فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی

فلسطینیوں کی چار نسلیں خانماں بربادی گزار چکی ہیں، کیا وہ یونہی در بدر خانماں برباد گھومتے رہیں گے؟

فلسطینیوں کی چار نسلیں خانماں بربادی گزار چکی ہیں، کیا وہ یونہی در بدر خانماں برباد گھومتے رہیں گے؟ (فوٹو: فائل)

اسرائیل نے فلسطینیوں کو شمالی غزہ سے انخلاء کی اجازت دینے کے لیے روزانہ چار گھنٹے کی جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے، اسرائیل نے کم از کم مزید تین اسپتالوں پر یا ان کے قریب فضائی حملے کیے، جس سے فلسطین کے صحت کے کمزور نظام کو مزید دباؤ میں لایا گیا۔

اسرائیلی فوج غزہ میں زمینی لڑائی کے علاوہ فضائی حملے بھی کرتی رہی ہے جس کے نتیجے میں 7اکتوبر سے اب تک 10 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔

غزہ میں جاری فلسطینیوں کی نسل کْشی پر عالمی طاقتیں لب سیے ہوئے ہیں، جب کہ دوسری جانب مسلم ملکوں کی حمایت فی الحال زبانی جمع خرچ اور مالی امداد تک ہی محدود ہے۔ فلسطینی شہریوں کی ہلاکت کی مذمت نہ کرنے پر مغربی رہنما دوغلے معیار کا شکار ہیں۔

مغربی دنیا کی خاموشی سے لگتا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے حملوں میں برابر کے شریک ہیں۔ کوئی اسرائیل کا ہاتھ پکڑنے والا نہیں ہے، جب کہ وہ کھلے عام عالمی قوانین کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔

انسانی خدمت اور مدد کے بین الاقوامی ادارے ریڈ کراس نے غزہ میں بچوں کی ہزاروں کی تعداد میں ہلاکتوں کی پروا نہ کرنے کو اخلاقی دیوالیہ پن اور اخلاقی ناکامی قرار دیتے ہوئے غزہ میں شہریوں پر بمباری کے طویل اور خوفناک سلسلے کو اب ختم کر دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

اسرائیل نے غزہ کی پٹی کا کلی طور پر محاصر ہ کرلیا ہے۔ غزہ کے شمالی علاقوں سے دس لاکھ فلسطینیوں کو غزہ خالی کرنے کا کہہ دیا گیا ہے۔ ہزاروں فلسطینی گھر بار چھوڑ کر مصر کی جانب روانہ ہوچکے ہیں۔ ہزاروں عمارتیں زمین بوس، بجلی، پانی اور گیس کا سلسلہ منقطع ہوچکا ہے۔

1967 کی جنگ کے بعد بھی فلسطینیوں کو وطن سے محرومی کا صدمہ اٹھانا پڑا، مگر اب تو حد پار ہوگئی ہے کہ فلسطین اور غزہ میں انسانی نسل کشی ڈھٹائی سے جاری ہے۔

آج اقوامِ متحدہ اور جنرل اسمبلی کی آنکھوں اور ضمیر پر طاقت کی چربی چڑھی ہے کہ انھیں ظلم دکھائی ہی نہیں دے رہا۔ اقوامِ متحدہ نے پہلی مرتبہ دسمبر 1948 کے ایک سرد دن یہ قرارداد منظورکی تھی کہ فلسطینی اپنے گھروں کو واپس جا کر اپنی زمینوں پر آباد ہو سکتے ہیں، لیکن اس پر عملدرآمد نہ ہوا، بلکہ ایک بار پھر انھیں جبری نقل مکانی پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کا آغاز خلافت عثمانیہ کے اختتام سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ اس سے قبل فلسطین کے صرف چار فیصد حصہ پر یہودی آباد تھے جو انھوں نے مقامی لوگوں سے خریدا تھا، مگر جب انھوں نے وسیع پیمانے پر یہودی آباد کاری کے لیے خلیفہ سلطان عبد الحمید ثانی کو ڈیڑھ ملین پاؤنڈ کی پیشکش کی تو اس نے فوراً اسے ٹھکرا دیا۔

سقوط خلافت کے بعد فلسطین پر برطانیہ کی طرف سے جب پہلا یہودی کمشنر ہربرٹ سیموئل مقررکیا گیا تو یہودیوں کے لیے اب قبضہ کرنا بہت آسان ہو گیا تھا۔ انھوں نے تعلیم اور زراعت کے شعبوں کو یہود کے حوالے کردیا تاکہ فلسطین کے نوجوانوں کے علمی مستقبل کے ساتھ ساتھ ان کے مالی مستقبل پر بھی قدغن لگائی جا سکے۔

یہودیوں کے لیے جہاں قرضوں اور مختلف الاؤنسز کا اجراء کیا گیا، وہیں دوسری جانب فلسطینیوں پر بھاری ٹیکسز عائد کردیے گئے، پھر انھی ٹیکسز کی مد میں ان کی زمینوں پر قبضہ کیا جانے لگا۔ چند ہی سالوں میں سب سے بڑی انسانی حقوق کی پامالی یہ کی گئی کہ فلسطین کے اطراف سے آٹھ ہزار کاشت کاروں سے پچاس ہزار ایکڑ زمین ہڑپ کر لی گئی، انھیں انھی کی زمینوں سے بے دخل کر دیا گیا، مسلح جتھے فلسطین کا رخ کرنے لگے۔

مقامی یہودیوں کو اسلحہ تقسیم کیا جانے لگا اور فلسطینیوں کو اسلحہ رکھنے کے جرم میں سزائے موت کے فیصلے سنائے گئے حتیٰ کہ زراعت کے اوزاروں کو اسلحہ کے مشابہ قرار دے کر ان کی زمینیں ضبط کی جاتیں اور سزائیں دی جاتیں۔

اتنی بدمعاشیوں کے باوجود 1947 تک یہودی صرف چھ اعشاریہ پانچ فیصد رقبہ پر قابض ہوئے تھے، مگر جب پہلی بار اقوام متحدہ میں مسئلہ فلسطین زیر بحث آیا تو اس مسئلہ کے حل کے لیے تقسیم کا فارمولا پیش کیا گیا، جس کے تحت چھ فیصد پر ناجائز قابض کو فلسطین کا پچپن فیصد حصہ دے کر دوسری بار تاریخ کی سب سے بڑی انسانی حقوق کی پامالی کی گئی۔

یہودیوں کو فلسطین کے صرف چھ فیصد حصہ پر قبضہ کرنے کے لیے کئی سال انسان اور انسانی حقوق کا قتل عام کرنا پڑا، جانی و مالی نقصان دینا پڑا، سازشیں کرنا پڑیں، مگر اقوام متحدہ (جس کے قیام کا مقصد ہی آنے والی نسلوں کو جنگ کی لعنت سے بچانا، بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرنا، آزاد فضا اور اجتماعی ترقی کو فروغ دینا تھا) نے کیا ہی کمال مہارت دکھائی اور ایک قطرہ خون بہائے بغیر ہی یہودیوں کے لیے آدھی ریاست کا فیصلہ سنا دیا۔


صرف یہی نہیں بلکہ اسی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اپنی قرار داد نمبر 242، 672، 2334 میں اسرائیلی قبضے کو ناجائز قرار دیا ہے۔

اسی جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 37 / 43 میں اسرائیلی قبضے کو ناجائز قرار دے کر فلسطینیوں کی مزاحمت کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ اس میں واضح لکھا گیا ہے کہ فلسطینیوں کو ہر دستیاب ذریعہ حتیٰ کہ ہتھیار استعمال کرتے ہوئے مزاحمت کا اختیار حاصل ہے۔ گویا دوستی دشمنی ساتھ ساتھ نبھا رہا ہے۔

ایسے موقع پر کہ جب حماس نے اپنے جائز اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے قابض اور غاصب فوج پر حملہ کیا تو امریکا اور اس کے ہمنواؤں کو شدید غصہ آیا اور بحری بیڑوں سمیت اسرائیل کی حمایت پر نکل پڑا۔ امریکا اسلحہ سمیت نکل کر بھی امن پسند ہے اور مسلمانوں کے فلسطینیوں کے حق میں بیان کو بھی دہشت گردی سی جوڑا جا رہا ہے۔

یوکرین اپنے دفاع کی جنگ لڑے تو حق بجانب ہے، فلسطینی اپنا سارا ملک کھو کر بھی اگر اس پر مزاحمت کریں تو دہشت گرد کہلاتا ہے۔ اسرائیل 1980 کی دہائی کے وسط تک ایک غیر علانیہ ایٹمی طاقت بن گیا اور امریکا کی پشت پناہی سے اس نے دنیا کی سب سے مضبوط دفاعی قوتوں میں سے ایک تشکیل دی۔

ایسی تمام نا انصافیاں اور پامالیاں برداشت کرنے کے بعد بھی اگر فلسطینی مسلمان ڈٹے ہوئے ہیں تو وہ صرف اور صرف قبلہ اول بیت المقدس کی محبت میں ہے۔

بیت المقدس کے اطراف کی مارکیٹ میں ایسی دکانیں موجود ہیں، جہاں بیچنے کو بھی کچھ سامان نہیں، انھیں بھی جب ملین ڈالر کی پیشکش کی جاتی ہے تو فاقوں کے باوجود دولت کو ٹھکرا دیتے ہیں۔ بیت المقدس کے اطراف میں ایسے بوسیدہ اور کھنڈرات کا منظر پیش کرتے گھر موجود ہیں جہاں کئی کئی دن فاقے رہتے ہیں۔

1983 میں مصر اور شام کے ہاتھوں بری طرح پٹنے کے بعد ہی انھوں نے مصالحتی رخ اختیار کر کے پہلے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کیا، پھر اوسلو معاہدہ کیا تھا۔

فلسطینیوں کی چار نسلیں خانماں بربادی گزار چکی ہیں، کیا وہ یونہی در بدر خانماں برباد گھومتے رہیں گے؟ کیا ان کی مزاحمت کمزور ہوکر ختم ہو جائے گی؟ حالات تو تاریک ہی دکھائی دے رہے ہیں لیکن اگر عالمی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو مزاحمت کی کامیابی کی امیدیں بڑھ جاتی ہیں۔ قربانیاں بھلے ہی کتنی بڑی ہوں اور وقت چاہے جتنا لگ جائے، فلسطینیوں کی کوئی نہ کوئی نسل اپنا حق حاصل کر کے ہی رہے گی۔

قیامِ پاکستان کے بعد بانی پاکستان نے امریکی صدر کے نام ایک خط میں اسرائیل کے قیام کو اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیا اور امریکی صدر سے اپیل کی کہ وہ فلسطین کی تقسیم کو روکیں۔ بعد ازاں آل انڈیا مسلم لیگ کے آخری اجلاس منعقدہ 14 اور 15 دسمبر 1947 میں فلسطین کی تقسیم کو مسترد کیا گیا۔

امریکا نے فلسطینیوں کے بجائے مسلسل اسرائیل کا ساتھ دیا ہے اور فلسطینیوں پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ اپنے بنیادی حق خود ارادیت سے دستبردار ہو جائیں، انھوں نے یہ کام بہت سے مختلف طریقوں سے کیا ہے، خاص طور پر فلسطینیوں کو ایک 'Statelet' کی پیشکش کر کے جس کا اپنی سرحدوں، پانی، دفاع یا آبادی پر کوئی حقیقی کنٹرول نہیں ہے۔

فلسطینیوں کو کبھی بھی ایک قابل عمل، متصل، مکمل خود مختار ریاست کی پیشکش نہیں کی گئی، دوسری جانب اسرائیلی کبھی فلسطینی پناہ گزینوں کی اسرائیل واپسی کے حق کو قبول نہیں کریں گے، کیونکہ ایسا کرنے سے اسرائیل کی نوعیت بنیادی طور پر یہودی اقلیتی ریاست میں بدل جائے گی۔

ایک دو ریاستی حل کو عام طور پر واحد طویل مدتی قابل عمل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، لیکن اس میں بہت سی رکاوٹیں ہیں۔ اسرائیل نے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، 1980 میں مشرقی یروشلم کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔

اس اقدام کے ساتھ، امریکا نے واضح طور پر نیتن یاہو کے موقف کا ساتھ دیا ہے اور مشرقی یروشلم میں اس کا دارالحکومت رکھنے والی فلسطینی ریاست کی کسی بھی امید کو ختم کر دیا ہے، لیکن یروشلم اور اس کی حیثیت واحد رکاوٹ نہیں ہے، عملی طور پر حماس کے علاوہ تمام اسٹیک ہولڈرز دو ریاستی حل کے لیے پر عزم ہیں۔

اسرائیل ایک ریاست ہے اور ریاست کا ہاتھ افراد نہیں، بلکہ ریاست روک سکتی ہے، اس لیے اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کو اپنی ذمے داری کا احساس کرنا چاہیے۔
Load Next Story