ایک عظیم صوفی کی یاد میں

پانی پت کی جنگ سے قبل یعنی 1206سے 1526 کے درمیان کا عرصہ مغل شہنشاہ ظہیر الدین بابر کا دور تھا ۔۔۔



اسلام نام ہے دین فطرت اور دین حنیف کا۔ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کی ہدایت کے لیے بھیجے گئے پیغمبران، انبیاء اور آئمہ کرام کا مشترکہ مقصد یہی تھا کہ وہ اﷲ کے اس پیغام (دین) کو عام کریں۔ وقت و حالات کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ مختلف النوع بزرگان دین نے اس الہامی ذمے داری کو اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہوئے اپنی زندگیوں کو اس مشن کی تکمیل کا قیمتی حصہ بنایا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جتنی بھی متبرک ہستیاں اس دنیا میں آئیں انھوں نے بغیر کسی لالچ کے اپنے مال و زر کو قوم کی امانت سمجھتے ہوئے منصفانہ تقسیم دولت کا اسلامی معاشی نظام دیا۔

بے جا اسراف دولت اور اس کی نمائش کے بجائے اس کو محض انسانی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ مادیت پرستی جیسی مہلک معاشرتی لعنت سے ہمیشہ کے لیے نجات انھی بزرگان دین کا طرہ امتیاز رہا۔ گو کہ یہ سلسلہ صدیوں کے طویل عرصے پر محیط ہے۔ صراط مستقیم پر عمل پیرا ہوتے ہوئے عبادات و ریاضتوں میں راتوں رات مشغول رہنا ان ہستیوں کا بارگاہ الٰہی سے بے پناہ محبت کا عملی ثبوت تھا۔

تصوف، اور مخدومیت کی دولت سے مالا مال ہمارے جد امجد حضرت سید حسین شاہ ولایتؒ قدس سرہ کا ایک طویل سلسلہ ہے جو الحمدﷲ آج تک قائم و دائم ہے۔ ہر سال آنے والے اسلامی مہینہ رجب المرجب کی 21 ویں تاریخ کو ان کا یوم وصال منایا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ صدیوں کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی ان کے عقیدت مندوں میں کسی قسم کی کمی کے بجائے تیزی سے اضافہ ہی ہوا ہے۔ ان سے دلی اور حقیقی روحانی عقیدت رکھنے والے ان کی درگاہ شریف ہندوستان کے صوبے یوپی کے شہر امروہہ میں لاکھوں کی تعداد میں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ان کے حضور پیش ہوتے ہیں۔

ان عقیدت مند زائرین میں مسلمانوں کے علاوہ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہندو، سکھ، عیسائیوں کی بھی ایک بڑی تعداد شریک ہوتی ہے جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوتا کہ وہ تفریق رنگ و نسل مذہب سے مبرا تھے، ان کے نزدیک محض انسانیت سے محبت و پیار تھا، جس کا درس انھوں نے اپنی 86 سالہ زندگی میں ایک ابدی چراغ روشن کر دیا جو الحمدﷲ ابھی تک روشن ہی ہے، جس کی روشنی سے اب تک ہماری نسلیں روشناس ہو رہی ہیں۔

وہ عراق کے شہر واسط میں پیدا ہوئے اور سترہ سال کی عمر میں 1269 ( 2 ذی الحج) کو غیر منقسم ہندوستان کی طرف ہجرت کی اور یوپی کی تحصیل امروہہ میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ امروہہ ہندوستان کے دارالخلافہ دہلی سے 134 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ کہتے ہیں کہ اس تحصیل ''امروہہ'' کی بنیاد 474 ق م (قبل از مسیح) میں اس وقت کے بادشاہ امر جودہ نے رکھی تھی۔ امروہہ ہی میں ان کی رحلت 21 رجب المرجب 1382 ہو گئی۔ ان کے روحانی رتبے کو دیکھتے ہوئے اس وقت کی پانچ بادشاہتوں کے ادوار میں سے تین بادشاہتوں کے ادوار نے ان کی روحانیت اور تصوف، صوفی ازم کے عروج کو کماحقہ تسلیم کیا۔

پانی پت کی جنگ سے قبل یعنی 1206سے 1526 کے درمیان کا عرصہ مغل شہنشاہ ظہیر الدین بابر کا دور تھا، جس نے اپنی باکمال سپہ گری اور طاقت کے ذریعے سلطان ابراہیم لودھی کو شکست دے کر اس کی بادشاہت کا خاتمہ کیا۔ یہ وہ سنہرا دور تھا جس میں پورے خطے میں حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہوئیں، جس کے مثبت اثرات وہاں کے سماجی، معاشی، معاشرتی معاملات میں قابل قدر ترقی کی صورت میں سامنے آئے اور انسانی اقدار میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا۔ ان کے نزدیک صوفی ازم کی عمارت اسلامی نظریات اور انسانی نفسیات کی رو سے تین مضبوط ستونوں پر کھڑی ہے۔ 1۔ نفس، 2۔ قلب، 3۔ روح۔

