ہمارا گھرانا سات پشتوں سے ستار بجا رہا ہے امداد حسین
جب تک ہاتھ پیر سلامت ہیں، فنکار کو ریاض کرتے رہنا چاہیے، امداد حسین
تعلق اُن کا سینیا گھرانے سے ہے۔ سات پشتوں سے ستار بجا رہے ہیں۔ عرصہ لگ بھگ دو سو برس بنتا ہے۔
یہ سلسلہ استاد احمد بخش خان سے شروع ہوا۔ استاد کبیرخان، استاد حمید خان اور استاد اسحاق نظامی جیسے فن کار اِس گھرانے میں گزرے۔
یہ تذکرہ ہے کولکتا کے معروف ستارنواز، محمد بخش خان کے پوتے امداد حسین کا، جو گذشتہ چار عشروں سے اِس ساز کے ساتھ اپنی دھڑکن ہم آہنگ کیے ہوئے ہیں۔ جہاں پاکستان میں اپنے فن کی دھاک بٹھائی، وہیں بیرون ملک سیکڑوں کو گرویدہ بنایا۔ ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی؛ دونوں سے ڈبل اے کیٹیگری آرٹسٹ کے طور پر منسلک ہیں۔ جید فن کاروں کے ساتھ پرفارم کیا۔ کئی مقبول گیتوں اور نغموں میں اُن کا ستار سنائی دیا۔
''کوبہ کو پھیل گئی'' (مہدی حسن)، ''میرا ایمان پاکستان'' (نصرت فتح علی خان)، ''ماؤں کی دعا'' (عالم گیر) ''جو نام وہی پہچان'' (نیرہ نور) اور ''چاہت میں کیا دنیا داری'' (گل بہار بانو) اِس کی چند مثالیں ہیں۔ شہنشاۂ غزل کے مقبول البم ''کہنا اُسے'' میں بھی اُنھوں نے ستار بجایا۔ اِس کے علاوہ سجاد علی، شہزاد راؤ اور احمد جہاں زیب کے ساتھ بھی فن کا جادو جگایا۔
ستار نے اُنھیں اوائل عمری میں گرویدہ بنا لیا تھا۔ والد، حبیب خان سے سیکھنا شروع کیا۔ تربیت کا ڈھنگ یہ تھا کہ چھے برس کے بچے کو ستار تھما دیا جاتا۔ صبح کے وقت، ناشتے سے پہلے، دو ڈھائی گھنٹے ریاض کیا جاتا۔ کوئی رعایت نہیں ہوتی۔ اگر غلطی پکڑی جاتی، تو سزا ملتی۔ یوں گیارہ بارہ برس کی عمر تک بچہ پرفارمینس کے لیے تیار ہوجاتا تھا۔
ماضی بازیافت کرتے ہوئے کہتے ہیں، والد استاد ضرور تھے، مگر مزاج میں ان کے شفقت نمایاں تھی۔ جہاں محنت کرنے کی نصیحت کرتے، وہیں اوروں سے سیکھنے کی بھی تحریک دیتے۔ بعد میں وہ بڑے بھائی، فدا حسین کے زیر سایہ آ گئے۔ پھر استاد کبیر خان جیسے سینئر ستار نواز کی صحبت میسر آئی۔ کہتے ہیں،''وہ سخت مزاج آدمی تھے۔ ہر کسی کو نہیں سِکھاتے تھے، مگر میرے ساتھ خصوصی شفقت فرماتے۔'' استاد حمید خان سے بھی اکتساب فیض کیا۔
چار بہن بھائیوں میں وہ سب سے چھوٹے ہیں۔ 1963 میں حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں شرارتوں سے دُور رہے۔ یہ خیال دامن گیر رہتا کہ اُن کی کوئی حرکت بڑوں کو ناگوار نہ گزرے۔ سترہ برس کی عمر میں ریڈیو حیدرآباد پر پہلی پرفارمینس دی۔ خود کو منوانے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ مہدی حسن، فریدہ خانم، عابدہ پروین، مہناز، رونا لیلیٰ، ناہید اختر اور غلام علی سمیت تمام بڑے فن کاروں کے ساتھ ریڈیو پر کام کرنے کا موقع ملا۔ شناخت کچھ عرصے بعد پی ٹی وی لے گئی۔ ''محفل شب''، ''رنگ ترنگ'' اور ''غزل کا سفر'' سمیت مختلف پروگراموں میں ستار بجایا۔ کچھ عرصے کراچی فلم انڈسٹری سے بھی نتھی رہے۔ ''مانگ میری بھر دو''، ''سہارے'' اور ''سرکٹا انسان'' کے گیتوں میں اُن کا ساز سنائی دیا۔
پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں پرفارم کر چکے ہیں۔ بیرون ملک بھی جانا ہوا۔ ثقافتی وفود کے ساتھ گئے، انفرادی حیثیت میں بھی دورے کیے۔ پہلی بار دبئی کا رخ کیا۔ پھر چین میں پرفارم کیا۔ وہاں بہت پزیرائی ہوئی۔ اگلی منزل بنکاک تھی۔ ماریشس جانا ہوا۔ اِس کے علاوہ سنگاپور اور لندن میں بھی اپنے فن کا جادو جگایا۔ یادیں تازہ کرتے ہوئے کہتے ہیں،''مغرب ستار کا دیوانہ ہے۔ ہر کنسرٹ میں لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ اس کا سبب بھی ہے۔ یہ سازوں کا شہنشاہ ہے۔ بالکل انوکھا۔ اور اِس وقت ایشیا سے زیادہ یہ ساز یورپ میں مقبول ہے۔''
یوں تو درجنوں فن کاروں کے ساتھ پرفارم کیا، البتہ مہدی حسن اور غلام علی کے ساتھ پرفارم کرکے بہت لطف اندوز ہوئے۔ مہناز، رونا لیلیٰ اور عابدہ پروین کی سنگت کا تجربہ بھی اچھا رہا۔ جہاں پختہ فن کاروں کے ساتھ کام کیا، وہیں چند ایسوں کے ساتھ بھی سُر ملائے، جو تربیت یافتہ نہیں تھے۔ کہتے ہیں،''جب ہمیں لگتا ہے کہ گلوکار تربیت یافتہ نہیں، تال میل نہیں بن رہا، تو اُسے سنبھالنے کے لیے ہم اس کی سطح پر آجاتے ہیں۔''
ستار کے مستقبل سے وہ زیادہ پُرامید نہیں۔ بہ قول اُن کے، مواقع کم ہیں۔ پھر اچھے لوگوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی، ذاتی پسند ناپسند کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اِس فن کا مستقبل وہ ہندوستان سے جوڑتے ہیں۔ اُن کے مطابق پاکستان نے بہت اچھے ستارنواز پیدا کیے، معیاری کام ہوا، مگر پھر عدم توجہی کی وجہ سے یہ فن سُکڑنے لگا۔ برسوں بعد اب تھوڑی بہت بہتری آئی ہے۔ نئی نسل کلاسیکی سازوں کی جانب مائل ہونے لگی ہے۔
