دہشت گردی کی لہر

تاریخی حقائق کو اپنی من پسند عینک سے دیکھ کر ان کی خود ساختہ تشریح کرنا‘ درست نہیں ہے

تاریخی حقائق کو اپنی من پسند عینک سے دیکھ کر ان کی خود ساختہ تشریح کرنا‘ درست نہیں ہے۔ فوٹو: فائل

خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر کے علاقے تیراہ میں سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر آپریشن کرتے ہوئے تین دہشت گردوں کو ہلاک کردیا، جب کہ فائرنگ کے تبادلے میں پاک فوج کے لیفٹیننٹ کرنل سمیت چار جوان شہید ہوگئے۔

اس سے قبل میانوالی ایئربیس پر بھی دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا جس میں سیکیورٹی فورسز نے تمام دہشت گرد ہلاک کر دیے تھے جن کی تعداد 9تھی۔دہشت گردوں نے خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں بھی کارروائیاں کی تھیں' افغانستان میں جب سے طالبان برسراقتدار آئے ہیں ' پاکستان میں تسلسل کے ساتھ دہشت گردی کی کارروائیاں کی جا رہی ہیں حالانکہ اشرف غنی اور اس سے قبل حامد کرزئی کے دور حکومت میں دہشت گردی کے واقعات کم تھے۔

پاکستان میںرواں برس فوج اور پولیس اہلکاروں کی شہادتوں کی تعداد، گزشتہ آٹھ برس میں سب سے زیادہ ہے۔ یہ انتہائی تشویش ناک بات ہے کیونکہ دہشت گردوں کے ماسٹر مائنڈز چاہتے ہیں کہ پاکستان کو جتنا ہوسکے اتنا نقصان پہنچایا جائے۔اس مقصد کے حصول کے لیے وہ پاکستان کی سیکیورٹی تنصیبات اور سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

دہشت گردوں کے مختلف گروپ پاکستان میں انتشار، بد امنی اور خوف پیدا کرکے ریاستی ڈھانچے کو زمین بوس کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں، افغانستان کی عبوری حکومت کے بااثر عہدیداروں کے حالیہ بیانات نے ان حقائق کو عیاں کردیا ہے جو پہلے عوام سے اوجھل تھے ۔ ٹی ٹی پی کی قیادت کی سوچ ، رویہ ، پالیسی اور عزائم بھی واضح ہوچکے ہیں۔

خود کو پاکستانی ظاہر کرنے والے ان لوگوں نے افغانستان کا آلہ کار بن کر اپنا ایجنڈا آشکار کردیا ہے۔ دہشت گرد گروہ پاکستان کے صوبے خیبرپختو نخوا اور بلوچستان میں زیادہ کارروائیاں کررہے ہیں۔ ان کی ہر ممکن کوشش ہے کہ وہ براہ راست یا بالواسطہ پاک فوج کو ٹارگٹ بنائیں۔

گزرے چند مہینوں میں پاکستان میں ہونے والے 24 خودکش حملہ آوروں میں سے 14 افغان باشندے تھے جب کہ باقی کا تعلق سابقہ فاٹا کے مختلف علاقوں سے تھا ۔کسے معلوم نہیں کہ پاکستان نے افغانستان سے آنے والے پناہ گزینوں کو کھلے دل سے پناہ دی،ان پناہ گزینوں کا مقدمہ ہر عالمی اور مقامی فورم پر لڑا لیکن اس کا بدلہ کیا ملا؟اس پر بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔

پاکستان نے مجبور ہوکر غیر قانونی افغان پناہ گزینوں کو افغانستان واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے ۔حکومت کے حالیہ فیصلے کی بنیاد اقتصادی، سیکیورٹی چیلنجز پر قابو پانا اور مزید مہاجرین اور خصوصاً غیر قانونی تارکین وطن کی پاکستان میں آمد کو روکنا ہے۔

یہ حقیقت عیاں ہے کہ افغان مہاجرین کا پاکستان میں مسلسل قیام ملکی سلامتی اور معیشت کے لیے خطرات پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے ۔ افغانستان کی ہر حکومت خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں قوم پرستی کا کارڈ استعمال کرتی آئی ہے جب کہ پنجاب،سندھ،گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں مذہبی کارڈ استعمال کرتی ہے۔

افغانستان کی موجودہ عبوری حکومت بھی اسی پالیسی پر کاربند ہے، پاکستان کے سادہ لوح عوام اس دہری پالیسی کا شکار ہو کر افغانستان کو ہمیشہ شک کا فائدہ دیتے ہیں۔لیکن اب یہ دہری پالیسی بے نقاب ہوگئی ہے ۔ افغانستان افغان مہاجرین کے ایک حصے کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کررہا ہے، متعدد سادہ لوح پاکستانی بھی نادانستگی میں استعمال ہورہے ہیں۔

دہشت گردوںکے ماسٹر مائنڈ اور اسٹریٹجسٹ افغان مہاجرین کو بطور لانچ پیڈ استعمال کررہے ہیں،پاکستان میں داخل ہونے والے دہشت گردوںکو پناہ دینا، ان کا اسلحہ اورخود کش جیکٹس وغیرہ محفوظ مقامات میں چھپانا ، ٹارگٹ کی معلومات فراہم کرنا اور دہشت گردوں کو ان کے ٹارگٹس تک پہنچانے کی سہولت کاری کرنا، جیسے کام پاکستان میں برسوں سے رہنے والے باشندے ہی کرسکتے ہیں۔

بیشتر افغان مہاجر پاکستان میں غیر قانونی سرگرمیوں، ڈکیتی، اغوا برائے تاوان اور قتل جیسے جرائم میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔


سیکیورٹی اِداروں کو بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ افغانستان کی ہر حکومت نے اپنے شہریوں کے ذہنوں کو پاکستان کے بارے میں آلودہ کیا ہے۔وہاں کے تعلیمی نصاب میں بھی پاکستان کے بارے میں منفی مواد شامل رہا ہے۔

کیا اِس حقیقت کو جھٹلایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں منشیات، ڈرگز اورکلاشنکوف کلچر اور اسمگلنگ کے دھندے پاک افغان سرحد کو کھلا چھوڑنے کا نتیجہ ہے۔

کسی بھی دوسرے ملک میں جانے، کاروبار کرنے یا رہائش کے لیے وہاں کا سیاحتی ویزہ، ورک ویزہ یا رہائشی اجازت نامہ حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ایسی دستاویزات کے بغیر رہنے والے غیر قانونی شمار ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں یہی قانون رائج ہے۔

پاکستان میں بغیر دستاویزات رہنے والوں کی تعداد چھ ملین بتائی جاتی ہے جن میں اکثریت افغانستان کے باشندوں کی ہے ۔ بھارت، بنگلہ دیش، میانمار، افریقہ اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے کچھ شہری بھی غیر قانونی طور پر یہاں مقیم ہیں۔ پاکستان کا شمار ایسے ملکوں میں ہوتا ہے جس کا شمال مغربی سرحدی نظام بہت ڈھیلا ڈھالا اور کمزور ہے، پاک افغان سرحد سے کوئی بھی شخص بغیر کسی قانونی کاغذات کے بلا روک ٹوک آ جا سکتا ہے۔

اِس کی بڑی وجہ ملکی قوانین کی نرمی اور حکام کی لاپروائی ہے۔ ایسی آزادی کوئی ملک نہیں دیتا جیسی پاکستان میں غیر ملکیوں کو حاصل ہے۔ آج چار عشروں سے سرحدوں پر دی گئی نرمی کا نقصان یہ ہوا ہے کہ ہر جگہ غیر ملکی دندناتے اور ملکی قوانین کی دھجیاں بکھیرتے پھرتے ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن امن و امان ہی نہیں بلکہ قومی سلامتی کے لیے بھی خطرہ بن چکے ہیں۔

افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغان شہریوں کا وطن واپس جانے کے بجائے یہاں براجمان رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا اور نہ ہی افغانستان کی حکومت اپنے شہریوں کو وطن واپس آنے سے روک سکتی ہے۔ افغانستان کی حکومت کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو پاکستان میں قیام پذیر رکھنے کا مطالبہ کرے ۔

دہشت گردوں کی پاکستان میں آمد و رفت کے راستے بند کرنا اس کا حق ہے ۔پاکستان میں موجود ایسے لوگ جو پاکستانی عوام اور ریاست کے مفادات کے خلاف کام کر رہے یا ان میں ملوث ہیں یا سہولت کار ہیں، فنانسرز ہیں، ان کے خلاف کارروائی کرنا بھی پاکستان کا حق ہے ۔ لہٰذا ملک کے اندر ان کالعدم تنظیموں کے ہم خیالوں اور سہولت کاروں کے خلاف بھی قوانین کے مطابق کارروائی کی جائے تاکہ آنے والے دنوں میں سانحات سے بچا جاسکے۔

وقت آ گیا ہے کہ پاکستان میں موجود غیرملکی شہریوںکے انخلا کو یقینی بنایا جائے، اور ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی عوام سیکیورٹی فورسز کے ساتھ ہمیشہ کی طرح شانہ بشانہ کھڑے رہیں اورکسی بھی مشکوک پہلو کی بروقت نشاندہی کر کے سیکیورٹی فورسز کو ملک دشمن عناصر کی سرکوبی کرنے میں مدد فراہم کریں۔

ان حالات میں حکومت، سیکیورٹی فورسز، عدلیہ، سویلین اداروں اور سیاسی جماعتوں کے قیادت انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے متحد ومتفق ہوکر متحرک اور جاندار کردار ادا کرے۔ وفاقی ، صوبائی حکومتوں اور ڈسٹرکٹ مینجمنٹ کو بھی چاہیے کہ امن و امان کے قیام اور شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے ساتھ حساس مقامات کی حفاظت کے لیے تمام تر دستیاب وسائل بروئے کار لائیں۔

افغانستان کی حکومت کے اکابرین کو بھی اپنی پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنازعے یا نفرت کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ پاکستان نے افغانستان پر کبھی حملہ کیا ہے اور نہ ہی اس کے کسی علاقے پر زبردستی قبضہ کیا ہے۔

پاکستان نے افغان ٹریڈ کو بھی قانون کے مطابق جاری رکھا ہے۔ پاکستان کی ہر حکومت نے افغانستان کا ساتھ دیا ہے' افغانستان میں غیرملکی فوجوں کے خلاف مزاحمت کرنے والے افغان مجاہدین اور طالبان قیادت کا بھرپور ساتھ بھی دیا ہے' لاکھوں افغان باشندوں کو اپنے ملک میں پناہ بھی دیے رکھی ہے' ان حقائق کے باوجود افغانستان کا حکمران طبقہ 'چاہے وہ مذہبی طبقہ ہو 'چاہے لبرل اور ماڈریٹ طبقہ ہویا اریسٹوکریٹس کا طبقہ ہو 'ان کی پاکستان مخالف سوچ رکھنا ایک المیہ ہی کہلا سکتا ہے۔

تاریخی حقائق کو اپنی من پسند عینک سے دیکھ کر ان کی خود ساختہ تشریح کرنا' درست نہیں ہے۔ سرحدوں پر حفاظتی انتظامات کرنا 'ٹرانزٹ ٹریڈ کو قانون اور ضوابط کے دائرہ کار میں لانا اور اسمگلنگ روکنے کے اقدامات کرنا 'دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے 'افغانستان کی طالبان حکومت کو اس وقت ہمسایہ ممالک خصوصاً پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
Load Next Story