غزہ کا محاصرہ اور ایٹمی حملے کی دھمکی
مسلسل ایک ماہ سے جاری اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں غزہ کا انفرا اسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے
اسرائیلی فوج نے رات کے اندھیرے میں غزہ کے المغازی مہاجر کیمپ پر بمباری کردی جس کے نتیجے میں 51 فلسطینی شہید ہوگئے، جس میں بچے بھی شامل ہیں، جب کہ ایک اسرائیلی وزیر نے غزہ پر ایٹم بم گرانے کی دھمکی دی ہے، اسرائیلی فورسز نے غزہ شہر کا مکمل گھیراؤ کر رکھا ہے۔
مسلسل ایک ماہ سے جاری اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں غزہ کا انفرا اسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے، جب کہ مواصلاتی نظام اور انٹرنیٹ اور موبائل سروس معطل ہونے سے غزہ کا رابطہ ایک بار پھر دنیا سے منقطع ہوگیا ہے، اسرائیل کی جانب سے غزہ کے مسلسل محاصرے نے محصور شہریوں کو قحط کے خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔
غیرملکی میڈیا کے مطابق اسرائیل نے غزہ کا مکمل محاصرہ کر رکھا ہے جس کے نتیجے میں 23 لاکھ افراد کو پانی، کھانے اور ایندھن کی فراہمی معطل ہوگئی ہے۔ مسلسل محاصرے سے شہریوں کو قحط جیسی صورتحال کا سامنا ہے۔
دوسری جانب کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے خدا کا واسطہ دے دیا، جب کہ معاشی ماہرین نے کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں تنازعات کی وجہ سے عالمی اقتصادی بحران پیدا ہوسکتا ہے کیونکہ دنیا پہلے ہی غیر یقینی عالمی معیشت درپیش چیلنجوں کا سامنا کر رہی ہے۔
پوری دنیا میں خوف بڑھ رہا ہے اور امید کم ہے، خوف طویل مدتی بحران پیدا کرتا ہے، جیو پولیٹیکل محاذ پر اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ دنیا کے مستقبل کے لیے سب سے اہم چیز ہے، جس میں بڑھتے ہوئے تنازعات کے ممکنہ طور پر توانائی، خوراک کی قیمتوں، بین الاقوامی تجارت اور سفارتی تعلقات پر زیادہ دیر تک رہنے والے اثرات پڑ سکتے ہیں۔
غزہ ایک ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ روم کے ساحل کے ساتھ قدیم تجارتی اور سمندری راستوں پر واقع ہے، 1917 تک یہ پٹی سلطنت عثمانیہ کے زیر سایہ رہی اور گزشتہ صدی کے دوران برطانیہ سے مصر اور پھر اسرائیلی فوجی حکمرانی کو منتقل ہوا اور اب یہ ایک حفاظتی باڑ کا حامل ایک ایسا علاقہ ہے، جہاں تیئس لاکھ سے زیادہ فلسطینی آباد ہیں۔
مغربی سامراجی حکومتیں اس وقت '' اسرائیل کو اپنا دفاع کرنے کا حق ہے'' کی بات کررہی ہیں۔ امریکی صدر، فرانسیسی صدر اور برطانیہ میں اسٹارمر جیسے اصلاح پسند قائدین مل کر اسرائیل پر حملے کی مذمت کرنے کا منافقانہ رونا دھونا کر رہے ہیں لیکن کئی دہائیوں سے جاری اسرائیلی جارحیت پر منہ بند کیے بیٹھے ہیں۔
وہ اس حقیقت سے انکاری ہیں کہ نیتن یاہو کی سفاک حکومت میں مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کی فلسطینی آبادیوں پر انتہائی دائیں بازو کے یہودی آبادکاروں کا ظلم و جبر مکمل طور پر بے لگام ہو چکا ہے جس کو اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ہر قسم کی درپردہ اور پس پردہ معاونت اور گارنٹی حاصل ہے۔
