غزہ میں بے گور وکفن لاشے
مولانا حالی نے مسلمانوں کے زوال کا نقشہ بے حد درد مندی اور دکھ کے ساتھ اس طرح کھینچا ہے کہ الفاظ بھی اشکبار ہوگئے ہیں
جس وقت میں اپنا کالم، اپنے ہی لہو سے لکھنے بیٹھی ہوں، رات کے گیارہ بج رہے ہیں اور یہ شب جمعہ 27 اکتوبر 2023 ہے۔
ٹی وی پر خبر چل رہی ہے کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں غزہ پر ہنگامی اجلاس اور دوسری خبر یہ ہے کہ غزہ میں قیامت صغرا کا منظر ہزاروں فلسطینی آج تک تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں، ہزاروں افراد کے لیے غذا ختم ہوچکی ہے، ضروریات زندگی سے محروم فلسطینی اندھیر ے میں سانسیں لینے پر مجبور ہیں، موم بتیاں بھی نہیںکہ تھوڑی سی روشنی ہوجائے، اپنے ہی خون میں نہائے ہوئے فلسطینیوںکو ایمان کی طاقت نے جھکنے نہیں دیا ہے۔
اس ہی وقت ایک درد ناک اور انسانیت سوز منظر دیکھنے کو ملتا ہے کہ سفاک اسرائیلیوں نے آہ و بکا کرتے اور اپنے بچوں کی لاشوں کو اپنے سینے سے لگائے اپنی آغوش میں لیے زاروقطار روتی ہوئی خواتین کے کارٹون بنا کر مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ چوتھی خبر وہ فلسطینی صحافی جو حادثے کے دوسرے روز ہی حقائق کا پردہ چاک کرنے کے لیے آگیا تاکہ دنیا اسرائیلیوں کا جبرو قہر دیکھ سکے،کل ہی تو اس کی بیوی، بیٹی اور پوتی بمباری میں شہید ہوئی تھیں۔
غزہ میں اس وقت تک دس ہزار فلسطینی اور ان کے چار ہزار بچے شہید ہوچکے ہیں، جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے تعداد بڑھتی جارہی ہے، ہر طرف لاشیں ہی لاشیں ہیں اور زخمیوں کی سسکیاں اور آہیں سنائی دے رہی ہیں۔ اسرائیلیوں نے اسپتالوں اور مساجد پر بھی بے دریغ بمباری کی ہے، غزہ کا دنیا سے رابطہ کٹ چکا ہے۔
پانچویں خبر یہ ہے کہ امت مسلمہ نے، ہائے اور افسوس کے سوا کچھ کہہ سکی اور نہ کرسکی۔ دنیا کے مسلمان اس ہی طرح خوش باش اپنے ضروری کام معمول کے مطابق انجام دے رہے ہیں۔
57 اسلامی ملک ہیں افسوس صد افسوس، سب خاموش ہیں، اپنے بھائیوں کو اپنے ازلی دشمن سے بچاسکے اور نہ ہی کوشش کررہے ہیں جب کہ ان پر جہاد فرض ہوچکا ہے، وہ ہمیں بالکل اس ہی طرح پکار رہے ہیں جس طرح برما، بوسینیا، کشمیر، عراق اور شام کے لوگ اپنے مسلمان بھائیوں کو آواز لگا رہے تھے، آجائو، مسلمان بھائیو، ہماری مدد کرو، دشمن ہمارے گھروں کو آگ لگا رہا ہے، ہمیں اور ہمارے بچوں کو شہید کررہا ہے، گولیاں برسا رہا ہے، وہ جنھیں قرآن پاک کے مطابق ایک دوسرے کا بھائی بھائی بنادیا گیا تھا، وہ اپنے دینی فرائض سے غافل ہیں، جب کہ امریکا، بھارت اور دوسرے ممالک کے سربراہ اظہار یکجہتی کے لیے اسرائیل پہنچ کر انھیں مزید جنگ جاری رکھنے کی صلح دے رہے ہیں اور ہر طرح سے امداد فراہم کر رہے ہیں لیکن مسلمانوں کی غیرت ایمانی سوچکی ہے، یہ اس وقت بیدار ہوگی جب آگ ان کے گھروں تک پہنچ جائے گی اور تیسری عالمی جنگ کا نقارہ بجنے لگے گا۔
نہتے فلسطینی اسرائیل کی بربریت اور ظلم اس وقت سے برداشت کررہے ہیں، جب اسرائیلی بے خانماں اور بے گھر تھے یہ لوگ در بدر مارے مارے پھررہے تھے، اپنے تاریک اور عبرتناک ماضی کو ساتھ لے کر۔
ان کی اس حالتِ زار کو دیکھتے ہوئے برطانیہ اور امریکا نے انھیں فلسطین میں بسایا تھا لیکن اپنی فطرت کے مطابق وہ اپنے محسنوں کے گھروں پر قابض اور انھیں مسمارکرنے لگے اور آئے دن فلسطینی بچوں، نوجوانوں اور خواتین کو بیدردی سے قتل اور اغوا کرتے رہے ہیں، معصوم بچوں کوگیندکی طرح اچھالتے اور ان کی اذیت کے مزے لیتے اور پھر بوٹوں تلے مسل دیتے ہیں۔
بی بی سی کے غزہ میں نامزد نامہ نگار رُشدی ابوالوف کے بیان کے مطابق کہ یہ 25برسوں کے صحافتی کیریئرکی شدید ترین بمباری ہے، مزید کہا کہ انھوں نے ایک ایسی عمارت دیکھی جہاں بیس خاندان موجود تھے، یہ عمارت ساری رات دھماکوں سے ڈگمگاتی رہی، بچے خوف سے چیخنے چلانے لگتے، غزہ میں دوسری عمارتوں کے ساتھ اسلامک یونیورسٹی آف غزہ کی عمارت پر مسلسل بمباری ہوتی رہی، اسرائیل کا کہنا تھا کہ اس میں ٹریننگ کیمپ قائم تھا اور اسلحہ بھی بنایا جاتا رہا ہے، غزہ کا آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے زیادہ گنجان آباد علاقوں میں شمار ہوتا ہے، اس پتلی سی ساحلی پٹی پر 23 لاکھ لوگ آباد ہیں یہ 25 میل لمبی اور 10میل چوڑی ہے۔
سرزمین فلسطین متبرک اور مقدس ہے اسے بلند اور پاکیزہ مرتبہ حاصل ہے کہ یہ پیغمبروں کی زمین ہے اور یہ ہی وہ زمین ہے جہاں سے رسول پاک ﷺ معراج پر تشریف لے گئے اور اس ہی مقام پر آپﷺ کی واپسی ہوئی، اللہ تعالیٰ نے فلسطین کو خیر و برکت والی زمین قرار دیا ہے، سرزمین فلسطین کو قرآن کریم نے پانچ مواقعوں پر بابرکت زمین سے مخاطب کیا ہے۔ ''سورۃ الاسراء '' میں فرمایا گیا ہے کہ '' پاک ہے وہ ذات جو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصٰی تک لے گئی، جس کے اردگرد ہم نے برکتیں نازل کی ہیں تاکہ ہم انھیں کچھ نشانیاں دکھائیں۔''
بیشک پوری دنیا دیکھ رہی ہے، 28 اکتوبر کی شایع شدہ خبرکے مطابق غزہ پر بڑا زمینی حملہ اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے وائٹ فاسفورس کا استعمال شروع کر دیا گیا ہے، اسرائیل کا پہلا زمینی حملہ حماس نے ناکام بنا دیا ہے، حماس کے رہنما علی براکہ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج لاشوں اور زخمیوں کو ہیلی کاپٹر میں لے کر فرار ہوگئی اور صیہونیوں کو بھاری مالی اور جانی نقصان ہوا ہے، تنظیم برائے آزادی فلسطین ( پی ایل او) کے سیکریٹری جنرل حسین الشیخ نے عالمی برادری سے مددکی اپیل کی ہے۔
یکم نومبر کی ساتویں خبرکے مطابق حماس نے اسرائیلی جوہری تنصیبات پر راکٹ سے حملہ کیا، اسرائیل مسلسل بمبار ی کر کے شہادتوں میں اضافہ کررہا ہے، اس نے غزہ میں القدس اسپتال کو خالی کرنے کی دھمکی دی لیکن چند ہی گھنٹوں بعد اسپتال کی آس پاس کی عمارتوں پر بمباری کر کے انھیں کھنڈرات میں بدل دیا، اس کے باوجود فلسطینی قوت ایمانی کی بدولت بھرپور مقابلہ کررہے ہیں، وہ اپنے مرتبے سے بھرپور واقف ہیں اور اسرائیلیوں کا انجام بھی سامنے ہے۔
اب جب کہ ہزاروں فلسطینی شہید ہیں اور زخمیوں سے اسپتال بھرگئے ہیں تب مسلم ممالک کے کچھ افراد جاگے ہیں، ریلیاں بھی نکالی جارہی ہیں، اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے خلاف استنبول میں ہونے والے مظاہرے میں لاکھوں افراد نے شرکت کی، اسلام آباد میں جماعت اسلامی نے فلسطین سے اظہار یکجہتی کے لیے ''غزہ مارچ'' کا اہتمام کیا، اس مارچ میں ہزاروں افراد شامل ہوئے، مسلمانوں کا زوال، تباہی و بربادی، ذلت اور رسوائی ہمارے اعمال کا ثمر ہے، مسجدیں خالی اور مغرب کی آزادی کو اپنا کر تعیشات زندگی کو نصب العین بنا لیا ہے، پھر مسلمانوں کوکفارکے ہاتھوں برباد تو ہونا ہی تھا۔
اسلامی ممالک جہاد کرنے کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کر رہے ہیں تو کم ازکم مساجد میں ہی دعائیں کروانے کے احکامات صادرکریں، ویسے تو منتظمین مساجد اپنے طور پر بھی یہ نیک کام کرسکتے ہیں۔ مولانا حالی نے مسلمانوں کے زوال کا نقشہ بے حد درد مندی اور دکھ کے ساتھ اس طرح کھینچا ہے کہ الفاظ بھی اشکبار ہوگئے ہیں۔
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آکے عجب وقت پڑا ہے
جس دین کی حجت سے سب ادیان تھے مغلوب
اب معترض اس دین پہ ہر ہرزہ درا ہے
فریاد ہے اے کشتی امت کے نگہباں
بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے
گو قوم میں تیری نہیں اب کوئی بڑائی
پر نام تری قوم کا یاں اب بھی بڑا ہے