ماضی کے پاکستانی غیر مسلم فنکار

ہماری فلمی صنعت میں تمام غیر مسلم فنکاروں نے محنت اور محبت، لگن سے اپنا مقام بنایا اور اس ملک کی خدمت کی


م ش خ November 12, 2023
[email protected]

پاکستانی فلمی صنعت میں بہ حیثیت پاکستانی کے کئی فنکار ایسے بھی گزرے جو غیر مسلم تھے، ان کا تعلق کرسچن، پارسی اور ہندو گھرانوں سے تھا مگر انھوں نے اپنے شعبوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔

گلوکار سلیم رضا کا تعلق کرسچن خاندان سے تھا، جن کی پہلی فلم '' نوکر'' تھی مگر ان کی وجہ شہرت 1955 میں ریلیز ہونے والی فلم '' نورالاسلام '' تھی، جس کی اس نعت نے بہت مقبولیت حاصل کی جس کے بول تھے۔

شاہ مدینہ، شاہ مدینہ، یثرب کے والی

سارے نبی تیرے درکے سوالی

یہ نعت اب بھی بہت مقبول ہے، جتنی1955 میں تھی ان کی سپر ہٹ فلموں میں عشق لیلیٰ، وعدہ، حسرت، حمیدہ، لخت جگر، آس پاس اور کوئل شامل ہیں۔ ان کی آخری فلم نجمہ تھی جو 1970 میں ریلیز ہوئی ان کا انتقال 1983 میں ہوا۔

اپنے دور کی معروف گلوکارہ آئرین پروین کا تعلق عیسائی فیملی سے تھا، ان کی پہلی فلم 1953 میں ممتاز ریلیز ہوئی تھی، ان کی سپر ہٹ فلموں میں عادل، بغاوت، خاندان، خاموش رہو، غدار، حاتم طائی جب کہ ان کی آخری فلم '' عظیم قوم کی عظیم بیٹی'' 1981 میں ریلیز ہوئی تھی۔ ماضی کے موسیقار آنجہانی دیبو بھٹی چاریہ ان کا تعلق ہندو مذہب سے تھا۔

1957 میں ان کی پہلی فلم ''مسکہ پالش'' تھی ان کا تعلق کراچی سے تھا۔ اس کے علاوہ دیگر سپرہٹ فلموں میں لاکھوں فسانے، بنجارن، شکوہ، تقدیر، آرزو اور بہار قابل ذکر تھیں۔ ان کی آخری فلم '' دل والے'' جو 1975 میں ریلیز ہوئی تھی۔ گلوکار ایس بی جون کا تعلق بھی کرسچن خاندان سے تھا۔ ان کی پہلی فلم 1958 میں سویرا ریلیز ہوئی۔ اس کا ایک گیت بہت مقبول ہوا (جو قارئین اپنی زندگی کی 70 بہاریں دیکھ چکے ہیں انھیں یہ گیت آج بھی یاد ہوگا '' تُو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے، یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے'' یہ فلم 1958 میں ریلیز ہوئی۔

موسیقار روبن گھوش کا تعلق ہندو گھرانے سے تھا، ان کی پہلی فلم ''چندا'' تھی، ان کی مقبول فلموں میں چکوری، تلاش، احساس، چاہت، آئینہ، امبر اور دوریاں تھیں۔ اداکار ندیم نے راقم کو بتایا تھا کہ میری بے شمار فلمیں روبن گھوش نے کیں بہت ملنسار اور محبت کرنے والے انسان تھے، ان کی بیوی اداکارہ شبنم تھیں جو اپنے وقت کی سپرہٹ ہیروئن تھیں جنھوں نے پاکستان کے تمام سپرہٹ ہیروز کے ساتھ مرکزی کردار ادا کیے۔

گلوکار اے نیرکا تعلق کرسچن برادری سے تھا۔ اے نیر نے بتایا تھا کہ ایک دفعہ انڈسٹری میں کچھ غلط فہمی کی بنا پر پنجابی فلموں کے ایک سپرہٹ ہیرو سے کچھ اختلافات ہوئے تو میرا کسی نے ساتھ نہیں دیا۔ اس موقع پر محمد علی نے میرا بہت ساتھ دیا اور یوں یہ معاملہ رفع دفع ہوا۔ علی بھیا بہت خوبصورت دل کے مالک تھے۔ گلوکار اے نیر کی مقبول فلموں میں اک گناہ اور سہی، کبھی الوداع، امبر اور سلاخیں قابل ذکر تھیں بلکہ فلم سلاخیں میں علی بھائی نے حسن عسکری سے کہہ کر مجھے اس فلم میں چانس دلوایا تھا۔

موسیقار ایس ٹی سنی کا تعلق صوبہ سرحد کے ہندو گھرانے سے تھا، ان کی پہلی فلم پشتو زبان کی '' باز و شہباز'' تھی، یہ پشتو فلموں کے مقبول موسیقار تھے۔ ان کی کامیاب فلموں میں کافرستان، شرافت، بدنام، انصاف اور داغ قابل ذکر تھیں۔ موسیقار موہن چندر بیلی رام کا تعلق صوبہ سرحد سے سے تھا۔ اداکار بدر منیر نے ایک ملاقات میں ہمیں بتایا تھا کہ میرا تعلق سرحد سے ہے اور میں پٹھان فیملی سے تعلق رکھتا ہوں مگر جو خوبصورت پشتو موہن چندر بیلی رام بولا کرتے تھے وہ اپنی مثال آپ تھی۔

پاکستان کے معروف ہدایت کار ریاض شاہد مرحوم کی بیوہ اور اداکار شان کی والدہ نیلو کا تعلق عیسائی گھرانے سے تھا، ان کی پہلی فلم انجام 1956 میں ریلیز ہوئی تھی، ہدایت کار ریاض شاہد سے شادی کر کے وہ مسلمان ہوگئی تھیں۔ اداکارہ نیلو کا پاکستان فلم انڈسٹری میں یہ اعزاز ہے کہ وہ پاکستان کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم '' زرقا '' کی ہیروئن تھیں۔ فلم زرقا کے ایک سین میں انھیں کئی مرتبہ تشدد کے حوالے سے پانی میں ڈبویا گیا، اس وقت وہ امید سے تھیں مگر انھوں نے فن کے ساتھ انصاف کیا۔

مرحومہ نیلو اداکار شان کی والدہ ہیں ان کی سپرہٹ فلموں میں کوئل، نیند، آنکھ کا نشہ، سات لاکھ اور پنجابی فلم ''خطرناک '' قابل ذکر ہیں، ان سے ہماری لاہور میں دو دفعہ ملاقات ہوئی بہت ہی مہذب اور نیک خاتون تھیں۔ گفتگو انتہائی تمیز سے کرتی تھیں، یہ ان کی خوبی تھی اداکارہ رقاصہ ایمی منیوالا کا تعلق پارسی مذہب سے تھا یہ ہدایت کار حسن طارق مرحوم سے شادی کرکے مسلمان ہوگئی تھیں ان کی پہلی فلم ''سوہنی'' تھی جو 1955 میں ریلیز ہوئی۔ ان کی قابل ذکر فلموں میں باجی، اولاد شامل تھیں۔

اداکارہ رانی مرحومہ سے شادی کے بعد حسن طارق نے ان سے تعلق ختم کرلیا تھا نہ ہونے کے برابر تھا جب حسن طارق شدید بیماری میں مبتلا ہوئے تو اس موقع پر ایک مشرقی اور نیک خاتون کے ناتے انھوں نے حسن طارق کی دن رات خدمت جب کہ بیماری سے قبل حسن طارق رانی کو طلاق دے چکے تھے جب کہ حسن طارق نے انھیں طلاق نہیں دی تھی مگر ناتا توڑ لیا تھا اس کے باوجود ایمی منیوالا نے حسن طارق کی دن رات خدمت کرکے ثابت کیا کہ وہ واقعی نیک سیرت خاتون تھیں۔ ایمی منیوالا کا بعد اسلام اسلامی نامی تہذیب رکھا گیا تھا۔

ایمی منیوالا نے مفتی اختیار حسن کے ہاتھوں اسلام قبول کیا تھا۔ اداکار نومی کا تعلق بھی پارسی مذہب سے تھا یہ اداکارہ ایمی منیوالا کے چھوٹے بھائی تھے، ان کی پہلی فلم '' بنجارن'' جو 1962 میں ریلیز ہوئی تھی۔ سدھیر کے بہت گہرے دوستوں میں شمار ہوتے تھے، اداکار سدھیر نے ہمیں بتایا تھا کہ'' میں نے اتنا شریف اور نیک آدمی شو بزنس میں نہیں دیکھا۔'' ان کی مقبول فلموں میں اناڑی، داغ، ہم دونوں اور تلاش قابل ذکر ہیں جب کہ ان کی پہلی فلم ''سنگم'' تھی جو 1964 میں ریلیز ہوئی تعلیم یافتہ انسان تھے۔ 1964 میں 19 گریڈ کے آفیسر بھی رہے۔

ماضی کی سپرہٹ ہیروئن اداکارہ روزینہ کا تعلق عیسائی گھرانے سے تھا اپنے وقت کے معروف ساؤنڈ ریکارڈسٹ قریشی سے شادی کی اور شادی سے قبل اسلام قبول کیا۔ ان کی پہلی فلم ''چوری چھپے'' 1965 میں ریلیز ہوئی تھی۔ انڈسٹری میں بہت ہنس مکھ جولی اور تہذیب دار مانی جاتی تھیں۔

لاہور میں ہماری ایک ملاقات ہوئی واقعی بہت سلجھی ہوئی خاتون کے طور پر دیکھا یہ 15 سال پرانی بات ہے، روزینہ نے پوچھا کہ ''آپ کس اخبار میں لکھتے ہیں'' میں نے انھیں بتایا کہ ''روزنامہ ایکسپریس'' بہت خوش ہوئیں اور کہا کہ ''میرے گھر روزنامہ ایکسپریس آتا ہے، میں تو بہت فین ہوں، اس اخبار کی۔''

انھوں نے اس موقع پر ہماری بہت خاطر تواضع بھی کی ہم نے ان سے تفصیلی بات کر کے ایک آرٹیکل بھی تحریرکیا تھا۔ روزینہ کی کامیاب فلموں میں ارمان، جوش، سمندر، چوری چھپے 1965 میں ریلیز ہوئی تھی، دوران انٹرویو انھوں نے پاکستان کے اس وقت کے تین سپراسٹار ہیروز کے بارے میں بتایا تھا کہ '' محمد علی جنھیں سب علی بھائی (سب کے بھائی) تھے اداکاری تو ان پر ختم تھی وہ اداکاری کی درسگاہ تھے، اداکار وحید مراد تو گیت فلمانے میں ان کا ثانی انڈوپاک میں نہیں تھا کمال کے اداکار تھے۔

ندیم بہت سنجیدہ طبیعت کے مالک تھے، مغرور نہیں تھے بس بات کم کرتے تھے مگر کامیڈی ہیرو کے طور پر انھوں نے بہت نام کمایا، باقی اردو فلموں میں تو یہی قابل ذکر نام تھے۔ اداکار شاہد تو بہت بعد میں آئے تھے مگر وہ بھی اچھے اداکار تھے۔

اداکارہ سنتوش رسل کا تعلق بھی عیسائی گھرانے سے تھا ان کی پہلی فلم ''جہاں تم وہاں ہم'' 1967 میں ریلیز ہوئی تھی، زیادہ تر ندیم کی فلموں میں نظر آتی تھیں اور فلموں میں ماں کا کردار ادا کرتیں۔ ان کی کامیاب فلموں میں ناراض، آس، آبرو، پہچان قابل ذکر تھیں۔ نیر سلطانہ، زینت بیگم، بہار، سنتوش رسل یہ فلم انڈسٹری کی مستقل مائیں تھیں، ان کی فلم انڈسٹری میں طویل خدمات رہی ہیں۔

ہماری فلمی صنعت میں تمام غیر مسلم فنکاروں نے محنت اور محبت، لگن سے اپنا مقام بنایا اور اس ملک کی خدمت کی۔ صرف اداکارہ شبنم ایسی اداکارہ تھی جس کو اس وطن کے لوگوں نے بہت عزت دی مگر افسوس کہ وہ بوجوہ بنگلہ دیش چلی گئی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں