آئندہ بجٹ میں ٹیکس نہیں ٹیکس نیٹ کو بڑھانا ہوگا تاجر و صنعتکار برادری
سیلز ٹیکس کو 3 سال میں بتدریج سنگل ڈیجیٹ میں لایا جائے،فورم میں اظہار خیال
تاجر و صنعتکاروں نے مالی سال 2014-15 کے وفاقی بجٹ میں ٹیکسوں میں اضافے پر توجہ کے بجائے قابل ٹیکس آمدنی کے حامل افرادواداروں کے ذریعے ٹیکس نیٹ کوتوسیع دینے کی تجویز دیدی ہے۔
تاجربرادری نے نئے بجٹ میں ایسے اقدامات بروئے کارلانے کا مطالبہ کیا ہے کہ جس ملکی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہو، تاجربرادری کے نمائندوں کا کہنا تھا کہ ٹیکس وصولی کا موثراور شفاف نظام متعارف کرائے بغیر ریونیو کے مقررہ اہداف کا حصول ناممکن ہے، ضرورت اس امرکی ہے کہ سیلز ٹیکس کی شرح میںآئندہ 3 سال کے دوران بتدریج سنگل ڈیجیٹ (single digit) میں لایا جائے، نوپیمنٹ نو ریفنڈ کا نظام لایا جائے اورتاجروصنعتکاروں کے لیے مستقل بنیادوں پر امن فراہم کیا جائے کیونکہ طویل عرصے سے جاری مستقل بدامنی اور خوف کا ماحول تجارت وصنعت کے لیے پریشانی کا باعث ہیں۔
ان خیالات کا اظہار تاجر برادری کے نمائندوں، اسٹاک ایکسچینج، ایوان صنعت و تجارت، اور مختلف شعبوں کی سرکردہ شخصیات نے مالی سال2014-15 کے وفاقی بجٹ کے حوالے سے منعقدہ ''ایکسپریس فورم '' میں کیا۔ ''ایکسپریس فورم'' میں وفاق ایوانہائے تجارت وصنعت پاکستان کے صدر ذکریا عثمان، کراچی چیممبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدرعبداللہ ذکی، کراچی اسٹاک ایکس چینج کے سینئر رکن اور اے کے ڈی گروپ کے چیئرمین عقیل کریم ڈھیڈی، آل پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے سینٹرل چیئرمین شنید قریشی، پاکستان ایپرل فورم کے سینٹرل چیئرمین جاوید بلوانی، ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز پاکستان (آباد) کے سینئر وائس چیئرمین سلیم قاسم پٹیل، پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن کے سینٹرل چیئرمین میاں محمود حسن اورپاکستان اکانومی فورم کے وائس چیئرمین شرجیل جمال نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور وفاقی بجٹ کے حوالے سے اپنی تجاویز پیش کیں۔
ذکریا عثمان کا کہنا تھا کہ جو بھی شخص اس ملک میں کماتا ہے اسے بہرصورت ٹیکس دینا چاہیے۔عبداللہ ذکی نے کہا کہ معاشی و اقتصادی پالیسیوں پر عملدرآمد سے قبل متعلقہ ایوان تجارت کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ کراچی چیمبر کی تجویز ہے کہ کسٹمز ٹیرف کو نیچے لانے کی ضرورت ہے ، سیلز ٹیکس کی شرح کو سنگل ڈیجٹ میں لایا جائے جو ابتدائی 3 سال کے لیے5 تا8 فیصد ہو۔ بجٹ میں فنشڈ پروڈکٹس کے امپورٹ ٹیرف میں کمی کی جائے، زیادہ سے زیادہ ٹیکس35 فیصد ہونا چاہیے جو فی الوقت65 تا70 فیصد ہے۔ کراچی اسٹاک ایکس چینج کے سینئر رکن عقیل کریم ڈھیڈی نے کہا کہ حکومتی اقدامات کے باوجود ٹیکس وصولی ایسی نہیں ہورہی جیسی ہونی چاہیے جس کی بنیادی وجہ کرپٹ نظام ہے۔ ہماری تجویز ہے کہ آئندہ بجٹ میں بلیک منی کو وائٹ منی بنانے کے ذرائع ختم کردیے جائیں۔ انھوں نے کہا کہ کیپٹل گینز ٹیکس صرف ملک کے ایک فیصد لوگوں پر لاگو ہے جس میں اصلاح کی ضرورت ہے۔
