پنجاب میں شہریوں کو ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنوانے میں مشکلات کا سامنا
ڈیتھ/وفات سرٹیفیکیٹ گورنمنٹ کی طرف سے جاری کردہ ایک سرٹیفکیٹ ہوتا ہے
پنجاب میں ڈیتھ سرٹیفکیٹ کا حصول کافی حد تک آسان بنا دیا گیا ہے تاہم اس کے باوجود مختلف وجوہات کی بنا پر شہر یوں کو ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنوانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں سب اہم وجہ تاخیر سے درخواست دینا ہے۔
لاہور کے علاقے واہگہ ٹاون کے رہائشی علی رضا کے والد کا چند ماہ پہلے انتقال ہوا اور وفات کے دو ہفتوں بعد وہ مقامی یونین کونسل سے اپنے والد کی وفات کا سرٹیفکیٹ لینے گئے تو انہیں معلوم ہوا کہ ان کی سوتیلی والدہ پہلے ہی ڈیتھ سرٹیفکیٹ حاصل کرچکی ہیں۔
علی رضا نے بتایا کہ ان کے والد نے دو شادیاں کی تھیں، دوسری بیوی سے کوئی اولاد نہیں ہے جبکہ وہ دوسرے علاقے میں رہتی ہیں۔ ان کے والد دوسری بیوی کے پاس ہی رہتے تھے تاہم وفات کے بعد تدفین ان لوگوں نے اپنے علاقے میں کی ہے۔ علی رضا کے مطابق مقامی سیاسی شخصیت کی سفارش پر یونین کونسل نے انہیں ان کے والد کی وفات کا سرٹیفکیٹ جاری کیا۔
ایک اور شہری عبدالرحمن کہتے ہیں کہ وہ اپنے والد کی وفات کا سرٹیفکیٹ لینے کے لیے تین ماہ سے قانونی جنگ لڑ رہے ہیں، ان کے والد کی وفات 2012 میں ہوئی تھی۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ کسی کی وفات پر یونین کونسل سے کوئی سرٹیفکیٹ لینا پڑتا ہے۔
عبدالرحمن بتاتے ہیں کہ گزشتہ سال ان کے حقیقی چاچا نے انکے والد کے حصے کی زرعی اراضی جعل سازی سے اپنے نام منتقل کروائی اور فروخت کر دی۔ اس کا علم جب انہیں ہوا تو عدالت میں گئے اور بتایا کہ ان کے والد تو فوت ہوچکے ہیں وہ کیسے اپنے جائیداد اپنے بھائی کو دے سکتے ہیں۔ عدالت نے جب وفات کا سرٹیفکیٹ مانگا تو وہ ہمارے پاس نہیں تھا۔
انہوں نے بتایا کہ اپنے والد کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ کے لیے ہم نے مقامی یونین کونسل میں درخواست دی تو یونین کونسل کے سیکریٹری نے کہا وفات کے دو ماہ بعد ڈیتھ سرٹیفکیٹ لینے کے لیے عدالت سے اجازت لینا ہوگی۔ وکیل کے ذریعے مقامی مجسٹریٹ کی عدالت میں درخواست دائر کی گئی تو عدالت نے شواہد مانگ لیے کہ قبرستان میں میت کی تدفین کے اندراج رجسٹر کی مصدقہ کاپی، علاقے کے نمبردار سمیت دو گواہ لیکر آئیں جو رشتہ دار نہ ہوں۔
عبدالرحمن نے بتایا کہ ان کے علاقے میں میت کی تدفین کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں رکھا جاتا، ہم نے گواہ پیش کیے لیکن ان کے چاچا نے بھی گواہ پیش کیے کہ وفات سے پہلے ان کے والد نے جائیداد فروخت کر دی تھی۔ اب ڈیڑھ سال سے یہ معاملہ چل رہا ہے۔ یہ فیصلہ نہیں ہوسکا کہ ہم نے جو گواہ پیش کیے وہ سچے ہیں یا ان کے چاچا نے جو گواہ پیش کیے وہ سچ بولتے ہیں۔
ڈیتھ/وفات سرٹیفیکیٹ گورنمنٹ کی طرف سے جاری کردہ ایک سرٹیفکیٹ ہوتا ہے جس میں فوت ہونے والے شخص کا نام، پتہ، وفات کی تاریخ اور وجہ وفات درج ہوتی ہے۔ فوت شدہ کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنوانا ورثاء کے لیے ضروری ہے کیونکہ وارثت کی تقسیم تب ہی ممکن ہوتی ہے جب اس شخص کے قانونی ورثاء ڈیتھ سرٹیفکیٹ جمع کروائیں گے۔ اسی طرح اس شخص کا قانونی کاغذات میں مردہ ثابت ہونا بھی بہت ضروری ہے تاکہ کہیں بعد میں کوئی اور شخص اس فوت شدہ شخص کے نام پر فراڈ نہ کرسکے۔
لاہور کی ایک مقامی یونین کونسل کے سیکریٹری حاجی محمد اقبال نے بتایا کہ ڈیتھ سرٹیفکیٹ کا فارم انٹرنیٹ سے یا متعلقہ یونین کونسل سے مل جاتا ہے، فوت شدہ شخص کا خونی رشتہ دار یہ فارم حاصل کرے گا، اس کو پر کرنا ہوگا۔ اسی فارم پر اس مولوی صاحب یا اس شخص کا بیان ریکارڈ ہوگا جس نے نماز جنازہ پڑھایا تھا وہ اپنے دستخط کرے گا اور انگوٹھا لگائے گا اور اگر سرکاری قبرستان ہے تو گورگن کا نام پتہ اور دو گواہوں کا نام، ان کے دستخط اور انگوٹھے کے نشانات اور جو شخص جاری کروانا چاہتا ہے اس کا فوت ہونے والے شخص سے رشتہ درج کرنا ہوگا۔
حاجی محمد اقبال نے بتایا کہ یہ فارم پر کرنے کے بعد متعلقہ یونین کونسل میں جا کر جمع کروا دیں، چند دنوں میں آپ کو سرٹیفکیٹ مل جائے گا۔ ڈیتھ سرٹیفکیٹ کی فیس 200 روپے ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر وفات کو 2 مہینے سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے تو اس صورت میں آپ کو عدالت سے رجوع کرنا ہوگا۔ عدالتی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ڈیتھ سرٹیفکیٹ متعلقہ یونین کونسل جاری کرے گی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مرنے والے شخص کا ایک ہی ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری ہوتا ہے چاہے اس کی ایک سے زائد بیویاں تھیں، تاہم تمام وارثان کو الگ الگ تصدیق شدہ کاپی دی جاتی ہے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے مقامی وکیل عبداللہ ملک کہتے ہیں کہ ڈیتھ سرٹیفکیٹ زندہ انسانوں کے لیے بہت ضروری ہے خاص طور پر متوفی کے قانونی وارثان کے لیے۔ انکی وراثت کا انتقال، اگر مرنے والے کی بینک میں رقم موجود ہے، اگر مرنے والے کی گاڑی ہے، گھر ہے، انشورنس کی رقم ہے۔ یہ سب کچھ تب ہی قانونی وارثان کو ملے گا جب وہ ڈیتھ سرٹیفکیٹ پیش کریں گے۔
عبداللہ ملک کہتے ہیں کہ ان سب معاملات سے ہٹ کر بھی مرنے والے شخص کے نام پر ہونے والے فراڈ کو روکنے کے لیے بھی ورثا کے پاس ڈیتھ سرٹیفکیٹ کا ہونا ضروری ہے۔ کئی کیسز میں دیکھا ہے کہ ایک شخص فوت ہوگیا تھا اور اس کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ نہیں بنا تھا۔ اس کے مرنے کے بعد زمین منتقل ہوتی ہے اس مرنے والے شخص کی طرف سے جعلی انگوٹھے بیان لکھ دیا جاتا ہے، اب عدالتی ڈیتھ سرٹیفکیٹ کے بغیر اس شخص کو مرا ہوا ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے جس کے نام سے جائیداد ہتھیانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
لاہور کے علاقے واہگہ ٹاون کے رہائشی علی رضا کے والد کا چند ماہ پہلے انتقال ہوا اور وفات کے دو ہفتوں بعد وہ مقامی یونین کونسل سے اپنے والد کی وفات کا سرٹیفکیٹ لینے گئے تو انہیں معلوم ہوا کہ ان کی سوتیلی والدہ پہلے ہی ڈیتھ سرٹیفکیٹ حاصل کرچکی ہیں۔
علی رضا نے بتایا کہ ان کے والد نے دو شادیاں کی تھیں، دوسری بیوی سے کوئی اولاد نہیں ہے جبکہ وہ دوسرے علاقے میں رہتی ہیں۔ ان کے والد دوسری بیوی کے پاس ہی رہتے تھے تاہم وفات کے بعد تدفین ان لوگوں نے اپنے علاقے میں کی ہے۔ علی رضا کے مطابق مقامی سیاسی شخصیت کی سفارش پر یونین کونسل نے انہیں ان کے والد کی وفات کا سرٹیفکیٹ جاری کیا۔
ایک اور شہری عبدالرحمن کہتے ہیں کہ وہ اپنے والد کی وفات کا سرٹیفکیٹ لینے کے لیے تین ماہ سے قانونی جنگ لڑ رہے ہیں، ان کے والد کی وفات 2012 میں ہوئی تھی۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ کسی کی وفات پر یونین کونسل سے کوئی سرٹیفکیٹ لینا پڑتا ہے۔
عبدالرحمن بتاتے ہیں کہ گزشتہ سال ان کے حقیقی چاچا نے انکے والد کے حصے کی زرعی اراضی جعل سازی سے اپنے نام منتقل کروائی اور فروخت کر دی۔ اس کا علم جب انہیں ہوا تو عدالت میں گئے اور بتایا کہ ان کے والد تو فوت ہوچکے ہیں وہ کیسے اپنے جائیداد اپنے بھائی کو دے سکتے ہیں۔ عدالت نے جب وفات کا سرٹیفکیٹ مانگا تو وہ ہمارے پاس نہیں تھا۔
انہوں نے بتایا کہ اپنے والد کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ کے لیے ہم نے مقامی یونین کونسل میں درخواست دی تو یونین کونسل کے سیکریٹری نے کہا وفات کے دو ماہ بعد ڈیتھ سرٹیفکیٹ لینے کے لیے عدالت سے اجازت لینا ہوگی۔ وکیل کے ذریعے مقامی مجسٹریٹ کی عدالت میں درخواست دائر کی گئی تو عدالت نے شواہد مانگ لیے کہ قبرستان میں میت کی تدفین کے اندراج رجسٹر کی مصدقہ کاپی، علاقے کے نمبردار سمیت دو گواہ لیکر آئیں جو رشتہ دار نہ ہوں۔
عبدالرحمن نے بتایا کہ ان کے علاقے میں میت کی تدفین کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں رکھا جاتا، ہم نے گواہ پیش کیے لیکن ان کے چاچا نے بھی گواہ پیش کیے کہ وفات سے پہلے ان کے والد نے جائیداد فروخت کر دی تھی۔ اب ڈیڑھ سال سے یہ معاملہ چل رہا ہے۔ یہ فیصلہ نہیں ہوسکا کہ ہم نے جو گواہ پیش کیے وہ سچے ہیں یا ان کے چاچا نے جو گواہ پیش کیے وہ سچ بولتے ہیں۔
ڈیتھ/وفات سرٹیفیکیٹ گورنمنٹ کی طرف سے جاری کردہ ایک سرٹیفکیٹ ہوتا ہے جس میں فوت ہونے والے شخص کا نام، پتہ، وفات کی تاریخ اور وجہ وفات درج ہوتی ہے۔ فوت شدہ کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنوانا ورثاء کے لیے ضروری ہے کیونکہ وارثت کی تقسیم تب ہی ممکن ہوتی ہے جب اس شخص کے قانونی ورثاء ڈیتھ سرٹیفکیٹ جمع کروائیں گے۔ اسی طرح اس شخص کا قانونی کاغذات میں مردہ ثابت ہونا بھی بہت ضروری ہے تاکہ کہیں بعد میں کوئی اور شخص اس فوت شدہ شخص کے نام پر فراڈ نہ کرسکے۔
لاہور کی ایک مقامی یونین کونسل کے سیکریٹری حاجی محمد اقبال نے بتایا کہ ڈیتھ سرٹیفکیٹ کا فارم انٹرنیٹ سے یا متعلقہ یونین کونسل سے مل جاتا ہے، فوت شدہ شخص کا خونی رشتہ دار یہ فارم حاصل کرے گا، اس کو پر کرنا ہوگا۔ اسی فارم پر اس مولوی صاحب یا اس شخص کا بیان ریکارڈ ہوگا جس نے نماز جنازہ پڑھایا تھا وہ اپنے دستخط کرے گا اور انگوٹھا لگائے گا اور اگر سرکاری قبرستان ہے تو گورگن کا نام پتہ اور دو گواہوں کا نام، ان کے دستخط اور انگوٹھے کے نشانات اور جو شخص جاری کروانا چاہتا ہے اس کا فوت ہونے والے شخص سے رشتہ درج کرنا ہوگا۔
حاجی محمد اقبال نے بتایا کہ یہ فارم پر کرنے کے بعد متعلقہ یونین کونسل میں جا کر جمع کروا دیں، چند دنوں میں آپ کو سرٹیفکیٹ مل جائے گا۔ ڈیتھ سرٹیفکیٹ کی فیس 200 روپے ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر وفات کو 2 مہینے سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے تو اس صورت میں آپ کو عدالت سے رجوع کرنا ہوگا۔ عدالتی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ڈیتھ سرٹیفکیٹ متعلقہ یونین کونسل جاری کرے گی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مرنے والے شخص کا ایک ہی ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری ہوتا ہے چاہے اس کی ایک سے زائد بیویاں تھیں، تاہم تمام وارثان کو الگ الگ تصدیق شدہ کاپی دی جاتی ہے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے مقامی وکیل عبداللہ ملک کہتے ہیں کہ ڈیتھ سرٹیفکیٹ زندہ انسانوں کے لیے بہت ضروری ہے خاص طور پر متوفی کے قانونی وارثان کے لیے۔ انکی وراثت کا انتقال، اگر مرنے والے کی بینک میں رقم موجود ہے، اگر مرنے والے کی گاڑی ہے، گھر ہے، انشورنس کی رقم ہے۔ یہ سب کچھ تب ہی قانونی وارثان کو ملے گا جب وہ ڈیتھ سرٹیفکیٹ پیش کریں گے۔
عبداللہ ملک کہتے ہیں کہ ان سب معاملات سے ہٹ کر بھی مرنے والے شخص کے نام پر ہونے والے فراڈ کو روکنے کے لیے بھی ورثا کے پاس ڈیتھ سرٹیفکیٹ کا ہونا ضروری ہے۔ کئی کیسز میں دیکھا ہے کہ ایک شخص فوت ہوگیا تھا اور اس کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ نہیں بنا تھا۔ اس کے مرنے کے بعد زمین منتقل ہوتی ہے اس مرنے والے شخص کی طرف سے جعلی انگوٹھے بیان لکھ دیا جاتا ہے، اب عدالتی ڈیتھ سرٹیفکیٹ کے بغیر اس شخص کو مرا ہوا ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے جس کے نام سے جائیداد ہتھیانے کی کوشش کی جاتی ہے۔