فلسطینی نوجوانوں کی جانب سے غاصبانہ قبضے کے خلاف مزاحمت کی ہر کوشش کا جواب اسرائیلی ڈیفنس فورسز نے منصوبہ بند دیوہیکل تباہی اور جبر کے ذریعے دیا ہے، جس میں لامتناہی حملے اور ٹارگٹ کلنگ شامل ہیں۔
مغربی پٹی، مشرقی یروشلم اور اسرائیل سے ہزاروں فلسطینی نوجوان، جن میں کئی کمسن شامل ہیں، گرفتار ہیں اور کسی عدالتی کارروائی کے بغیر جیلوں میں پڑے گل سڑ رہے ہیں، لیکن دوسری طرف ایک بھی مجرم آبادکار گرفتار نہیں ہوا اور نہ ہی کسی ایک فرد کو کسی قسم کی سزا دی گئی ہے۔
رواں برس کے آغاز سے اسرائیل ایک سیاسی بند گلی میں پھنسا ہوا ہے اور نیتن یاہو کی عدالتی اصلاحات کے خلاف دیوہیکل احتجاجوں نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے جب کہ صیہونی حکمران طبقہ شدید اختلافات میں ڈوبا ہوا ہے۔
نیتن یاہو کی اپنی سیاسی بقاء کی جنگ نے یہودی دائیں بازوکے شدید انتہاء پسندوں اِتامار بن گویر اور بازالیل سموتریچ کو تاریخی موقع دیا کہ وہ اسرائیلی ریاست میں طاقتور عہدے حاصل کر لیں۔ ان کا پروگرام ایک ''نیا نقبہ'' (1948میں فلسطینیوں کی وسیع پیمانے پر نسل کشی جس کے بعد فلسطین میں اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا گیا تھا) برپاء کر کے مغربی پٹی، مشرقی یروشلم، گولان ہائٹس اور غزہ پر قبضہ کر کے اس خطے سے پوری فلسطینی عوام کا صفایا کرنا ہے۔
نیتن یاہو اور صیہونی ڈسٹوپیائی ریاست کے حامیوں نے ایک پوری قوم پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے، ان کی اپنی ہی زمین پر نسل کشی کی جا رہی ہے جب کہ اسرائیل کو اس ہولناک تسلط کے کھیل سے بچانے کی ہر ممکن کوشش بھی کی جاتی ہے، یہ سب موجودہ صورتحال کے ذمے دار ہیں۔
ایک قوم کے بنیادی جمہوری حقوق سلب کر کے، انھیں تباہ و برباد کر کے، مسلسل ان کی زمینوں اور گھروں پر قبضے کر کے، انھیں قتل و غارت، گرفتار، ٹارچر اور مسلسل غربت کی چکی میں پیس کر یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ جلد یا بدیر اس ساری تباہ کاری کا دیوہیکل جواب نہیں ملے گا۔ الاقصیٰ مسجد اسلام میں تیسرا سب سے مقدس مقام ہے اور اس لیے اس پر صیہونی انتہاء پسندوں کا قبضہ کھلے عام اشتعال انگیزی ہے۔
اس سارے کھیل میں اسرائیلی پولیس نے کھلے عام معاونت اور حفاظت فراہم کی۔ مقدس مقام کی اس شرمناک تحقیر نے موجودہ حملے کا فوری جواز فراہم کر دیا ہے۔ عالمی میڈیا نے دانستہ طور پر اس سارے واقعے کو پس پشت ڈال دیا ہے۔
فلسطینیوں کے حوالے سے امریکی پالیسی کے خلاف گزشتہ روز وائٹ ہاؤس کے سامنے ہزاروں افراد نے جمع ہو کر زبردست احتجاج کیا، جس میں یہودیوں کی بھی بڑی تعداد شریک ہوئی اور مظاہرین نے اسرائیل کے خلاف نعرے لگائے۔ مظاہرین نے داخلی دروازے کی دیوار پر سرخ ہاتھوں کے نقوش بھی چھوڑے جو اس بات کی علامت تھے کہ امریکا کے ہاتھ فلسطینیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔
صدر رجب طیب اردوان نے جمہوریہ ترکیہ کے قیام کی 100ویں سالگرہ کو غزہ کی جنگ آزادی سے جوڑ دیا۔ اس موقع پر صدر مملکت نے جمہوریہ کے بانی مصطفی کمال ِ اتاترک کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے بعد غزہ کی حمایت اور اسرائیل کے خلاف پندرہ لاکھ احتجاجی لوگوں کے اجتماع سے خطاب کیا۔ انھوں نے متنبہ کیا کہ اگر مغرب ایک بار پھر صلیب اور ہلال کی جنگ چاہتا ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ ہم ابھی زندہ ہیں۔
استنبول کے بڑے اجتماع میں اردوان نے اسرائیل کے جنگی جرائم اور مظالم کی مرکزی ذمے داری مغربی طاقتوں پر ڈالتے ہوئے کہا کہ ان کی سرپرستی کے بغیر اسرائیل یہ سب نہیں کرسکتا۔ فلسطین کے ہمسایہ ممالک میں موجود عرب عوام کو بھی اس حوالے سے کلیدی کردار ادا کرنا ہے، لیکن یکجہتی کے زبانی جمع خرچ کے علاوہ نہ پہلے فلسطینی معاونت کے لیے کچھ کیا گیا ہے اور نہ اس مرتبہ کچھ کرنے کے آثار نظر آتے ہیں۔
مسلم ممالک کے حکمران اگر کچھ مصلحتوں کا شکار ہو بھی جائیں تو وہاں کے عوام کبھی بھی اس بات کو قبول نہیں کریں کہ غاصب صہیونی قبلہ اول پر قابض ہوں۔
اقوامِ متحدہ کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرانے کے لیے بھرپور کردار ادا کرے، ورنہ ناجائز اسرائیلی ریاست اور غاصب صہیونیوں کے مظلوم فلسطینیوں کے خلاف مسلسل بڑھتے ہوئے اقدامات کسی ایسی صورتحال کو جنم دے سکتے ہیں، جو عالمی جنگ کا باعث بھی بن سکتی ہے اور ایسی صورت میں معاملات کسی کے بھی ہاتھ میں نہیں رہیں گے۔
غزہ پر وحشیانہ اسرائیلی بمباری پر دنیا بھر میں لوگ سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں لیکن امریکا بدستور صہیونی ریاست کے غیر انسانی اقدامات کی حمایت پر کمر بستہ ہے، اور جنگ بندی کی حمایت سے گریزا
ں ہے۔ اسرائیل اور فلسطین تنازع کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ فلسطینی، ایک آزاد ریاست کے خواہاں ہیں لیکن ان کی یہ خواہش کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود پوری نہیں ہوئی۔ دو ریاستی حل میں 1967 کی سرحدوں کی بنیاد پر ایک مکمل خودمختار آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی تجویز دی گئی، جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہوگا۔ یہ حل '' زمین کے بدلے امن '' کے اصول پر مبنی ہے، جس سے مخصوص زمینوں پر رعایتیں دے کر طویل مدتی امن حاصل کیا جا سکتا ہے۔
اقوام متحدہ نے 1947 میں قرارداد 181 منظور کی جس میں فلسطین میں ایک آزاد ریاست کے قیام کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس فارمولا پر ہمیشہ بین الاقوامی برادری کا بنیادی اتفاق رائے رہا ہے، اگرچہ فلسطین اور اسرائیل نے دو ریاستی حل کے اصول کو قبول کر لیا ہے لیکن اس کے عملی نفاذ میں اختلافات کی موجودگی کی وجہ سے امن عمل رک گیا ہے۔
چیلنجز کے باوجود، دو ریاستی حل ہی واحد قابل عمل حل ہے۔ زیادہ تر عرب ممالک کے مطابق دو ریاستی حل کے ذریعے ہی فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن کا حصول ہوسکتا ہے اور اسی سے عرب اسرائیل تعلقات کو معمول پر لانا اور فلسطینیوں کو ایک آزاد ریاست فراہم کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔
آج بھی فلسطین تنازع کی کنجی اقوام متحدہ کے پاس ہے جو اپنی منظور کردہ قراردادوں کا عملی نفاذ کرانے کے لیے دو ریاستی حل کے تحت آزاد فلسطین قائم کرے، یروشلم کو عملی طور پر عالمی شہر بنایا جائے اور دونوں خود مختار ریاستوں کو ایک دوسرے کی عالمی تسلیم شدہ سرحدوں کا احترام کرنے کا پابند کیا جائے۔
مسلسل ایک ماہ سے جاری اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں غزہ کا انفرا اسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے، جب کہ مواصلاتی نظام اور انٹرنیٹ اور موبائل سروس معطل ہونے سے غزہ کا رابطہ ایک بار پھر دنیا سے منقطع ہوگیا ہے، اسرائیل کی جانب سے غزہ کے مسلسل محاصرے نے محصور شہریوں کو قحط کے خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔
غیرملکی میڈیا کے مطابق اسرائیل نے غزہ کا مکمل محاصرہ کر رکھا ہے جس کے نتیجے میں 23 لاکھ افراد کو پانی، کھانے اور ایندھن کی فراہمی معطل ہوگئی ہے۔ مسلسل محاصرے سے شہریوں کو قحط جیسی صورتحال کا سامنا ہے۔
دوسری جانب کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے خدا کا واسطہ دے دیا، جب کہ معاشی ماہرین نے کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں تنازعات کی وجہ سے عالمی اقتصادی بحران پیدا ہوسکتا ہے کیونکہ دنیا پہلے ہی غیر یقینی عالمی معیشت درپیش چیلنجوں کا سامنا کر رہی ہے۔
پوری دنیا میں خوف بڑھ رہا ہے اور امید کم ہے، خوف طویل مدتی بحران پیدا کرتا ہے، جیو پولیٹیکل محاذ پر اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے وہ دنیا کے مستقبل کے لیے سب سے اہم چیز ہے، جس میں بڑھتے ہوئے تنازعات کے ممکنہ طور پر توانائی، خوراک کی قیمتوں، بین الاقوامی تجارت اور سفارتی تعلقات پر زیادہ دیر تک رہنے والے اثرات پڑ سکتے ہیں۔
غزہ ایک ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ روم کے ساحل کے ساتھ قدیم تجارتی اور سمندری راستوں پر واقع ہے، 1917 تک یہ پٹی سلطنت عثمانیہ کے زیر سایہ رہی اور گزشتہ صدی کے دوران برطانیہ سے مصر اور پھر اسرائیلی فوجی حکمرانی کو منتقل ہوا اور اب یہ ایک حفاظتی باڑ کا حامل ایک ایسا علاقہ ہے، جہاں تیئس لاکھ سے زیادہ فلسطینی آباد ہیں۔
مغربی سامراجی حکومتیں اس وقت '' اسرائیل کو اپنا دفاع کرنے کا حق ہے'' کی بات کررہی ہیں۔ امریکی صدر، فرانسیسی صدر اور برطانیہ میں اسٹارمر جیسے اصلاح پسند قائدین مل کر اسرائیل پر حملے کی مذمت کرنے کا منافقانہ رونا دھونا کر رہے ہیں لیکن کئی دہائیوں سے جاری اسرائیلی جارحیت پر منہ بند کیے بیٹھے ہیں۔
وہ اس حقیقت سے انکاری ہیں کہ نیتن یاہو کی سفاک حکومت میں مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کی فلسطینی آبادیوں پر انتہائی دائیں بازو کے یہودی آبادکاروں کا ظلم و جبر مکمل طور پر بے لگام ہو چکا ہے جس کو اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ہر قسم کی درپردہ اور پس پردہ معاونت اور گارنٹی حاصل ہے۔
فلسطینی نوجوانوں کی جانب سے غاصبانہ قبضے کے خلاف مزاحمت کی ہر کوشش کا جواب اسرائیلی ڈیفنس فورسز نے منصوبہ بند دیوہیکل تباہی اور جبر کے ذریعے دیا ہے، جس میں لامتناہی حملے اور ٹارگٹ کلنگ شامل ہیں۔
مغربی پٹی، مشرقی یروشلم اور اسرائیل سے ہزاروں فلسطینی نوجوان، جن میں کئی کمسن شامل ہیں، گرفتار ہیں اور کسی عدالتی کارروائی کے بغیر جیلوں میں پڑے گل سڑ رہے ہیں، لیکن دوسری طرف ایک بھی مجرم آبادکار گرفتار نہیں ہوا اور نہ ہی کسی ایک فرد کو کسی قسم کی سزا دی گئی ہے۔
رواں برس کے آغاز سے اسرائیل ایک سیاسی بند گلی میں پھنسا ہوا ہے اور نیتن یاہو کی عدالتی اصلاحات کے خلاف دیوہیکل احتجاجوں نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے جب کہ صیہونی حکمران طبقہ شدید اختلافات میں ڈوبا ہوا ہے۔
نیتن یاہو کی اپنی سیاسی بقاء کی جنگ نے یہودی دائیں بازوکے شدید انتہاء پسندوں اِتامار بن گویر اور بازالیل سموتریچ کو تاریخی موقع دیا کہ وہ اسرائیلی ریاست میں طاقتور عہدے حاصل کر لیں۔ ان کا پروگرام ایک ''نیا نقبہ'' (1948میں فلسطینیوں کی وسیع پیمانے پر نسل کشی جس کے بعد فلسطین میں اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا گیا تھا) برپاء کر کے مغربی پٹی، مشرقی یروشلم، گولان ہائٹس اور غزہ پر قبضہ کر کے اس خطے سے پوری فلسطینی عوام کا صفایا کرنا ہے۔
نیتن یاہو اور صیہونی ڈسٹوپیائی ریاست کے حامیوں نے ایک پوری قوم پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے، ان کی اپنی ہی زمین پر نسل کشی کی جا رہی ہے جب کہ اسرائیل کو اس ہولناک تسلط کے کھیل سے بچانے کی ہر ممکن کوشش بھی کی جاتی ہے، یہ سب موجودہ صورتحال کے ذمے دار ہیں۔
ایک قوم کے بنیادی جمہوری حقوق سلب کر کے، انھیں تباہ و برباد کر کے، مسلسل ان کی زمینوں اور گھروں پر قبضے کر کے، انھیں قتل و غارت، گرفتار، ٹارچر اور مسلسل غربت کی چکی میں پیس کر یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ جلد یا بدیر اس ساری تباہ کاری کا دیوہیکل جواب نہیں ملے گا۔ الاقصیٰ مسجد اسلام میں تیسرا سب سے مقدس مقام ہے اور اس لیے اس پر صیہونی انتہاء پسندوں کا قبضہ کھلے عام اشتعال انگیزی ہے۔
اس سارے کھیل میں اسرائیلی پولیس نے کھلے عام معاونت اور حفاظت فراہم کی۔ مقدس مقام کی اس شرمناک تحقیر نے موجودہ حملے کا فوری جواز فراہم کر دیا ہے۔ عالمی میڈیا نے دانستہ طور پر اس سارے واقعے کو پس پشت ڈال دیا ہے۔
فلسطینیوں کے حوالے سے امریکی پالیسی کے خلاف گزشتہ روز وائٹ ہاؤس کے سامنے ہزاروں افراد نے جمع ہو کر زبردست احتجاج کیا، جس میں یہودیوں کی بھی بڑی تعداد شریک ہوئی اور مظاہرین نے اسرائیل کے خلاف نعرے لگائے۔ مظاہرین نے داخلی دروازے کی دیوار پر سرخ ہاتھوں کے نقوش بھی چھوڑے جو اس بات کی علامت تھے کہ امریکا کے ہاتھ فلسطینیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔
صدر رجب طیب اردوان نے جمہوریہ ترکیہ کے قیام کی 100ویں سالگرہ کو غزہ کی جنگ آزادی سے جوڑ دیا۔ اس موقع پر صدر مملکت نے جمہوریہ کے بانی مصطفی کمال ِ اتاترک کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے بعد غزہ کی حمایت اور اسرائیل کے خلاف پندرہ لاکھ احتجاجی لوگوں کے اجتماع سے خطاب کیا۔ انھوں نے متنبہ کیا کہ اگر مغرب ایک بار پھر صلیب اور ہلال کی جنگ چاہتا ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ ہم ابھی زندہ ہیں۔
استنبول کے بڑے اجتماع میں اردوان نے اسرائیل کے جنگی جرائم اور مظالم کی مرکزی ذمے داری مغربی طاقتوں پر ڈالتے ہوئے کہا کہ ان کی سرپرستی کے بغیر اسرائیل یہ سب نہیں کرسکتا۔ فلسطین کے ہمسایہ ممالک میں موجود عرب عوام کو بھی اس حوالے سے کلیدی کردار ادا کرنا ہے، لیکن یکجہتی کے زبانی جمع خرچ کے علاوہ نہ پہلے فلسطینی معاونت کے لیے کچھ کیا گیا ہے اور نہ اس مرتبہ کچھ کرنے کے آثار نظر آتے ہیں۔
مسلم ممالک کے حکمران اگر کچھ مصلحتوں کا شکار ہو بھی جائیں تو وہاں کے عوام کبھی بھی اس بات کو قبول نہیں کریں کہ غاصب صہیونی قبلہ اول پر قابض ہوں۔
اقوامِ متحدہ کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرانے کے لیے بھرپور کردار ادا کرے، ورنہ ناجائز اسرائیلی ریاست اور غاصب صہیونیوں کے مظلوم فلسطینیوں کے خلاف مسلسل بڑھتے ہوئے اقدامات کسی ایسی صورتحال کو جنم دے سکتے ہیں، جو عالمی جنگ کا باعث بھی بن سکتی ہے اور ایسی صورت میں معاملات کسی کے بھی ہاتھ میں نہیں رہیں گے۔
غزہ پر وحشیانہ اسرائیلی بمباری پر دنیا بھر میں لوگ سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں لیکن امریکا بدستور صہیونی ریاست کے غیر انسانی اقدامات کی حمایت پر کمر بستہ ہے، اور جنگ بندی کی حمایت سے گریزا
ں ہے۔ اسرائیل اور فلسطین تنازع کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ فلسطینی، ایک آزاد ریاست کے خواہاں ہیں لیکن ان کی یہ خواہش کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود پوری نہیں ہوئی۔ دو ریاستی حل میں 1967 کی سرحدوں کی بنیاد پر ایک مکمل خودمختار آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی تجویز دی گئی، جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہوگا۔ یہ حل '' زمین کے بدلے امن '' کے اصول پر مبنی ہے، جس سے مخصوص زمینوں پر رعایتیں دے کر طویل مدتی امن حاصل کیا جا سکتا ہے۔
اقوام متحدہ نے 1947 میں قرارداد 181 منظور کی جس میں فلسطین میں ایک آزاد ریاست کے قیام کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس فارمولا پر ہمیشہ بین الاقوامی برادری کا بنیادی اتفاق رائے رہا ہے، اگرچہ فلسطین اور اسرائیل نے دو ریاستی حل کے اصول کو قبول کر لیا ہے لیکن اس کے عملی نفاذ میں اختلافات کی موجودگی کی وجہ سے امن عمل رک گیا ہے۔
چیلنجز کے باوجود، دو ریاستی حل ہی واحد قابل عمل حل ہے۔ زیادہ تر عرب ممالک کے مطابق دو ریاستی حل کے ذریعے ہی فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن کا حصول ہوسکتا ہے اور اسی سے عرب اسرائیل تعلقات کو معمول پر لانا اور فلسطینیوں کو ایک آزاد ریاست فراہم کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔
آج بھی فلسطین تنازع کی کنجی اقوام متحدہ کے پاس ہے جو اپنی منظور کردہ قراردادوں کا عملی نفاذ کرانے کے لیے دو ریاستی حل کے تحت آزاد فلسطین قائم کرے، یروشلم کو عملی طور پر عالمی شہر بنایا جائے اور دونوں خود مختار ریاستوں کو ایک دوسرے کی عالمی تسلیم شدہ سرحدوں کا احترام کرنے کا پابند کیا جائے۔