اتحادی حکومت اور نواز شریف
میاں نواز شریف کو اتحادی حکومت کے متعلق بھی کچھ بولنا چاہیے اور اس حکومت کی غلطیوں کا اعتراف کرنا چاہیے
میاں نواز شریف نے وطن واپس آ کر اپنی تقریر میں سابق اتحادی حکومت کی کارکردگی کا کوئی ذکر نہیں کیا جو ان کی رضامندی سے قائم ہوئی تھی اور تقریباً ڈیڑھ سال میاں شہباز شریف وزیر اعظم رہے، مسلم لیگ (ن) کے رہنما اس اتحادی حکومت میں وفاقی وزیر رہے۔
میاں شہباز شریف آئے دن لندن جا کر میاں نواز شریف سے ہدایات اور مشورے لیا کرتے تھے۔ اتحادی حکومت میں شامل تمام پارٹیوں نے تھوک کے حساب سے اپنے اپنے وزیر مشیر، معاونین خصوصی اور عہدیدار بھرتی کرا کر معاشی بدحالی کے شکار ملک پر مزید مالی بوجھ ڈال دیا،اتحادی حکومت نے سب سے بڑی کابینہ مسلط کرائی تھی جو قومی خزانے پر اربوں روپے کا بوجھ تھی۔
میاں نواز شریف کی نہ جانے کون سی مصلحت تھی کہ وہ اپنے بھائی کی حکومت میں وطن واپس نہیں آئے اور نگراں حکومت کے سوا دو ماہ بعد واپس آنا انھوں نے مناسب سمجھا اور وہ جس شان سے واپس آئے اس کی وجہ سے نگرانوں کی غیر جانبداری بھی متاثر ہوئی۔
بعض حلقوں کا موقف ہے کہ جس طرح نواز شریف کے ساتھ ناانصافیاں ہوئی تھیں اس طرح انھیں سہولتیں دے کر تلافی کی جا رہی ہے۔یہ بھی درست ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد نواز شریف اتحادی حکومت کے بجائے الیکشن کے حامی تھے، لیکن چیئرمین پی ٹی آئی کی دھمکی آمیز بیانات اور تقاریر نے نواز شریف کو اتحادی حکومت کا حصہ بننے پر مجبور کردیا۔
پنجاب جو (ن) لیگ کا گڑھ تھا وہاں (ن) لیگ کی مقبولیت شہباز شریف حکومت میں بری طرح متاثر ہوئی مگر اتحادی حکومت میں شامل پیپلز پارٹی کو سندھ میں کوئی نقصان نہیں ہوا۔
کے پی میں جے یو آئی کی بڑھتی مقبولیت متاثر ہوئی مگر وزیر اعظم شہباز شریف کی بے بسی، غلط فیصلوں اور ہولناک مہنگائی نے مسلم لیگ (ن) کو سخت سیاسی نقصان پہنچایا جس کی تلافی کے لیے نواز شریف نگراں دور میں 4 سال بعد وطن واپس آئے مگر ان کی مجبوری یہ ہے کہ وہ 16 ماہ کی اتحادی حکومت کی کارکردگی پر کچھ نہیں بول رہے اور خاموش ہیں کیوں کہ ان کی پارٹی اس حکومت کا حصہ تھی اور شہباز شریف وزیراعظم تھے مگر اتحادی حکومت نے جو بھی کام، اقدامات کیے اس سے میاں نواز شریف بھی بری الذمہ نہیں ہو سکتے کیونکہ شہباز شریف نے تنہا کچھ نہیں کیا بلکہ اپنے اتحادیوں اور اپنے بھائی نواز شریف کی تائید سے ہی کیا ہے ۔
پیپلز پارٹی نے اتحادی حکومت میں ایسی وزارتیں لیں جو عوام سے تعلق نہیں رکھتی تھیں، اس لیے عوام پی پی کے اتنے مخالف نہیں جتنے (ن) لیگ کے ہیں۔ پی پی پی کی قیادت نے حکومت پر دباؤ ڈال کر اپنے لوگوں کو من پسند عہدے دلائے تھے ۔اتحادی حکومت کے چند ماہ بعد ہی نواز شریف نے اسحاق ڈار کو معیشت کا مسیحا سمجھ کر وطن بھیجا اور مفتاح اسماعیل کی جگہ وزیر خزانہ بنایا تھا جنھوں نے بڑے بڑے دعوے کیے تھے مگر مکمل ناکام رہے۔
انھوں نے بھی آئی ایم ایف کو ناراض کیا جس کی وجہ سے ملک کی معاشی صورت حال مزید خراب ہوئی، جس پر وزیر اعظم نے پیرس جا کر صورت حال سنبھالی اور قرضہ حاصل کرسکے۔ مگر نواز شریف نے ان کی کارکردگی پر کوئی بات نہیں کی ہے بلکہ وہ اب انھیں ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔
اتحادی حکومت میں جو کچھ ہوا اس کی ذمے داری اتحادی حکومت کے وزیراعظم میاں شہباز شریف نے قبول کی نہ نواز شریف اس حکومت کی غلطیاں تسلیم کر رہے ہیں، اس حکومت میں شامل دیگر پارٹیوں کی قیادت بھی اپنے حصے کی ذمے داری قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں بلکہ وہ سارا ملبہ مسلم لیگ ن پر ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ میاں نواز شریف کو اتحادی حکومت کے متعلق بھی کچھ بولنا چاہیے اور اس حکومت کی غلطیوں کا اعتراف کرنا چاہیے۔