نوجوان ووٹرز اور نئے سیاسی امکانات
نئی نسل میں سیاسی اور سماجی شعور بڑھا ہے، ان کو اپنے ووٹ کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوا ہے
پاکستان کی سیاست بالخصوص انتخابات میں نوجوان ووٹرز کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے ۔ اب جو بھی پارٹی الیکشن جیتے گی، اس کی کامیابی کا انحصار نوجوان ووٹرز پر ہوگا ۔یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی انتخابی سیاست کا مرکز '' نوجوان ووٹرز '' ہیں ۔
الیکشن کمیشن کے اعداد وشمار کے مطابق بھی 18برس سے لے کر 35برس تک کے ووٹرز کی تعداد دیگر طبقات سے زیادہ ہے۔
پانچ سے چھ کروڑ کے درمیان یہ ووٹرز کل پاکستانی ووٹرز کا 46فیصد ہے۔ یعنی جو بھی سیاسی جماعت انتخابی معرکہ میں بڑی کامیابی حاصل کرے گی، اس میں 18-35برس کے نوجوانوں کا کردار سب سے زیادہ ہوگا بلکہ حکومت سازی کی تشکیل میں بھی ان کا کردارکلیدی ہوگا ۔
عموماً ہماری سیاسی جماعتوں کی ترجیحات میں نوجوان طبقے کے مسائل بہت نیچے رہے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ نوجوان طبقے اور سیاسی قیادت کے درمیان خلیج گہری نظر آتی ہے۔ سیاسی قیادت کو انتخابات کے دوران ہی نوجوانوںکی یاد ستانے لگتی ہے۔ان کو یہ ہی لگتا ہے کہ وہ جذباتی باتوں سے نوجوانوںکو اپنی طرف متوجہ کرسکتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں میں نوجوانوں کے ونگز بھی عدم فعالیت کے شکار ہیں ، سیاسی جماعتوں کے پاس ایسا کوئی سیاسی و معاشی ایجنڈا نہیں ہے جو نئی نسل میں نئی امیدیں اور نئے امکانات پیدا کرسکے۔ ہم نے نوجوانوں کو صرف جذباتیت کے ساتھ جوڑا ، ان کو کسی کی حمایت یا مخالفت کا حصہ بنا کر اپنی سیاست میں رنگ بھرے جس کے مثبت پہلو کم اور منفی زیادہ نظر آتے ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی سیاست نے متمول طبقات کے نوجوانوں کو خاصا متاثر کیا ہے ، اس وقت بھی ان طبقات کے نوجوانوں کی اکثریت ان کی سیاست کے قریب سمجھی جاتی ہے۔
مریم نواز اور بلاول بھٹو نوجوان سیاسی قیادت ہے تاہم نوجوانوں میں ان کی سیاسی مقبولیت چیئرمین پی ٹی آئی کے مقابلے میں کم ہے۔ لیکن پی ٹی آئی حکومت میں نوجوانوں کے مسائل حل کرنے پر بھی توجہ نہیں دی گئی ۔
نوجوانوں طبقے کی جہتیں ہیں۔ یعنی خواندہ اور ناخواندہ، لڑکے اور لڑکیاں، دیہی اور شہری، میگا سٹیز کے نوجوان، چھوٹے شہروں کے نوجوان، برسرروزگار اور بے روزگار نوجوان،معذور نوجوان، خوشحال اور غریب طبقے کے نوجوان ہیں۔
نوجوان طبقہ کی یہ درجہ بندی اوران سے جڑے مسائل بھی مختلف ہیں۔نوجوانوں کے مسائل کو دیکھیں تو ان میں مفت تعلیم ، مفت صحت کی سہولت فراہم کرنا سب سے اہم ہیں، روزگار کی ضمانت،تفریح و کھیل کے مواقع کی فراہمی یقینی بنانا، فیصلہ سازی میں ان کی موثر شمولیت، صنفی برابری جیسے امور شامل ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے منشور کا جائزہ لیں تو اس میں ہمیں نوجوانوں کے حوالے سے سطحی سوچ نظر آتی ہے۔
نوجوانوں کی اتنی بڑ ی تعداد کو نظر انداز کرنا یا ان کو سیاسی دھارے کا حصہ نہ بنا کر ہمارا سیاسی قیادت نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔یہ جو ہمیں نوجوانوں میں مایوسی ، بے سمتی اور انتہا پسند رجحانات دیکھنے کو ملتے ہیں۔
ان کا سبب یہی ہے کہ نوجوانوں پر کبھی توجہ ہی نہیں دی گئی ہے ۔جب ہم نوجوانوں کے مسائل کے حل سے لاتعلقی اختیار کریں گے تو اس کا نتیجہ کسی بھی صورت مثبت نہیں نکلے گا ۔نوجوان طبقہ میں جرائم بڑھ رہے ہیں، پڑھے لکھے نوجوان بھی لاقانونیت اور اخلاقی جرائم میں مبتلا ہورہے ہیں ، منشیات کا استعمال بڑھ رہا ہے ۔
عام انتخابات میں نوجوان ووٹرز کے لیے کافی اہمیت رکھتے ہیں جہاں سیاسی جماعتیں ان کو اپنی طرف متوجہ کریں گی وہیں نوجوان بھی اپنے ووٹ کی بنیاد پر فیصلہ کریں گے کہ وہ کس کا اقتدار چاہتے ہیں، نئی نسل میں سیاسی اور سماجی شعور بڑھا ہے، ان کو اپنے ووٹ کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوا ہے۔ 2018کے انتخابات میں بھی نئی نسل کے ووٹرز نے فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا ، اس بار ہمیں ایسا ہی ہوگا۔
ہمارا مجموعی نظام نوجوان نسل کے سامنے بے نقاب ہوا ہے اس کا ردعمل ہمیں نئی نسل کی سوچ اور فکر میں غالب نظر آتا ہے ۔نوجوان نسل اپنے لیے ایک منصفانہ اور شفاف نظام چاہتی ہے جہاں اس کے لیے نہ صرف سازگار ماحول ہو، آگے بڑھنے کے مواقع ہوں۔
اگر ہماری سیاسی جماعتیں واقعی چاہتی ہیں کہ ملک کا ریاستی نظام متحرک اور شفاف ہو تو پھر سیاسی جماعتوں کو نوجوانوں کو اپنی سیاسی ترجیحات میں اہم حصہ دینا ہوگا ۔مسئلہ کا حل نوجوان طبقہ کو گالی دینے یا ان کو نظرانداز کرنے یا ان کے بارے میں منفی خیالات کو اجاگر کرنے سے ممکن نہیں ۔ہمیں نئی نسل کو عملی طور پر قومی سیاسی دھارے کا حصہ بنانا ہے جہاں ان کی سیاسی' سماجی او رمعاشی حیثیت کو مضبوط بنیادوں پر ڈھالا جا سکے۔
یہ سب کچھ آسانی سے نہیں ہوگا بلکہ اس میں سیاسی جماعتوں , سیاسی قیادتوں او رسیاسی حکومتوں کو غیر معمولی اقدامات اختیار کرنے ہونگے ۔کیونکہ یہ ہی سوچ نوجوانوں میں غالب رہنی چاہیے کہ وہ اپنے ووٹ سے سیاسی و معاشی نظام کو تبدیل کرسکتے ہیں ۔یہ ہی سوچ اور فکر نوجوانوں کو سیاست میں ,ووٹ ڈالنے کی طرف راغب کرتی ہے۔
نوجوان طبقہ کو چاہیے کہ وہ خود بھی ووٹ ڈالے اور دوسروں کو بھی ترغیب دے یا متحرک کرے کہ وہ بھی ووٹ ڈالیں ۔اگر نوجوان طبقہ بڑی تعداد میں باہر نکلتا ہے اور ووٹ ڈالتا ہے تو یہ خود ایک بڑی سیاسی تبدیلی کا سبب بن سکتا ہے۔
اسی طرح نوجوان طبقہ بھی جذباتیت سے باہر نکلے اور دیکھے کہ کون سی جماعت ان کے لیے زیادہ اچھا عملی پروگرام یا منشور رکھتی ہے یا اس سیاسی جماعت کا ماضی کیا ہے۔ نوجوان طبقہ کو سیاسی قیادتوں اور سیاسی جماعتوں کے سامنے جرات سے ہی سوالات اٹھانے ہیں اوران ہی سوالات کے جوابات کی بنیاد پر اپنے مستقبل کا فیصلہ ووٹ کی بنیاد پر کرنا ہے ۔
الیکشن کمیشن کے اعداد وشمار کے مطابق بھی 18برس سے لے کر 35برس تک کے ووٹرز کی تعداد دیگر طبقات سے زیادہ ہے۔
پانچ سے چھ کروڑ کے درمیان یہ ووٹرز کل پاکستانی ووٹرز کا 46فیصد ہے۔ یعنی جو بھی سیاسی جماعت انتخابی معرکہ میں بڑی کامیابی حاصل کرے گی، اس میں 18-35برس کے نوجوانوں کا کردار سب سے زیادہ ہوگا بلکہ حکومت سازی کی تشکیل میں بھی ان کا کردارکلیدی ہوگا ۔
عموماً ہماری سیاسی جماعتوں کی ترجیحات میں نوجوان طبقے کے مسائل بہت نیچے رہے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ نوجوان طبقے اور سیاسی قیادت کے درمیان خلیج گہری نظر آتی ہے۔ سیاسی قیادت کو انتخابات کے دوران ہی نوجوانوںکی یاد ستانے لگتی ہے۔ان کو یہ ہی لگتا ہے کہ وہ جذباتی باتوں سے نوجوانوںکو اپنی طرف متوجہ کرسکتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں میں نوجوانوں کے ونگز بھی عدم فعالیت کے شکار ہیں ، سیاسی جماعتوں کے پاس ایسا کوئی سیاسی و معاشی ایجنڈا نہیں ہے جو نئی نسل میں نئی امیدیں اور نئے امکانات پیدا کرسکے۔ ہم نے نوجوانوں کو صرف جذباتیت کے ساتھ جوڑا ، ان کو کسی کی حمایت یا مخالفت کا حصہ بنا کر اپنی سیاست میں رنگ بھرے جس کے مثبت پہلو کم اور منفی زیادہ نظر آتے ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی سیاست نے متمول طبقات کے نوجوانوں کو خاصا متاثر کیا ہے ، اس وقت بھی ان طبقات کے نوجوانوں کی اکثریت ان کی سیاست کے قریب سمجھی جاتی ہے۔
مریم نواز اور بلاول بھٹو نوجوان سیاسی قیادت ہے تاہم نوجوانوں میں ان کی سیاسی مقبولیت چیئرمین پی ٹی آئی کے مقابلے میں کم ہے۔ لیکن پی ٹی آئی حکومت میں نوجوانوں کے مسائل حل کرنے پر بھی توجہ نہیں دی گئی ۔
نوجوانوں طبقے کی جہتیں ہیں۔ یعنی خواندہ اور ناخواندہ، لڑکے اور لڑکیاں، دیہی اور شہری، میگا سٹیز کے نوجوان، چھوٹے شہروں کے نوجوان، برسرروزگار اور بے روزگار نوجوان،معذور نوجوان، خوشحال اور غریب طبقے کے نوجوان ہیں۔
نوجوان طبقہ کی یہ درجہ بندی اوران سے جڑے مسائل بھی مختلف ہیں۔نوجوانوں کے مسائل کو دیکھیں تو ان میں مفت تعلیم ، مفت صحت کی سہولت فراہم کرنا سب سے اہم ہیں، روزگار کی ضمانت،تفریح و کھیل کے مواقع کی فراہمی یقینی بنانا، فیصلہ سازی میں ان کی موثر شمولیت، صنفی برابری جیسے امور شامل ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے منشور کا جائزہ لیں تو اس میں ہمیں نوجوانوں کے حوالے سے سطحی سوچ نظر آتی ہے۔
نوجوانوں کی اتنی بڑ ی تعداد کو نظر انداز کرنا یا ان کو سیاسی دھارے کا حصہ نہ بنا کر ہمارا سیاسی قیادت نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔یہ جو ہمیں نوجوانوں میں مایوسی ، بے سمتی اور انتہا پسند رجحانات دیکھنے کو ملتے ہیں۔
ان کا سبب یہی ہے کہ نوجوانوں پر کبھی توجہ ہی نہیں دی گئی ہے ۔جب ہم نوجوانوں کے مسائل کے حل سے لاتعلقی اختیار کریں گے تو اس کا نتیجہ کسی بھی صورت مثبت نہیں نکلے گا ۔نوجوان طبقہ میں جرائم بڑھ رہے ہیں، پڑھے لکھے نوجوان بھی لاقانونیت اور اخلاقی جرائم میں مبتلا ہورہے ہیں ، منشیات کا استعمال بڑھ رہا ہے ۔
عام انتخابات میں نوجوان ووٹرز کے لیے کافی اہمیت رکھتے ہیں جہاں سیاسی جماعتیں ان کو اپنی طرف متوجہ کریں گی وہیں نوجوان بھی اپنے ووٹ کی بنیاد پر فیصلہ کریں گے کہ وہ کس کا اقتدار چاہتے ہیں، نئی نسل میں سیاسی اور سماجی شعور بڑھا ہے، ان کو اپنے ووٹ کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوا ہے۔ 2018کے انتخابات میں بھی نئی نسل کے ووٹرز نے فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا ، اس بار ہمیں ایسا ہی ہوگا۔
ہمارا مجموعی نظام نوجوان نسل کے سامنے بے نقاب ہوا ہے اس کا ردعمل ہمیں نئی نسل کی سوچ اور فکر میں غالب نظر آتا ہے ۔نوجوان نسل اپنے لیے ایک منصفانہ اور شفاف نظام چاہتی ہے جہاں اس کے لیے نہ صرف سازگار ماحول ہو، آگے بڑھنے کے مواقع ہوں۔
اگر ہماری سیاسی جماعتیں واقعی چاہتی ہیں کہ ملک کا ریاستی نظام متحرک اور شفاف ہو تو پھر سیاسی جماعتوں کو نوجوانوں کو اپنی سیاسی ترجیحات میں اہم حصہ دینا ہوگا ۔مسئلہ کا حل نوجوان طبقہ کو گالی دینے یا ان کو نظرانداز کرنے یا ان کے بارے میں منفی خیالات کو اجاگر کرنے سے ممکن نہیں ۔ہمیں نئی نسل کو عملی طور پر قومی سیاسی دھارے کا حصہ بنانا ہے جہاں ان کی سیاسی' سماجی او رمعاشی حیثیت کو مضبوط بنیادوں پر ڈھالا جا سکے۔
یہ سب کچھ آسانی سے نہیں ہوگا بلکہ اس میں سیاسی جماعتوں , سیاسی قیادتوں او رسیاسی حکومتوں کو غیر معمولی اقدامات اختیار کرنے ہونگے ۔کیونکہ یہ ہی سوچ نوجوانوں میں غالب رہنی چاہیے کہ وہ اپنے ووٹ سے سیاسی و معاشی نظام کو تبدیل کرسکتے ہیں ۔یہ ہی سوچ اور فکر نوجوانوں کو سیاست میں ,ووٹ ڈالنے کی طرف راغب کرتی ہے۔
نوجوان طبقہ کو چاہیے کہ وہ خود بھی ووٹ ڈالے اور دوسروں کو بھی ترغیب دے یا متحرک کرے کہ وہ بھی ووٹ ڈالیں ۔اگر نوجوان طبقہ بڑی تعداد میں باہر نکلتا ہے اور ووٹ ڈالتا ہے تو یہ خود ایک بڑی سیاسی تبدیلی کا سبب بن سکتا ہے۔
اسی طرح نوجوان طبقہ بھی جذباتیت سے باہر نکلے اور دیکھے کہ کون سی جماعت ان کے لیے زیادہ اچھا عملی پروگرام یا منشور رکھتی ہے یا اس سیاسی جماعت کا ماضی کیا ہے۔ نوجوان طبقہ کو سیاسی قیادتوں اور سیاسی جماعتوں کے سامنے جرات سے ہی سوالات اٹھانے ہیں اوران ہی سوالات کے جوابات کی بنیاد پر اپنے مستقبل کا فیصلہ ووٹ کی بنیاد پر کرنا ہے ۔