فروغ فن کے لیے کام کرنے والے اداروں کو وہ سراہتے ضرور ہیں، مگر اُن کے منتظمین سے یہ درخواست بھی کرتے ہیں کہ ''میرٹ'' کا خیال رکھا جائے۔ ''تقریبات میں صرف بڑے ستارنواز حضرات کو مدعو کیا جاتا ہے، ان کے بعد کی پیڑھی میں جو اچھے لوگ ہیں، انھیں بھی سامنے لانا چاہیے، تاکہ یہ فن پھلے پھولے۔ ورنہ تو سلسلہ منقطع ہوجائے گا۔''
ستار کی جانب آنے والے نوجوانوں کو وہ سیکھنے اور محنت کرنے کا پیغام دیتے ہیں۔ تھوڑی ناامیدی بھی نظر آتی ہے لہجے میں۔ بہ قول اُن کے،''ماضی کے برعکس آج مواقع کا فقدان ہے۔ فن کار کہاں جا کر پرفارم کریں۔ قصور فروغ فن کے لیے کام کرنے والے اداروں کا نہیں۔ یہ ادارے بھی کیا کریں۔ سامعین ہی نہیں رہے۔ فلم انڈسٹری ختم ہوگئی۔ ریڈیو اور ٹی وی پر بھی زیادہ پروگرام نہیں ہورہے۔ پرانی ریکارڈنگ چلا دی جاتی ہے۔ ایسے میں بے چارہ فن کار کہاں جائے۔''
دوران پرفارمینس کئی دل چسپ واقعہ پیش آئے۔ ستار کا تار ٹوٹنے کا سانحہ ایک سے زاید بار ہوا۔ اگر ''سولو'' پرفارم کر رہے ہوں، تو پروگرام روکنا پڑتا ہے، لیکن اگر سنگت کر رہے ہوں، دیگر سازندے بھی موجود ہوں، تو سہولت رہتی ہے۔ فٹا فٹ تار چڑھا لیتے ہیں۔ کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی۔
کیا یہ ممکن ہے کہ گائیک کی آواز سے چراغ جل اٹھیں، ساز کا جادو بادلوں کو برسنے پر مجبور کر دے؟ اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں،''کچھ ایسے اچھے لوگ گزرے ہیں۔ دراصل ہر موسم کا ایک راگ ہوتا ہے۔ پھر فن انسان کی روح کی ترجمانی کرتا ہے۔ اگر روح پاک ہے، گائیکی پر گرفت ہے، تو اُس پر قدرت کرم کرتی ہے۔ البتہ میری نظر سے ایسا کوئی واقعہ نہیں گزرا۔''
کیا پاکستان میں اچھے ستار مل جاتے ہیں؟ اِس سوال کے جواب میں کہتے ہیں،''کسی زمانے میں بہت اچھے ستار بنا کرتے تھے۔ ستار تو اب بھی بن رہے ہیں، مگر پہلے جیسا معیار نہیں رہا۔ ہندوستان والی کوالٹی آپ کو یہاں نہیں ملے گی۔ ہمیں بھی وہیں سے منگوانا پڑتا ہے۔'' اُن کے کلیکشن میں چار ستار ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ جو ''پیس'' دل کے قریب ہے، وہ کئی برس قبل پندرہ ہزار روپے میں خریدا تھا۔ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں، اب تو وہ لاکھ روپے سے کم میں نہیں ملے گا!
عام مشاہدہ ہے کہ سازندوں کی برادری معاشی مسائل کا شکار رہتی ہے۔ اِس بابت پوچھا، تو کہنے لگے،''جس زمانے میں کام ہوتا تھا، اُس وقت تو کبھی خیال ہی نہیں آیا کہ معاشی مسائل بھی کوئی شے ہے۔ حالات اب بھی برے نہیں، مگر پہلے جیسی بات نہیں رہی۔''
شاگرد کیے، مگر اِس سلسلے میں باقاعدگی نہیں رہی۔ ہاں، اپنے بیٹے وقاص حسین کو جم کو سِکھایا۔ بتاتے ہیں،''وقاص نے اپنے نانا، حمید خان سے بھی سیکھا۔ وہ ستار اچھا بجا رہا ہے۔ اب 'ٹرینڈ' بدل گئے ہیں، جن کے پیش نظر وہ فیوژن پر بھی بھرپور توجہ دے رہا ہے۔ پاپ، راک، جیز؛ اِس قسم کی طرز موسیقی کے ساتھ ستار بجا کر ہی نئی نسل سے جُڑا جاسکتا ہے۔''
اُن کی خوشیاں چھوٹی چھوٹی باتوں سے منسلک ہیں۔ بیرون ملک، کنسرٹ کے بعد جب ساتھی فن کاروں کے ساتھ گھومنے پھرنے نکلتے ہیں، تو بہت اچھا لگتا ہے۔ کچھ تقریبات سے بھی حسین یادیں جڑی ہیں۔ دبئی کا ایک شو یادوں میں محفوظ ہے۔ ماریشس میں بھی بڑا لطف آیا۔ جب پرفارمینس اچھی نہ ہو، تو دُکھ ہوتا ہے۔ کہتے ہیں،''کبھی علم کی کمی اور کبھی ریاض کی کمی کے باعث ایسی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔ تب مزید سیکھنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ میں آج بھی باقاعدگی سے ریاض کرتا ہوں۔ دراصل یہ ساری زندگی کا کام ہے۔ جب تک ہاتھ پیر سلامت ہیں، فن کار کو ریاض کرتے رہنا چاہیے۔''
عام طور سے وہ کرتا شلوار میں نظر آتے ہیں۔ سردی کا موسم بھاتا ہے۔ کھانے میں کوئی خاص پسند نہیں۔ عابدہ پروین کی گائیکی کے مداح ہیں۔ نثار بزمی کا نام بہت احترام سے لیتے ہیں۔ ''لے'' پر ان کی گرفت کا بالخصوص ذکر کرتے ہیں۔ ''ان کے ساتھ کام کرنا میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔'' ندیم اور وحید مراد کی فنی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ 83ء میں شادی ہوئی۔ اُسی زمانے میں کراچی آئے۔ تین بیٹے، چار بیٹیاں ہیں۔ ایک بیٹا ستار بجا رہا ہے، دوسرا گائیک ہے۔ سینئر ستار نوازوں میں استاد رئیس خان کو سراہتے ہیں۔ ہندوستانی فن کاروں میں استاد جمال الدین بھارتیہ کی تعریف کرتے ہیں۔ نئے فن کاروں میں ساجد حسین کا نام لیتے ہیں۔
یہ سلسلہ استاد احمد بخش خان سے شروع ہوا۔ استاد کبیرخان، استاد حمید خان اور استاد اسحاق نظامی جیسے فن کار اِس گھرانے میں گزرے۔
یہ تذکرہ ہے کولکتا کے معروف ستارنواز، محمد بخش خان کے پوتے امداد حسین کا، جو گذشتہ چار عشروں سے اِس ساز کے ساتھ اپنی دھڑکن ہم آہنگ کیے ہوئے ہیں۔ جہاں پاکستان میں اپنے فن کی دھاک بٹھائی، وہیں بیرون ملک سیکڑوں کو گرویدہ بنایا۔ ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی؛ دونوں سے ڈبل اے کیٹیگری آرٹسٹ کے طور پر منسلک ہیں۔ جید فن کاروں کے ساتھ پرفارم کیا۔ کئی مقبول گیتوں اور نغموں میں اُن کا ستار سنائی دیا۔