قدرتی معجزات اور کرامات کے اس بے تاج ازلی بادشاہ کی درگاہ میں زہریلی رینگنے والی اﷲ تعالیٰ کی مخلوق ہر وقت اس ہستی سے اظہار محبت کا عملی نمونہ پیش کر رہی ہوتی ہے، جس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ حقیقت میں یہ ہستی اﷲ کے بہت قریب ہے۔ بلاشبہ بچھو کا زہر انسان کے لیے جان لیوا ہے مگر یہ جان کر آپ حیران ہوں گے کہ اس برگزیدہ ہستی کی درگاہ میں بچھوئوں کی خاصی تعداد موجود ہے جو کسی بھی شکل میں انسان کے لیے خطرناک نہیں ہے، بچھو کو ہاتھ میں لینے کے بعد بھی یہ آپ کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچائے گا۔ ان کی درگاہ کے صحن میں موجود قبروں میں سے ایک خاتون کی قبرکے سرہانے بل کھاتا ہوا چوٹی نما درخت ہے جو الائچی جیسی چھال دیتا ہے۔

امروہہ کی بھی عجب تاریخ ہے۔ مختلف محققین بتاتے ہیں کہ جب سترہ سال کی عمر میں جد امجد امروہہ تشریف لائے تو وہاں کے مقامی لوگوں نے ان کی خاطر مدارات میں آنبہ (آم) پیش کیے جو خاص طور پر معیاری آم کی پیداوار میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ آپ نوش فرما کر بہت خوش ہوئے، اسی طرح موسم سرما میں آپ کی خدمت اقدس میں ''روہو'' مچھلی پیش کی گئی، جو کہ امروہہ کے تالابوں اور بان ندیوں میں کثرت سے پائی جاتی تھی، تناول فرما کر خوشی کا برملا اظہار کرتے ہوئے ان دونوں خداداد نعمتوں کی مناسبت سے اس بستی کا نام انبروہا تجویز فرمایا، جس کی ہیئت حالات کے بدلنے کے ساتھ ساتھ عرف عام میں امروہہ مشہور ہو گیا۔

امروہہ ضلع مرادآباد کی تحصیلوں میں سب سے بڑی تحصیل تھی، جغرافیائی لحاظ سے اس کے مشرق میں مراد آباد، مغرب میں تحصیل حسن پور، شمال میں ضلع بجنور اور جنوب میں تحصیل سنبھل آباد ہیں (یاد رہے اب امروہہ تحصیل سے ضلع میں تبدیل ہو چکا ہے)۔ ایک اندازے کے مطابق اس علمی اور ثقافتی شہر کی آبادی لگ بھگ چار لاکھ کے قریب ہو گی۔ اس شہر میں مسلمانوں کے علاوہ ہندئوں، سکھوں کی خاصی تعداد رہائش پذیر ہے، جن کا ذریعہ روزگار چھوٹے پیمانے پر مختلف قسم کے کاروبار ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد گنگا جمنا تہذیب کا یہ مثالی شہر امن و سکون کا گہوارہ رہا ہے۔

یوں تو ہر دور میں یہ شہر علم و فن کا مرکز، علم و دانش اور بصیرت و افکار کے لیے مشہور رہا ہے مگر ایک خاص بات جو امروہہ کو دوسرے شہروں سے ممتاز کرتی ہے، وہ ہے سادات میں بڑی بڑی باکمال، باوقار ہستیوں کا پیدا ہونا، جن میں جید علمائے کرام، ادباء، شعراء، وکلاء، مورخین، انشاء پرداز، ناقدین، ذاکرین، ڈاکٹر و اطباء، سوزخوان، موسیقار و فلمساز، پہلوان و حرب کے ماہرین، عامل و جفار، غرض کہ ہر فن سے متعلق باکمال افراد کو اسی شہر نے جنم دیا۔

قابل افسوس امر یہ ہے کہ اس عظیم صوفی منش ہستی کی حالات زندگی محققانہ انداز میں ہمارے سامنے موجود نہیں ہے۔ مستند اور تحقیق پر مبنی اشاعتی مواد سے ہم قطعاً محروم ہیں۔ ہمیں اس بات کی تشویش ہے کہ ہماری آنے والی نسلیں اپنے روایتی کلچر کی شناخت کس پیمانے پر کریں گی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ کم از کم دانشوروں اور علمی شخصیات کی طرف سے تیارکردہ تحقیقی مقالے جو مختلف منعقدہ تقریبات میں پڑھے جاتے ہیں، وہ پاکستان اور ہندوستان کی یونیورسٹیوں میں پیش کیے جائیں، تاکہ وہ پی ایچ ڈی کے نصاب میں ان مقالوں سے مستفید ہو سکیں۔ اس سلسلے میں ایک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے قیام کی بھی اشد ضرورت ہے۔a

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں