شبِ مرگِ وفا
حسن ناصر کے بارے میں جتنا لکھا جائے کم ہے
13نومبر کو مجھے خالد علیگ کی ایک نظم بہت یاد آتی ہے۔ اس نظم کا عنوان ہے '' شب 13 نومبر'' خالد بھائی نے یہ انتہائی اثر انگیز نظم حسن ناصرکی پہلی برسی کے موقع پر لکھی تھی، جس کے چند اشعار کچھ اس طرح ہیں۔
شب تیرہ نومبر کی شبِ مرگِ وفا ہے
دم مقتل رنداں میں کوئی توڑ رہا ہے
پیشانی پہ چوٹوں کے جو نیلے سے نشاں ہیں
اس ملک کی تہذیب پہ وہ مرثیہ خواں ہیں
چہرے پر تبسم کی جو ہلکی سی کرن ہے
اس قوم کے معیارِ عدالت کا کفن ہے
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ان لوگوں کو بہت جلد فراموش کردیتے ہیں، جن کی جدوجہد کے باعث ہمیں آج تھوڑی بہت آزادی اور حقوق حاصل ہیں۔ جب پاکستان تخلیق پایا تو لوگوں میں بے پناہ امنگ تھی۔ انھیں یقین تھا کہ سب مل کر ایک جمہوری، روشن خیال اور روادار سماج تشکیل دیں گے جس کے ہر شہری کو مساوی حقوق حاصل ہوں گے اور ملک پر آئین اور قانون کی حکمرانی ہوگی۔ وقت گزرنے کے ساتھ لوگ مایوس اور ناامید ہونے لگے۔
ایسے میں کچھ لوگوں نے اپنی تاریخی ذمے داری نبھانے کا فیصلہ کیا اور ایک جمہوری معاشرے کے قیام کے لیے کٹھن جدوجہدکا آغاز کر دیا۔ ان لوگوں نے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں اور جب وقت آیا تو اپنے آدرشوں کے لیے جان کا نذرانہ تک پیش کر دیا۔ حسن ناصر بھی جان دینے والے قبیلے کا ایک شہزادہ تھا۔ اس کا تعلق ہندوستان کے اس شہر سے تھا جو آج کئی حوالوں سے پوری دنیا میں جانا جاتا ہے۔
یہ حیدرآباد دکن کی وہ ریاست تھی جو برطانوی تسلط کے دور میں بھی زیر عتاب نہیں تھی۔ اس کا اپنا سربراہ تھا جس کی اپنی ٹکسال تھی اور اس کے سکے اس کی ریاست میں چلتے تھے۔ جس نوجوان کا ذکر ہورہا ہے وہ نواب محسن الملک کا نواسہ تھا، جسے بڑے نازو نعم سے پالا گیا تھا۔ اس نے بہترین اداروں میں تعلیم حاصل کی۔ گھر والوں نے اسے لندن روانہ کیا تاکہ وہ مشہور زمانہ کیمبرج یونیورسٹی سے اعلیٰ ڈگری حاصل کر کے ہندوستان کی حکمران اشرافیہ کا حصہ بن جائے۔
حسن ناصر نے عیش وآرام کی زندگی ترک کی اور سندھ کے جھومرکراچی آئے اور پھر اس کے عشق میں ایسے گرفتار ہوئے کہ اسے چھوڑنا خود ان کے بس میں نہیں رہا۔ کراچی کا عشق انھیں واپس یہیں کھینچ لایا۔ لاہور کے شاہی قلعے میں جب وہ بڑے حوصلے سے اپنی زندگی کے شدید اذیت ناک دن گزار رہے تھے تو انھوں نے کہا تھا '' میں ہندوستان چلا گیا تھا لیکن اپنی جلاوطنی کے بعد واپس آگیا۔ میرے خاندان کی زمینیں اور دولت مجھے وہاں روک نہیں سکی۔ میری پارٹی بھی مجھے نہ روک سکی، میرے خاندان والوں نے ان سے کہا تھا کہ میں وہیں کام کروں۔ میں وہاں رہنا کیوں نہیں چاہتا تھا ؟
یہ بات نہیں ہے کہ میں انڈیا کو پسند نہیں کرتا۔ آخر میں وہیں پیدا ہوا تھا اور اس کی زمین سے پیدا ہونے والی چیزوں کو کھا کر بڑا ہوا تھا۔ ایسی جگہ سے میں کس طرح نفرت کرسکتا ہوں؟ لیکن یہ وہ جگہ نہیں ہے جہاں مجھے جدوجہد کرنا ہے۔ یہاں وہ مزدور نہیں ہیں جن کے ساتھ میں رہتا، سہتا اور جنھیں سوشل ازم پڑھاتا تھا۔ وہ سب یہاں ہیں، کراچی میں۔ وہ ہندوستان میں نہیں ہیں۔ یہی وہ بات ہے جس کی وجہ سے میں واپس آیا ہوں کیونکہ میں یہاں رہوں گا اور آپ بھی ایسا کریں گے ، ہماری قبریں بھی اسی زمین پر بنیں گی۔''
حسن ناصر انسانوں اور رشتوں سے محبت کرنے والا نوجوان تھا، جس کا اظہار اس خط میں ہوتا ہے جو اس نے قلعہ لاہور سے اپنی والدہ کو لکھا تھا۔ '' آپ ہمیشہ کہتی ہیں کہ میں صرف اس وقت آپ کو خط لکھتا ہوں جب میں جیل میں ہوتا ہوں۔ اب میں یہاں ایک مرتبہ دوبارہ پہنچ گیا ہوں۔ اب تک آپ کو میری گرفتاری کی اطلاع مل گئی ہوگی۔ مجھے سیکیورٹی ایکٹ کے تحت قید میں ڈالا گیا ہے۔ یہ ان ہی قوانین کی تازہ ترین مثال ہے جن کے تحت مجھے ماضی میں بھی گرفتارکیا گیا تھا۔
اس بار یہ واقعہ 6 اگست 1960 کو وقوع پذیر ہوا لیکن اب یہ ایک سال کے لیے ہے۔ میری صحت اچھی ہے اور آپ میری وجہ سے پریشان نہ ہوں۔ مجھے امید ہے کہ آپ نے اپنے آپریشن کرا لیے ہوں گے۔ پچھلی مرتبہ جب آپ مختصر وقت کے لیے کراچی میں رکی تھیں تو میں آپ کی صحت کے بارے میں بہت فکر مند تھا۔ میں آپ سے معافی کا طلب گار ہوں کہ میری وجہ سے آپ تشویش اور صدمے کی کیفیت میں رہتی ہیں۔ میں آپ کے عذابوں میں اضافہ ہی کرتا رہتا ہوں۔''
اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حسن ناصرکا خط پڑھ کر ان کی والدہ کے دل پرکیا گزری ہوگی۔ انھوں نے تصور بھی نہ کیا ہوگا کہ ان کا پیارا اور لاڈلا بیٹا چند دنوں بعد اس دنیا سے رخصت ہونے والا ہے۔ حسن ناصر کی والدہ بیگم علم بردار حسین نے 19 اکتوبر کو بیٹے کے نام جوابی خط لکھا، جس میں ان کے اندر حسن ناصرکی زندگی کے بارے میں کسی ڈر یا خوف کی جھلک نہیں ملتی۔ انھوں نے لکھا '' تمہاری گرفتاری کے بارے میں سنا تھا لیکن اس کے بعد مجھے تمہاری طرف سے کوئی اطلاع نہیں ملی جس کی وجہ سے میں پریشان تھی۔ تم نے لکھا ہے کہ تمہاری صحت اچھی ہے۔ اﷲ کے کرم سے تمہاری یہ بات درست ہو اور تم اچھے ہو۔''
ان کے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حسن ناصر قلعہ لاہورکے عقوبت خانے میں زندگی کے آخری دن گزار رہے تھے تو ان کے والدین بھی صحت کے بڑے سنگین مسائل سے دوچار تھے جس کا ذکرکرتے ہوئے ان کی والدہ نے لکھا تھا ''تم نے میری صحت کے بارے میں دریافت کیا ہے۔ اب ہر دن میں کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا رہتی ہوں ، یہ سب تو مجھے برداشت کرنا ہی ہے۔ جبڑے کا درد بدستور جاری ہے۔
ایک دوسرا بڑا آپریشن اب ممکن نہیں حالانکہ وہ میرے جوڑوں میں انجکشن لگا رہے ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ میری گرتی صحت کے باعث وہ کسی مزید مداخلت کا خطرہ اس وقت تک مول نہیں لے سکتے جب تک میری صحت کچھ بہتر نہ ہوجائے۔ واقعی میں جس طرح کی جذباتی اور جسمانی پریشانیوں میں مبتلا ہوں، اس کے بعد میری صحت کہاں بہتر ہوسکتی ہے۔
سید صاحب کی صحت پہلے جیسی ہی ہے۔ ان کی ذہنی صحت انتہائی خراب ہوچکی ہے، وہ کسی کو پہچانتے ہیں اور نہ ہی پانی اور خوراک مانگ سکتے ہیں۔ چار مہینے کے کسی بچے کی طرح ان کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اس صورتحال کا دباؤ بھی صحت پر پڑتا ہے۔ گھرکی دیکھ بھال کے لیے نوکر تو موجود ہیں لیکن اس کے باوجود مجھے ہر چیز دیکھنی ہوتی ہے۔''
میجر اسحاق کے ذریعے حسن ناصرکی والدہ کو اطلاع ملی کہ ان کا خوبصورت جوان بیٹا زندگی کی بازی ہار چکا ہے۔ غم سے نڈھال ماں بیٹے کی میت ساتھ لے جانے کے لیے حیدرآباد دکن سے لاہور پہنچی۔ ان کے سامنے ایک قبر کھولی گئی جس سے ناقابل شناخت لاش برآمد ہوئی۔ پولیس حکام کا کہنا تھا کہ یہ حسن ناصرکی لاش ہے۔ اپنے بیٹے کو ماں سے زیادہ کون پہچان سکتا تھا۔ بیگم علم بردار حسین نے اسے اپنے بیٹے کا جسد خاکی ماننے سے انکار کردیا اور واپس حیدرآباد دکن چلی گئیں۔
میجر اسحاق نے بڑی محنت سے سارے معاملے کی تحقیق کی، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ایک پنجابی نے ایک دکنی ساتھی کی جرات اور بہادری ثابت کرنے کے لیے اپنی زندگی کے بہت سے ماہ و سال دائو پر لگا دیے۔ یہ بات وہی سمجھ سکتے ہیں جنھیں یہ علم ہوتا ہے کہ آدرش کے لیے اپنی خوشیاں اور زندگی بھی قربان کی جاسکتی ہے۔ غم سے نڈھال ماں نے واپس جاتے ہوئے کیا کہا تھا اس کے بارے میں میجر اسحاق لکھتے ہیں۔
'' 8 دسمبرکو وہ میرے دفتر تشریف لائیں۔ بڑی ہی پریشان اور دہشت زدہ تھیں۔ مجھے دیکھتے ہی بولیں۔ دیکھیے حسن ناصر کی طرح آپ بھی میرے بیٹے ہیں۔ آپ نے جس بات کا بیڑا اٹھایا تھا وہ پوا ہوگیا ہے۔ احتیاط سے کام لیں میں نہیں چاہتی کہ میرے اور بھی بیٹے شہید ہوں، میں ہکا بکا رہ گیا، سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ یہ رویہ اس رویے سے بالکل مختلف تھا جو میں نے ان کی آمد ایئرپورٹ پر دیکھا تھا۔''
حسن ناصر کے بارے میں جتنا لکھا جائے کم ہے۔ میں اپنی بات کا اختتام حسن ناصرکے بارے میں بھائی خالد علیگ کے ہی ان اشعار پرکروں گی۔
میں کہ آزادی افکارکا سرنامہ ہوں
اپنے مقتل کی طرف خود ہی چلا آیا ہوں
میں کہ ہر دورکی تہذیب کا معمار ہوں میں
پھرکسی خنجر قاتل کا طلب گار ہوں میں
شب تیرہ نومبر کی شبِ مرگِ وفا ہے
دم مقتل رنداں میں کوئی توڑ رہا ہے
پیشانی پہ چوٹوں کے جو نیلے سے نشاں ہیں
اس ملک کی تہذیب پہ وہ مرثیہ خواں ہیں
چہرے پر تبسم کی جو ہلکی سی کرن ہے
اس قوم کے معیارِ عدالت کا کفن ہے
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ان لوگوں کو بہت جلد فراموش کردیتے ہیں، جن کی جدوجہد کے باعث ہمیں آج تھوڑی بہت آزادی اور حقوق حاصل ہیں۔ جب پاکستان تخلیق پایا تو لوگوں میں بے پناہ امنگ تھی۔ انھیں یقین تھا کہ سب مل کر ایک جمہوری، روشن خیال اور روادار سماج تشکیل دیں گے جس کے ہر شہری کو مساوی حقوق حاصل ہوں گے اور ملک پر آئین اور قانون کی حکمرانی ہوگی۔ وقت گزرنے کے ساتھ لوگ مایوس اور ناامید ہونے لگے۔
ایسے میں کچھ لوگوں نے اپنی تاریخی ذمے داری نبھانے کا فیصلہ کیا اور ایک جمہوری معاشرے کے قیام کے لیے کٹھن جدوجہدکا آغاز کر دیا۔ ان لوگوں نے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں اور جب وقت آیا تو اپنے آدرشوں کے لیے جان کا نذرانہ تک پیش کر دیا۔ حسن ناصر بھی جان دینے والے قبیلے کا ایک شہزادہ تھا۔ اس کا تعلق ہندوستان کے اس شہر سے تھا جو آج کئی حوالوں سے پوری دنیا میں جانا جاتا ہے۔
یہ حیدرآباد دکن کی وہ ریاست تھی جو برطانوی تسلط کے دور میں بھی زیر عتاب نہیں تھی۔ اس کا اپنا سربراہ تھا جس کی اپنی ٹکسال تھی اور اس کے سکے اس کی ریاست میں چلتے تھے۔ جس نوجوان کا ذکر ہورہا ہے وہ نواب محسن الملک کا نواسہ تھا، جسے بڑے نازو نعم سے پالا گیا تھا۔ اس نے بہترین اداروں میں تعلیم حاصل کی۔ گھر والوں نے اسے لندن روانہ کیا تاکہ وہ مشہور زمانہ کیمبرج یونیورسٹی سے اعلیٰ ڈگری حاصل کر کے ہندوستان کی حکمران اشرافیہ کا حصہ بن جائے۔
حسن ناصر نے عیش وآرام کی زندگی ترک کی اور سندھ کے جھومرکراچی آئے اور پھر اس کے عشق میں ایسے گرفتار ہوئے کہ اسے چھوڑنا خود ان کے بس میں نہیں رہا۔ کراچی کا عشق انھیں واپس یہیں کھینچ لایا۔ لاہور کے شاہی قلعے میں جب وہ بڑے حوصلے سے اپنی زندگی کے شدید اذیت ناک دن گزار رہے تھے تو انھوں نے کہا تھا '' میں ہندوستان چلا گیا تھا لیکن اپنی جلاوطنی کے بعد واپس آگیا۔ میرے خاندان کی زمینیں اور دولت مجھے وہاں روک نہیں سکی۔ میری پارٹی بھی مجھے نہ روک سکی، میرے خاندان والوں نے ان سے کہا تھا کہ میں وہیں کام کروں۔ میں وہاں رہنا کیوں نہیں چاہتا تھا ؟