سلیم قاسم پٹیل نے کہا کہ تعمیراتی صنعت کسی بھی ملک میں اسٹاک ایکس چینج کے بعد ملکی معیشت کا جائزہ لینے کا پیمانہ ہوتی ہے۔ ہم حکومت کو تجویز دیتے ہیں کہ وہ امن وامان کی صورتحال کو بہتر کرے تبھی معیشت میں سدھار کے دعوے حقیقت بن سکتے ہیں۔ جاوید بلوانی نے کہا کہ ہمارا ٹیکسٹائل سیکٹر کم انویسٹمنٹ میں سب سے زیادہ روزگار فراہم کرتا ہے۔جو ٹیکس حکومت جمع کرتی ہے وہ سال کے آخر میں حکومت کے پاس نہیں ہوتا، ہماری تجویز ہے کہ ان پٹ، ریفنڈ، اور ریبیٹ کو ختم کیا جائے۔
شنید قریشی کا کہنا تھا کہ فوڈ انڈسٹری پر کسی قسم کا ٹیکس نہیں ہونا چاہیے،میاں محمودحسن نے کہا کہ مطلوبہ ٹرانسپورٹیشن اور اسٹوریج وسائل نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال تقریبا 20 فیصد گندم ضائع ہوجاتی ہے، ملک میں ویلیوایڈیشن کے فروغ اورکرپشن ختم کرنے کے لیے تمام صوبوں میں فوڈ ڈپارٹمنٹس ختم کردیناچاہیے، شرجیل جمال نے کہا کہ سروسز سیکٹر سے صوبائی ریونیو اتھارٹیز کی جانب سے ٹیکسوں کی وصولیوں کے نظام کے بعد یہ شعبہ دہرے ٹیکسیشن کا شکار ہوگیا ہے۔ ہارمونائزڈسیلزٹیکس کے عنوان سے 12 فیصد فکسڈ ٹیکس عائد کیا جائے۔
تاجربرادری نے نئے بجٹ میں ایسے اقدامات بروئے کارلانے کا مطالبہ کیا ہے کہ جس ملکی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہو، تاجربرادری کے نمائندوں کا کہنا تھا کہ ٹیکس وصولی کا موثراور شفاف نظام متعارف کرائے بغیر ریونیو کے مقررہ اہداف کا حصول ناممکن ہے، ضرورت اس امرکی ہے کہ سیلز ٹیکس کی شرح میںآئندہ 3 سال کے دوران بتدریج سنگل ڈیجیٹ (single digit) میں لایا جائے، نوپیمنٹ نو ریفنڈ کا نظام لایا جائے اورتاجروصنعتکاروں کے لیے مستقل بنیادوں پر امن فراہم کیا جائے کیونکہ طویل عرصے سے جاری مستقل بدامنی اور خوف کا ماحول تجارت وصنعت کے لیے پریشانی کا باعث ہیں۔
ان خیالات کا اظہار تاجر برادری کے نمائندوں، اسٹاک ایکسچینج، ایوان صنعت و تجارت، اور مختلف شعبوں کی سرکردہ شخصیات نے مالی سال2014-15 کے وفاقی بجٹ کے حوالے سے منعقدہ ''ایکسپریس فورم '' میں کیا۔ ''ایکسپریس فورم'' میں وفاق ایوانہائے تجارت وصنعت پاکستان کے صدر ذکریا عثمان، کراچی چیممبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدرعبداللہ ذکی، کراچی اسٹاک ایکس چینج کے سینئر رکن اور اے کے ڈی گروپ کے چیئرمین عقیل کریم ڈھیڈی، آل پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے سینٹرل چیئرمین شنید قریشی، پاکستان ایپرل فورم کے سینٹرل چیئرمین جاوید بلوانی، ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز پاکستان (آباد) کے سینئر وائس چیئرمین سلیم قاسم پٹیل، پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن کے سینٹرل چیئرمین میاں محمود حسن اورپاکستان اکانومی فورم کے وائس چیئرمین شرجیل جمال نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور وفاقی بجٹ کے حوالے سے اپنی تجاویز پیش کیں۔
ذکریا عثمان کا کہنا تھا کہ جو بھی شخص اس ملک میں کماتا ہے اسے بہرصورت ٹیکس دینا چاہیے۔عبداللہ ذکی نے کہا کہ معاشی و اقتصادی پالیسیوں پر عملدرآمد سے قبل متعلقہ ایوان تجارت کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ کراچی چیمبر کی تجویز ہے کہ کسٹمز ٹیرف کو نیچے لانے کی ضرورت ہے ، سیلز ٹیکس کی شرح کو سنگل ڈیجٹ میں لایا جائے جو ابتدائی 3 سال کے لیے5 تا8 فیصد ہو۔ بجٹ میں فنشڈ پروڈکٹس کے امپورٹ ٹیرف میں کمی کی جائے، زیادہ سے زیادہ ٹیکس35 فیصد ہونا چاہیے جو فی الوقت65 تا70 فیصد ہے۔ کراچی اسٹاک ایکس چینج کے سینئر رکن عقیل کریم ڈھیڈی نے کہا کہ حکومتی اقدامات کے باوجود ٹیکس وصولی ایسی نہیں ہورہی جیسی ہونی چاہیے جس کی بنیادی وجہ کرپٹ نظام ہے۔ ہماری تجویز ہے کہ آئندہ بجٹ میں بلیک منی کو وائٹ منی بنانے کے ذرائع ختم کردیے جائیں۔ انھوں نے کہا کہ کیپٹل گینز ٹیکس صرف ملک کے ایک فیصد لوگوں پر لاگو ہے جس میں اصلاح کی ضرورت ہے۔
سلیم قاسم پٹیل نے کہا کہ تعمیراتی صنعت کسی بھی ملک میں اسٹاک ایکس چینج کے بعد ملکی معیشت کا جائزہ لینے کا پیمانہ ہوتی ہے۔ ہم حکومت کو تجویز دیتے ہیں کہ وہ امن وامان کی صورتحال کو بہتر کرے تبھی معیشت میں سدھار کے دعوے حقیقت بن سکتے ہیں۔ جاوید بلوانی نے کہا کہ ہمارا ٹیکسٹائل سیکٹر کم انویسٹمنٹ میں سب سے زیادہ روزگار فراہم کرتا ہے۔جو ٹیکس حکومت جمع کرتی ہے وہ سال کے آخر میں حکومت کے پاس نہیں ہوتا، ہماری تجویز ہے کہ ان پٹ، ریفنڈ، اور ریبیٹ کو ختم کیا جائے۔
شنید قریشی کا کہنا تھا کہ فوڈ انڈسٹری پر کسی قسم کا ٹیکس نہیں ہونا چاہیے،میاں محمودحسن نے کہا کہ مطلوبہ ٹرانسپورٹیشن اور اسٹوریج وسائل نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال تقریبا 20 فیصد گندم ضائع ہوجاتی ہے، ملک میں ویلیوایڈیشن کے فروغ اورکرپشن ختم کرنے کے لیے تمام صوبوں میں فوڈ ڈپارٹمنٹس ختم کردیناچاہیے، شرجیل جمال نے کہا کہ سروسز سیکٹر سے صوبائی ریونیو اتھارٹیز کی جانب سے ٹیکسوں کی وصولیوں کے نظام کے بعد یہ شعبہ دہرے ٹیکسیشن کا شکار ہوگیا ہے۔ ہارمونائزڈسیلزٹیکس کے عنوان سے 12 فیصد فکسڈ ٹیکس عائد کیا جائے۔