فلسطین کے تین بے مثال کردار آخری حصہ
یاسر عرفات، حنان اشروی اور ایڈورڈ سعید فلسطین کی مزاحمتی تحریک کے بے مثال کردار تھے
یروشلم، فلسطینیوں کے لیے بے وطنی اور در بہ دری کا نام ہے۔ فلسطینیوں کو ان کا چھینا ہوا وطن توکیا ملتا، وہ پسپا ہوتے چلے گئے۔اپنوں کی ہوسِ اقتدارکے ہاتھوں۔
کسی مسلمان بادشاہ نے اپنا تخت بچانے کے لیے انھیں دریا کے کنارے سے دھکیلا اورکسی مسلمان سالار اعظم نے '' ستارئہ اردن '' کا ریشمی نیلگوں پٹکا اپنی وردی پر سجانے کے عوض فلسطینیوں کے قتل اور پسپائی میں اپنا حصہ ڈالا۔ اس موقع پر مجھے '' بلیک ستمبر'' کا واقعہ یاد آتا ہے۔
یہ 1970 کا سال تھا، اس وقت کے مشرقی پاکستان میں جمہوری طاقتوں کے خلاف کارروائی جاری تھی جو پاکستان کی تقسیم پر منتج ہوئی۔ اسی سال اردن میں ایک انسانی المیہ جنم لے رہا تھا۔ فلسطین کی آزادی کے لیے لڑنے والی تنظیموں جن میں یاسر عرفات کی پی ایل پی اور جارج حباش کی پی ایف ایل پی نمایاں تھیں اور فلسطینی فدائین کے خلاف ایک بھیانک فوجی کارروائی شروع کی گئی جس کا آغاز 6 ستمبر 1970کو ہوا۔
اس وقت اردن میں پاکستان کا ایک تربیتی فوجی مشن تعینات تھا جس کے سربراہ بریگیڈیئر ضیاء الحق تھے۔ جنھوں نے بعد ازاں ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو معزول کر کے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا ۔ فلسطینی فدائین اور پناہ گزینوں کے خلاف فوجی کارروائی کی قیادت انھوں نے کی تھی جس کے اعتراف میں ان کو اردن کا سب سے بڑا اعزاز عطا کیا گیا تھا، جو وہ اکثر زیب تن کیا کرتے تھے۔
اس کارروائی میں جس کو امریکی حمایت بھی حاصل تھی کم از کم 10 ہزار فلسطینی شہید کیے گئے۔ یاسر عرفات کا کہنا تھا کہ شہید کر دیے جانے والوں کی تعداد 25 ہزار تھی۔ تاریخ میں اس خونی کارروائی کو '' بلیک ستمبر'' کا نام دیا گیا ہے۔
یہاں اس واقعہ کا بیان اس لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ مسلم ملکوں کے حکمران مشکل وقت میں کبھی فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے لیکن ہر وقت مسلم امہ کے اتحاد اور فلسطین کو آزاد کرانے کے لیے بلند و بانگ دعوے کرتے رہتے ہیں۔
اسرائیل سے لڑائی جو فلسطینی مسلمانوں اور عیسائیوں نے مل کر لڑی تھی۔ ایڈورڈ سعید، جارج حباش، لیلیٰ خالد، حنان اشروی اور متعدد عیسائی فلسطینیوں نے جس میں اپنا حصہ ڈالا تھا۔ یاسر عرفات ان سب کے متفقہ رہنما تھے۔
آزادیٔ فلسطین کی جدوجہد ایک قومی اور سیاسی جدوجہد تھی۔ فلسطین کی آزادی اور اس کی زمین کو اسرائیل کے قبضے سے آزاد کرانا ان کی زندگی کا مقصد تھا۔ فلسطین کے لیے جدوجہد کرنے والے یہ نہیں سوچتے تھے کہ ان کا مذہب کیا ہے، وہ مسلمان تھے، عیسائی یا ارمنی تھے، اس سے کسی کو غرض نہیں تھی۔
