بجلی چور کون…
وزیر اعظم نواز شریف کہتے ہیں کہ حکومت کی مدت پوری ہونے سے پہلے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی ۔۔۔
ملک بھر میں گرمی کی شدت میں اضافے کے ساتھ ساتھ بجلی کی طلب بھی غیر معمولی طور پر بڑھنے سے لوڈشیڈنگ کا مسئلہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ اس وقت ملک میں بجلی کی مجموعی پیداوار گیارہ ہزار دو سو میگاواٹ جب کہ طلب 15ہزار میگاواٹ ہونے کی وجہ سے بجلی کا شارٹ فال 4ہزار میگاواٹ کے قریب ہے۔
گزشتہ دنوں وزیر اعظم نواز شریف نے غیر علانیہ لوڈشیڈنگ کے فوری خاتمے کی ہدایت کی اور تمام تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) میں کنٹرول سینٹر قائم کرنے کا حکم دیا۔ وزیراعظم کا حکم سننے کے اگلے روز ہی نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی نے بجلی کی کمی دور کرنے نوید سنادی اور اس کے پیش کردہ اعداد و شمار اخبارات کی زینت بنتے رہے۔ حیران کن خبروں میں بتایا گیا تھا کہ بجلی کی پیداوار 11ہزار دو سو میگاواٹ ہے اور طلب بھی 11ہزار میگاواٹ ہے جس سے طلب اور رسد میں توازن قائم ہو گیا ہے اور ملک بھر میں بجلی کی لوڈشیڈنگ مکمل طور پر ختم ہو گئی ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف کہتے ہیں کہ حکومت کی مدت پوری ہونے سے پہلے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی جب کہ وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے وزیر اعظم کے بیان اور اس امکان کو یکسر رد کرتے ہوئے کہا کہ لوڈشیڈنگ 2018ء تک بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہو گی، البتہ کم ضرور ہو سکتی ہے۔گزشتہ دنوں وزیر اعظم برطانیہ کے دورے پر تھے، انھوں نے وہاں ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ ''3ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل کی جا چکی ہے جب کہ اکتوبر تک مزید نو ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل کر دی جائے گی''۔
ملک میں پچھلے کئی سالوں سے بجلی کی پیداوار یا رسد تقریبا 11ہزار دو سو میگاواٹ چلی آ رہی ہے، اگر 3ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل کی گئی ہوتی تو بجلی کی رسد 3ہزار کے اضافے سے 14ہزار دو سو میگاواٹ ہو چکی ہوتی اور حالیہ دنوں نندی پور پاور پراجیکٹ سے ایک سو میگاواٹ بجلی شامل کرنے کی بات بھی سچ مان لی جائے تو رسد 14ہزار دو سو میگاواٹ ہوجانی چاہیے تھی جس کے نتیجے میں شارٹ فال صرف 7سو میگاواٹ رہ جانا چاہیے تھا جو کہ نہ ہونے کے برابر ہے، خیر بجلی کی رسد کتنی ہی کیوں نہ ہو، لوڈشیڈنگ کے بغیر زندگی کی مزا ہی کیا ورنہ سردی کے موسم میں تو طلب اور رسد متوازن تھی۔
پھر لوڈشیڈنگ کیوں کی جاتی رہی اور اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ کہ اتوار یا کسی عام تعطیل پر تو تمام فیکٹریاں، بازار سرکاری دفاتر، اسکولز عدالتیں وغیرہ سب بند ہوتے ہیں تو پھر لوڈشیڈنگ کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے؟ وزیر اعظم کی اکتوبر میں نو ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل ہونے والی بات درست مان لی جائے تو اکتوبر میں بجلی کی کل پیداوار 23ہزار 2سو میگاواٹ ہو جائے گی، اکتوبر میں گرمی کی شدت بھی کم ہو چکی ہو گی بلکہ بہت سے علاقوں میں موسم سرما کا آغاز ہو رہا ہو گا جب کہ باقی علاقوں میں سردی داخل ہونے کے لیے پر تول رہی ہو گی۔ سردی کے موسم میں ملک بھر میں بجلی کی طلب چونکہ کم ہو کر گیارہ ہزار میگاواٹ پر آ جاتی ہے۔ اس لیے بجلی کی پیداوار تیئس ہزار تین سو میگاواٹ ہونے سے بارہ ہزار تین سو میگاواٹ بجلی اضافی پیدا ہو گی، پھر لوڈشیڈنگ اور اس کے ختم نہ ہونے کے بیانات کا کیا جواز رہتا ہے۔
وزیر مملکت پانی و بجلی عابد شیر علی بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کی نمایندگی کر رہے ہیں یا عوام کی؟ وہی بتا سکتے ہیں مگر گزشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے ان کا فرمانا تھا کہ یہ کمپنیاں اس حکومت کو غلط اعداد و شمار نہیں دے سکتیں، پچھلی حکومتوں کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاتی رہی مگر ہم اپنے ساتھ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ اگر ایسا ہے تو پھر حکومتی نمایندوں کے اعداد و شمار میں اتنا تضاد کیوں ہے؟
پاکستان میں تقریبا سبھی سرکاری اور نجی ادارے اپنی اپنی بساط کے مطابق، کسی نہ کسی درجے میں، کسی نہ کسی طریقے سے قومی خزانے اور قومی مفادات کو نقصان پہنچانے میں کسی دوسرے ادارے سے پر سبقت لے جانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے مگر سرفہرست دو صنعتیں ایک بجلی فراہم کرنے والی کمپنیاں اور دوسری ٹیلی کام کمپنیاں جس آزادی کے ساتھ براہ راست عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہیں، اس کی مثال کہیں اور ملنا شاید مشکل ہو اور یہی وجہ بھی ہے کہ یہ دونوں ہی اس وقت امیر ترین شعبے ہیں، وزرا اور سرکاری افسران کے منہ بند کرانا یا اپنی مرضی کے مطابق کھلوانا ان کے لیے کوئی بڑی بات بھی نہیں ہے۔
دوسری جانب معاملہ ہے وصولیوں کا، بیچارے عوام خواہ پختونخوا کے ہوں، سندھ، بلوچستان کے یا پھر پنجاب کے، ہماری وزارت پانی و بجلی کی نظر میں سب چور ہیں، اگر سب نہیں تو آدھے تو ہیں ہی۔ وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف کا اسلام آباد میں میڈیا سے بات چیت کے دوران کہنا تھا کہ بجلی کی مد میں حکومت کو سالانہ ایک ہزار ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے (یعنی عوام کی چوریوں کی وجہ سے بجلی کی مد میں حکومت فی گھر 20ہزار روپے سالانہ نقصان برداشت کر رہی ہے، انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ عوام سے کی گئی وصولیاں کہاں جا رہی ہیں؟)
وہ عوام جو بیچارے ایک ماہ میں 50سے زائد یونٹ ہی استعمال نہیں کر پاتے، ٹرانسفارمر انھی علاقوں کے اتارے جا رہے ہیں یا جہاں ایک ماہ کے دوران سو یونٹ تک استعمال کرنیوالے رہ رہے ہیں۔ وزیر مملکت کو شاید پتہ ہو کہ ایک سے 50یونٹ تک بجلی استعمال کرنیوالوں کے لیے ٹیرف دگنا کر کے چار روپے یونٹ کر دیا گیا ہے۔ یہی ٹیرف پہلے دو روپے یونٹ تھا اور اس حساب سے صارف کا بل ایک سو روپے ماہانہ بنتا تھا جب کہ ان غریب علاقوں کے لوگ بجلی چوری کرنے کی ''رشوت'' دو سے تین سو روپے ماہانہ فی گھر ادا کرتے تھے جو کہ بجلی کی اصل قیمت سے دگنی تھی۔ اسی طرح جن علاقوں کے صارفین ایک سو یونٹ تک بجلی استعمال کرتے تھے، ان کا ماہانہ بل 5روپے 90پیسے فی یونٹ کے حساب سے 5سو 90 روپے بنتا تھا جب کہ ان لوگوں سے بجلی چوری کی ''فیس'' 5سے 6سو روپے ماہانہ وصول کی جاتی تھی۔
ستم در ستم یہ کہ بجلی کی ''فیس'' رشوت کے طور پر ادا کرنے کے باوجود ان لوگوں پر سال بھر کی ادائیگیاں نہ کرنے پر چالیس پچاس ہزار روپے کے بل اب بھی واجب الادا ہیں۔ بجلی فراہم کرنیوالی کمپنیاں ایک سو یونٹ ماہانہ کے حساب سے ایک سال (بارہ مہینے) کے یعنی 12سو یونٹ اکھٹے کر کے ٹیرف 5روپے نوے پیسے کے بجائے 7سو سے زائد یونٹ استعمال کرنے پر 15روپے فی یونٹ لاگو کرتی رہیں اور پھر ٹیکس بھی اسی حساب سے عائد کیا گیا جب کہ عدم ادائیگی پر جرمانے سود در سود شامل کر کے بل 50 ہزار تک پہنچایا گیا۔
ان سب ستم ظریفیوں کے باوجود غریب عوام اپنا پیٹ کاٹ کر بھی ادائیگیاں کرنے کو تیار ہیں، مگر اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ واجبات ایمانداری سے شامل کیے جائیں اور ادا کی گئی رقم دوبارہ سے بلوں میں ڈال کر نہیں بھیج دی جائے گی۔ رہی بات ان علاقوں کی جہاں بجلی کے میٹر نہیں ہیں، وہاں بھی بجلی کا کوئی صارف مفت بجلی استعمال نہیں کر رہا خود بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کے ملازم ان لوگوں سے وصولیاں کرتے ہیں، جو آف دی ریکارڈ ہوتی ہیں۔ بعض علاقوں میں تو خود ان کمپنیوں نے ہی کنڈا سسٹم کو قانونی قرار دے رکھا ہے تا کہ ناپ تول کا مسئلہ ہی نہ رہے۔
کیا وزارت پانی و بجلی نے کبھی یہ جاننے کی بھی کوشش کی ہے کہ نیم خواندہ اور ناخواندہ عوام کو فراہم کیے گئے بجلی کے میٹروں کی رفتار درست ہے؟ عوام جتنی بجلی استعمال کرتے ہیں میٹر اتنے ہی یونٹ ظاہر کرتا ہے؟ ایک سیور اور ایک پنکھا استعمال کرنے والے کا بل ایک ہزار روپے کیسے آ جاتا ہے جب کہ بجلی غایب رہتی ہے۔