دقیانوسی سیاست ختم کرنے کیلیے مضبوط بلدیاتی نظام لانا ہوگا ایکسپریس فورم
عوامی مسائل کا حل بلدیاتی نظام سے ممکن، راحیلہ خادم حسین، عام انتخابات کے بعد بلدیاتی الیکشن کرائے جائیں، فائزہ ملک
ملک سے دقیانوسی سیاست کا خاتمہ کرنے اور گڈ گورننس یقینی بنانے کیلیے مضبوط بلدیاتی نظام لانا ہوگا، آئین کے مطابق مقامی حکومتوں کو سیاسی، مالی اور انتظامی اختیارات دیے جائیں۔
سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی منشور میں صرف بلدیاتی نظام کا ذکر نہ کریں بلکہ مضبوط بلدیاتی نظام یقینی بنائیں، اس میں خواتین، نوجوان، اقلیتوں سمیت تمام طبقات کی نمائندگی یقینی بنائی جائے۔ ان خیالات کا اظہار سیاسی رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے ''جمہوری استحکام اور لوکل باڈیز کا کردار'' کے موضوع پر منعقدہ ''ایکسپریس فورم'' میں کیا۔
فورم کی معاونت کے فرائض احسن کامرے نے سرانجام دیئے۔ رکن منشور کمیٹی مسلم لیگ (ن) و سابق رکن صوبائی اسمبلی راحیلہ خادم حسین نے کہاکہ ملک سے دقیانوسی سیاست ختم کرنے کیلیے بلدیاتی نظام کو مضبوط کرنا ہوگا، یہاں سے نئی قیادت ابھرے گی جو اسمبلیوں اور سینیٹ تک جائے گی۔ عام آدمی کے مسائل حل کرنا ہماری اولین ترجیح ہے۔
یہ بلدیاتی نظام سے ممکن ہے۔ جو بھی حکومت آئے اسے بلدیاتی نظام یقینی بناناچاہئے، رہنما پیپلز پارٹی فائزہ ملک نے کہاکہ مقامی حکومتیں جمہوریت کا اہم ستون ہیں، اس کے بغیر ترقی کا سفر نامکمل ہے، سندھ میں مقامی حکومتوں کا نظام موجود ہے، پنجاب میں اس حوالے سے ہمیشہ مسئلہ رہا ہے، عام انتخابات میں خواتین کیلیے ٹکٹ کا 2 فیصد کوٹہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ کونسی خاتون کروڑوں روپے خرچ کرکے الیکشن لڑ سکتی ہے؟ نمائندہ سول سوسائٹی پروفیسر ارشد مرزا نے کہا کہ آئین کے مطابق مقامی حکومتوں کو سیاسی، انتظامی اور مالی خودمختاری دینا لازمی ہے، 18 ویں ترمیم کے بعد وفاق سے صوبوں کو اختیارات منتقل ہوگئے مگر صوبوں سے اضلاع اور اضلاع سے نچلی سطح تک اختیارا ت کی منتقلی نہیں ہو سکی۔ سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں مقامی حکومتوں کی صرف بات نہ کریں بلکہ ٹھوس اور مکمل لائحہ عمل دیں۔
دانشور سلمان عابد نے کہا کہ عام آدمی کے مسائل حل نہیں ہو رہے، اس کی بڑی وجہ مقامی حکومتوں کا نہ ہونا ہے، افسوس ہے کہ لوکل گورنمنٹ ہماری ترجیحات میں شامل نہیں، اراکین اسمبلی اختیارات نچلی سطح پر منتقل نہیں کرنا چاہتے۔ بلدیاتی حکومتوں کو آئین کے مطابق خود مختار بنایا جائے، تمام صوبوں میں یکساں نظام لایا جائے، بلدیاتی نظام کا تسلسل یقینی بنایا جائے۔
سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی منشور میں صرف بلدیاتی نظام کا ذکر نہ کریں بلکہ مضبوط بلدیاتی نظام یقینی بنائیں، اس میں خواتین، نوجوان، اقلیتوں سمیت تمام طبقات کی نمائندگی یقینی بنائی جائے۔ ان خیالات کا اظہار سیاسی رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے ''جمہوری استحکام اور لوکل باڈیز کا کردار'' کے موضوع پر منعقدہ ''ایکسپریس فورم'' میں کیا۔
فورم کی معاونت کے فرائض احسن کامرے نے سرانجام دیئے۔ رکن منشور کمیٹی مسلم لیگ (ن) و سابق رکن صوبائی اسمبلی راحیلہ خادم حسین نے کہاکہ ملک سے دقیانوسی سیاست ختم کرنے کیلیے بلدیاتی نظام کو مضبوط کرنا ہوگا، یہاں سے نئی قیادت ابھرے گی جو اسمبلیوں اور سینیٹ تک جائے گی۔ عام آدمی کے مسائل حل کرنا ہماری اولین ترجیح ہے۔
یہ بلدیاتی نظام سے ممکن ہے۔ جو بھی حکومت آئے اسے بلدیاتی نظام یقینی بناناچاہئے، رہنما پیپلز پارٹی فائزہ ملک نے کہاکہ مقامی حکومتیں جمہوریت کا اہم ستون ہیں، اس کے بغیر ترقی کا سفر نامکمل ہے، سندھ میں مقامی حکومتوں کا نظام موجود ہے، پنجاب میں اس حوالے سے ہمیشہ مسئلہ رہا ہے، عام انتخابات میں خواتین کیلیے ٹکٹ کا 2 فیصد کوٹہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ کونسی خاتون کروڑوں روپے خرچ کرکے الیکشن لڑ سکتی ہے؟ نمائندہ سول سوسائٹی پروفیسر ارشد مرزا نے کہا کہ آئین کے مطابق مقامی حکومتوں کو سیاسی، انتظامی اور مالی خودمختاری دینا لازمی ہے، 18 ویں ترمیم کے بعد وفاق سے صوبوں کو اختیارات منتقل ہوگئے مگر صوبوں سے اضلاع اور اضلاع سے نچلی سطح تک اختیارا ت کی منتقلی نہیں ہو سکی۔ سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں مقامی حکومتوں کی صرف بات نہ کریں بلکہ ٹھوس اور مکمل لائحہ عمل دیں۔
دانشور سلمان عابد نے کہا کہ عام آدمی کے مسائل حل نہیں ہو رہے، اس کی بڑی وجہ مقامی حکومتوں کا نہ ہونا ہے، افسوس ہے کہ لوکل گورنمنٹ ہماری ترجیحات میں شامل نہیں، اراکین اسمبلی اختیارات نچلی سطح پر منتقل نہیں کرنا چاہتے۔ بلدیاتی حکومتوں کو آئین کے مطابق خود مختار بنایا جائے، تمام صوبوں میں یکساں نظام لایا جائے، بلدیاتی نظام کا تسلسل یقینی بنایا جائے۔