتا رہا کہ

جو مجھے دیکھنے کو آتا ہے

پھر مجھے دیکھنے نہیں آتا
Load Next Story