صفائی کا عمل جاری رہے

ماضی کو بھلا کے آگے نکلا جائے، اگر ایسا نہ ہوا تو پاکستان میں صفائی کا عمل پھر سے خراب ہوگا

Jvqazi@gmail.com

یہ تو صحیح ہے کہ ہم انتخابات کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہم بہت بڑی صفائی کے عمل کو بھی جاری کیے ہوئے ہیں۔ کیا ان دنوں حقیقتوں کا آپس میں کوئی ٹکراؤ ہے یا کہ ادارے اپنے کام جاری رکھیں اور انتخابات کا عمل بھی جاری رہے۔

یہ کہنا کہ نگران حکومت کا اتنا بڑا مینڈیٹ نہیں۔ یہ بات تدریسی تو ہوسکتی ہے مگر زمینی حقائق سے ہٹ کر ہوگی اور دونوں حقیقتوں میں اتنا بڑا کھلا تضاد بھی نہیں۔ ہم آئین کی چھتری تلے چل رہے ہیں، دونوں صورتوں میں اہم حقیقت یہی ہے، باقی رہا انیس اور بیس کا فرق، وہ فرق تھیوری اور پریکٹس کا فرق ہے۔

الیکشن نوے دن کے اندر ہونا آئینی تھا جتنا بھی تھا تو یہ بھی تو آئینی تقاضا تھا کہ جب مردم شماری ہوجائے اور وہ بھی گزٹ میں رپورٹ ہو جائے جس کی سی سی آئی سے تصدیق ہوئی، تو پھر انتخابات میں تاخیر تو ہونی تھی۔ ہماری نگران حکومت الیکشن کمیشن کے ماتحت ہے اور جب بھی نگران حکومت بنتی ہے، جب تک رہتی ہے، الیکشن کمیشن اورکمشنر مرکز بن جاتے ہیں اور وزیر اعظم ثانوی حیثیت اختیارکرتے ہیں۔

دوسری طرف سپریم کورٹ اپنی کارروائی جاری رکھے ہوئے بغیرکسی امتیازکے۔ ملک کی آج جو تباہی ہوئی ہے، اس کا تو کوئی جا کے احوال ثاقب نثار سے پوچھے ، یہ شخص حیات ہے، اور ایسے کئی ہیں جو اس عمل میں شامل تھے۔ باقی دوسرے تو اب نظر نہیں آرہے یا تنقید کا نشانہ نہیں بن رہے، جتنا یہ صاحب نظر آ رہے ہیں۔ انسانی حقوق کے سیل کے نام پر جو کچھ ہوا، وہ ڈھکا چھپا نہیں ہے۔

چیمبر میں سماعتیں اور فیصلے ہوئے، لگ بھگ تین لاکھ اسی ہزار درخواستیں ہیں۔ اور جاتے جاتے اس سیل کا سارا ریکارڈ بھی ضایع کرادیا گیا۔ اب تو خود سپریم کورٹ نے بھی ثاقب نثارکی اس کارروائی کو کالعدم قرار دے دیا۔ سوال یہ ہے کہ ثاقب نثار کے بعد باقی ماندہ تین چیف جسٹس کے زمانے میں یہ کام کیوں نہیں ہوا؟ جو آج یہ کام سپریم کورٹ کو نظر آیا ہے، یہ تب کیوں نظر نہیں آیا ، انھوں نے عمران خان کو صادق اور امین بھی قرار دے دیا تھا توکیا یہ صفائی کے زمرے میں نہیں آتے تھے۔

ہماری افغان پالیسی کی زبوں حالی دیکھ لیں، ہمارے افغانستان سے تعلقات کشیدہ ہوگئے ہیں، یہ بھی حقیقت ہے، آیندہ کی جو بھی حکومت ہوگی، اس نے جو افغان پالیسی کے حوالے سے تبدیلی آئی ہے، اس نے اس تبدیلی کو آگے لے کر چلنا ہے، لیکن اگر خان صاحب جیت کے آتے ہیں تو کیا وہ نئی افغان پالیسی پر عمل کریں گے؟


تو سوال یہ ہے کہ خود ان کے ماضی والی افغان پالیسی میں چھپا ہوا ہے تھے۔ وہ ضیاء الحق اور حمید گل والی پالیسی کی پیداوار، پاکستان ایک ناکام ریاست کی حیثیت میں جو دنیا کے نقشے پے ابھرا یہ وہی جنرل ضیاء الحق اوران کے قریبی ساتھیوں کی بوئی فصل کا پھل ہے،اس کا منبع افغان پالیسی ہے۔ جنرل ضیاء الحق کیا تھے؟ وہ جناح کے خیال سے ٹکراؤ میں تھے۔ اس نے مذہب کو سیاسی مقصد اور مفادات کے لیے استعمال کیا جب کہ جناح نے متمدن اور مہذب ریاست کی بات کی۔

جنرل ضیاء الحق اور اس کے ساتھیوں نے پناہ لی قرارداد مقاصد میں جوآئین کا حصہ نہ تھی ، اس کو آرٹیکل 2A بنایا۔ جس تناظر میں 1949 میں قرارداد مقاصد دی گئی وہ یہی تھے کہ لیاقت علی خان فوری عام انتخابات کرانے اور آئین تیار کرنے پر تیار نہیں تھے، انھیں اور ان کے ساتھی مسلم لیگی ارکان کو الیکشن ہار جانے کا خوف تھا۔ وہ کام ہندوستان کرگیا اور ہم نہیں کر پائے۔ ہمارے ریاستی اور انتظامی نظام کی تباہی بنیاد تب ہی رکھی گئی تھی ، پھرجنرل ضیاء الحق کا پانچ جولائی والا شب خون اس عمل کو تیز تر کرنے کا باعث بن گیا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب جو صفائی کے زمرے میں آتا ہے وہ ہو بھی سکے گی کہ نہیں، کیونکہ جب ریاست نے ہوش کے ناخن لے بھی لیے ہیں تو ملک ایک بہت بڑے معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ ہم قرضہ لے کر قرضے اتار رہے ہیں اور ہر قرضہ ہماری آزاد حیثیت سے ٹکراؤ میں ہے۔ یہ سب قرضے دینے والے ہم پر اپنی پالیسیز پر عمل کرنا یقینی بنائیں گے۔ ہم ان کے مفادات کا تحفظ کرنے میں لگ جائیں گے اور اپنے مفادات بھول جائیں گے، لیکن صفائی کا عمل جارہی ہے اور ہمارے عمران خان پر الزامات تو بہت ہیں لیکن ان کا فارن فنڈنگ کیس بہت سنگین ہے۔ بحیثیت وکیل میں سمجھ سکتا ہوں، چیئرمین پی ٹی آئی پر الزامات سنگین ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے کئی سیاستدان جوکہ افغان جہاد کے پس منظر میں بنے، ایسے کاروباری لوگ جو افغان پالیسی، افغان ٹریڈ پالیسی، اسمگلنگ، کالا دھن، منشیات و اسلحے کے کاروبار سے ارب پتے بنے، وہ اشرافیہ جو خان صاحب کے گرد گھوم رہی ہے ، وہ ہیں کون، کتنی گہری ان کی جڑیں ہیں، کدھر سے آیا اور کیسے واردات کرتا ہے اور ان کو جڑوں سے نکالنا کیا اب آسان ہے؟یہ ہے وہ عمل ہے جو کم ازکم ایک عشرہ چاہتا ہے، مستقل مزاجی سے پالیسی کا چلنا چاہتا ہے۔ عدالتوں کی آزادی چاہتا ہے اور جو آئینی عدالتیں بلآخر فیصلے کریں اور ان فیصلوں پر پھر ہمیں سرخم تسلیم کرنا ہوگا۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اکیلا نہیں تھا، وہ تو عکس تھا،کسی اور کا ۔ میں نے عرض کیا نہ کہ یہ سب ہمارے بزرگوں کا آئین دینے سے انحراف کرنا اور پھر اس کی جو سزا آئی 1971 کا سانحہ ہوا اور سانحہ سے سبق سیکھتے ہوئے آئین دینا لیکن ہم پھر پٹری سے اترگئے اور پھر آئین شکنی کرنا، پھر اس سے بھی آگے یہ کہ آئین کو ڈیکوریشن پیس بنا کے انجینئرنگ کرنا، جس میںسے یہ خطرناک شکلیں نکلیں، جو ہم نے چیئرمین پی ٹی آئی وغیرہ کی شکل میں دیکھیں۔

اب حل یہ ہے کہ صفائی ہو، نگران حکومت چلے اور جب انتخابات ہوں تو اس کے بعد بھی صفائی کا عمل چلے۔ ضیاالحق اور ان کے ساتھیوں کی تیار کی گئی پالیسوں کو تبدیل کیے بغیر آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔

اب اس سے کام نہیں چلے گا کہ ماضی کو بھلا کے آگے نکلا جائے، اگر ایسا نہ ہوا تو پاکستان میں صفائی کا عمل پھر سے خراب ہوگا۔ بھٹو کی غلطی تھی جو انھوں نے حمود الرحمان کمیشن رپورٹ شایع نہیں کی اور اس کی سفارشات پر عمل نہ کیا۔ (اس حمود الرحمان کمیشن کے ایک گواہ بحیثیت عوامی لیگ کے نمایندہ میرے والد بھی تھے) لیکن یہ سب کام انتقامی کارروائیوں کے نذر نہ ہوجائے، اس بات کا بھی خیال کرنا ہوگا۔
Load Next Story