ڈالر ریٹس مالی دباؤ اور آئی ایم ایف

ہم آئی ایم ایف سے نئی قسط71 کروڑ ڈالرز کا مطالبہ کر رہے ہیں اور نئی نئی شرائط کیا ہیں



2007 تک معاشی ترقی کی شرح میں قابل قدر اضافہ ہو رہا تھا اور ڈالرکی قدر میں بھی استحکام تھا اور روپے کی قدر بھی مضبوط تھی، لیکن پاکستان کے معاشی مسائل موجود تھے۔ ماہرین اقتصادیات پاکستان کے معاشی مسائل کے حل کو مختلف طریقوں سے دیکھ رہے تھے۔

2008 میں نئی قائم ہونے والی حکومت ان مسائل کے حل کے لیے فرینڈز آف پاکستان کلب کے ذریعے امداد کی خواہاں تھی، بلکہ فرینڈز آف پاکستان کا ایک اجلاس دسمبر 2008 میں اور وزارتی اجلاس فروری 2009 میں منعقد ہوا۔

چین نے فرینڈز آف پاکستان کے اجلاس سے قبل پاکستان کو 50 کروڑ ڈالرز کے قرضے دینے کا اعلان کر کے یہ باورکرا دیا کہ وہ پاکستان کی عملی مدد کرنے پر آمادہ ہے لیکن ان تمام باتوں کا بالآخر نتیجہ یہ نکلا کہ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک نے پاکستان کو آئی ایم ایف کے قرضوں میں دھکیل کر معاشی ترقی کی شرح کو کم کرنے کی کوشش کی اور اس کے بعد اب تک 15 سال گزر گئے ہم 2007 کی معاشی ترقی کی شرح دوبارہ حاصل نہ کر سکے جوکہ بعض جائزوں کے مطابق 8 فی صد تک تھی۔

پھرکیا ہوا کبھی 3 فی صد کبھی ساڑھے تین فی صد کبھی ڈیڑھ فی صد اس طرح 2008 میں پاکستان کو قرضہ کی منظوری سے قبل شرح سود میں دو فی صد کا اضافہ کر کے اسٹاک مارکیٹ کو ایک بڑا جھٹکا پہنچا دیا تھا۔ پاکستان کے لیے بالکل ایسے ہی ماحول میں جیساکہ اس سال کے اوائل سے ماحول بن گیا تھا۔ زرمبادلہ کے ذخائر گھٹنا شروع ہوگئے تھے۔

ڈالر ریٹس میں اضافہ شروع ہوگیا تھا کہاں ڈالر 2007 میں 58 روپے کا تھا بڑھتے بڑھتے 73 روپے فی ڈالر کے ریٹ پہنچ چکے تھے۔ برآمدات میں کمی کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایک بات عجیب ہونے لگی کہ ایک وقت برآمدات یا اس کے قریب تجارتی خسارہ ہوتا رہا جسے پچھلے مالی سال سے کنٹرول کرلیا گیا ہے۔

بجلی گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور پھر اس کے کیا اثرات ہوئے؟ ملک میں دہشت گردی کی لہر بڑھنے لگی۔ پھر وزیرستان پر قبضہ ہونے لگا۔ سوات میں قبضہ ہونے لگا بالآخر پاک فوج نے اپنی بہترین حکمت عملی اور دلیری کے ساتھ ان مسائل کو حل کیا۔

حالیہ مہینوں میں پھر پاک فوج کے تعاون سے ڈالرز، خوراک اور پٹرول کی اسمگلنگ کو روکنے کی کامیاب کوشش کی گئی جس کے نتیجے میں ڈالر جوکہ 335 روپے تک جا پہنچا تھا۔ اس کی قدر کم ہو کر 275 روپے تک جا پہنچی تھی، لیکن چند ہفتوں سے اس کی قیمت میں پھر اضافے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں لیکن ایک اہم وجہ سامنے آئی ہے جو کہ تجارت خارجہ کے اعداد و شمار کو مدنظر رکھ کر ہی واضح کیا جاسکتا ہے۔

پی بی ایس کی شایع کردہ ماہانہ بیرونی تجارت کی رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2023 یعنی گزشتہ ماہ یکم اکتوبر سے 31 اکتوبر 2023 تک کی برآمدات کا حجم 2 ارب 70 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کی رہیں جب کہ گزشتہ سال اکتوبر میں یہ حجم 2 ارب 47 کروڑ60 لاکھ ڈالرز کے باعث 3.12 فی صد اضافہ ہے، لیکن اصل مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ آئی ایم ایف کی آمد کے باعث درآمدی سرگرمیوں میں اضافہ بھی دکھانا مقصود تھا۔

لہٰذا درآمدات کو پہلے جس طرح پابند کیا جا رہا تھا اس میں نرمی ہوئی اور درآمدات کا حجم بڑھ کر 4 ارب 80 کروڑ 60 لاکھ ڈالرز تک جا پہنچا جب کہ گزشتہ مالی سال اکتوبر کی درآمدات کی مالیت 3 ارب 99 کروڑ 40 لاکھ ڈالرز تک تھیں اس طرح 23.48 فی صد اضافہ ہوا اور تجارتی خسارہ بھی بڑھ گیا۔ اب صرف ایک ماہ میں ڈالر کی طلب میں خاصا اضافہ ہوگیا۔

ملک میں تو پہلے ہی ڈالرز کی قلت ہے، لہٰذا طلب بڑھنے سے ڈالرکی قدر بڑھ گئی اور روپے کی قدر اسی لحاظ سے گھٹتی بھی چلی گئی، لیکن یہ اگر دو تین سال قبل کی بات ہوتی تو اسٹیٹ بینک اس مسئلے کو حل کر لیتا جیساکہ پہلے بھی ایسی صورت حال میں اسٹیٹ بینک اپنا کردار ادا کرتا تھا اور مارکیٹ میں 30 یا 40 کروڑ ڈالر لے آتا تھا جس سے روپے کی قدر کو بھی سہارا مل جاتا اور امپورٹرز کو بھی مہنگے داموں ڈالرز کی خریداری سے بچنے کا موقع مل جاتا، لیکن اس مرتبہ مالیت کے لحاظ سے صرف اس ایک شعبے کی حد تک کتنا دباؤ پڑا ہوگا۔ ہم اعداد و شمار کی روشنی میں دیکھ لیتے ہیں۔

واضح رہے کہ ڈالرز کے ریٹس بڑھنے کا یہ صرف ایک سبب ہے۔ اس کے علاوہ بھی دیگر کئی اسباب ہیں۔ لہٰذا درآمدات اکتوبر کی رہیں 4 ارب 80 کروڑ 60 لاکھ ڈالرزکی اور اکتوبر 2022 کی 3 ارب 99 کروڑ40 لاکھ ڈالرزکی۔ درآمدات میں کل اضافہ ہوا ایک ارب ایک کروڑ20 لاکھ ڈالرز کا۔ اب درآمدات کی مد میں اضافی بوجھ والی طلب کو نکالنا ہے۔

صرف گزشتہ ماہ میں صرف تجارت خارجہ کے شعبے کے تحت 78 کروڑ 10 لاکھ ڈالرز کا مالی دباؤ آیا ہے۔ کسی معیشت کے لیے یہ کوئی بڑا دباؤ نہیں ہے، اگر اسٹیٹ بینک پر آئی ایم ایف کی پابندیاں نہ ہوتیں تو آج ڈالر کو بڑھنے کا موقع نہ ملتا۔

اب آپ یہ بھی دیکھ لیں کہ ہم آئی ایم ایف سے نئی قسط71 کروڑ ڈالرز کا مطالبہ کر رہے ہیں اور نئی نئی شرائط کیا ہیں، لہٰذا اب آنے والی حکومت کو آئی ایم ایف پروگرام سے نکلنے کے لیے واضح روڈ میپ دے کر اس پر عملدرآمد کرانے کی ضرورت ہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں