تنویر ظہور کی یادوں کا لنگرآج بھی پیارے جاری ہے
ہم سب کے پیارے تنویر ظہورکی پہلی برسی دو، نومبرکو آئی اور چپکے سے گزرگئی کسی کو خبر تک نہ ہوئی
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی
کیفی اعظمیؔ کا یہ شعر ہمیں اس جہانِ فانی سے کوچ کر جانے والے ایسے لوگوں کی یاد دلاتا ہے جن کا نام سُن کر یا اُن کے کلام کو پڑھ کر جی چاہتا ہے کہ اُن کی یادوں اور باتوں کی مہک کو نہ صرف محسوس کیا جائے بلکہ اُن کی یادوں اور باتوں کو اپنے الفاظ کی صورت میں بیان کیا جائے، کیونکہ قیمتی لوگ زندگی کا سرمایہ ہُوا کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں میں شعر و ادب و صحافت کا ایک نایاب گوہر تنویر ظہور بھی شامل تھے، جنھوں نے اپنی ساری زندگی ادب اور صحافت کی ترویج کے لیے وقف کر رکھی تھی۔
ان کا شمار دنیائے شعروسخن اور صحافتی حلقوں کے ایسے صاف گو قلم کاروں میں ہوتا جن کا احترام دل و جان سے کرنے کو جی چاہتا۔ وہ پنجابی اور اُردو زبان کے بہت خوبصورت شاعر تھے، ان کے شاعرانہ مزاج میں رعنائی اور غنایت کی چاشنی پائی جاتی۔ وہ بے باک صحافی اور سب کے ہر دلعزیزکالم نگار تھے۔ انھوں نے قومی اخبارات سے اپنے صحافتی سفرکا آغاز کیا۔ وہ کئی برسوں سے ''یادیں'' کے عنوان سے اپنا کالم جاری رکھے ہوئے تھے۔
ان کے کالموں میں بہت سی شخصیات سے وابستہ یادیں اور باتیں پڑھنے کو ملتی۔ ان کے کالموں میں سیاسی رنگ بہت جب کہ خالص ادبی کالم پڑھنے کو ملتے۔ وہ شہرِ لاہور میں مقیم تقریبا 25 برس سے اپنی مادری زبان پنجابی اور قومی زبان اُردو کے فروغ کے لیے ایک ادبی جریدہ ''سانجھاں '' بھی شایع کرتے رہے۔
اپنے طویل ادبی ، صحافتی کیریئر میں بہت سی کتابیں بھی تخلیق کی جن میں '' دلچسپ ملاقاتیں ، '' وہ ہوئے ہم کلام،'' فیض اور پنجابی'' ، '' روح کی معراج'' ( سفر نامہ عمرہ) ،'' یادیں'' (فرزند اقبال جسٹس ریٹائرڈ ڈاکٹر جاوید اقبال کی یاد داشتیں)، '' معراج خالد (شخصیت اور یادیں)''، '' عزیز احمد مغل کی جیون یادیں'' (سماجی شخصیت) ، '' ڈاکٹر محمد انور چوہدری، طب اور عوامی خدمت کا روشن مینار (سرجن اور سماجی شخصیت) ،'' قائداعظمؒ سے بے نظیر بھٹو تک'' (جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال کی یادوں کے آئینے میں)،'' عہد ساز مصنف''، وقت سے مکالمہ، ''جرات کا پیکر (جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ کی یادیں)، جسے چاہا در پہ بلا لیا (سفرنامہ عمرہ)، نواز شریف۔ شخصیت اور کار نامے ، میرا بچپن، ''سچ کیا ہے؟ '' (جسٹس سید سجاد علی کی یاد داشتیں)، ''یہ لندن ہے پیارے''، '' منیر نیازی کی باتیں اور یادیں''اور یادیں ( کالموں کا مجموعہ) و دیگر تصانیف شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پنجابی زبان میں '' جیون پل صراط'' اور ''جیون لنگھیا پباں بھار'' پڑھنے کو ملتی ہیں۔
اُردو کا شعری مجموعہ ''آنکھ ،حُسن اور خوشبو'' مجھے ذاتی طور پر بہت پسند ہے جو غزلوں، نظموں اور ثلاثیوں پر مشتمل ہیں۔ ثلاثی اُردو ادب کی وہ صنف ہے جسے حمایت علی شاعر نے رواج دیا جس کے بعد بہت سے شعرا نے اسے اپنے اپنے انداز سے اپنایا۔ تنویر ظہور اپنی شاعری میں جتنا صاف شفاف نظر آتے ہیں، اُتنا ہی اندر سے دل کے صاف گو دکھائی دیتے ہیں۔ اس کتاب کا سرورق مشہور مصور ''ریاظ'' کا تخلیق کردہ ہے، وہ محبت کے ڈوبے ہوئے زمانوں میں کھوئے ہوئے دلوں کو سسی پنوں کی محبت کی داستان اپنے شعر میں یوں سناتے ہیں کہ:
جس کو ڈبوگیا ہے زمانے ترا فریب
اُبھرے گی ایک دن وہ محبت چناب سے
تنویرظہور ایک سچا اور پکا لاہوری آدمی تھے، وہ اپنے مخصوص نرم وگداز اندازِ بیان کی بدولت ہر عام و خاص میں بہت مقبول تھے۔ ان کے چہرے پر ہمیشہ ہلکی سی مسکراہٹ رہتی جو اندرکے تمام غموں کو عیاں رکھنے میں مدد گار ثابت ہوتی۔تنویر ظہور اپنی طبیعت ناساز ہوتے ہوئے بھی علامہ اقبال ٹائون سے مجھ خاکسار کو ملنے اور میرے نوائے ادب کا تازہ شمارہ وصول کرنے اُردو بازار تک موٹر سائیکل پر تشریف لے آتے۔
مجھے اکثر کہا کرتے برخودار '' ہم بوڑھے ہوگئے ہیں اب موٹر سائیکل پر اتنا سفر نہیں ہوتا، اوپر سے میرا بائی پاس ہُوا ہے، میرے حصے کا شمارہ اجمل نیازی کو دے دیا کرو۔'' جب بھی میرے نوائے ادب کا تازہ شمارہ آتا تو ظہور صاحب میری حوصلہ افزائی کے لیے نہ صرف مالی معاونت کرتے بلکہ اپنے حلقہ احباب سے بھی ملواتے۔ عالم خورشید کی منظرکشی۔
عشق میں تہذیب کے ہیں اور ہی کچھ فلسفے
تجھ سے ہوکر ہم خفا خود سے خفا رہنے لگے
تنویر ظہور کے اندر داتا صاحب کی محبت کا اثر ایک خاص تڑپ بن کر انھیں دھمال ڈالنے پر آمادہ کرتا ہے۔ شاہدہ لطیف انھیں صوفی تنویر ظہورکے نام سے مخاطب ہونے پر لکھتی ہیں کہ '' تنویر ظہور کی شاعری میں بیداری ہے، اُمید ہے، وطن سے محبت اور صوفیائے کرام کی معجزاتی یادیں ہیں۔ مواجہ شریف کے عنوان سے لکھی گئی نظم میں تنویر ظہورکے اندر چھپا صوفی سوچ کے حصار سے باہر جھاتیاں مارتا صاف دکھائی دیتا ہے۔ تنویر ظہورکا شعری مجموعہ صرف ان کا ہی نہیں، ہر قاری کی یادوں کا لنگر ہے۔''
ہم سب کے پیارے تنویر ظہورکی پہلی برسی دو، نومبرکو آئی اور چپکے سے گزرگئی کسی کو خبر تک نہ ہوئی۔ افسوس زندگی بھر جن چہروں کو وہ اپنے الفاظ کا حصہ بناتے رہے، آج وہی لوگ انھیں کس طرح بھول گئے اس شعر کے مصداق:
وہ شاید یہ سمجھ رہا ہے، بھول گیا تنویر اُسے
اس کی یادوں کا لنگر تو آج بھی پیارے جاری ہے