''کوبہ کو پھیل گئی'' (مہدی حسن)، ''میرا ایمان پاکستان'' (نصرت فتح علی خان)، ''ماؤں کی دعا'' (عالم گیر) ''جو نام وہی پہچان'' (نیرہ نور) اور ''چاہت میں کیا دنیا داری'' (گل بہار بانو) اِس کی چند مثالیں ہیں۔ شہنشاۂ غزل کے مقبول البم ''کہنا اُسے'' میں بھی اُنھوں نے ستار بجایا۔ اِس کے علاوہ سجاد علی، شہزاد راؤ اور احمد جہاں زیب کے ساتھ بھی فن کا جادو جگایا۔
ستار نے اُنھیں اوائل عمری میں گرویدہ بنا لیا تھا۔ والد، حبیب خان سے سیکھنا شروع کیا۔ تربیت کا ڈھنگ یہ تھا کہ چھے برس کے بچے کو ستار تھما دیا جاتا۔ صبح کے وقت، ناشتے سے پہلے، دو ڈھائی گھنٹے ریاض کیا جاتا۔ کوئی رعایت نہیں ہوتی۔ اگر غلطی پکڑی جاتی، تو سزا ملتی۔ یوں گیارہ بارہ برس کی عمر تک بچہ پرفارمینس کے لیے تیار ہوجاتا تھا۔
ماضی بازیافت کرتے ہوئے کہتے ہیں، والد استاد ضرور تھے، مگر مزاج میں ان کے شفقت نمایاں تھی۔ جہاں محنت کرنے کی نصیحت کرتے، وہیں اوروں سے سیکھنے کی بھی تحریک دیتے۔ بعد میں وہ بڑے بھائی، فدا حسین کے زیر سایہ آ گئے۔ پھر استاد کبیر خان جیسے سینئر ستار نواز کی صحبت میسر آئی۔ کہتے ہیں،''وہ سخت مزاج آدمی تھے۔ ہر کسی کو نہیں سِکھاتے تھے، مگر میرے ساتھ خصوصی شفقت فرماتے۔'' استاد حمید خان سے بھی اکتساب فیض کیا۔
چار بہن بھائیوں میں وہ سب سے چھوٹے ہیں۔ 1963 میں حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں شرارتوں سے دُور رہے۔ یہ خیال دامن گیر رہتا کہ اُن کی کوئی حرکت بڑوں کو ناگوار نہ گزرے۔ سترہ برس کی عمر میں ریڈیو حیدرآباد پر پہلی پرفارمینس دی۔ خود کو منوانے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ مہدی حسن، فریدہ خانم، عابدہ پروین، مہناز، رونا لیلیٰ، ناہید اختر اور غلام علی سمیت تمام بڑے فن کاروں کے ساتھ ریڈیو پر کام کرنے کا موقع ملا۔ شناخت کچھ عرصے بعد پی ٹی وی لے گئی۔ ''محفل شب''، ''رنگ ترنگ'' اور ''غزل کا سفر'' سمیت مختلف پروگراموں میں ستار بجایا۔ کچھ عرصے کراچی فلم انڈسٹری سے بھی نتھی رہے۔ ''مانگ میری بھر دو''، ''سہارے'' اور ''سرکٹا انسان'' کے گیتوں میں اُن کا ساز سنائی دیا۔
پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں پرفارم کر چکے ہیں۔ بیرون ملک بھی جانا ہوا۔ ثقافتی وفود کے ساتھ گئے، انفرادی حیثیت میں بھی دورے کیے۔ پہلی بار دبئی کا رخ کیا۔ پھر چین میں پرفارم کیا۔ وہاں بہت پزیرائی ہوئی۔ اگلی منزل بنکاک تھی۔ ماریشس جانا ہوا۔ اِس کے علاوہ سنگاپور اور لندن میں بھی اپنے فن کا جادو جگایا۔ یادیں تازہ کرتے ہوئے کہتے ہیں،''مغرب ستار کا دیوانہ ہے۔ ہر کنسرٹ میں لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ اس کا سبب بھی ہے۔ یہ سازوں کا شہنشاہ ہے۔ بالکل انوکھا۔ اور اِس وقت ایشیا سے زیادہ یہ ساز یورپ میں مقبول ہے۔''
یوں تو درجنوں فن کاروں کے ساتھ پرفارم کیا، البتہ مہدی حسن اور غلام علی کے ساتھ پرفارم کرکے بہت لطف اندوز ہوئے۔ مہناز، رونا لیلیٰ اور عابدہ پروین کی سنگت کا تجربہ بھی اچھا رہا۔ جہاں پختہ فن کاروں کے ساتھ کام کیا، وہیں چند ایسوں کے ساتھ بھی سُر ملائے، جو تربیت یافتہ نہیں تھے۔ کہتے ہیں،''جب ہمیں لگتا ہے کہ گلوکار تربیت یافتہ نہیں، تال میل نہیں بن رہا، تو اُسے سنبھالنے کے لیے ہم اس کی سطح پر آجاتے ہیں۔''
ستار کے مستقبل سے وہ زیادہ پُرامید نہیں۔ بہ قول اُن کے، مواقع کم ہیں۔ پھر اچھے لوگوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی، ذاتی پسند ناپسند کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اِس فن کا مستقبل وہ ہندوستان سے جوڑتے ہیں۔ اُن کے مطابق پاکستان نے بہت اچھے ستارنواز پیدا کیے، معیاری کام ہوا، مگر پھر عدم توجہی کی وجہ سے یہ فن سُکڑنے لگا۔ برسوں بعد اب تھوڑی بہت بہتری آئی ہے۔ نئی نسل کلاسیکی سازوں کی جانب مائل ہونے لگی ہے۔
فروغ فن کے لیے کام کرنے والے اداروں کو وہ سراہتے ضرور ہیں، مگر اُن کے منتظمین سے یہ درخواست بھی کرتے ہیں کہ ''میرٹ'' کا خیال رکھا جائے۔ ''تقریبات میں صرف بڑے ستارنواز حضرات کو مدعو کیا جاتا ہے، ان کے بعد کی پیڑھی میں جو اچھے لوگ ہیں، انھیں بھی سامنے لانا چاہیے، تاکہ یہ فن پھلے پھولے۔ ورنہ تو سلسلہ منقطع ہوجائے گا۔''
ستار کی جانب آنے والے نوجوانوں کو وہ سیکھنے اور محنت کرنے کا پیغام دیتے ہیں۔ تھوڑی ناامیدی بھی نظر آتی ہے لہجے میں۔ بہ قول اُن کے،''ماضی کے برعکس آج مواقع کا فقدان ہے۔ فن کار کہاں جا کر پرفارم کریں۔ قصور فروغ فن کے لیے کام کرنے والے اداروں کا نہیں۔ یہ ادارے بھی کیا کریں۔ سامعین ہی نہیں رہے۔ فلم انڈسٹری ختم ہوگئی۔ ریڈیو اور ٹی وی پر بھی زیادہ پروگرام نہیں ہورہے۔ پرانی ریکارڈنگ چلا دی جاتی ہے۔ ایسے میں بے چارہ فن کار کہاں جائے۔''
دوران پرفارمینس کئی دل چسپ واقعہ پیش آئے۔ ستار کا تار ٹوٹنے کا سانحہ ایک سے زاید بار ہوا۔ اگر ''سولو'' پرفارم کر رہے ہوں، تو پروگرام روکنا پڑتا ہے، لیکن اگر سنگت کر رہے ہوں، دیگر سازندے بھی موجود ہوں، تو سہولت رہتی ہے۔ فٹا فٹ تار چڑھا لیتے ہیں۔ کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی۔
کیا یہ ممکن ہے کہ گائیک کی آواز سے چراغ جل اٹھیں، ساز کا جادو بادلوں کو برسنے پر مجبور کر دے؟ اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں،''کچھ ایسے اچھے لوگ گزرے ہیں۔ دراصل ہر موسم کا ایک راگ ہوتا ہے۔ پھر فن انسان کی روح کی ترجمانی کرتا ہے۔ اگر روح پاک ہے، گائیکی پر گرفت ہے، تو اُس پر قدرت کرم کرتی ہے۔ البتہ میری نظر سے ایسا کوئی واقعہ نہیں گزرا۔''
کیا پاکستان میں اچھے ستار مل جاتے ہیں؟ اِس سوال کے جواب میں کہتے ہیں،''کسی زمانے میں بہت اچھے ستار بنا کرتے تھے۔ ستار تو اب بھی بن رہے ہیں، مگر پہلے جیسا معیار نہیں رہا۔ ہندوستان والی کوالٹی آپ کو یہاں نہیں ملے گی۔ ہمیں بھی وہیں سے منگوانا پڑتا ہے۔'' اُن کے کلیکشن میں چار ستار ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ جو ''پیس'' دل کے قریب ہے، وہ کئی برس قبل پندرہ ہزار روپے میں خریدا تھا۔ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں، اب تو وہ لاکھ روپے سے کم میں نہیں ملے گا!
عام مشاہدہ ہے کہ سازندوں کی برادری معاشی مسائل کا شکار رہتی ہے۔ اِس بابت پوچھا، تو کہنے لگے،''جس زمانے میں کام ہوتا تھا، اُس وقت تو کبھی خیال ہی نہیں آیا کہ معاشی مسائل بھی کوئی شے ہے۔ حالات اب بھی برے نہیں، مگر پہلے جیسی بات نہیں رہی۔''
شاگرد کیے، مگر اِس سلسلے میں باقاعدگی نہیں رہی۔ ہاں، اپنے بیٹے وقاص حسین کو جم کو سِکھایا۔ بتاتے ہیں،''وقاص نے اپنے نانا، حمید خان سے بھی سیکھا۔ وہ ستار اچھا بجا رہا ہے۔ اب 'ٹرینڈ' بدل گئے ہیں، جن کے پیش نظر وہ فیوژن پر بھی بھرپور توجہ دے رہا ہے۔ پاپ، راک، جیز؛ اِس قسم کی طرز موسیقی کے ساتھ ستار بجا کر ہی نئی نسل سے جُڑا جاسکتا ہے۔''
اُن کی خوشیاں چھوٹی چھوٹی باتوں سے منسلک ہیں۔ بیرون ملک، کنسرٹ کے بعد جب ساتھی فن کاروں کے ساتھ گھومنے پھرنے نکلتے ہیں، تو بہت اچھا لگتا ہے۔ کچھ تقریبات سے بھی حسین یادیں جڑی ہیں۔ دبئی کا ایک شو یادوں میں محفوظ ہے۔ ماریشس میں بھی بڑا لطف آیا۔ جب پرفارمینس اچھی نہ ہو، تو دُکھ ہوتا ہے۔ کہتے ہیں،''کبھی علم کی کمی اور کبھی ریاض کی کمی کے باعث ایسی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔ تب مزید سیکھنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ میں آج بھی باقاعدگی سے ریاض کرتا ہوں۔ دراصل یہ ساری زندگی کا کام ہے۔ جب تک ہاتھ پیر سلامت ہیں، فن کار کو ریاض کرتے رہنا چاہیے۔''
عام طور سے وہ کرتا شلوار میں نظر آتے ہیں۔ سردی کا موسم بھاتا ہے۔ کھانے میں کوئی خاص پسند نہیں۔ عابدہ پروین کی گائیکی کے مداح ہیں۔ نثار بزمی کا نام بہت احترام سے لیتے ہیں۔ ''لے'' پر ان کی گرفت کا بالخصوص ذکر کرتے ہیں۔ ''ان کے ساتھ کام کرنا میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔'' ندیم اور وحید مراد کی فنی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ 83ء میں شادی ہوئی۔ اُسی زمانے میں کراچی آئے۔ تین بیٹے، چار بیٹیاں ہیں۔ ایک بیٹا ستار بجا رہا ہے، دوسرا گائیک ہے۔ سینئر ستار نوازوں میں استاد رئیس خان کو سراہتے ہیں۔ ہندوستانی فن کاروں میں استاد جمال الدین بھارتیہ کی تعریف کرتے ہیں۔ نئے فن کاروں میں ساجد حسین کا نام لیتے ہیں۔