علامہ اقبالؒ فن اور شخصیت

اقبال برصغیر کی وہ عظیم شخصیت تھے جنھوں نے اپنے علم، مطالعے اور روحانی وجدان کی بنیاد پر غلط نظریات کو دلائل سے رد کیا

فوٹو:فائل

علم نفسیات کی ایک شاخ Human growth and Personality Development کہلاتی ہے جس میں میڈیکل سائنس کی بنیادی معلومات اور قوانین کے ساتھ ساتھ نفسیاتی نظریات اور اصولوں کی بنیاد پر کسی شخص کی شخصیت کا گہرا مطالعہ کافی حد تک ممکن ہو جاتا ہے۔


ماہرین تعلیم اور ماہرین تعلیمی نفسیات کے مطابق کوئی انسان اپنی مادری زبان ابتدائی پانچ برس کی عمر میں سیکھ جاتا ہے اور اُس کی شخصیت کا بنیادی ڈھانچہ 90 فیصد تک مکمل ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد جب بچہ اسکول جانے کے قابل ہو جاتا ہے تو اُس کی شخصیت کی تعمیر میں تین ادارے اور اُن میں موجود شخصیات اثرانداز ہوتی ہیں۔


نمبر1۔ گھر جہاں ماں باپ بہن بھائی اور باقی خاندان کے افراد اثرانداز ہوتے ہیں، نمبر2 ۔ اسکول جہاں اُس کے اساتذہ اور ہم جماعت اثرانداز ہوتے ہیں اور نمبر3۔ اسکول اور گھر کے درمیان کھلی یا آزاد فضا جو معاشرہ ہے وہ اثرانداز ہوتا ہے۔ پہلے دو ادارے گھر اور اسکول پابند ادارے ہوتے ہیں جب کہ معاشرہ غیر پابند ادارہ ہے، یوں جب مغربی اور ترقی یافتہ ملکوں میں شخصیت کا تجزیہ اس سائنسی انداز میں کیا جاتا ہے تو وہ اُس شخصیت کا احاطہ اُس کی پرورش اور شخصیت سازی کے اعتبار سے اِن اداروں اور اُن میں اُس زمانے میں اُس شخصیت کے ساتھ وقت گزارنے والوں کے انٹرویوز کی بنیادوں پر کرتے ہیں۔


اس حوالے سے پاکستان اور بھارت کی آزادی پر دو فرانسیسی نژاد مصنفین 'لاری کولنز اور ڈومینک لاپیرے کی شہرہ آفاق کتاب Freedom at Midnight کی مثال دی جا سکتی ہے۔ اس کتاب میں چار اہم شخصیات موہن داس گاندھی، قائداعظم محمد علی جناح ، لارڈ ماونٹ بیٹن اور جواہر لال نہروکو ہندوستان کی تقسیم اور آزادی کے اہم واقعات اور اِن کی جانب سے کئے جا نے والے اقدامات کی روشنی میں پرکھا گیا ہے۔


کتاب کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اِن دونوں مصنفین نے ان چاروں کی شخصیت کے بارے میں پہلے بہت کچھ پڑھا اور پھر اِن پر قلم اُٹھایا۔ اس انداز یا طریقہ کار کو میں ہمیشہ شخصیت نگاری، شخصی خاکہ لکھنے کے لحاظ سے بہت مفید سمجھتا ہوں لیکن یہاں میں دین اسلام کے اسکالروں کی آرا جو روح کے حوالے سے ہیں اس کو بھی بنیادی اہمیت دیتا ہوں ، دینی اسکالر ز روح کے بارے میں یہ وضاحت کرتے ہیں کہ روحیں عالم ارواح میں موجود ہوتی ہیں اور جب شکم ِ مادر میں بچہ چار ماہ اور دس دن کا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کے بدن میں روح داخل کر دیتا ہے، یہی انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی دلیل ہے۔


جان سے جانور یعنی ایسی تمام مخلوقات جو زندہ ہیںاور حرکت کرتی ہیں، پھر پودے درخت اور دیگر ایسی ہی جاندار اشیا آتی ہیں، مگر انسان ایک روح بھی رکھتا ہے جو بنیادی طور پر پاک ہوتی ہے اور اسی روح سے روحانیت کا تعلق ہے جو انسان کے نفسیاتی نظام سے جدا ہے۔ ماہرین نفسیات شکم ِ مادر میں شخصیت پر ماں کی سوچوں، جذبات اور بیروونی آوازوں کے ممکنہ اثرات کے نظریات پیش کرتے ہیں۔ اس حوالے سے بلوچستان کے تاریخی کردار میر نصیر خان نوری خان آف قلات کا ذکر کروں گا۔ یہی وہ مجاہد تھے جو احمد شاہ ابدالی کے ہمراہ اپنا لشکر لے کر ہندوستان میں مرہٹوں سے مقابلے کے لیے گئے اُن کے بارے میں روایت ہے کہ جب وہ جنگ میں مصروف تھے تو کسی بدخواہ نے میرنصیر خان نوری کی ماں سے کہا کہ تمہارا بیٹا میدان ِجنگ منہ موڑ کر بھاگ گیا ہے۔


اِس پر میر نصیر خان نوری کی ماں نے گرج کر جواب دیا ہرگز نہیں! میں نے کبھی اپنے بیٹے کو بغیر وضو کے دودھ نہیں پلایا، میرا بیٹا کبھی ایسا نہیں کر سکتا،یہی ہماری برصغیر کی جدید تاریخ میں بی اماں کی حیثیت ہے جو مولانا محمد علی جوہر،مولانا شوکت علی کی والد ہ تھیں ایسی کئی عظیم ماؤ ں کا کردار ہمیں تاریخ میں ملتا ہے۔


اقبال کی شخصیت پر اثر انداز ہونے والی پہلی عظیم شخصیت کی والد ہیں جن کی وفات پر 83 اشعار پر مشتمل ایک طویل نظم علامہ قبال نے '' والدہ مرحومہ کی یاد میں'' کے عنوان سے لکھی۔ اس نظم کے چند اشعار کچھ یوں ہیں۔


گریہَ سرشار سے بنیاد جاں پائندہ ہے


درد کے عرفاں سے عقلِ سنگدل شرمندہ ہے


موج دودِ آہ سے آئینہ ہے روشن مرا


گنجِ آب آورد سے معمور ہے دامن مرا


حیرتی ہوں میں تری تصویر کے اعجازکا


رخ بدل ڈالا ہے جس نے وقت کی پرواز کا


رفتہ وحاضر کو گویا پا بپا اس نے کیا


عہد طفلی سے مجھے پھر آشنا اس نے کیا


جب ترے دامن میں پلتی تھی وہ جانِ ناتواں


بات سے اچھی طرح محرم نہ تھی جس کی زباں


اور اب چرچے ہیں جس کی شوخیِ گفتار کے


بے بہا موتی ہیں جس کی چشمِ گوہر بار کے


علم کی سنجیدہ گفتاری بڑھاپے کا شعور


دنیوی اعزاز کی شوکت، جوانی کا غرور


زندگی کی اوج گاہوں سے اترآتے ہیں ہم


صحبت ِ مادر میں طفل سادہ رہ جاتے ہیں ہم


خاک مرقد پر تری لے کر یہ فریاد آوں گا


اب دعائے نیم شب میں کس کو میں یاد آوں گا


اور پھر نظم کے آخری شعر میں والدہ مرحومہ کو بھر پور انداز میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں


آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے


سبزہَ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کر ے


یوں مجھے یہاں اقبال کی شخصیت کی تعمیر میں روحانی اور نفسیاتی اعتبار سے اقبال کی والدہ مرحومہ عظیم خاتون اور عظیم ماں دکھائی دیتی ہیں۔


ہمارے ہاں جب کوئی شخص کوئی زبردست کام کرے تو اکثر لوگ اُس کی ماں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں شاباش ہے اِسکی ماں کو جس نے ایسا بیٹا پیدا کیا۔ علامہ اقبال 9 نومبر 1877 ء کو سیالکوٹ میں پیداہوئے اور ابتدائی دینی تعلیم گھر میں حاصل کی، والد شیخ نور محمد کپڑے کی تجارت کرتے تھے پھر پرائمری، مڈل اور ہائی اسکول کی تعلیم اسی شہر کے مشن اسکول سے حاصل کی۔


1889 ء میں اسی اسکول میں کالج کی انٹرمیڈیٹ کلاسوں کا آغاز ہو گیا اور بعد میں اسی کالج کا نام مرے کالج ہوا اور ابتدا میں اس کے پرنسپل ڈبلیوینگ سب مقرر ہوئے اور اِن کے ساتھ کالج میں صرف دو پروفیسر تھے جن میں سے ایک مولوی میر حسن تھے۔ 1893 ء میں اسی اسکاچ مشن کالج ( مرے کالج) میں فرسٹ ائیر میں علامہ اقبال نے داخلہ لیا اس کے بعد علامہ اقبال نے گورنمٹ کالج لاہور سے ایم اے فلاسفی، لندن سے قانون کی ڈگری اور جرمنی کی میونخ یو نیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔


ماں کے بعد اگر علامہ اقبال کسی کی تعلیم وتربیت اور روحانی و علمی تربیت کے لحاظ سے متاثر ہوئے تو وہ اُن کے استاد مولوی میر حسن تھے اور اس کا کھلا اعتراف اُنہوں نے اُس وقت کیا جب انگریز سرکار نے اُن کی علمی وفکری شخصیت اور خد مات کو تسلیم کرتے ہو ئے ''سر'' کا خطاب دیا تو اُنہوں نے انگریز سر کار کے سامنے یہ شرط رکھی کہ جب تک میرے استاد محترم مولوی میر حسن کو شمس العلماء کا خطاب نہیں دیا جاتا اُس وقت تک وہ ''سر'' کا خطاب نہیں لیں گے ا ور پھر انگریز سرکار نے ایسا ہی کیا۔


علامہ اقبال کی عربی اور فارسی تعلیم بنیادی طور پر اُن کی فکر اور شاعری کے لیے بہت اہم ثابت ہوئی، عربی تعلیم نے اُنہیں تفہیم القران کی بھرپور صلاحیت بخشی اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اُنہیں ایسی عظیم روحانی قوت بخشی تھی، اُن کے قریبی ساتھیوں اور رشتہ داروں کے بیانات کے مطابق علامہ اقبال جب قرآن پڑھتے تھے تو بے قرار ہو کر روتے جاتے تھے اور آخری عمر میں تو اُن کے پرانے خادم، علی بخش کے مطابق وہ قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوئے اتنا روتے کہ بعد میں قرآن کو دھوپ میں رکھ کر خشک کیا جاتا۔ مختلف ادوار میں ایسا کو ئی ایک آدھ ہی خوش قسمت دنیا کو نصیب ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ یہ روحانی صلاحیت بخشتا ہے کہ اُسے قرآن کی آیات کی روح بھی سمجھ آتی ہے وہ ان مفاہیم کو اپنی روح میں جذب کرتا جاتا ہے۔


یہی صورت علامہ اقبال کی تھی اور یقینا اس کا پُر تو ہی اُن کی قومی شاعری میں بھرپور طور پر دکھائی دیتا ہے اور اُن کی پوری قومی شاعری میں کوئی شعر ایسا نہیں جو بھرپور اثر نہ رکھتا ہو۔ علامہ اقبال کا کمال یہ ہے کہ اُن کا آئیڈیل انسانوں میںکیا تمام انبیاء میںسب سے افضل واعلیٰ آخری نبی حضرت محمدﷺ تھے۔ اقبال نے جس روحانی پاکیزگی سے قرآن کو سمجھا اُسی طرح اُنﷺ کو بھی سمجھا جن ؐ پر قرآن کا نزول ہوا۔ اُنہوں نے احادیث سے بھی اسی روحانی معرفت کے ساتھ فیض حاصل کیا جیسے قرآن پاک سے،علامہ کی عمر کوئی 35 برس ہو گی جب طرابلس کی جنگ ہوئی،اُنہوں نے اس جنگ کا بہت گہرا اثر لیا اور اس پر نظمیں لکھیں۔ ایک نظم عنوان ( حضورِ رسالت مآب ؐ میں) یوں ہے ۔


گراں جو مجھ پہ ہنگامہ زمانہ ہوا


جہاں سے باندھ کے رختِ سفر روانہ ہوا


قیود ِشام و سحر میں بسر تو کی لیکن


نظام ِکہنہ عالم سے آشنا نہ ہوا


فرشتے بزم ِ رسالت میں لے گئے مجھ کو


حضورِ آیہَ رحمت میں لے گئے مجھ کو


کہا حضورؐ نے اے عندلیبِ باغِ حجاز !


کلی کلی ہے تری گرمیِ نوا سے گداز


ہمیشہ سرخوشِ جامِ ولاہے دل تیرا


فتادگی ہے تری غیرتِ سجود ِ نیاز


اُڑاجو پستیِ دنیا سے تُو سوئے گردوں


سکھائی تجھ کو ملائک نے رفعتِ پرواز


نکل کے باغ جہاں سے برنگِ بُو آیا


ہمارے واسطے کیا تحفہ لے کے تُو آیا


حضورؐ! دہر میں آسودگی نہیں ملتی


تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی


ہزار لالہ و گل ہیں ریاضِ ہستی میں


وفا کی جس میں ہو بُو، وہ کلی نہیں ملتی


مگر میں نذر کو اِک آبگینہ لایا ہوں


جو چیز اس میں ہے، جنت میں بھی نہیں ملتی


جھلکتی ہے تری امت کی آبرو اِ س میں



طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اِس میں


بانگ ِ درا میں اس نظم کے بعد نظم (شفانہ خانہء حجاز)کے عنوان سے ایک نظم ہے اور پھر مشہور نظم (جواب شکوہ ) ہے جس کے آخری اشعار میں جب نبی کریمؐ کے حوالے سے فکر واحساس کا اظہار سامنے آتا ہے تو ہر قاری سامع یا ناظر،اقبال کی روحانی قوت اور معرفت کو اپنے دل میں دھڑکتا ہوا پاتا ہے اور اقبال کا جذبہء عشق ِ نبیؐ اپنے عروج پر دکھائی دیتا ہے وہ کہتے ہیں :


قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے


دہر میں عشقِ محمدؐ سے اجالا کر دے


ہونہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو


چمنِ دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو


یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو خم بھی نہ ہو


بزم ِ توحید بھی دنیا میں نہ ہو تم بھی نہ ہو


خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے


نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے


علامہ اقبال کا پہلا مجموعہء کلام ( بانگِ درا) شائع ہوا تو اس کا دیباچہ سر شیخ عبدالقادر نے لکھا جو مخزن کے ایڈیٹر بھی رہے تھے۔ اُنہوں نے اس کے آغاز ہی میں لکھا ''اگر میں تناسخ کا قائل ہوتا تو ضرور کہتا مرزا اسداللہ خان غالب کو اردو اور فارسی کی شاعری سے جو عشق تھا اُس نے ان کی روح کو عدم میں جا کر بھی چین نہ لینے دیا اور مجبور کیا وہ پھر کسی جسد ِ خاکی میں جلوہ افروز ہو کر شاعری کے چمن کی آبیاری کرے اور اس نے پنجاب کے ایک گوشے میں 'جسے سیالکوٹ کہتے ہیں' دوبارہ جنم لیا اور محمد اقبال نام پایا''۔


یہاں سر عبدالقادر بیرسٹر ایٹ لا، نے اقبال کو غالب کا ہم پلہ قرار دیا ، ادب شناس غالب کو بہت عظیم شاعر قرار دیتے ہیں اور بلا شبہ ایسا ہی ہے، مگر میں نے اقبال کے حوالے سے یہ کہا کہ اقبال کا کلام 'جو اقبال کو نہ صرف عظیم شاعر بناتا ہے بلکہ اردو کے سب سے بڑے پُر اثر شاعر کے طور پر منواتا ہے۔


اس کی بنیادی وجہ میں نے درج بالا سطور میں بیان کی ہے کہ اُن کی شخصیت روحانی اعتبار سے دوسرے تمام شعرا دانشو روں سے بہت زیادہ طاقتور اور مضبوط ہے اور ساتھ ہی ساتھ وہ نفسیاتی، علمی، طور پر بھی ایک مضبوط شخصیت کے مالک تھے، اور اس کا عتراف اقبال کو پڑھنے والا ہر قاری کرتا ہے۔


اب ہم اُن کی شخصیت کے دوسرے پہلووں پر نظر ڈالتے ہیں۔ اقبال بطور ماہر قانون برطانیہ، امریکہ اور یورپ کے دیگر ملکوں کے آئینی سیاسی نظاموں سے واقف تھے، وہ اُس زمانے کے تمام اہم دساتیرِ عالم کا گہرا مطالعہ رکھتے تھے اور اِس تناظر میں وہ ہندوستان میں انگریز کے زمانے میں ہونے والی قانون سازی اور پارلیمانی نظام کے مرحلہ وار تعارف پر بھی نظر رکھے ہوئے تھے۔ اُس فضا اور اُس کے تمام پس منظر کا پورا شعور بھی اُنہیں تھا۔


وہ نہ صرف انقلاب فرانس کے تمام پہلووں کا گہرا ادراک رکھتے تھے بلکہ اس کے منفی اور مثبت اثرات کو بھی دنیا پر مرتب ہوتے دیکھ رہے تھے۔ اُن کے سامنے ہی روس کا اشتراکی انقلاب آیا تھا۔ چین جس انقلاب کی جانب برھ رہا تھا اُس کا نقشہ بھی بھی ان کے ذہن میں تھا۔اس تناظر میں اُن کے کئی اشعار کے علاوہ اُن کی نظمیں 'لینن خدا کے حضور میں' اور ' کارل مارکس کی آواز' ان کے عصری شعور کی آئینہ دار ہیں، اور پھر ساقی نامہ میں چین کے انقلاب کے بارے میں پیش گوئی واضح دکھا ئی دیتی ہے:


پرانی سیاست گری خوار ہے


زمیں میر وسلطاں سے بیزار ہے


گیا دورِ سرمایہ داری گیا


تماشہ دکھا کر مداری گیا


گراں خواب چینی سنبھلنے لگے


ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے


علامہ اقبال کی بصیرت کا اہم ترین نکتہ 1930ء کا مسلم لیگ کا سالانہ جلسہ الہ آباد تھا جس کے صدارتی خطبہ میں ہی اُنہوں نے پاکستان کا واضح تصور دیا تھا، حالانکہ اِس سے دوبرس پہلے 1928 ء میں موتی لال نہرو نے میثاق لکھنو کو مسترد کرتے ہوئے اپنی نہرو رپورٹ پیش کر دی تھی۔ اس کے جواب میں قائد اعظم نے 1929 ء میں اپنے چودہ نکات پیش کرتے ہوئے یہ کوشش کی تھی کہ کسی طرح کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان ہونے والے 1916 ء کا معاہدہ، میثاق لکھنو محفوظ رہ جائے لیکن یہاں قائد اعظم کی یہ آواز بدقسمتی سے آل انڈیا کانگریس نہیں سن سکی۔


اس کے ایک سال بعد ہی 1930ء میں علامہ اقبال نے الہ آباد میں فیصلہ کن انداز اختیار کیا کیونکہ وہ اپنے روحانی وجدان سے بالکل ٹھیک ٹھیک اندازہ کر چکے تھے اور دو قومی نظریہ کے تحت فیصلہ کر چکے تھے کہ اب یہ دوقومیں مل کر ایک ہندوستان میں نہیں رہ سکتیں۔


1939 ء میں دوسری جنگ عظیم ہوئی اور کانگریس نے انگریز سرکار پر بھرپور دباؤ ڈالتے ہوئے وزارتوں سے استعفیٰ دے دیا تھا اپنی موت سے قبل ہی اقبال اپنے وجدان کی بنیاد پر ہی ناراض ہو کر برطانیہ منتقل ہو جا نے والے قائداعظم محمد علی جناح کو اصرار کر کے واپس ہندوستان آنے پر راضی کر گئے تھے اور بتا دیا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو آپ کی ضرورت ہے اور آپ ہی اِن کو آزادی دلوا سکتے ہیں۔


اقبال کی موت کے دو سال بعد جب لاہور میں قراردادِ پاکستان 1940ء میں منظور ہو رہی تھی تو بشمول قائداعظم اس تاریخی اجلاس میں شریک تمام رہنما یہ جانتے تھے کہ وہ آج جس دستاویز پر دستخط کر رہے ہیں اس کا خواب یہاں سے چند میٹر کے فاصلے پر شاہی مسجد کے پہلو میں دفن حکیم الامت، شاعر مشرق اور مصورِ پاکستان نے اپنی فکر اور پُر اثر شاعری سے ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں کے دلوں میں تحریر کر دیا تھا۔


اسی طرح علامہ اقبال بعد میں 1930ء سے 1932ء تک لندن میں ہونے والی گول میز کانفرنسوں کے حوالے سے ہندوستان کے لیے ہونے والی انگریزوں کی سیاسی منصوبہ بندی اور قانون سازی سے بھی واقف تھے تو وہ یہ بھی جانتے تھے کہ جنگ عظیم اوّل کے بعد 1930 ء سے عالمی سطح پر رونما ہونے والی عظیم عالمی کساد بازاری کے کیا اثرات مرتب ہونگے اور اپنے وژن کے ساتھ ہی اُنہوں نے لیڈر کی تعریف یوں واضح کی


نگاہ بلند سخن دلنواز جاں پُرسوز


یہی ہے رخت سفر میرِ کارواں کے لیے


1930ء ہی وہ سال ہے جب سابق سوویت یونین میں کیمونسٹ انقلاب کی کامیابی کے بعد اشتراکی نظریہ مشرقی یورپ کی جانب بھی بڑھ رہا تھا اور چین میں بھی اپنے قدم جما رہا تھا۔ اس کی کامیابی میں روسی ادب کو اہم مقام حاصل ہے اور باوجود اس کے کہ 1990 ء میں سابق سوویت یونین اور اشتراکی نظام کے خاتمے کو آج 33 برس گزر چکے ہیں۔


اشتراکی ادب دنیا کو اب بھی متاثر کر رہا ہے ۔ علامہ اقبال اسلام کے بنیادی عقائد پر قائم رہتے ہوئے فکری اعتبار سے اور بہت متوازن انداز میں اشتراکی نظریات کو اپنی شاعری میں زیربحث لائے، اسی طرح جہاں وہ نظریہ ارتقا کے بانی ڈارون کو مخاطب کرتے ہوئے انسانی عظمت کو یوں بیان کرتے ہیں:


خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے


کہ میں اس سوچ میں رہتا ہوں کہ میری انتہا کیا ہے


اسی طرح وہ قوم پرستی کے اعتبار سے نیٹشے کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں :


اگر وہ مجذوب فرنگی ہوتا اِ س زمانے میں


تو اقبال اُس کو بتلا تا مقامِ کبریا کیا ہے


حقیقت یہ ہے کہ اقبال کے زمانے میں دنیا بدل رہی تھی۔ دنیا میں بڑے لیڈر، عظیم ماہرین اور سائنس دان پید ا ہوئے۔


ادب، فلسفہ، نفسیات اور سماجیات میں بھی بڑی قدرآور شخصیات پیدا ہوئیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اقبال ہی اُس وقت برصغیر میں وہ عظیم شخصیت تھے جو اپنے علم مطالعے اور روحانی وجدان کی بنیاد پر نہ صرف دنیا کے اِن فلاسفروں، دانشوروں کے حقیقت پر مبنی نظریات کو تسلیم کرتے ہوئے سراہتے ہیں تو ساتھ ہی اِن کے مقبول عام مگر غلط نظریات کو دلائل کی بنیاد پر رد کرتے ہیں۔


ہمارے ہاں اقبال سے پہلے غالب عظیم شاعر تھے جن کو اقبال نے اپنے اشعار میں خراج عقیدت پیش کیا ہے اور اقبال کے بعد ہمارے ادب میں فیض احمد فیض ایک بڑے شاعر ہیں، فیض احمد فیض نے علامہ اقبال کو اپنے پہلے مجموعہ کلام نقشِ فریادی میں یوں خراج عقیدت پیش کیا ہے، نظم کا عنوان ( اقبال)


آیا ہمارے دیس میں اک خوش نوا فقر


آیا اور اپنی دُ ھن میں غزل خواں گزر گیا


سنسان راہیں خلق سے آباد ہو گئیں


ویران میکدوں کا نصیبہ سنور گیا


تھیں چند ہی نگاہیں جو اُس تک پہنچ سکیں


پر اُس کا گیت سب کے دلوں میں اترگیا


اب دُور جا چکا ہے وہ شاہِ گدا نما


اور پھر سے اپنے دیس کی راہیں اُداس ہیں


چند اک کو یاد ہے کوئی اس کی ادائے خاص


دو اک نگاہیں چند عزیزوں کے پاس ہیں


پر اُس کا گیت سب کے دلوں میں مقیم ہے


اور اس کی لَے سے سینکڑوں لذ ت شناس ہیں


اس گیت کے تمام محاسن ہیں لازوال


اس کاوفور، اس کا خروش، اس کا سوزوساز


یہ گیت مثل شعلہء جوالہ تُندوتیز


اس کی لپک سے بادِ فنا کا جگرگداز


جیسے چراغ وحشت ِ صرصر سے بے خطر


یا شمعِ بزم صبح کی آمد سے بے خبر


٭٭٭

Load Next Story