ایف آئی آر نہ مجرم کو سزا

ویرانی اور قبرستان الگ الگ تو نہیں ہوتے لیکن: زمین اوڑھ کے سوئے ہوئے روپ نگر کی شہزادیوں ۔۔۔

جَگ جَگ کی کتھا پرانی

پر پریم نیا اور تپسیا پرانی

ویرانی اور قبرستان الگ الگ تو نہیں ہوتے لیکن: زمین اوڑھ کے سوئے ہوئے روپ نگر کی شہزادیوں کے قبرستان کی خون میں ڈوبی ہوئی ویرانی دیکھنے والوں کی بھی جان لینے پہ تْلی ہوئی ہے، جیسے ضلع لاڑکانہ سے 35 کلومیٹر دور رتودیرو کا گاؤں ہے اور رتودیرو سے 3 کلومیٹر کے فاصلے پر لوئی کا علاقہ ہے جہاں کی بنجر اور ویران زمین جاگیرانی قبیلے کی ملکیت ہے۔

یہ بنجر زمین بے موت ماری جانے والی پیار کی گنہگار عورتوں کی آرام گاہ ہے۔ جو کہ سماج کی نظروں میں گنہگار ہوتی ہیں۔ جن کو مار کر ''کاری'' کا لقب دے کر بنا غسل اور کفن کے گڑھا کھود کر دفن کر دیا جاتا ہے۔

قبرستان تو ہوتے ہی ویران ہیں۔ قبرستان تو آبادیوں سے دور بسائے جاتے ہیں لیکن اپنے پیاروں کی قبروں پر دیا جلانے اور چند عقیدت کے پھول چڑھانے اور آنسوؤں کے چند قطروں کا نذرانہ دینے والوں کا ناتا بندھا رہتا ہے۔ اور قبرستان میں بھی لوگوں کے جمگٹھے لگے رہتے ہیں۔ لیکن یہ خاک نشین عجیب ہیں جو بے گناہ مارے جانے پر بھی معصوم نہیں۔ ان کا جرم کیا ہے ؟ ان کا جرم ہے ، سماج کی لگی بندھی روایتوں اور ریتوں سے انحراف کرنا۔ وہ رواتیں جو ذات رنگ نسل کے تفرقوں میں انسانیت کو بانٹ کر انسانوں کا لہو چوس کر اپنے آپ کو زندہ رکھتی ہیں۔

وہ روپ نگر کی شہزادیاں، خواب نگر کے شہزادوں کے ساتھ خواب دیکھنے کے جرم میں ماری گئی۔ گولیوں سے جسم چھلنی ہوئے، کچھ کی گردنیں کلہاڑیوں سے اتاری گئیں، کچھ کے جسموں کو پتھر باندھ کر دریا کے سپرد کیا گیا۔

لیکن محبت کے نعروں میں کمی نہ ہوئی۔ نہ قاتل کے ہاتھ تھکتے ہیں نہ محبت میں مرنے والوں میں کمی ہوئی ہے۔

صدیوں سے ایک ہی روایت کی پاسداری کرنے والے قبائلی لوگ جرگوں کے فیصلوں کو مانتے ہیں۔

سندھ کے کئی اضلاع ان رسموں کی لپٹ میں ہیں۔

ان فرسودہ رسموں اور قدیم روایتوں کے خلاف مزاحمت کا علم بلند کرنے والی لڑکیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے وومن ایکشن فورم کے حیدرآباد، کراچی اور شہدادکوٹ چیئر کی 20 خواتین ان 40 سال پرانے قبرستان کی طرف گامزن ہوئیں۔ عورتوں کا عالمی دن گزر گیا۔ اس دن کے ابھرتے سورج کے لیے بھی یہ منظر نیا تھا۔ 20 خواتیں کے قافلے نے 2 کلومیٹر پیدل چل کر اس سرزمین پر قدم دھرے جو کہ مقامِ عبرت اور مرِکز نفرت تھی۔ چند مٹی کے ڈھیر تھے جو ایک دوسرے سے دور دور بنے ہوئے تھے ۔ جہاں خوف اور وحشت کا راج تھا۔ یہ وہ مقام تھا جہاں آنسو بہانا جرم تھا۔ یہاں نہ کسی ماں کو اپنی جوان بیٹی کی لاش بہ بین کرنے کا حق تھا، نہ کسی باپ کو اپنی بیٹی کو کفن دینے کا اختیار تھا، نہ کسی بھائی کو بہن کی قبر پر دیا جلانے کی اجازت تھی۔

لڑکیوں کے خون آلود جسم گڑھا کھود کر رات کی تاریکی میں دفنائے جاتے تھے۔ ان کی نہ کہیں ایف آئی آر ہوئی ہے، نہ مجرم کبھی سزا پا سکتے ہیں۔ پسند کی شادی ملکی قانون کے مطابق جرم نہیں ہے۔ لیکن سماج کی رسموں نے اس حق کو جرم بنا دیا ہے۔ قانونی حق کو استعمال کرنے کے جرم میں کئی لڑکیاں روزانہ ماری جاتی ہیں۔ وہاں کی بنجر زمین پر ہر قبر مٹی کا ڈھیر تھی۔ وہاں کی زمین نے شاید انسانی قدموں کو محسوس ہی نہیں کیا تھا۔

ہر قبر پر پھول اور آنسوؤں کی سوغات پہلی بار پیش کی گئی۔ جہاں نفرت تھی وہاں محبت کے پھول نچھاور کیے گئے۔ ہر قبر کی الگ داستان تھی ناکام محبتوں کے نوحے سناتی ویران قبروں میں سوئی ہوئی روپ نگر کی شہزادیاں شاید سوچ بھی نہیں سکتیں تھیں کہ کبھی ایسا بھی ہوگا کہ یہ نیا دن جس نے ان کی محبت کو نفرت سے نہیں پیار سے دیکھا ہے۔ ایسی راہ پہ چلنے والی خواتیں نے ان کو ''کالی'' نہیں ''مزاحمت'' کرنے والی کا نام دیا ہے۔


دشمن سے لڑنا اتنا آسان ہوتا ہے ۔ مخالفوں کی تیر و نشتر سہنا بھی آسان ہوتا ہے ، لیکن کھٹن ہے وہ وقت جب اپنا خون، اپنے خون کا خون بہادے۔ ہاتھ پکڑ کر چلنا سیکھنے والے ہاتھ، ہاتھوں کو کاٹ دیں۔ کندھے پہ بٹھانے والے گردن کو کندھوں سے الگ کر دیں۔ کتنا مشکل ہے اپنے پیاروں سے اپنے ہی حق مانگنا۔ آج کی نوجواں نسل جو یوں محبت کے نام پر کٹ کر مرتی جا رہی ہے۔ ان کے نام عطیہ دائود نے ایک دل چھونے والی نظم کہی تھی۔

''مزاحمتی عورتوں کی آخری آرام گاہ'' میں ایک ایسی گمنام قبر تھی جس کے لیے وہاں کے مقامی لوگوں سے پتہ چلا کہ، اس لڑکی کو کالی کر کے مار کر دفن کیا گیا تو اس کی ماں وہاں آئی اور اپنی بیٹی کی قبر کو پکا کروایا۔ وہاں آنے اور قبر کو پکا کرنے کی جرم میں اْسے بھی قتل کر دیا گیا۔ ہر قبر کے ساتھ منسلک قصہ دلوں کو چیرنے جیسا تھا۔ عطیہ دائود نے اپنی مشہور نظم اْسی قبر میں دفن لڑکی کے نام کی۔ وہ منظر برداشت کرنا سب کے لیے بہت کھٹن تھا۔ عطیہ کے لفظ تھے اور سب کے آنسو تھے، سسکیاں تھیں۔

اگر تمھیں کالی کر کے مار بھی دیں

مر جانا ! پیار ضرور کرنا

تمھارے پیار کو گناہ بھی کہیں گے

پھر کیا ہے

سہہ جانا

پیار ضرور کرنا

آج کل تسلسل کے ساتھ ایسے واقعات میڈیا پر رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔ جب بھی حقائق سامنے آتے ہیں تو زیادہ تر کاروکاری کے واقعات میں جرگے سر فہرست نظر آتے ہیں۔

جرگوں میں قبائلی جھگڑوں کے فیصلے نہیں ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کے فیصلے کے لوگوں کو مارنے کے بعد جب صلح کے فیصلے کیے جاتے ہیں تو ان کی قیمت بھی معصوم لڑکیوں کو چکانی پڑتی ہے۔ مردوں کے سروں کی قیمت، لڑکی کی زندگی سے ادا کی جاتی ہے۔ کہیں کم عمری میں بیاہی جاتی ہیں تو کہیں اپنی سے دگنی تنگی عمر کے مردوں کے ساتھ شادی کے نام پر سودے میں بیچی جاتیں ہیں۔ اگر کسی کے ساتھ پرانی دشمنی کا بدلہ لینا ہو تو بھی اْس کو کاروکاری کے واقع میں ملوث دکھا کہ مارا جاتا ہے یا پھر لڑکی کو مار کر دوسرے قبیلے کے لوگوں سے بھاری رقمیں بٹوری جاتی ہیں۔

وہاں کے مقامی لوگوں کے مطابق گھوٹکی میں لڑکیوں کو پتھر سے باندھ کر دریا میں زندہ ڈبو دیا جاتا تھا۔ وہ جگہ آج بھی موجود ہے ۔ سندھ میں صرف رتودیرو میں نہیں کچھ اور علاقے بھی ہیں۔ شکارپور میں شر اور جتوئی قبیلوں کا بھی ایسا قبرستان بتایا جاتا ہے اور ضلع گھوٹکی میں کھینجو کے مقام پر بھی لڑکیوں کا قبرستان ہے جہاں کچے کا علاقہ ہے وہاں زیادہ تر پسند کی شادیاں کرنے والی لڑکیوں کو زندہ پتھر سے باندھ کر دریا کے سپرد کر دیا جاتا ہے ۔

یہ سب کچھ آج کے جدید دور میں ہو رہا ہے۔ ہماری نواجون نسل جس کو بہت سے کام کرنے ہیں کئی انقلاب لانے ہیں وہ صرف محبت کے نام پر کٹ کر مرتے جارہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ریاست میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں نہیں ہوتی ہیں جو کہ ریاست کے قانون پر عمل درآمد نہیں کرتی۔ ہمارے قانون کے ساتھ ساتھ یہ متبادل جرگے ہمارے قانون اور حکومتی فورس کو کمزور کیے جا رہے ہیں۔
Load Next Story