اسلام کا پیغام محبّت ہے
’’آسانی پیدا کرو، مُشکل میں نہ پھنساؤ، خوش خبری دو اور متنفّر نہ کرو۔‘‘ (بخاری)
اﷲ تعالیٰ نے دین اسلام کی جملہ تعلیمات میں رحمت، محبت، شفقت، نرمی، لطف و کرم اور عفو درگزر کو بنیادی اہمیت دی ہے۔ دین اسلام کی جملہ تعلیمات بالواسطہ یا بلاواسطہ محبت ہی کے تصور پر قائم ہیں۔
اس لیے کہ ان جملہ تعلیمات میں موجود شفقت، الفت، بخشش، لطف و کرم اور درگزرکے عنوانات جذبہ محبت ہی کی وجہ سے تشکیل پاتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب اسلام شریعت محمدی ﷺ کی شکل میں اور امر و نواہی پر مبنی احکام و قوانین دیتا ہے تو یہ شرعی احکام و قوانین بھی انسان کی فکری کم زوریوں کے پیش نظر اسے آسانی اور سہولت دیتے نظر آتا ہے، انسان کو یہ سہولت و آسانی فراہم کرنا دین اسلام کا طرۂ امتیاز اور نوع انسانی سے محبت کا مظہر ہے۔
دین اسلام کے دین محبت ہونے کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوسکتی ہے کہ قرآنی تعلیمات کے ساتھ حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرت، قول و عمل اور تعلیم و تربیت کا سارا خلاصہ ہی بنی نوع انسان اور ساری مخلوق سے محبت و شفقت ہے۔
اﷲ رب العزت نے سورۃ البروج میں اپنا ذکر کرتے ہوئے دو صفات بیان فرمائیں:
''ھوالغفور الودود'' مفہوم: ''وہ بڑا بخشنے والا۔ بہت محبت فرمانے والا ہے۔'' گویا تقضائے دین یہ ہے کہ ہم اﷲ تعالیٰ کے اخلاق جمیلہ میں رنگ جائیں، کیوں کہ یہی کمال بندگی و مسلمانی ہے کہ ہم اﷲ کے اخلاق حسنہ میں رنگے جائیں۔
اﷲ تعالیٰ نے غفور کے ساتھ اپنی دوسری صفت الودود بھی بیان فرمائی۔ اﷲ تعالیٰ کا اپنے دو اسماء کو جوڑنا حکمت کے تحت ہوتا ہے، ان کے اندر معنوی ربط ہوتا ہے۔ سوال پیدا یہ ہوتا ہے کہ وہ کیسے اور کیوں معاف کرتا ہے، اگلے اسم کے ذریعہ اس کا جواب دیا کہ وہ ''ودود'' (محبت کرنے والا) ہے اور جو محبت کرنے والا ہو تا ہے وہ معاف کردیتا ہے۔
اﷲتعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کے بندے بھی اس کی طرح عفو درگزر اور تمام انسانوں (دوست ہو یا دشمن) کے لیے لطف و کرم کا پیکر اتم بن جائیں۔ اگر وہ لوگوں کی لغزش اور خطاؤں کو معاف نہیں کرسکتے تو اﷲ سے یہ توقع کس طرح کرسکتے ہوکہ وہ ان کی لغزشوں اور خطاؤں کو معاف کردے گا۔ اگر اﷲتعالیٰ سے لطف و کرم چاہتے ہوتو تمہیں بھی پیکر لطف و کرم بننا ہوگا۔
دین اسلام میں محبت کو بنیادی اور کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم: ''اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ (ہر ایک سے بڑھ کر) اﷲ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں۔'' (البقرہ )
اس آیت کریمہ میں اﷲ تعالیٰ نے محبت کو ایمان والوں کی پہنچان قراردیا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا ﷺ نے فرمایا، مفہوم:
''بے شک! دین آسان (اور نرم) ہے اور جو کوئی اسے مشکل (اور سخت ) بنائے گا تو یہ اسی پر غالب آجائے گا۔'' (بخاری)
ایک اور روایت میں حضور نبی اکرم ﷺ نے تعلیم اُمت کے لیے سید ہ عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا، مفہوم:
''اے عائشہ! اﷲ تعالیٰ نرمی کرنے والا ہے اور نرمی کو پسند کرتا ہے، وہ نرمی پر اتنا عطا فرماتا ہے کہ جتنا سختی پر نہیں۔'' (ابن ماجہ)
ہم اسلامی تعلیمات کو کسی بھی جہت اور پہلو سے دیکھیں تو ہمیں ایسا لگتا ہے کہ عفو و درگزر، رحمت و شفقت ہی سارا اسلام ہے۔ بلاشبہ! اتنی شفقت اور اتنی رحمت ہمیں دین اسلام کے سوا دنیا کے کسی مذہب، کسی فلسفۂ حیات اور کسی نظام میں نظر نہیں آتی۔ افسوس! ہم نے اسلام کا مطالعہ چھوڑ دیا، اسلام کو سمجھنا چھوڑ دیا، نتیجتاً ہم اسلام کی معرفت سے دور ہوگئے۔
محبت وہ جذبہ ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں دعا کے لیے ہاتھ بلند کرتے تو دعا میں اس سے اس کی محبت کا سوال کرتے ناصرف یہ بل کہ اﷲ تعالیٰ کے محبوب بندوں سے محبت کا بھی سوال کرتے۔ حضور ﷺ کی دعا بھی محبت کے حصول اور طلب کے لیے ہوتی ہے ، حضرت عبد اﷲ بن یزید خطمی انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ اپنی دعا میں یہ کلمات کہا کرتے تھے، مفہوم:
''یااﷲ! تُو مجھے اپنی محبت عطا فرما جس کی محبت تیرے نزدیک میرے لیے نفع بخش ہو۔ یااﷲ! میری پسندیدہ چیزوں میں سے جو چیز تُو مجھ سے روک لے تو اس سے میری توجہ ہٹا کر اپنی محبوب چیزوں کی رغبت و محبت کو ہی میرے لیے (ظاہر و باطن کی) ٹھنڈک بنا۔'' (ترمذی)
محبت کے لیے دعا کرنا صرف آقا ﷺ کا معمول مبارک نہ تھا بل کہ انبیا ئے کرامؑ بھی اسی محبت کا سوال اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں کرتے نظر آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام صرف نرمی اور آسانی کا دین ہے اور نرمی آسانی کے راستوں کا انتخاب محبت ہی کی وجہ سے ممکن ہے۔
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا ﷺ نے فرمایا، مفہوم:
''آسانی پیدا کرو، مشکل میں نہ پھنساؤ، خوش خبری دو اور متنفّر نہ کرو۔'' (بخاری)
یعنی لوگوں کو دین کی دعوت دو تو تبلیغ سے لے کر دین کے نفاذ تک ہر مرحلے پر لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرو اور شدت اور سختی نہ کرو۔ آقا کریم ﷺ کا یہ پیغام تمام صحابہ کرامؓ سے لے کر قیامت تک کے لیے تمام انسانیت کے لیے ہے۔
انسانوں کے لیے آپ ﷺ کی محبت و شفقت اور رحمت و آسانی کا عالم تو یہ ہے کہ آپ ﷺ کے دشمن آپ ﷺ کو پتھر مارتے ہیں۔ آپ ﷺ سے جنگ کرتے اور تلواریں برساتے ہیں۔ جسد اقدس کو لہولہان کردیتے ہیں۔ آپ ﷺ کو وطن سے نکال دیتے ہیں، آپ ﷺ کے خلاف سازشیں کرنے والے ہیں مگر اس کے باوجود آپ ﷺ پھر بھی ان کی بھلائی کے لیے فکر مند اور غم زدہ رہتے۔
یہی وجہ ہے کہ آقا کریم ﷺ نے پوری حیات طیبہ میں کسی کو جبراً مسلمان بنانے کے لیے تلوار نہیں اُٹھائی اور نا ہی صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے اس مقصد کے لیے تلوار اُٹھائی۔ عہد نبویؐ میں ہونے والے غزوات اور سرایا کے ذمہ دار کفار و مشرکین خود تھے اور دیگر اعدائے اسلام خود تھے جو مسلمانوں پر ازخود حملہ آور ہوتے انہیں زد و کوب کرتے اور اذیت ناک سزائیں دیتے۔ مختصر یہ کہ محبت، امن اور علم ان تینوں چیزوں کو ان کی روح کے ساتھ جمع کر دیں تو اس کا نام اسلام ہے۔
حضرت ابو درداء رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت سلمہ بن مخلد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی طرف لکھا:
''جب بندہ اﷲ تعالیٰ کی اطاعت بجا لاتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے، اور جب اﷲ تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے، تو ایسے اپنی مخلوق کے ہاں بھی محبوب بنا دیتا ہے اور جب بندہ اﷲ کی نافرمانی کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اسے ناپسند کرتا ہے اور جب اسے ناپسند کرتا ہے تو اسے مخلوق کے ہاں بھی ناپسندیدہ بنا دیتا ہے۔