یہ آگہی کا لمحہ ہے
چودھویں رات کا منفی اثر بھی اہل زمین کو بعض اوقات تنگ کرنے لگتا ہے ۔۔۔
بارش کے موسم کے شروع ہوتے ہی بلبل درختوں میں چھپ کر کوکنے لگتی ہے۔ بادل اکثر برسے بنا چلے جاتے ہیں۔ گرمی کی شدت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ تپتی دھوپ میں درختوں کی چھاؤں اور بادلوں کا سایہ جھلستے ہوئے جسموں کو تقویت بخشتے ہیں۔
ٹھنڈی ہواؤں کے سحر میں جکڑے ہوئے شہر میں، جب چودھویں کا چاند طلوع ہوتا ہے، تو احساس اوس کی ٹھنڈک سے بھر جاتا ہے۔ چاندنی راتوں کی سحر میں یہ لپٹا ہوا شہر طلسماتی دنیا کا حصہ لگنے لگتا ہے۔ زمین کی روشنیاں ماند پڑجاتی ہیں۔ حساس ذہن بے چین ہو جاتے ہیں۔ احساس کا تخلیقی عمل شروع ہو جاتا ہے۔ چاندنی راتوں میں شعر و سخن کے سلسلے چل نکلتے ہیں۔ بلاشبہ چاند کا حسن، انسانی آنکھ و ذہن میں رچ بس جاتا ہے۔ کبھی دریائے سندھ کی طرف چل پڑتے ہیں۔ دریا میں چاند کا عکس دھیرے سے ہلکورے لیتا ہے اور کرنوں کی صورت لہروں پر بکھر جاتا ہے۔ یہ منظر اس قدر خواب آگیں ہے کہ مدتوں ذہن کے دریچے پر دستک دیتا رہتا ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے لمحے ہی زندگی کو تحرک بخشتے ہیں۔
چودھویں رات کا منفی اثر بھی اہل زمین کو بعض اوقات تنگ کرنے لگتا ہے۔ اس دوران فضا میں مثبت Ion آئن (برق پارہ) بڑھ جاتے ہیں، جس کی وجہ سے جارحیت، افسردگی، اشتعال انگیزی و طبیعت کی گرانی بڑھ جاتی ہیں۔ درحقیقت منفی و مثبت آئن کے عدم توازن کے نتیجے میں ذہنی و جسمانی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چودھویں کی رات روڈ ایکسیڈنٹ کے واقعات میں اضافہ ہوتا ہے اور جرائم بڑھ جاتے ہیں۔ اسی دوران چاند زمین کی ہر چیز کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ لیکن ہر چیز اپنے مدار پر قائم رہتی ہے، ماسوائے پانی کے۔ پورے چاند کی رات چاند سمندر کی لہروں میں تلاطم برپا کر دیتا ہے۔ چاند سورج کے مقابلے میں زمین کے قریب ہوتا ہے، لہٰذا کشش ثقل کے زیر اثر لہریں چاند کی طرف کھنچتی چلی جاتی ہیں۔
چاندنی راتوں کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اگر یکسوئی سے ان راتوں کی خوبصورتی کے زیر اثر وقت گزارا جائے تو انسانی فطرت میں استحکام آنے لگتا ہے۔ اس ضمن میں The spiritual science research foundation نے مختلف حقائق سامنے لاتے ہوئے کئی انکشاف کیے ہیں۔ لاشعور میں بیک وقت زندگی کے تمام تر تجربات و مشاہدے محفوظ ہوتے ہیں۔ جن کا ہمیں شعوری سطح پر اندازہ نہیں ہوتا۔ ہمارے رویے بھی لاشعوری محرکات کے زیر اثر ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی بچہ عدم تحفظ کا شکار رہتا ہے، تو یہ احساس پوری زندگی اس کے رویوں سے، مختلف انداز میں جھلکتا رہے گا۔ اسی طرح انسان کی احساس محرومیاں تلخ رویوں کی صورت مطلقہ لوگوں کو بھگتنی پڑتی ہیں۔ جب تک انسان اپنے لاشعور سے آشنا نہیں ہے۔
وہ تحت الشعور کو نہیں سمجھتا، یا شعور کی لاشعور سے دوستی نہیں ہے، تو غیر واضح رویے اور ذہن کا ابہام دوستی و رشتوں کی راہ میں رکاوٹ بنتا رہے گا۔ چاند کی فریکوئنسیز کے پاس یہ طاقت ہے کہ وہ لاشعور کے تاثر کو شعور کی سطح تک ابھار کر نمایاں کر دے۔ آسان لفظوں میں یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ چاند کی لہریں ماضی کی یادوں، خوشگوار لمحوں، تکلیف دہ تجربات کو ذہن کی سطح پر لے آتی ہیں۔ اور یادیں احساس سے آنکھ مچولی کھیلنے لگتے ہیں۔ یہ آگہی کا لمحہ ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جو، احساس کی سچائی کو سطح پر لے آتا ہے۔ انسان کا باطن جب اس کے مدمقابل آن کھڑا ہو تو اسے کئی مسائل کا حل مل جاتا ہے۔
