بلوچستان کی تعلیمی ابتری
یہ امر قابلِ غور ہے کہ ایک طرف جہاں ایک صوبے میں تعلیمی نصاب میں انتہا پسندی سے متعلق مواد شامل کیا جا رہا ہے ۔۔۔۔
معاشرے میں علم اور عمل کے کردار اور اہمیت پہ کوئی دو رائے نہیں۔ جدید عہد میں کوئی خودکشی پہ مائل معاشرہ ہی ہو گا جو علم کے میدان میں دلچسپی نہ لیتا ہو۔ تعلیم، علم کے حصول کی جانب لے جانے والا اہم راستہ ہے۔ یہ وہ کنجی ہے جو ہمیں علم کے مالامال خزانے سے روشناس کراتی ہے۔ تعلیم وہ سیڑھی ہے، جو ہمیں علم کی بلندیوں تک پہنچاتی ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ معاشرے جنہوں نے تعلیم پہ توجہ دی، علم کی معراج کو پہنچے۔
جدید معاشرتی تصور میں تمام شہریوں تک مفت تعلیم کی رسائی ریاست کی اہم ترین ذمے داریوں میں سے ہے لیکن تیسری دنیا کے اکثر ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی ریاست اپنی دیگر ذمے داریوں کی طرح اس اہم ذمے داری کو نبھانے میں بھی ناکام رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ریاستی امور کی باگ ڈور شروع دن سے تعلیم دشمن جاگیرداروں اور ان کی غلام افسر شاہی کے ہاتھ میں رہی جس کے باعث پاکستان میں درست تعلیمی ترجیحات تک کا تعین ہی نہ ہو سکا۔ جب ریاست اپنے فکری مزاج کا ہی تعین نہ کر سکے تو تعلیمی ترجیحات کا تعین بھلا کیونکر ہو سکتا ہے۔ پاکستان کا ایک جزو ہونے کے باعث ظاہر ہے تعلیم سے متعلق اس گومگوں کیفیت کے اثرات بلوچستان تک بھی پہنچے جو اپنے نیم قبائلی مزاج اور گنجلک جغرافیے کے باعث تعلیمی لحاظ سے پہلے ہی دگرگو ں مسائل کا شکار رہا ہے۔
اوپر سے ایک قلیل دورانیے کو چھوڑ کر مسلسل غیر جمہوری حکومتوں کے باعث یہ شعبہ گویا پستی کی انتہاؤں کو جا پہنچا ہے۔ یہ وہ پس منظر ہے جس میں صوبے کی نئی مڈل کلاس جمہوری حکومت نے اپنے کٹھن سفر کا آغاز کیا ہے۔ ظاہر ہے کانٹوں بھری راہ کا یہ سفر کسی طور موجودہ حکمرانوں کے لیے سہل نہیں لیکن نیپ کے بعد پہلی بار ایک عوامی حکومت کے اقتدار میں آنے کے باعث یہ نہ صرف عوام و خواص کی توجہ کا مرکز رہی ہے بلکہ ان کی امیدوں کا محور بھی۔ یہ عوامی حکومت عوام کی ان امیدوں پہ کتنا پورا اترتی ہے، اس کا اندازہ تو اس کی ایک سالہ کارکردگی سے لگایا جا سکتا ہے۔
اس نئی حکومت نے آتے ہی جن دو شعبوں میں انقلابی اصلاحات کا اعلان کیا تھا، وہ تھے تعلیم اور صحت۔ ہمارا موضوعِ بحث فی الوقت تعلیم ہے۔ تعلیم کے میدان میں وزیراعلیٰ بلوچستان نے اپنی حکومت کے اولین مالی سال کے بجٹ میں تعلیم سے متعلق جن اقدامات کے عزم کا اعادہ کیا تھا، اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ نئی حکومت نے تعلیمی میدان میں اپنی درست ترجیحات کا تعین کر لیا ہے۔ ترقیاتی و غیر ترقیاتی اخراجات کی مد میں مالی سال 2013-14ء میں محکمہ تعلیم کے لیے 34898.635 ملین روپے مختص کیے گئے جو کہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 42 فیصد زیادہ تھا۔
نئی حکومت کے اعلانات میں صوبے میں 3نئے میڈیکل کالجز، بلوچستان میڈیکل کالج اور زرعی کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دینا، خضدار میں بلوچستان یونیورسٹی کے کیمپس کا قیام، 3سو نئے پرائمری اسکولوں کا قیام، تین سو پرائمری اسکولوں کو مڈل اور ڈیڑھ سو مڈل اسکولوں کو ہائی اسکول کا درجہ دینے کے علاوہ اسکولوں میں اضافی کمروں کی تعمیر کے لیے ایک ارب روپے، ہائی اسکولوں میں امتحان ہال، لیبارٹریز اور لائبریریوں کے قیام کے لیے پچاس کروڑ روپے، نیز کالجز کے لیے بھی پچاس کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی۔
