قبضہ مافیا کو کون لگام دے گا

وزیر موصوف کے ایسے بولڈ اقدامات سے اپنی زمینوں سے محروم مالکان کی بہت ہمت افزائی ہوئی ہے

usmandamohi@yahoo.com

کراچی شہر کی انتظامی حالت زار کا ذکر اکثر اخباروں اور ٹی وی وغیرہ پرکیا جاتا ہے۔ اکثر شہری خود بھی شکایت کرتے نظر آتے ہیں مگر کراچی کے انتظامی امور میں پھر بھی سدھارکی صورت نظر نہیں آ رہی ہے مسلسل بے قاعدگیاں اور من مانیاں جاری ہیں۔ پانی کی کمی اور بجلی گیس کی لوڈ شیڈنگ پہلے ہی گمبھیر مسئلے بنے ہوئے ہیں۔ چوریوں، ڈکیتیوں کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔ اسٹریٹ کرائمز میں کتنے ہی لوگوں کی جانیں جا چکی ہیں۔

ادھر یہ بھی غضب ہو رہا ہے کہ سرکاری اور نجی زمینوں پر قبضوں کا سلسلہ زور شور سے جاری ہے جس طرح کراچی میں چوروں، ڈاکوؤں کا راج سے بالکل اسی طرح کراچی میں لینڈ مافیا زمینوں کی لوٹ مار میں بے خوف مصروف ہے پھر اس کا کوئی تدارک ہماری صوبائی حکومت کے پاس موجود نہیں ہے وہ اس سلسلے میں برسوں سے مجبور اور لاچار ہے مگر عوام تو یہی سمجھ رہے ہیں کہ وہ اس سلسلے میں یوں ہی خاموش اور تماشائی نہیں بنی ہوئی ہے بلکہ اس میں ضرور کوئی ملی بھگت ہے۔

کیا سرکاری ادارے ،کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے لوگوں کو الاٹ کی گئی زمینوں پر کسی قبضہ مافیا کو قبضہ کرنے کا حق دے سکتے ہیں؟ آج سے تقریباً 45 سال قبل کراچی کی سپر ہائی وے کے دونوں اطراف گلزار ہجری اسکیم نمبر 33 کے نام سے کئی کو آپریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹیز کو زمینیں الاٹ کی گئی تھیں۔ ان سوسائٹیز نے اپنے ممبران کو اپنی پلاننگ کے مطابق پلاٹ الاٹ کر دیے تھے ساتھ ہی کے ڈی اے کے رولز کے تحت زمینوں سے مطلق قانونی کارروائی بھی مکمل کرلی تھی اور کے ڈی اے کے واجبات بھی ادا کر دیے تھے۔

ان سوسائٹیز کی زمینوں کی حفاظت کے لیے ان کی انتظامیہ نے چوکیدار بھی مقرر کر دیے تھے تاکہ کوئی قبضہ مافیا جو اس وقت بھی علاقے میں سرگرم تھی ان پر قابض نہ ہو سکے مگر ہوا یہ کہ چوکیداروں کے ہوتے ہوئے قبضہ مافیا نے زبردستی کئی سوسائٹیز کی زمینوں پر قبضہ کرلیا اور دیدہ دلیری سے وہاں تعمیرات کرلیں ساتھ ہی ایک مخصوص پارٹی کے جھنڈے لہرا دیے۔

اس وقت گلزار ہجری کی زمینوں پر ناجائز قبضوں کے خلاف سندھ ہائی کورٹ اور ملیر کورٹ میں مقدمات چل رہے ہیں۔ انھی میں ایک مشرقی کوآپریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹی بھی ہے۔ اس سوسائٹی کو 1973 میں کے ڈی اے اسکیم 33 کے سیکٹر 13-A میں پچاس ایکڑ زمین الاٹ کی تھی۔ اس زمین کے پلاٹوں کی لیز بھی ہو چکی ہے۔ بدقسمتی سے اس زمین پر قبضہ مافیا نے 1980 میں اپنے کارندوں کے ذریعہ قبضہ کرلیا تھا۔

اس ناجائز قبضے کو ختم کرانے کے لیے تب سے لے کر اب تک زمین کے اصل الاٹیز اپنی مالی مشکلات کے باوجود قانونی جدوجہد کر رہے ہیں اور اپنے پلاٹوں پر آباد ہونے کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ اب اس قبضے کو 43 برس سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے اس ناجائز قبضے کو ختم کرانے کے لیے مشرقی کوآپریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹی کی انتظامیہ کی جانب سے ملیر سیشن کورٹ میں 2003 سے مقدمہ چل رہا ہے گو کہ عدالت نے زمین کو خالی کرانے کے سلسلے میں حکومت سندھ کو واضح ہدایات دے رکھی ہیں مگر معاملہ ابھی تک التوا کا شکار ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اس قیمتی زمین کو جو اصفہانی روڈ سے کچھ ہی دور واقع ہے قبضہ مافیا اپنی ہوس کا شکار بنانا چاہتی ہے۔


اس زمین پر لینڈ مافیا کی جانب سے بٹھائے گئے انکروچرز اس جعلی اور غیر قانونی بسائے گئے سکندر گوٹھ کو اپنا مستقل رہائشی منصوبہ سمجھنے لگے ہیں جو ان نادانوں کی بھول ہے کیونکہ اس زمین کے اصل مالک اس کے الاٹیز ہیں۔ کراچی میں لینڈ مافیا کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کو دیکھتے ہوئے نومبر 2006 میں سندھ ہائی کورٹ نے ایک حکم نامہ جاری کیا تھا جس میں ایم ڈی ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ فوراً اسکیم 33 میں تمام غیر قانونی گوٹھوں کو خالی کرائے اور ان پر قابض مافیا کا قبضہ ختم کرا کے ان کے قانونی مالکان کو قبضہ دلائے۔

سندھ ہائی کورٹ نے مزید کہا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ زمینوں پر ناجائز قبضے ہو رہے ہوں اور ایم ڈی ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی خاموش رہے۔ یہ سراسر نااہلی کے ساتھ ساتھ بدعنوانی کا معاملہ ہے۔ شہر میں قبضہ مافیا جعلی سندیں حاصل کرکے گوٹھ بنا رہی ہے اور متعلقہ محکمہ خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ صد افسوس کہ ایم ڈی ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے اس فیصلے کو ہوا میں اڑا دیا تھا اور قابضین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔ جعلی گوٹھوں کو قبضہ مافیا کی جانب سے بلاخوف و خطر آباد کرنے کے سلسلے میں سابقہ سندھ حکومتیں بھی ملوث قرار دی جاسکتی ہیں۔

جعلی گوٹھوں کے قیام کے سلسلے میں پیپلز پارٹی اور سندھ کی قوم پرست جماعتیں بھی ہمت افزائی کی مرتکب قرار دی جاسکتی ہیں۔ جس وقت سندھ میں ارباب غلام رحیم وزیر اعلیٰ تھے انھوں نے سندھ ہائی کورٹ کے جعلی گوٹھوں کو ختم کرانے کا فیصلے پر تنقید کی تھی۔ انھوں نے عدالتی حکم کے خلاف بولتے ہوئے کہا تھا کہ'' اگر سندھ ہائی کورٹ کا یہی فیصلہ ہے تو پھر پہلے غیر قانونی تعمیر عمارتیں مسمار کی جائیں اس کے بعد ہی غیر قانونی گوٹھ ختم کیے جائیں'' اس طرح ان کے بیان سے لینڈ مافیا کی ہمت افزائی ہوئی تھی اور اس کے بعد اس نے اپنا غیر قانونی کام اور تیز کردیا تھا۔

یہ حقیقت ہے کہ اگر سندھ حکومت کے زمینوں سے متعلق محکمے نیک نیتی سے کام کریں اور عوام کی پریشانیوں کو مدنظر رکھیں تو شہر میں لینڈ مافیا کو ضرور غیر قانونی کارروائیوں سے روکا جاسکتا ہے پھر شہر میں جعلی گوٹھوں اور غیر قانونی بستیوں کے قابضین کی ہمت شکنی کے لیے کراچی میں بنیادی سہولیات فراہم کرنے والے ادارے جن میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، سوئی سدرن گیس کمپنی اور کے الیکٹرک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں اول تو انھیں غیر قانونی آبادیوں کو ہرگز اپنی سہولیات فراہم نہیں کرنی چاہئیں اور اگر وہاں کسی وجہ سے یہ غلطی کر چکے ہیں تو وہ وہاں فوراً اپنی سہولیات کی فراہمی روک دیں تو اس طرح امید ہے کہ یہ مسئلہ ضرور حل ہو سکتا ہے اور انصاف کا بول بالا ہوسکتا ہے۔

سابقہ سندھ حکومت کے مقابلے میں نگراں حکومت زمینوں پر سے ناجائز تجاوزات کو ختم کرانے کے سلسلے میں زیادہ متحرک دکھائی دے رہی ہے۔ نگراں وزیر ریونیو یونس ڈھاگہ کی اس سلسلے میں کوششیں درست سمت میں جاری ہیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ریونیو ڈپارٹمنٹ سے کرپشن ختم کرنے کے لیے وہ بھرپور کوششیں کر رہے ہیں اور اس ضمن میں ضرور عوام کو خوشخبری ملے گی۔

ریونیو ڈپارٹمنٹ سے ان کے مطابق کئی پرانے لوگوں کے تبادلے کیے گئے ہیں جو ان کے مطابق زمینوں کی ہیر پھیر میں ملوث تھے۔ وزیر موصوف کے ایسے بولڈ اقدامات سے اپنی زمینوں سے محروم مالکان کی بہت ہمت افزائی ہوئی ہے۔ قبضہ مافیا سے متاثرہ دیگر کوآپریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹیز کے الاٹیز بھی نگران وزیر موصوف سے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ان کے انقلابی اقدامات کی بدولت ان کی محرومی دور ہو جائے گی اور وہ اپنے پلاٹوں کو حاصل کرکے ان میں آباد ہونے کا دیرینہ خواب پورا کر سکیں گے۔
Load Next Story