قدیم زمانوں سے چاند کے بارے میں کئی قصے اور کہانیاں مشہور ہیں۔ اس حوالے سے کئی واہمے اور پرفریب خیال چاند سے وابستہ کیے جاتے ہیں۔ پورے چاند کی رات سے خوشحالی اور صحت کی امیدیں وابستہ کی جاتی ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اندھیری راتوں میں زمین کے اندر اگنے والی سبزیاں بوئی جائیں، تا کہ وہ اچھی طرح سے پھلیں پھولیں، جب کہ زمین سے باہر اگنے والی سبزیاں چاند کی روشنی میں اگانی چاہئیں۔ جس کا مطلب ہے کہ فصل اچھی ہو گی۔ چاند کے اردگرد ہالے کا مطلب یہ ہے کہ تین روز کے اندر بارش ہو گی۔ اگر چاند کا رنگ سرخی مائل ہے تو وہ تیز ہوائیں لے کر آئے گا۔ چاند کے حوالے سے یہ پیشن گوئیاں مغرب سے لے کر مشرق تک یکساں طور پر پائی جاتی ہیں۔
مشرقی تہذیبیں چاند کو الگ زاویے سے دیکھتی ہیں۔ جیسے چائنا میں چاند نرمی اور تابانی کا مظہر ہے۔ چینی آٹھویں مہینے کی چودھویں رات، لیونار کلینڈر کے مطابق فیسٹیول مناتے ہیں۔ اور چاند کی گولائی کو خاندان کے تعلقات کی ہم آہنگی سے منسوب کرتے ہیں۔ اس دن عام تعطیل ہوتی ہے۔ رات میں وہ چودھویں کے چاند سے پوری طرح لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اور وہ رات ان کے لیے فراوانی، قربت اور خوش قسمتی کی علامت بن جاتی ہے۔ ان کے لیے چاند انسانی جذبات کا ترجمان ہے۔ اور ان کے احساسات چاند کی روشنی کے طابع ہیں۔
علم نجوم کی رو سے پورا چاند بصیرت، فہم و ادراک اور سوجھ بوجھ کو جلا بخشتا ہے۔ جو ناپسندیدہ اثرات کو زائل کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ احساس کو نئی توانائی بخشتا ہے، یہ قوت روحانی تازگی سے مزین ہوتی ہے۔ کئی تہذیبیں چودھویں کے چاند کو نئی منصوبہ بندی کے طور پر لیتی ہیں۔ جہاں انھیں ناپسندیدہ پرانے طور طریقوں کو خیر آباد کہنا پڑتا ہے۔ یہ نئی سوچ اور ارادے انھیں کامیابی سے ہمکنار کرتے ہیں۔ پورے چاند کی ابتدائی تین راتوں میں مذہبی رسومات بھی ادا کی جاتی ہیں۔
کالے جادو کے حوالے سے بھی چاند کی پہلی تاریخیں اور پورے چاند کی رات اہمیت کی حامل ہیں۔ یہ جادو منفی رویوں اور بدی کی قوت کا ترجمان کہلاتا ہے۔ یہ کالا جادو ایشیا سے لے کر افریقا تک مقبول ہے۔ پورے چاند کی رات پانی کا جگ تمام رات باہر رکھا جاتا ہے۔ جس سے منہ دھونے سے چہرہ خوبصورت اور آلائش سے پاک ہو جاتا ہے۔ چودھویں کی رات کی جانے والی مذہبی رسومات تحفظ، علاج اور مقاصد کی تکمیل کے لیے کارآمد ثابت ہوتی ہیں۔
فطرت کے رنگ، خوبصورتی اور مثبت دو ماحول میں ویسی ہی ہے، جیسی ہزار ہا سال پہلے ہوا کرتی تھی، مگر آج نئے دور کی ترجیحات بدل گئی ہیں۔ انسان جب تک فطرت کے قریب تھا، تو اس کے ذہن سے فطری معصومیت، سادگی و سچائی جھلکتی تھی۔ مگر اس نے جیسے ہی فطری زندگی سے تعلق توڑا مختلف مسائل کی پیچیدگیوں میں بری طرح سے گھر گیا۔ میں نے اپنی دوست کو ایک دن فون کر کے کہا کہ فلیٹ کی کھڑکی سے جھانک کے باہر دیکھو، آسمان پر چاند کس قدر خوبصورت دکھائی دے رہا ہے۔ تو جواب میں اس نے کہا ''آفس سے پانچ بجے آئی ہوں، رات کے کھانے کے ساتھ دوپہر کا لنچ بھی بنا رہی ہوں، بچوں کے امتحان سر پر ہیں، ابھی انھیں بھی پڑھانا ہے پھر کل کے مصروف دن کی تیاری الگ کرنی ہے۔ کہاں کا چاند اور کیسا چاند؟''
اس وقت میں نے سوچا تھا کہ اگر یہ تفصیل بتانے کے بجائے وہ کھڑکی کھول کے چند لمحے چاند کی روشنی سے تحرک لے لیتی تو دن بھر کی تھکن وہ ایک لمحہ سمیٹ لیتا۔