دو ملزم مگر خوش نصیب و بدنصیب قیدی

نواز شریف کو سپریم کورٹ سے برے خطاب ملے تھے مگر خوش نصیب قیدی کو سپریم کورٹ سے صادق و امین کا خطاب ملا


Muhammad Saeed Arain November 07, 2023
[email protected]

پی ٹی آئی کے اسیر چیئرمین اور سابق وزیر اعظم اقتدار میں آنے سے قبل ملک میں سب کے لیے یکساں قانون و انصاف کے دعوے کیا کرتے تھے اور ان کا منشور تھا کہ ملک میں امیر اور غریب کے لیے ایک جیسا قانون بلا امتیاز ہونا چاہیے۔

اسی صورت میں سب کو یکساں انصاف کے حصول کے مواقعے میسر آئیں گے اور انھوں نے اپنی پارٹی کا نام تحریک انصاف رکھا تھا اور ملک پر تقریباً پانچ سال حکمران رہے مگر انھیں سولہ ماہ قبل ہی تحریک عدم اعتماد کے آئینی طریقے سے ہٹا دیا گیا تھا جب کہ انھیں 2018میں منصفانہ انتخابات کے ذریعے نہیں بلکہ آر ٹی ایس بٹھا کر مصنوعی اکثریت دلائی گئی تھی اور بعد میں بعض اتحادیوں کے ووٹوں سے انھیں وزیر اعظم بنوایا گیا تھا، وہ عوامی مقبولیت کے باعث نہیں بلکہ ایک منصوبے کے تحت اقتدار میں لائے گئے تھے۔

انھیں جو لوگ اقتدار میں لائے تھے ان سمیت عوام کو بھی ان سے توقعات تھیں کہ وہ ملک میں ہر عام وخاص کے لیے یکساں قانون پر عمل کرائیں گے مگر مقتدر حلقوں اور عوام کو انھوں نے اپنے پونے چار سالہ اقتدار میں مکمل طور پر مایوس کیا اور اپنا اقتدار اپنے سیاسی مخالفین کوکچلنے اور من مانیوں میں گزار دیا اور سب کے لیے یکساں قانون نافذ کرایا جاسکا نہ انصاف ملا۔

وہ سمجھتے تھے کہ اگر ملک میں سب کو یکساں قانون اور انصاف میسر آگیا تو مستقبل میں انھیں نقصان ہوگا کیونکہ 1985 کے بعد منتخب وزیر اعظم محمد خان جونیجو اور نگراں وزیر اعظم غلام مصطفیٰ جتوئی کے علاوہ 1999 تک دو دو بار حکومت کرنے والے وزرائے اعظم پر مقدمات قائم ہوئے اور جنرل پرویز مشرف نے اپنے مخالف دونوں سابق وزرائے اعظم کو مختلف الزامات کے تحت مقدمات قائم کر کے گرفتارکرایا جو بعد میں ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے مگر جنرل مشرف کے اپنے مقررکردہ تین وزرائے اعظم محفوظ رہے تھے اور 2008 کے بعد منتخب دو وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس افتخار چوہدری اور بعد میں نواز شریف کو چیف جسٹس ثاقب نثار نے نا اہل کر کے اقتدار سے ہٹایا تھا جب کہ ان دونوں سے قبل ملک کا کوئی وزیر اعظم عدالت سے برطرف نہیں ہوا تھا۔

دنیا کو پتا ہے کہ نواز شریف کا نام پاناما میں نہیں تھا مگر انھیں ہر حالت میں ہٹانا تھا جس کی کوشش چیئرمین تحریک انصاف 2013 سے بالاتروں کی مدد سے کر رہے تھے مگر موقع نہیں مل رہا تھا اور 2017 میں یہ سازش کامیاب ہوئی اور نواز شریف اقامہ پر ہٹائے گئے اور ہر باضمیر اس ناانصافی کا چشم دید گواہ تھا۔

چیئرمین پی ٹی آئی دو وزرائے اعظم کا عدالتی انجام دیکھ چکے تھے، اس لیے انھوں نے ملک میں یکساں قانون نافذ کرانے کا اپنا منشور بھلا دیا اور پرانے قوانین کے تحت اپنے مخالفین کو گرفتار کرانے میں مصروف رہے اگر سب کے لیے یکساں قانون ملک میں آ جاتا تو سابق وزیر اعظم بھی اس میں پھنس جاتے اور آج اڈیالہ جیل میں شاہانہ قید نہ بھگت رہے ہوتے۔

سابق وزیر اعظم جان چکے تھے کہ ان پر بھی یہ وقت آ سکتا ہے جو ایک سابق صدر اور متعدد سابق وزرائے اعظم پر آچکا تھا اس لیے سب کے لیے یکساں قانون چیئرمین پی ٹی آئی کے لیے نقصان دہ ہوتا، اس لیے ملک میں خواص کے لیے الگ اور عام لوگوں کے لیے الگ الگ قانون چل رہے ہیں۔

ناحق برطرفی اور پی ٹی آئی حکومت میں طویل قید کاٹنے کا ریکارڈ صرف نواز شریف کا تھا جنھیں جان بوجھ کر سزائیں دلوائی گئیں کیونکہ وہ لاڈلے بننے کو تیار نہیں تھے جس کی سزا انھوں نے بھگتی مگر ان کے بعد آنے والا لاڈلہ ضدی اور من مانیوں کا عادی تھا جس نے اپنے لانے والوں کا احسان یاد رکھا، نہ ان کی قدر کی اور من مانیوں کے ذریعے جمہوری وزیر اعظم کے بجائے مطلق العنان آمرکی طرح حکومت کرتے رہے جس کے دوران انھوں نے توشہ خانہ کو بخشا نہ سائفر کا احترام کیا اور غیر قانونی جائیدادیں بنانے میں وقت گزار دیا۔

پی ٹی آئی کے صرف ایک بار کے وزیر اعظم کو تو قید ہوئے سو دن بھی نہیں ہوئے اس کے برعکس تین بار کے وزیر اعظم متعدد الزامات میں ملزم بن کر طویل عرصہ قید، سالوں جلاوطن رہے۔ انھیں جیل میں ایک چھوٹا کمرہ ملا تھا جس میں بمشکل ایک چار پائی اور کرسی آتی تھی۔ جنھیں اپنی بیٹی کے ساتھ قید رکھا گیا تھا اور اپنی قریب المرگ بیوی سے بات کرنے نہیں دی گئی۔

انھوں نے جیل کا کھانا کھایا پھر عدالتی حکم پر دل کی تکلیف کے باعث اے سی دیا گیا جسے ہٹانے کی بھی اس وقت کے وزیر اعظم نے دھمکی دی تھی مگر عمل نہ کر سکے مگر نواز شریف مسلسل ان کے عتاب کا شکار رہے کیونکہ وہ چیئرمین پی ٹی آئی کی طرح خوش نصیب نہیں بلکہ بدنصیب قیدی تھے۔

2017 سے 2023 تک دو وزیر اعظم قیدی رہے۔ نواز شریف نے جنرل پرویز دور میں اسیری کے دوران سخت سے سخت اذیتوں میں قید بھگتی و کال کوٹھری میں قید رہے اپنے ماں باپ کے جنازوں میں شریک نہ ہو سکے کیونکہ وہ ایک بدنصیب قیدی تھے جب کہ پی ٹی آئی کا صرف ایک بار کا آئینی طور پر برطرف وزیر اعظم انتہائی خوش نصیب قیدی ہے جو اڈیالہ جیل میں شاہانہ قید کاٹ رہا ہے۔

نواز شریف کو سپریم کورٹ سے برے خطاب ملے تھے مگر خوش نصیب قیدی کو سپریم کورٹ سے صادق و امین کا خطاب ملا اور دو دن کی قید میں انھیں چیف جسٹس نے گڈ ٹو سی یو کہا۔ عدالتی مہمان رکھ کر پروٹوکول میں لاہور بھجوایا تھا مگر یہ خوش نصیب قیدی اپنے پسندیدہ چیف جسٹس کے بعد بھی اڈیالہ جیل کے 8 کمرے استعمال کر رہا ہے جس کے لیے 9 ڈاکٹر تعینات رہتے ہیں وہ دس ٹی وی چینل دیکھ کر قید بھگت رہا ہے جسے من پسند دیسی گھی میں بنے کھانے مل رہے ہیں۔

حکومت نے انھیں دس لاکھ کی ورزش سائیکل منگوا کر دی ہے جسے جیل میں اپنی اہلیہ اور دس وکیلوں سے ملنے کی سہولت میسر ہے جو لندن میں مقیم اپنے بیٹوں سے فون پر بات بھی کر لیتا ہے کیونکہ وہ خاص قیدی ہے، اگر سب کے لیے یکساں قانون ہوتا تو خوش نصیب قیدی سب مراعات سے محروم ہوتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں