معیشت میں بہتری کے اشارے

صرف ریاستی اور انتظامی میکنزم کو چور دروازوں سے پاک کرنے کی ضرورت ہے

صرف ریاستی اور انتظامی میکنزم کو چور دروازوں سے پاک کرنے کی ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل

حکومت کے سخت مالیاتی ڈسپلن اور انتظامات کے نتیجے میں معیشت کی مجموعی صورت حال کسی حد تک تسلی بخش قرار دی جا سکتی ہے۔

سرحدوں کی نگرانی کا نظام سخت ہونے کی وجہ سے اسمگلنگ پر بھی کسی حد تک قابو پانے کی کوشش کامیاب ہوئی ہے۔ ان اقدامات کی وجہ سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اتار چڑھاؤ بھی مثبت دائرے میں رہا ہے۔

میڈیا کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ روپے کی قدر میںاستحکام آنے سے پاکستان کے مجموعی قرضوں کی مالیت میں ایک ماہ کے دوران 1675ارب روپے کی نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے جو نگران حکومت کی معاشی حکمت عملی بالخصوص ڈالر کی اسمگلنگ اور بلیک مارکیٹنگ کی روک تھام کے لیے انتظامی اقدامات کا نتیجہ ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے مجموعی قرضوں سہ ماہی اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگست 2023کے مقابلے میں ستمبر 2023کے دوران حکومت کے مجموعی قرضوں میں 1675ارب روپے کی نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ ایک ماہ کے عرصہ میں روپے کی قدر میں استحکام سے مجموعی قرضوں کی مالیت میں 2.6فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق اگست میں قرضوں کا تخمینہ ڈالر کی قیمت 305.62روپے پر لگایاگیا جب کہ ستمبر میں ڈالر کی اوسط قیمت 287.78روپے رہی جس سے مجموعی قرضوں کی مالیت میں کمی واقع ہوئی۔ اگرچہ رواں مالی سال اگست کے مقابلے میں ستمبر کے اختتام تک قرضوں کے حجم میں نمایاں کمی کے باوجود پہلی سہ ماہی میں مجموعی قرضوں میں 1450ارب روپے کا اضافہ ہوا۔

حکومت پاکستان اگر اپنے غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کرے'سخت مالیاتی ڈسپلن پر عمل پیرا رہے 'بلیک منی کا حجم کم کرے' اسمگلنگ کی شرح صفر تک لائے تو ملکی معیشت میں خاصا استحکام آ سکتا ہے 'اس استحکام کے نتیجے میں ڈالر کے مقابلے میں روپیہ خاصا مستحکم ہو سکتا ہے' اگر حکومت ان اقدامات پر عمل کرے تو ڈالر کی قیمت 200روپے سے بھی نیچے لائی جا سکتی ہے۔

ملک میں معاشی سرگرمیاں بھی تیز ہوں گی' حکومت کا ریونیو بھی بڑھ جائے گا 'یوں پاکستان اپنے ذمے قرضوں کی ادائیگی کے قابل بھی ہو جائے گا۔

بہرحال میڈیا کی ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں مہنگائی کی شرح میں اضافے کا رجحان جاری ہے'ادارہ شماریات کے مطابق ہفتہ وارمہنگائی کی شرح میںمعمولی اضافہ ہواہے جب کہ سالانہ بنیاد پر مہنگائی کی شرح بھی29.86فیصد رہی ہے۔

ملک میں مہنگائی سے سب سے زیادہ متاثرتنخواہ دار طبقہ ہوتا ہے۔خاص طور پر وہ تنخواہ دار طبقہ جس کی ماہانہ آمدنی 25ہزار سے 30ہزار روپے تک ہے۔سبزیاں ہوں یادالیں اور آٹا گھی وغیرہ کے نرخوں میں اضافہ ہو تو سب سے زیادہ یہی طبقہ متاثر ہوتا ہے ۔ اس طبقے کی آمدنی کے حساب سے دیکھا جائے تو مہنگائی کی شرح بہت زیادہ ہے۔

درمیانے طبقے کے لیے بھی حالات ساز گار نہیں کیونکہ انھیں اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنا ہوتا ہے۔آمدنی محدود ہوتی ہے'اس لیے ان کا بجٹ بھی ڈسٹرب ہو جاتا ہے جب کہ امیر طبقے کے حوالے سے دیکھا جائے تو ان کے لیے مہنگائی کی شرح زیادہ نہیں ہے کیونکہ ان کی آمدنی بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے وہ مہنگی چیزیں بھی خرید سکتے ہیں اور ان کی قوت خرید میں فرق نہیں آتا۔


ادھرایک خبر کے مطابق آئی ایم ایف نے پاکستان سے درآمدات کی آڑ میں منی لانڈرنگ، مشکوک ٹرانزکشنزروکنے کے لیے سخت پالیسی بنانے کا مطالبہ کیا ہے، منی لانڈرنگ کے خاتمے کے لیے ایف بی آر کی استعداد بڑھانے اور انفورسمنٹ کو نظام سخت کرنے کے ساتھ ساتھ آیندہ بجٹ میں فنانس بل کے ذریعے مشکوک ٹرانزکشنز کے لیے سزائیں مزید سخت کرنے کی بھی تجاویز دی ہیں۔

خبر میں ذرایع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ایف بی آر،اسٹیٹ بینک اور آئی ایم ایف کے درمیان رواں مالی سال کے آیندہ آٹھ ماہ میں ٹیکس وصولی پلان، اینٹی منی لانڈرنگ اور مشکوک ٹرانزکشنز پر مذاکرات جاری ہیں جس میں ایف بی آر نے ہر سیکٹر سے سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس،کسٹمز اور ایکسائز کی مکمل تفصیلات فراہم کردی ہیں، ذرایع کا کہنا ہے کہ مقدمات میں پھنسے ٹیکس وصولی کے طریقہ کار پر بھی اتفاق ہونے کا امکان ہے جب کہ ایف بی آر نے جنوری سے ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے کا پلان بھی بنایا ہے۔

ذرایع کے مطابق ایف بی آر نے آئی ایم ایف کو رواں مالی سال کے ٹیکس ہدف حاصل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے جب کہ نگران حکومت نے پروگرام پر مکمل عملدرآمد کی یقین دہانی کروائی ہے، ایف بی آر ذرایع کے مطابق آئی ایم ایف نے درآمدات کی آڑ میں منی لانڈرنگ، مشکوک ٹرانزکشنز پر سخت پالیسی بنانے کا مطالبہ کیا ہے اور ٹیکس سے استثنیٰ شعبوں میں درآمدات کی آڑ میں منی لانڈرنگ کو روکنے کے لیے ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک کے اقدامات ناکافی قرار دیے ہیں۔

ذرایع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے دسمبر تک منی لانڈرنگ کو روکنے کے لیے ایف بی آر اورا سٹیٹ بینک کو اقدامات سخت کرنے کی ہدایت کی ہے، ذرایع کے مطابق آئی ایم ایف نے تجویز دی ہے کہ ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک ٹیکس کرائمزاور مشکوک ٹرانزکشنز کے لیے واضح پالیسی بنائے،مشکوک ٹرانزکشنز میں اگر منی لانڈرنگ کے عناصر ہیں تو قوانین پرسختی سے عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے، منی لانڈرنگ میں ملوث عناصرکی چین کو توڑا جائے اور ٹیکس چوری کو روکاجائے ۔

اگر غور سے دیکھا جائے تو حقائق تسلیم کیے جائیں گے آئی ایم ایف نے جو تجاویز دی ہیں' اصولی طور پر جتنا ممکن ہو سکے ہر ترقی پذیر اور غریب ملک کی حکومت کو ان پر عمل کرنا چاہیے۔ منی لانڈرنگ ایک غیرقانونی کام ہے' اس غیرقانونی کام کو روکنے کے لیے فول پروف قانون سازی وقت کی ضرورت ہے۔پاکستان کے مانیٹری سیکٹر کے چور دروازے بند کرکے ہی مالی وسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

نگران حکومت کے اقدامات سے جو نتیجے سامنے آئے ہیں اگر پاکستان مالیاتی اور وائٹ کالرز کرائمز پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائے تو ملکی معیشت کے اشاریے اور زیادہ بہتری کی جانب جائیں گے۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں جو تیزی آئی ہے اور ملکی تاریخ میں پہلی بار انڈیکس کی 55ہزار کی نئی بلند ترین سطح بھی عبور کرگئی ہے،انھی اقدامات کا نتیجہ ہے۔معاشی اشاریوں میں بہتری سے ڈالر کی اڑان محدود ہوگئی ہے، ایک روپیہ اور اس سے زائد کا یومیہ اضافہ چند پیسوں تک محدود ہونے لگا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ مثبت معاشی اشاریوں سے نومبر کے اختتام تک کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ہونے کے امکانات ہیں جب کہ چین سے 600ملین ڈالر، آئی ایم ایف سے 700ملین ڈالر کی قسط کے اجرا اور جاری آئی ایم ایف ریویو ختم ہونے کے بعد ملک میں فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ آنے کی توقعات ہیں.

ایکس چینج کمپنیوں کے نمایندوں کا کہنا ہے کہ افغانستان جانے والے پناہ گزینوں کی روپے کے بجائے ڈالر ہمراہ لیجانے اور گرے مارکیٹ متحرک ہونے سے ملحقہ سرحدی شہروں میں ڈالر کی مبینہ سٹے بازی شروع ہونے جیسے عوامل ڈالر کی پیش قدمی کا باعث بن رہے ہیں۔

حکومت پاکستان کو پاک افغان سرحد اور ایران کے ساتھ سرحد پر زیادہ سے زیادہ فول پروف انتظامات کرنے کی ضرورت ہے' غیرقانونی افراد کی آمدورفت روکنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاناچاہیے۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کو سخت قوانین کے تحت ریگولرائزکرنے کی ضرورت ہے۔ تجارت کرنے کا حق سب کو ہے لیکن غیرقانونی تجارت کرنے کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے اور دنیا کا کوئی بھی قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اس لیے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کو قوانین کے تحت جاری رہنا چاہیے' ان قوانین میں اگر کہیں ابہام یا کمی ہے تو اسے دور کیا جانا چاہیے۔

وطن واپس جانے والے افغان مہاجرین کو پاکستان سے ڈالر' پاؤنڈ' یورو' ریال اور درہم وغیرہ کے بجائے پاکستانی کرنسی دی جائے یا سرحد پر انھیں افغانستان کی کرنسی میں تبدیل کیا جائے۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ اکتوبر کے مہینے میںپاکستان کی ترسیلات زر سات مہینے کی بلند ترین سطح پر پہنچگئی ہیں، جو کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے میں مددگار ہوں گی، اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر کے مہینے میں ترسیلات زر12 فیصد اضافے سے 2.5 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔

پاکستان اپنے معاشی مسائل پر با آسانی قابو پا سکتا ہے' بس صرف ریاستی اور انتظامی میکنزم کو چور دروازوں سے پاک کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے آئین 'مختلف سرکاری ڈیپارٹمنٹس کے قوانین و ضوابط 'اعلیٰ سرکاری افسروں کے اختیارات میں چیک اینڈ بیلنس میں بہت سی خرابیاں' ابہام اور چور دروازے موجود ہیں' انھیں ختم کر دیا جائے تو ملک کی معیشت کو بہتر کرنا کوئی مشکل نہیں ہے۔اسی طرح پاکستان کے عدالتی سٹرکچرل سسٹم 'رولز اینڈ ریگولیشن اور اختیارات کا میکنزم بھی درست کرنے کی ضرورت ہے۔
Load Next Story