اس موقع پر ہمیں حنان اشروی یاد آتی ہیں۔ ان کے والد ایک مشہور ڈاکٹر تھے۔ اشروی نے بیروت کی امریکی یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ اسرائیل نے جب مغربی کنارے پر قبضہ کیا تو وہ اپنے آبائی گھر نہ جاسکیں۔ انھوں نے امریکا سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ وہ پی ایل او کے بانیوں میں سے تھیں اور فلسطین اتھارٹی میں کئی عہدوں پر کام کیا تھا۔
حنان اشروی سیاسی اور سفارتی محاذ پر فلسطین کی آزادی کا مقدمہ لڑتی رہیں۔ یاسر عرفات کے قریبی ساتھیوں میں تھیں لیکن جب اس جدوجہد آزادی کو مذہب سے جوڑ دیا گیا تو حنان اشروی نے بھی کنارہ کشی کر لی۔حنان اشروی جو اس دوران پس منظر میں چلی گئی تھیں ایک بار پھر فلسطینی جدوجہد کے پیش منظر میں آگئیں۔
ان کا کھلا خط نیویارک ٹائمز میں شایع ہوا جس میں انھوں نے لکھا کہ اس طرح اسرائیلی افسر شاہی کو کھلی چھوٹ مل گئی ہے کہ وہ ڈنکے کی چوٹ پر فلسطینیوں کے گھروں اور ان کی زمینوں پر ناجائز قبضے کرے اور ان کے انسانی، جمہوری اور شہری حقوق کو اپنے قدموں کے نیچے روند دے۔ اشروی نے اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ 1967 میں جب اسرائیل نے مشرقی یروشلم پر قبضہ کیا، اس وقت سے اب تک شہر میں فلسطینیوں کے 20 ہزار گھروں پر قبضہ کیا گیا ہے۔
حنان نے لکھا کہ بہت سے خوش امید لوگوں کا وہ خواب خاک میں مل گیا ہے جو وہ دو ریاستوں کے بارے میں دیکھتے تھے۔ حنان اشروی نے امریکی صدر کو یاد دلایا ہے کہ اگر اورکچھ نہیں تو مسٹر میٹس کا 2013 میں دیا جانے والا وہ بیان یاد کر لیں جس میں اس وقت کے امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ مسٹر میٹس نے کہا تھا کہ، '' ہم قومی سیکیورٹی کی بھاری قیمت روزانہ ادا کرتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا کو اسرائیل کی متعصبانہ حمایت کرتے ہوئے دیکھا اور سمجھا جاتا ہے۔'' اشروی کا کہنا ہے کہ ہم فلسطینی یہ امید کرتے ہیں کہ امریکا میں زیادہ دانشمند آوازیں غلبہ پائیں گی۔
علمی محاذ پر فلسطین کی آزادی کے لیے لڑنے والوں میں ایڈورڈ سعید کا نام بہت اہم ہے۔ ان کی جائے پیدائش یروشلم کی سر زمین تھی۔ جو یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں، سب ہی کے لیے یکساں طور پر محترم اور مقدس ہے۔ ایڈورڈ سعید 1935میں یروشلم کے ایک دولت مند عرب نژاد عیسائی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ 1947 میں وہ پناہ گزین کے طور پر امریکا چلے گئے ۔
انھوں نے ہارورڈ اور پرنسٹن جیسی دنیا کی بہترین جامعات سے تعلیم حاصل کی۔ وہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ نہ صرف ایک بڑے ادیب تھے بلکہ ایک اعلیٰ درجے کے ادبی نقاد، صحافی، مترجم اور ماہر سیاسیات بھی تھے۔ انھوں نے کولمبیا یونیورسٹی میں علمی اور ادبی فرائض انجام دیے۔
انھوں نے کئی کتابیں لکھیں۔ ان کا موقف تھا کہ مغرب میں مشرقی اقوام کے حوالے سے غیر حقیقی کام ہوا ہے اور اس میں نسل پرستی اور سامراجی رویوں کی جھلک نظر آتی ہے۔ ایڈورڈ سعید نے فلسطینیوں کے حقوق کے لیے بڑی بہادری سے آواز اٹھائی اور زندگی کے آخری لمحے تک فلسطینی کے لیے علمی اور فکری جدوجہد کرتے رہے۔
ایڈورڈ سعید نے فلسطین سے اس طور عشق کیا کہ وہ جو نوآبادیاتی آقاؤں کی پرستش کرنے والے فلسطینی گھرانے میں پیدا ہوا تھا، وہی سامراج و استعمار کا دشمن اور فلسطینیوں کا سب سے بڑا وکیل بن گیا۔ اس کی اعلیٰ تعلیم مغرب کی دانش گاہوں میں ہوئی اور وہ ان در بہ در فلسطینی بچوں اور نوجوانوں کے لیے عمر بھر مضطرب رہا جو کتاب و قلم سے، دانش جوئی و دانشوری سے محروم رکھے گئے۔
اس نے تمام عمر مغربی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جن کی انتظامیہ کبھی کبھی اسے شک کی نظر سے بھی دیکھتی رہی۔ ایڈورڈ سعید نے فلسطین کے مسئلے، دانشوری کی روایت، عرب قومیت، عالمی سیاست، عراق و افغانستان پر امریکی حملے، دہشت گردی کے اسباب اور امن کی ثقافت جیسے معاملات پر بلامبالغہ سیکڑوں کالم اور مضامین لکھے۔ وہ عرب قوم پرستوں اور بہ طور خاص فلسطینی ادیبوں میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔
ایڈورڈ سعید اپنی عرب پہچان پر ناز کرتا تھا اور فلسطینیوں کے لیے کڑھتا رہتا تھا۔ بارہ برس کی عمر میں فلسطین سے جدائی اور جلاوطنی کی چنگاری اس کے سینے میں زندہ تھی لیکن اس حوالے سے اس نے اپنا کوئی کردار متعین نہیں کیا تھا۔
1967 کی شکست نے ایڈورڈ سعید کے ذہنی زمین و آسمان بدل کر رکھ دیے۔ زندگی کا یہ وہ مرحلہ تھا جب ایڈورڈ سعید جو شہریت کے اعتبار سے امریکی، پیدائشی طور پر فلسطینی اور خاندان کے حوالے سے عیسائی اور مراتب و مناصب کی رُو سے طبقۂ اعلیٰ کا فرد تھا، وہ ننگے پیر اور ننگے سر رہنے والے، فاقے کرنے، جلاوطنی کا دکھ بھوگنے والے اور اپنے ہی وطن میں بے وطن ہونے والوں کے قبیلے کا ایک فرد ہوگیا۔
اس نے صیہونیوں کے ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھائی اور ان عرب حکمرانوں پر بھی شدید تنقید کی جو اپنی بادشاہت اور صدارت کی خاطر فلسطینیوں کو نیست و نابود ہوتے اور ان کے بنیادی حقوق کو غصب ہوتے دیکھتے رہے لیکن جنھوں نے فلسطینیوں کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔
ایڈورڈ سعید نے لکھا کہ مغربی پریس جب مسلمان عورت کے حوالے سے اسلام کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے یا اسلامی سزاؤں پر حرف گیری کرتا ہے تو اس وقت مغربی پریس کو وہ یہودی ربی یاد نہیں آتے جو یہودی عورت کے بارے میں بھی ایسے ہی نظریات رکھتے ہیں یا وہ ان لبنانی پادریوں کو بھی بھول جاتا ہے جو اپنے نقطہ نظر کے اعتبار سے عورتوں کے خون کے پیاسے ہیں اور قرون وسطیٰ کے نظریات رکھتے ہیں۔
یاسر عرفات، حنان اشروی اور ایڈورڈ سعید فلسطین کی مزاحمتی تحریک کے بے مثال کردار تھے جنھیں تاریخ کبھی نظر انداز نہیں کرے گی۔ کیا یہ المیہ نہیں کہ ہماری نوجوان نسل جدوجہد آزاد کے ان اور ان جیسے دیگر کئی عظیم کرداروں کے بارے میں بہت کم جانتی ہے۔
کسی مسلمان بادشاہ نے اپنا تخت بچانے کے لیے انھیں دریا کے کنارے سے دھکیلا اورکسی مسلمان سالار اعظم نے '' ستارئہ اردن '' کا ریشمی نیلگوں پٹکا اپنی وردی پر سجانے کے عوض فلسطینیوں کے قتل اور پسپائی میں اپنا حصہ ڈالا۔ اس موقع پر مجھے '' بلیک ستمبر'' کا واقعہ یاد آتا ہے۔
یہ 1970 کا سال تھا، اس وقت کے مشرقی پاکستان میں جمہوری طاقتوں کے خلاف کارروائی جاری تھی جو پاکستان کی تقسیم پر منتج ہوئی۔ اسی سال اردن میں ایک انسانی المیہ جنم لے رہا تھا۔ فلسطین کی آزادی کے لیے لڑنے والی تنظیموں جن میں یاسر عرفات کی پی ایل پی اور جارج حباش کی پی ایف ایل پی نمایاں تھیں اور فلسطینی فدائین کے خلاف ایک بھیانک فوجی کارروائی شروع کی گئی جس کا آغاز 6 ستمبر 1970کو ہوا۔
اس وقت اردن میں پاکستان کا ایک تربیتی فوجی مشن تعینات تھا جس کے سربراہ بریگیڈیئر ضیاء الحق تھے۔ جنھوں نے بعد ازاں ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو معزول کر کے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا ۔ فلسطینی فدائین اور پناہ گزینوں کے خلاف فوجی کارروائی کی قیادت انھوں نے کی تھی جس کے اعتراف میں ان کو اردن کا سب سے بڑا اعزاز عطا کیا گیا تھا، جو وہ اکثر زیب تن کیا کرتے تھے۔
اس کارروائی میں جس کو امریکی حمایت بھی حاصل تھی کم از کم 10 ہزار فلسطینی شہید کیے گئے۔ یاسر عرفات کا کہنا تھا کہ شہید کر دیے جانے والوں کی تعداد 25 ہزار تھی۔ تاریخ میں اس خونی کارروائی کو '' بلیک ستمبر'' کا نام دیا گیا ہے۔
یہاں اس واقعہ کا بیان اس لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ مسلم ملکوں کے حکمران مشکل وقت میں کبھی فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے لیکن ہر وقت مسلم امہ کے اتحاد اور فلسطین کو آزاد کرانے کے لیے بلند و بانگ دعوے کرتے رہتے ہیں۔
اسرائیل سے لڑائی جو فلسطینی مسلمانوں اور عیسائیوں نے مل کر لڑی تھی۔ ایڈورڈ سعید، جارج حباش، لیلیٰ خالد، حنان اشروی اور متعدد عیسائی فلسطینیوں نے جس میں اپنا حصہ ڈالا تھا۔ یاسر عرفات ان سب کے متفقہ رہنما تھے۔
آزادیٔ فلسطین کی جدوجہد ایک قومی اور سیاسی جدوجہد تھی۔ فلسطین کی آزادی اور اس کی زمین کو اسرائیل کے قبضے سے آزاد کرانا ان کی زندگی کا مقصد تھا۔ فلسطین کے لیے جدوجہد کرنے والے یہ نہیں سوچتے تھے کہ ان کا مذہب کیا ہے، وہ مسلمان تھے، عیسائی یا ارمنی تھے، اس سے کسی کو غرض نہیں تھی۔
اس موقع پر ہمیں حنان اشروی یاد آتی ہیں۔ ان کے والد ایک مشہور ڈاکٹر تھے۔ اشروی نے بیروت کی امریکی یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ اسرائیل نے جب مغربی کنارے پر قبضہ کیا تو وہ اپنے آبائی گھر نہ جاسکیں۔ انھوں نے امریکا سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ وہ پی ایل او کے بانیوں میں سے تھیں اور فلسطین اتھارٹی میں کئی عہدوں پر کام کیا تھا۔
حنان اشروی سیاسی اور سفارتی محاذ پر فلسطین کی آزادی کا مقدمہ لڑتی رہیں۔ یاسر عرفات کے قریبی ساتھیوں میں تھیں لیکن جب اس جدوجہد آزادی کو مذہب سے جوڑ دیا گیا تو حنان اشروی نے بھی کنارہ کشی کر لی۔حنان اشروی جو اس دوران پس منظر میں چلی گئی تھیں ایک بار پھر فلسطینی جدوجہد کے پیش منظر میں آگئیں۔
ان کا کھلا خط نیویارک ٹائمز میں شایع ہوا جس میں انھوں نے لکھا کہ اس طرح اسرائیلی افسر شاہی کو کھلی چھوٹ مل گئی ہے کہ وہ ڈنکے کی چوٹ پر فلسطینیوں کے گھروں اور ان کی زمینوں پر ناجائز قبضے کرے اور ان کے انسانی، جمہوری اور شہری حقوق کو اپنے قدموں کے نیچے روند دے۔ اشروی نے اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ 1967 میں جب اسرائیل نے مشرقی یروشلم پر قبضہ کیا، اس وقت سے اب تک شہر میں فلسطینیوں کے 20 ہزار گھروں پر قبضہ کیا گیا ہے۔
حنان نے لکھا کہ بہت سے خوش امید لوگوں کا وہ خواب خاک میں مل گیا ہے جو وہ دو ریاستوں کے بارے میں دیکھتے تھے۔ حنان اشروی نے امریکی صدر کو یاد دلایا ہے کہ اگر اورکچھ نہیں تو مسٹر میٹس کا 2013 میں دیا جانے والا وہ بیان یاد کر لیں جس میں اس وقت کے امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ مسٹر میٹس نے کہا تھا کہ، '' ہم قومی سیکیورٹی کی بھاری قیمت روزانہ ادا کرتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا کو اسرائیل کی متعصبانہ حمایت کرتے ہوئے دیکھا اور سمجھا جاتا ہے۔'' اشروی کا کہنا ہے کہ ہم فلسطینی یہ امید کرتے ہیں کہ امریکا میں زیادہ دانشمند آوازیں غلبہ پائیں گی۔
علمی محاذ پر فلسطین کی آزادی کے لیے لڑنے والوں میں ایڈورڈ سعید کا نام بہت اہم ہے۔ ان کی جائے پیدائش یروشلم کی سر زمین تھی۔ جو یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں، سب ہی کے لیے یکساں طور پر محترم اور مقدس ہے۔ ایڈورڈ سعید 1935میں یروشلم کے ایک دولت مند عرب نژاد عیسائی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ 1947 میں وہ پناہ گزین کے طور پر امریکا چلے گئے ۔
انھوں نے ہارورڈ اور پرنسٹن جیسی دنیا کی بہترین جامعات سے تعلیم حاصل کی۔ وہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ نہ صرف ایک بڑے ادیب تھے بلکہ ایک اعلیٰ درجے کے ادبی نقاد، صحافی، مترجم اور ماہر سیاسیات بھی تھے۔ انھوں نے کولمبیا یونیورسٹی میں علمی اور ادبی فرائض انجام دیے۔
انھوں نے کئی کتابیں لکھیں۔ ان کا موقف تھا کہ مغرب میں مشرقی اقوام کے حوالے سے غیر حقیقی کام ہوا ہے اور اس میں نسل پرستی اور سامراجی رویوں کی جھلک نظر آتی ہے۔ ایڈورڈ سعید نے فلسطینیوں کے حقوق کے لیے بڑی بہادری سے آواز اٹھائی اور زندگی کے آخری لمحے تک فلسطینی کے لیے علمی اور فکری جدوجہد کرتے رہے۔
ایڈورڈ سعید نے فلسطین سے اس طور عشق کیا کہ وہ جو نوآبادیاتی آقاؤں کی پرستش کرنے والے فلسطینی گھرانے میں پیدا ہوا تھا، وہی سامراج و استعمار کا دشمن اور فلسطینیوں کا سب سے بڑا وکیل بن گیا۔ اس کی اعلیٰ تعلیم مغرب کی دانش گاہوں میں ہوئی اور وہ ان در بہ در فلسطینی بچوں اور نوجوانوں کے لیے عمر بھر مضطرب رہا جو کتاب و قلم سے، دانش جوئی و دانشوری سے محروم رکھے گئے۔
اس نے تمام عمر مغربی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جن کی انتظامیہ کبھی کبھی اسے شک کی نظر سے بھی دیکھتی رہی۔ ایڈورڈ سعید نے فلسطین کے مسئلے، دانشوری کی روایت، عرب قومیت، عالمی سیاست، عراق و افغانستان پر امریکی حملے، دہشت گردی کے اسباب اور امن کی ثقافت جیسے معاملات پر بلامبالغہ سیکڑوں کالم اور مضامین لکھے۔ وہ عرب قوم پرستوں اور بہ طور خاص فلسطینی ادیبوں میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔
ایڈورڈ سعید اپنی عرب پہچان پر ناز کرتا تھا اور فلسطینیوں کے لیے کڑھتا رہتا تھا۔ بارہ برس کی عمر میں فلسطین سے جدائی اور جلاوطنی کی چنگاری اس کے سینے میں زندہ تھی لیکن اس حوالے سے اس نے اپنا کوئی کردار متعین نہیں کیا تھا۔
1967 کی شکست نے ایڈورڈ سعید کے ذہنی زمین و آسمان بدل کر رکھ دیے۔ زندگی کا یہ وہ مرحلہ تھا جب ایڈورڈ سعید جو شہریت کے اعتبار سے امریکی، پیدائشی طور پر فلسطینی اور خاندان کے حوالے سے عیسائی اور مراتب و مناصب کی رُو سے طبقۂ اعلیٰ کا فرد تھا، وہ ننگے پیر اور ننگے سر رہنے والے، فاقے کرنے، جلاوطنی کا دکھ بھوگنے والے اور اپنے ہی وطن میں بے وطن ہونے والوں کے قبیلے کا ایک فرد ہوگیا۔
اس نے صیہونیوں کے ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھائی اور ان عرب حکمرانوں پر بھی شدید تنقید کی جو اپنی بادشاہت اور صدارت کی خاطر فلسطینیوں کو نیست و نابود ہوتے اور ان کے بنیادی حقوق کو غصب ہوتے دیکھتے رہے لیکن جنھوں نے فلسطینیوں کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔
ایڈورڈ سعید نے لکھا کہ مغربی پریس جب مسلمان عورت کے حوالے سے اسلام کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے یا اسلامی سزاؤں پر حرف گیری کرتا ہے تو اس وقت مغربی پریس کو وہ یہودی ربی یاد نہیں آتے جو یہودی عورت کے بارے میں بھی ایسے ہی نظریات رکھتے ہیں یا وہ ان لبنانی پادریوں کو بھی بھول جاتا ہے جو اپنے نقطہ نظر کے اعتبار سے عورتوں کے خون کے پیاسے ہیں اور قرون وسطیٰ کے نظریات رکھتے ہیں۔
یاسر عرفات، حنان اشروی اور ایڈورڈ سعید فلسطین کی مزاحمتی تحریک کے بے مثال کردار تھے جنھیں تاریخ کبھی نظر انداز نہیں کرے گی۔ کیا یہ المیہ نہیں کہ ہماری نوجوان نسل جدوجہد آزاد کے ان اور ان جیسے دیگر کئی عظیم کرداروں کے بارے میں بہت کم جانتی ہے۔