وزیر اعلیٰ نے تعلیمی صورتحال سے متعلق اپنی تشویش کا بھی بار ہا اظہار کیا۔ تعلیم کے میدان میں ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ بلوچستان کے جغرافیائی حالات، منتشر آبادی کے تناظر میں تعلیمی پالیسی میں اصطلاحات کرنا ہوں گی تا کہ پوری آبادی کو تعلیمی سہولیات مہیا کی جا سکیں۔ مادری زبانوں میں تعلیم کے بنیادی حق کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ انھوں نے مزید کہا کہ معاشرے کی مجموعی ترقی کے عمل میں تعلیم کی کلیدی اہمیت کے پیش نظر ہماری ترقیاتی حکمت عملی میں تعلیمی شعبے کی ترقی کو اولین ترجیح حاصل ہے۔
تعلیمی ترقی کے حوالے سے ہمارا عزم ہے کہ ہم اِس شعبے کو جلد از جلد ترقی یافتہ صوبوں کے مساوی لائینگے، جدید ٹیکنیکل اور سائنسی آلات مہیا کر کے تعلیمی اداروں کو جدید دنیا کے برابر لایا جائے گا اور سب سے اہم نقطہ یہ کہ تعلیمی نصاب سے نفرت پھیلانے والے تمام مواد کو نکالا جائے گا۔اگر یہ دعوے درست ثابت ہوتے تو اسے کم از کم بلوچستان میں تعلیمی سطح تک ایک مثبت انقلابی پیش رفت قرار دیا جا سکتا تھا۔
گو کہ مادری زبانوں کو ذریعہ بنانے سے متعلق ماہرین میں اختلافات موجود ہیں، لیکن حکومت وسیع پیمانے پر مکالمے کی فضا کو قائم کرتے ہوئے فی الوقت انھیں کسی ایک نقطے پر متفق ہونے پہ مجبور کر سکتی ہے۔ ظاہر ہے اولین کوشش کسی بھی صورت حتمی اور مکمل نہیں ہو گی، بلکہ یہ محض بارش کا پہلا قطرہ ہو گا، جس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ اس میں بہتری کی گنجائش بہرحال موجود رہے گی، جنھیں ماہرین کی مسلسل مشاورت سے مکمل کیا جا سکتا ہے۔
یہ امر قابلِ غور ہے کہ ایک طرف جہاں ایک صوبے میں تعلیمی نصاب میں انتہا پسندی سے متعلق مواد شامل کیا جا رہا ہے، وہیں دوسری طرف بلوچستان حکومت کی جانب سے نفرت پر مبنی ہر قسم کے مواد کو نصاب سے خارج کرنے کا عزم، تعلیمی میدان میں ان کی درست سمت کی جانب واضح اشارہ ہے۔ یہ صرف حکومت کی نہیں، بلکہ اس صوبے کی وہ مجموعی سمت ہے، جسے غلط راستے پر ڈالنے کی کوئی کوشش کسی صورت کامیاب نہیں ہونی چاہیے۔ اس صورت میں حکومت نے تعلیمی میدان میں درست سمت میں سفر کا آغاز کیا، اور درست آغاز ہی صحیح منزل کا نقیب ہوتا ہے، بشرطیکہ قافلہ راہ نہ بھٹکے۔
لیکن عملاً بلوچستان کی تعلیمی صورت حال کیا ہے، آئیے کچھ اعداد و شمار دیکھتے ہیں۔
2005ء میں بلوچستان کے سیاسی و معاشی معاملات کے حل کے لیے تشکیل دی گئی پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ میں دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں مجموعی شرح خواندگی 47 فیصد اور بلوچستان میں 26.6 فیصد ہے۔ جب کہ بچیوں میں یہ شرح پاکستان میں 33 فیصد اور بلوچستان میں صرف15 فیصد ہے۔ پرائمری اسکولوں میں حاضری کی شرح پاکستان میں مجموعی طور پر 68.3 فیصد ہے اور بلوچستان میں49 فیصد ہے۔ جب کہ بچیوں میں یہ شرح ملکی سطح پر 49.2 اور بلوچستان میں صرف21 فیصد ہے۔
ابھی گزشتہ برس ستمبر کے اخبارات میں بلوچستان کے فیوڈل پس منظر رکھنے والے دو اضلاع سے متعلق یونیسیف کی ایک سروے رپورٹ شایع ہوئی، جس میں بتایا گیا کہ نصیرآباد، جعفرآباد میں 2 لاکھ46 ہزار بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں۔ نصیرآباد میں کل بوائز ہائی اسکول 20،گرلز اسکول12، مڈل بوائز اسکول18،گرلز مڈل اسکول14، بوائز پرائمری اسکول297،گرلز پرائمری اسکول128، جب کہ اسکولوں کی مجموعی تعداد479 ہے۔ یونیسیف کے مطابق مجموعی طور پر بلوچستان میں 22 لاکھ، نصیرآباد میں71 ہزار، جعفرآباد میں75 ہزار بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں۔ ایسی ہی ایک اور رپورٹ میں ضلع مستونگ سے متعلق بتایا گیا کہ وہاں کے 95 فیصد گرلز اسکول انتظامی سربراہوں سے محروم ہیں۔ جب کہ 70 فیصد گرلز مڈل اسکولز پی ٹی آئی، ڈرائنگ اور عربی ٹیچر سے گزشتہ کئی برسوں سے محروم ہیں۔
یہ اعداد و شمار از خود بلوچستان میں تعلیمی ایمرجنسی کا جواز ہیں۔