یہ بات نہیں ہے کہ میں انڈیا کو پسند نہیں کرتا۔ آخر میں وہیں پیدا ہوا تھا اور اس کی زمین سے پیدا ہونے والی چیزوں کو کھا کر بڑا ہوا تھا۔ ایسی جگہ سے میں کس طرح نفرت کرسکتا ہوں؟ لیکن یہ وہ جگہ نہیں ہے جہاں مجھے جدوجہد کرنا ہے۔ یہاں وہ مزدور نہیں ہیں جن کے ساتھ میں رہتا، سہتا اور جنھیں سوشل ازم پڑھاتا تھا۔ وہ سب یہاں ہیں، کراچی میں۔ وہ ہندوستان میں نہیں ہیں۔ یہی وہ بات ہے جس کی وجہ سے میں واپس آیا ہوں کیونکہ میں یہاں رہوں گا اور آپ بھی ایسا کریں گے ، ہماری قبریں بھی اسی زمین پر بنیں گی۔''
حسن ناصر انسانوں اور رشتوں سے محبت کرنے والا نوجوان تھا، جس کا اظہار اس خط میں ہوتا ہے جو اس نے قلعہ لاہور سے اپنی والدہ کو لکھا تھا۔ '' آپ ہمیشہ کہتی ہیں کہ میں صرف اس وقت آپ کو خط لکھتا ہوں جب میں جیل میں ہوتا ہوں۔ اب میں یہاں ایک مرتبہ دوبارہ پہنچ گیا ہوں۔ اب تک آپ کو میری گرفتاری کی اطلاع مل گئی ہوگی۔ مجھے سیکیورٹی ایکٹ کے تحت قید میں ڈالا گیا ہے۔ یہ ان ہی قوانین کی تازہ ترین مثال ہے جن کے تحت مجھے ماضی میں بھی گرفتارکیا گیا تھا۔
اس بار یہ واقعہ 6 اگست 1960 کو وقوع پذیر ہوا لیکن اب یہ ایک سال کے لیے ہے۔ میری صحت اچھی ہے اور آپ میری وجہ سے پریشان نہ ہوں۔ مجھے امید ہے کہ آپ نے اپنے آپریشن کرا لیے ہوں گے۔ پچھلی مرتبہ جب آپ مختصر وقت کے لیے کراچی میں رکی تھیں تو میں آپ کی صحت کے بارے میں بہت فکر مند تھا۔ میں آپ سے معافی کا طلب گار ہوں کہ میری وجہ سے آپ تشویش اور صدمے کی کیفیت میں رہتی ہیں۔ میں آپ کے عذابوں میں اضافہ ہی کرتا رہتا ہوں۔''
اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حسن ناصرکا خط پڑھ کر ان کی والدہ کے دل پرکیا گزری ہوگی۔ انھوں نے تصور بھی نہ کیا ہوگا کہ ان کا پیارا اور لاڈلا بیٹا چند دنوں بعد اس دنیا سے رخصت ہونے والا ہے۔ حسن ناصر کی والدہ بیگم علم بردار حسین نے 19 اکتوبر کو بیٹے کے نام جوابی خط لکھا، جس میں ان کے اندر حسن ناصرکی زندگی کے بارے میں کسی ڈر یا خوف کی جھلک نہیں ملتی۔ انھوں نے لکھا '' تمہاری گرفتاری کے بارے میں سنا تھا لیکن اس کے بعد مجھے تمہاری طرف سے کوئی اطلاع نہیں ملی جس کی وجہ سے میں پریشان تھی۔ تم نے لکھا ہے کہ تمہاری صحت اچھی ہے۔ اﷲ کے کرم سے تمہاری یہ بات درست ہو اور تم اچھے ہو۔''
ان کے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حسن ناصر قلعہ لاہورکے عقوبت خانے میں زندگی کے آخری دن گزار رہے تھے تو ان کے والدین بھی صحت کے بڑے سنگین مسائل سے دوچار تھے جس کا ذکرکرتے ہوئے ان کی والدہ نے لکھا تھا ''تم نے میری صحت کے بارے میں دریافت کیا ہے۔ اب ہر دن میں کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا رہتی ہوں ، یہ سب تو مجھے برداشت کرنا ہی ہے۔ جبڑے کا درد بدستور جاری ہے۔
ایک دوسرا بڑا آپریشن اب ممکن نہیں حالانکہ وہ میرے جوڑوں میں انجکشن لگا رہے ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ میری گرتی صحت کے باعث وہ کسی مزید مداخلت کا خطرہ اس وقت تک مول نہیں لے سکتے جب تک میری صحت کچھ بہتر نہ ہوجائے۔ واقعی میں جس طرح کی جذباتی اور جسمانی پریشانیوں میں مبتلا ہوں، اس کے بعد میری صحت کہاں بہتر ہوسکتی ہے۔
سید صاحب کی صحت پہلے جیسی ہی ہے۔ ان کی ذہنی صحت انتہائی خراب ہوچکی ہے، وہ کسی کو پہچانتے ہیں اور نہ ہی پانی اور خوراک مانگ سکتے ہیں۔ چار مہینے کے کسی بچے کی طرح ان کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اس صورتحال کا دباؤ بھی صحت پر پڑتا ہے۔ گھرکی دیکھ بھال کے لیے نوکر تو موجود ہیں لیکن اس کے باوجود مجھے ہر چیز دیکھنی ہوتی ہے۔''
میجر اسحاق کے ذریعے حسن ناصرکی والدہ کو اطلاع ملی کہ ان کا خوبصورت جوان بیٹا زندگی کی بازی ہار چکا ہے۔ غم سے نڈھال ماں بیٹے کی میت ساتھ لے جانے کے لیے حیدرآباد دکن سے لاہور پہنچی۔ ان کے سامنے ایک قبر کھولی گئی جس سے ناقابل شناخت لاش برآمد ہوئی۔ پولیس حکام کا کہنا تھا کہ یہ حسن ناصرکی لاش ہے۔ اپنے بیٹے کو ماں سے زیادہ کون پہچان سکتا تھا۔ بیگم علم بردار حسین نے اسے اپنے بیٹے کا جسد خاکی ماننے سے انکار کردیا اور واپس حیدرآباد دکن چلی گئیں۔
میجر اسحاق نے بڑی محنت سے سارے معاملے کی تحقیق کی، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ایک پنجابی نے ایک دکنی ساتھی کی جرات اور بہادری ثابت کرنے کے لیے اپنی زندگی کے بہت سے ماہ و سال دائو پر لگا دیے۔ یہ بات وہی سمجھ سکتے ہیں جنھیں یہ علم ہوتا ہے کہ آدرش کے لیے اپنی خوشیاں اور زندگی بھی قربان کی جاسکتی ہے۔ غم سے نڈھال ماں نے واپس جاتے ہوئے کیا کہا تھا اس کے بارے میں میجر اسحاق لکھتے ہیں۔
'' 8 دسمبرکو وہ میرے دفتر تشریف لائیں۔ بڑی ہی پریشان اور دہشت زدہ تھیں۔ مجھے دیکھتے ہی بولیں۔ دیکھیے حسن ناصر کی طرح آپ بھی میرے بیٹے ہیں۔ آپ نے جس بات کا بیڑا اٹھایا تھا وہ پوا ہوگیا ہے۔ احتیاط سے کام لیں میں نہیں چاہتی کہ میرے اور بھی بیٹے شہید ہوں، میں ہکا بکا رہ گیا، سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ یہ رویہ اس رویے سے بالکل مختلف تھا جو میں نے ان کی آمد ایئرپورٹ پر دیکھا تھا۔''
حسن ناصر کے بارے میں جتنا لکھا جائے کم ہے۔ میں اپنی بات کا اختتام حسن ناصرکے بارے میں بھائی خالد علیگ کے ہی ان اشعار پرکروں گی۔
میں کہ آزادی افکارکا سرنامہ ہوں
اپنے مقتل کی طرف خود ہی چلا آیا ہوں
میں کہ ہر دورکی تہذیب کا معمار ہوں میں
پھرکسی خنجر قاتل کا طلب گار ہوں میں