ایمان دار لوگ دیانت دار سروس

ہم جانتے کہ اس ملک میں ہمیشہ ’’گدھے‘‘ کی جگہ کمہار کو داغا جاتا ہے


Saad Ulllah Jaan Baraq November 12, 2023
[email protected]

ہم قہرخداوندی چشم گل عرف کووڈ19 جتنی حق گوئی و بیباکی تو نہیں کرسکتے کیونکہ ہمیں ابھی زندہ رہنا ہے اور حور وقصور حاصل کرنے کی اتنی جلدی نہیں ہے۔

قلم ہمیں بے شک عزیز ہے لیکن اتنا بھی نہیں کہ اپنی گردن ہی کو قلم بنائیں۔مطلب ہم اس کی طرح یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ اگر جرائم کو ختم کرنا ہو تو پولیس اور متعلقہ اداروں کو حج یا عمرے کے لیے بھیج دیں۔

لوگوں کو صحت مند بنانا ہو تو محکمہ صحت کو قرنطینہ کیا جائے، بیروزگاری ختم کرنا ہو تو محکمہ تعلیم کو تالا لگادیں، اگر کام چوروں، نشئیوں، مفت خوروں اور موالیوں کو ختم کرنا ہو تو بے نظیر انکم سپورٹ، احساس پروگرام اور اس طرح کے خیراتی اداروں کو سمندر برد کردیا جائے۔

اگر ملک کے تمام چھوٹے بڑے اور درمیانے مسائل ختم کرنا ہوں تو وزیروں، مشیروں، لیڈروں اور افسروں کو کسی صحرا میں بھیج دیں۔اگر پاکستان اُلٹا آئی ایم ایف کو قرضہ نہ دینے لگے تو ملاؤں کے بارے میں بھی اس کا بہت کچھ کہنا ہے۔لیکن '' نقل کفر کفر نہ باشد'' کے باوجود ہم اسے دہرا نہیں سکتے کہپھر باقاعدہ خودکش دھماکا ہی ہوگا۔ لیکن ان خرافاتی تجاویز سے ہمارے دل میں بھی کچھ مشورے اور تجاویز دُم ہلانے لگے ہیں۔

جن میں سے ایک محکمہ بجلی سے متعلق بھی ہے چونکہ ان دنوں حکومت نے بجلی چوری اور نادہندگی کے خلاف مہم چلائی ہوئی ہے، اس سلسلے میں ہمارے پاس بڑے شافی اور کافی قسم کی آسان تجویز ہے اور وہ یہ کہ محکمہ بجلی کو ختم کردیا جائے تو ملک میں ایک بھی بجلی چور باقی نہ رہے گا، اس بات کو ثابت کرنا بھی چنداں مشکل نہیں ہے، حکومت جہاں اور بہت ساری چیزیں درآمد کررہی ہے، وہاں کسی اور ملک سے چند ایسے لوگ بھی درآمد کیے جائیں جو واپڈا، پیسکو، میپکو،لیسکو اور پندرہ لکھی سرکاری ہاتھیوں وغیرہ کے اپنے گھروں کے ''چراغ'' چیک کریں، یقین کریں، ان ''چراغوں'' کے نیچے اتنا اندھیرا نکلے گا کہ بحرظلمات کا گمان ہوگا۔

یہ گہرا اندھیرا ختم ہوجائے تو بجلی اتنی وافر ہوجائے گی کہ گائے، بھینس،بھیڑ بکریاں اور پیڑ پودے بھی میٹر لگوالیں گے۔ اگر ایک اور قدم بڑھا کر محکمہ بجلی والوں کے عزیزوں رشتہ داروں کا بھی جائزہ لے لیں تو ہم بجلی برآمد کرنے کے قابل ہوجائیں گے اور محکمہ بجلی کی آمدنی اتنی بڑھ جائے گی کہ ہرسال ایک ڈیم بنانے کے قابل ہوجائے گا۔

ایک مرتبہ جب شوکت افضل واپڈا ہاوس پشاور کے پی آر او تھے تو وہ سال میں ایک مرتبہ ایک دعوت نما پریس کانفرس یا افطار پارٹی واپڈا ہاوس میں منعقد کرتے تھے جس میں صحافیوں کو بلا کر بجلی سے متعلق آگاہی دی جاتی تھی، ایسی ہی ایک افطار پارٹی میں بجلی چوری کے مختلف طریقے اسکرین پر دکھائے گئے تو صحافیوں میں سے کسی کی آواز آئی۔یہ بتائیے کہ یہ طریقے ان لوگوں کو سکھاتا کون ہے؟

ان دنوں عام خیال یہ تھا کہ زیادہ تر بجلی چوری قبائلی علاقوں میں ہوتی ہے۔لیکن اب تو قبائلی بھی نہیں رہے ، پھر یہ بجلی چوری کیوں ہوتی ہے۔اس لیے کہ قبائلی علاقے سے بھی زیادہ ''قبائلی علاقے'' شہروں میں ہیں۔ بہت سے کارخانے ہیں جو کروڑوں کی بجلی خرچ کرتے ہیں اور''بل'' چند لاکھ روپے دیتے ہیں، متعدد ایسے ہیں جو لاکھوں کی بجلی خرچ کرکے بل ہزاروں میں دیتے ہیں۔

یہ ''معاملات'' بڑے افسر دیکتے ہیں، اس کے بعد اینٹوں کے بھٹے،زرعی فارم اور ورکشاپس وغیرہ کے معاملات درجہ دوم کے افسر دیکھتے ہیں اور عام گھروں کا معاملہ سب سے جونیئر کارکن نمٹاتے ہیں۔ واقعہ پرانا ہے لیکن کیا کیا جائے کہ اپنے محکمے اور ادارے اور ان کے کارکن بھی پرانے ہیں، ایک کسان نے باغات کے ایک سوداگر سے کہاکہ وہ آپ کا جو باغ میرے پڑوس میں ہے ،اس میں سے لوگ پھل چوری کرتے ہیں۔ایسا کرو اس کے لیے ایک رکھوالا رکھ لو۔ اگر رکھوالا نہیں رکھتے تو مجھے سو روپے دے دو، میں رکھوالی کروں گا۔سوداگر نے تھوڑی دیر سوچا اور پھر جیب سے سو روپے کا نوٹ نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔

اس پر کسان نے کہا، اب بے فکر رہیں۔میں اس باغ کی رکھوالی کروں گا۔سوداگر نے کہا، ٹھہرو!یہ پیسے میں نے تجھے رکھوالی کے لیے نہیں دیے۔بلکہ اس لیے دیے ہیں کہ تم خود باز آجاؤ تو بھی غنمیت ہے۔ محکمہ بجلیکو بھی صرف افسروں اور ان کے رشتہ داروں سے بچایے پھر دیکھیے انداز گل فشانی گفتار۔

یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے

ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو؟

لیکن ہم جانتے کہ اس ملک میں ہمیشہ ''گدھے'' کی جگہ کمہار کو داغا جاتا ہے، اب بھی سارا نزلہ ان ہی خداماروں پر گرے گا جن کے گھروں میں ایک دو بلبوں اور پنکھوں کے سوا کچھ نہیں ہے اور ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ہی ہوتی ہے۔ حکومت نے ان کو رکھا ہی اس لیے ہے کہ ہر محکمے کا خسارا ان ہی سے پورا کیا جائے اور ہر چوری میں ان ہی کو پکڑا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں