کشتِ ویراں

اقبال ایک قادرالکلام شاعر ہونے کے علاوہ بھی عظیم افکار و خیالات کے حامل تھے

اقبال ایک قادرالکلام شاعر ہونے کے علاوہ بھی عظیم افکار و خیالات کے حامل تھے۔ (فوٹو: فائل)

ہمارا المیہ ہے کہ ہم اعلیٰ و ارفع دماغوں، ہستیوں اور شخصیات کو ان کے جانے کے بعد قومی سطح پررسماً اور رواجاً پوجتے ضرور ہیں لیکن ان کے افکار پر عمل کرنے کی ذرہ برابر بھی کوشش نہیں کرتے۔ کل 9 نومبر 20023 کو علامہ محمد اقبالؒ کی پیدائش کو 146 برس بیت گیے۔ پہلے کئی دفعہ کی طرح خوش قسمت قوم نے ایک اور قومی و عوامی چھٹی منالی۔ چند ایک رسمی و علامتی پروگرام بھی منعقد کیے گئے اور اس کے ساتھ ہی اگلی چھٹی کا انتظار بھی شروع کردیا ہے۔


اہل علم کے ہاں اقبال کے اشعار کی زمانۂ غلامی کی طرح آج بھی متعلقہ رہنے کی وجہ ان کا کرافٹ تو ہے ہی لیکن اس میں ہماری مجموعی سوچ اور بے عملی نے بھی پورا حصہ لیا ہے۔ ایک صدی قبل بھی شمشیر اور تدبیر کے کام آنے کا فقدان تھا، ذوق یقیں تب تھا اور نہ ہی آج موجود ہے۔ ایک صدی قبل بھی ابراہیم کا ایماں پیدا کرنے کی گفتگو جاری تھی، آج اس سے کہیں زیادہ ذوق و شوق سے جاری ہے۔ گردوں عالم بشریت کی زد میں رہا ہے، مگر سو سال قبل بھی کوئی بشر تھا نہ آج دکھائی دیتا ہے کہ گردوں اس کی زد میں ہو۔ خودی کی بلندی اور خودی کے نعرے لگانے والے گفتار کے غازی تب بھی بہت تھے آج بھی ہر محفل میں خودساختہ فلسفی اور نکتہ دان وافر مقدار میں دکھائی اور سنائی دیتے ہیں، لیکن پستی، خرابیٔ اخلاق و کردار، دھوکا دہی اور جرائم میں روز افزوں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔


اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ اشرف المخلوقات میں چیدہ و چنیدہ ممکنہ طور پر اشرف بھی ہوسکتے ہیں لیکن زمانۂ موجود میں اکثریت صرف اچھے ہونے کی اداکاری کی ماہر ہے۔ صرف اپنے فائدے کو دیکھتے ہوئے جہاں اشرف دکھنے سے فائدہ ہو، اشرف دکھائی اور سنائی دیتی ہے اور جہاں ارزل ہونے سے فائدہ ہو، ارزل بننے میں عار محسوس نہیں کی جاتی کہ اب اشرف المخلوقات کی اداکاری کرکے اپنا نقصان تو نہیں کرنا ناں!


آدم کو جو تاج اس کے خالق نے پہنایا تھا اسے کتنی آسانی سے اتار پھینکتا ہے۔ اپنے تصرف میں موجود بادل، گھٹاؤں، کوہ، سمندر اور ہواؤں کی حکمرانی چھوڑ دیتا ہے، خون جگر کہ جس میں اس کی جنت پنہاں ہے، سے بالکل ناواقف و ناآشنا ہوجاتا ہے، اس کی وجہ خالق کی وجودیت سے عملی انکار کے علاوہ اور کیا ہوسکتی ہے؟



ہزاروں سال بعد مختلف ادوار اور شریعتوں کا سفر کرکے شاہکار بننے والی اولاد آدم کےلیے زندگی کے لطیف پہلو کی قطعاً کوئی حیثیت نہیں، اس کےلیے ادب، عقیدت، محبت، مودت، تعلق، مروت، لحاظ اور خندہ پیشانی صرف اپنا کام نکالنے کا ذریعہ ہیں۔ اس کی آنکھوں پر مادیت کی ایسی پٹی بندھی ہے کہ تمام ٹریننگز، ورک شاپس، سیمینارز اور تقاریب صرف اس نظریے پر منعقد ہوتے ہیں کہ یا تو کاروبار کو قائم کیا جاسکے اور یا پھر وسعت دی جاسکے، ایسے لوگ تیار کیے جاسکیں یا ایسے لوگوں کی مدد کی جاسکے جو لوگوں کی جیبوں سے پیسہ اس کمال سے نکالیں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ دیکھا جائے تو کمال یہ ہے کہ ساری خرابیوں کو ایسے انداز سے بنایا اور پھر اپنایا گیا کہ لوگ فخر سے بتائیں کہ پھانسنے کا کس کو کتنا کمال حاصل ہے۔ اور کہیں بھی کسی بھی قسم کی، کسی بھی مکتبۂ فکر کی کوئی بھی ٹریننگ ہو، کوئی بھی پروگرام ہو، کوئی بھی خطاب ہو، اقبال کے اشعار کو تڑکے، لطف زبان اور زیب داستان کےلیے استعمال ضرور کیا جاتا ہے، یعنی حضرت انسان جتنا ممکنہ طور پر اشرف ہوسکتا ہے اتنا ہی ارزل بھی ہے کہ اپنے مفاد کےلیے کسی بھی طرح کی اداکاری کرنے سے باز نہیں آتا۔


عوام میں سے بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ 'علم الاقتصاد'، پی ایچ ڈی تھیسس Development of Metaphysics in Persia اور لیکچرز Reconstruction of Religious Thought in Islam بھی اقبال کی تصانیف ہی ہیں۔ کتنوں نے جاننے کی کوشش کی کہ کونج کی کرلاہٹ کے علاوہ بھی کوئی قابل ذہن بہت کچھ کہنے اور سمجھانے کی کوشش کرتا رہا کہ جس کا ذکر تک محو ہوگیا۔ بچے تو بچے، بڑے بھی نہیں جانتے کہ اقبال ایک قادرالکلام شاعر ہونے کے علاوہ بھی عظیم افکار و خیالات کے حامل تھے اور نہ صرف مسلمانان برصغیر کے بارے میں متفکر اور ٖغمگین تھے بلکہ پوری امت مسلمہ کا درد دل میں لیے ہوئے تھے۔ آج بدقسمتی سے گراوٹ یہاں تک آ پہنچی ہے کہ نجی محافل میں اقبال کا ذکر کریں تو طنزیہ مسکراہٹ دکھائی دیتی ہے، اس کے بعد بھی اگر باز نہ آئیں تو طنزیہ سوالات بھی سنائی دیں گے۔ اگر حوالہ پوچھیں تو جواب ملتا ہے ہم نے خود نہیں پڑھا اقبال کو، کہیں سے سنا ہے فقط۔ یعنی بغیر پڑھے، بغیر جانے، بغیر سوچے اور سمجھے صرف سنی سنائی پر ہی داعیٔ حریت و فکر و نظریات غیر اہم قرار پا جاتا ہے۔


اس بے اعتنائی کی ممکنہ وجہ یہ نہیں کہ اقبال سے بغض ہے، بلکہ ہماری مجموعی تہذیبی، فکری اور تمدنی ساخت ایسی بن چکی ہے کہ مسلمان ہونے کے باوجود دنیا ہو یا آخرت، دونوں حوالوں سے غیر سنجیدہ ہیں۔ اقبال سمیت تمام عالی دماغ سنجیدگی، بالغ ذہنی، اتحاد، اور قوم کو قوم بننے کا درس دیتے ہوئے دنیا سے چلے گئے لیکن قوم اپنی مجموعی حالت کو درست کرنے کی کیا، خرابی کو ماننے کو بھی تیار نہیں۔


آج ہمیں ضرورت ہے کہ اپنے گریبانوں میں جھانک کر پھر سے سوئے حرم روانہ ہوں، گفتار سے نکل کر کردار کی طرف آئیں، مرکب کے بجائے راکب بننے کی آرزو و جستجو کریں، خودی کو جاننے اور پہچاننے کی سعی کریں تاکہ اس کی بلندی کا سفر شروع کرسکیں اور کشتِ ویراں میں موجود زرخیزی سے فائدہ اٹھا کر چمن کو ہرا بھرا کرسکیں۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story