کراچی شہرمیں انڈوں کی مصنوعی قلت سردیوں میں قیمت مزید بڑھنے کا خدشہ

مرغی کے انڈوں کی ذخیرہ اندوزی مصنوعی قلت اور قیمتوں میں اضافے کی اہم وجہ ہے، پولٹری انڈسٹری ذرائع

فارمز کی سطح پر انڈوں کی قیمت میں دو سے تین ماہ میں دگنا اضافہ ہوچکا ہے ( فوٹو؛ ایکسپریس )

موسم سرما کی آمد سے قبل ہی کراچی میں انڈوں کی مصنوعی قلت پیدا ہوگئی ہے، بیکریوں اور دکانوں پر انڈے کی سپلائی میں کمی آرہی ہے جبکہ خوردہ سطح پر انڈے کمشنر کراچی کی مقررہ قیمت 290روپے کے بجائے 360روپے درجن تک فروخت ہورہے ہیں۔

دکانداروں کے مطابق فارم سے انڈوں کی سپلائی 50فیصد تک کم ہے اور طلب و رسد کا فرق موسم سرما کی آمد سے قبل ہی بگڑتا دکھائی دے رہا ہے جس کا نتیجہ قیمت میں اضافہ کی شکل میں سامنے آرہا ہے۔

عوام کو سستے داموں انڈوں کی فراہمی یقنی بنانے اور ناجائز منافع خوری روکنے کے لیے ضروری ہے کہ انڈوں کی ذخیرہ اندوزی کرکے مصنوعی قلت پیدا کرنے والے عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے بصورت دیگر موسم سرما میں انڈے نایاب اور قیمتیں مزید بلند ہوسکتی ہیں۔

انڈوں کی 30 درجن کی پیٹی کی تھوک قیمت 9900روپے سے تجاوز کرگئی ہے، ہول سیل میں ہی انڈے 320سے 330روپے درجن پڑرہے ہیں، پولٹری فارمرز من مانی قیمت پر انڈے فروخت کررہے ہیں، کمشنر کراچی کی مقررہ قیمت پر فروخت ناممکن ہے۔

کراچی کے مختلف علاقوں میں انڈے 340سے 360روپے درجن فروخت ہورہے ہیں، بیکریوں اور دکانوں پر انڈوں کی سپلائی میں تعطل آرہا ہے جس کی وجہ سے بیشتر دکانوں پر انڈے نہیں مل رہے۔

ایکسپریس کے سروے کے دوران اس بات کا انکشاف ہوا کہ زیادہ تر دکانوں پر چھوٹے سائز کے انڈے فروخت کیے جارہے ہیں جو اوسط سائز کے انڈوں سے وزن میں کم ہونے کی وجہ سے فارم سے سستے پڑتے ہیں جبکہ بڑے سائز کے انڈوں کی پریمیم قیمت وصول کی جارہی ہے۔

پولٹری کے کاروبار سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو سال سے پولٹری کا کاروبار بحران کا شکار رہا درحقیت ملک میں آنے والے سیلاب کے بعدسے پولٹری کی صنعت سنبھل نہیں پائی، کبھی ڈالر کی قلت کی وجہ سے، کبھی درآمدی فیڈ مہنگی ہونے تو کبھی فیڈز کی پورٹ سے کلیئرنس نہ ہونے سے انڈسٹری بحران کا شکار رہی۔

حالیہ صورتحال میں پولٹری، ادویات، ورکرز کی اجرت، ٹرانسپورٹ کی لاگت بڑھنے سے انڈوں کی پیداواری لاگت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

دوسری جانب پولٹری میں نقصان اٹھانے والے سرمایہ کاروں نے دیگر شعبوں کا رخ کرلیا ہے، یہی وجہ ہے کہ انڈوں کی طلب پوری کرنے کے لیے سرمایہ کاری میں کمی آئی ہے اور مارکیٹ میں طلب ورسد کا فرق بڑھ گیا ہے۔

صدر کے علاقے شہاب الدین مارکیٹ میں مرغی کے انڈوں کے تھوک اور خوردہ فروشوں کا کہنا ہے کہ تھوک سطح پر انڈے 320روپے درجن فروخت ہورہے ہیں ، فارمز کی سطح پر انڈوں کی قیمت میں دو سے تین ماہ میں دگنا اضافہ ہوچکا ہے ، کمشنر کراچی کی مقرر کردہ قیمت پر فارمر انڈے سپلائی کرنے پر تیار نہیں ہیں اور دکانداروں کوتادیبی کارروائی کا سامنا کرنا پڑر ہا ہے۔


دکانداروں کے مطابق انڈوں کی خوردہ اور تھوک فروش میں دکانداروں کا منافع نہ ہونے کے برابر ہے، ایک پیٹی انڈے فروخت ہونے پر اگر پانچ سو روپے کا منافع ملتا ہے تو اس میں سے دو سے تین سو روپے یومیہ اخراجات پر لگ جاتے ہیں اور دکانداروں کو بمشکل ایک پیٹی پر دو سو روپے کا منافع ملتا ہے۔

اتنے قلیل منافع پر کام کرنے و الے دکانداروں پر شہری انتظامیہ کی جانب سے بیس بیس ہزار روپے کے بھاری جرمانے عائد کیے جارہے ہیں، انڈوں کا کاروبار کرنے والے اتنے بھاری جرمانے جیب سے نہیں بھرسکتے اور جرمانوں کا سامنا کرنے والے اکثر دکاندار اس سیزن میں کاروبار بند کرنے کو ترجیح دیں گے جس سے موسم سرما میں انڈوں کی طلب پوری کرنا مشکل ہوگا۔

فارم سے انڈے وزن کے حساب سے فروخت ہوتے ہیں، تھوک سطح پر انڈوں کی سائز کے لحاظ سے درجہ بندی کی جاتی ہے اور چھوٹے سائز کے انڈے اس وقت بھی تھوک سطح پر 280 روپے درجن فروخت ہورہے یں جو دودھ کی دکانوں اور بیکریوں پر 340روپے درجن تک فروخت کیے جارہے ہیں۔

فارم کے انڈوں کے مقابلے میں دیسی انڈوں کی قیمت میں اتنا اضافہ نہیں ہوا، دیسی انڈے 40سے 45روپے فی انڈہ کی قیمت پر فروخت ہورہے ہیں، دیسی انڈوں میں بھی دو اقسام کے انڈے فروخت کیے جارہے ہیں جن میں ایک فیڈ پر پلنے والی دیسی مرغیوں کے انڈے اور دوسرے کھیت کھلیان اور کھلے ماحول میں دیسی خوراک کھاکر پلنے والی مرغیوں کے انڈے شامل ہیں جو غذائیت کے لحاظ سے پہلی قسم کے انڈوں سے کہیں زیادہ فائدہ مند ہیں۔

دکانداروں کے مطابق موسم سرما میں مرغی کے انڈوں کی اضافی طلب پوری کرنے کے لیے بطخ کے انڈوں کا استعمال بھی شروع ہوجاتا ہے، بطخ کے انڈے مرغی کے انڈوں کے مقابلے میں زیادہ غذائیت بخش اور تاثیر میں گرم ہوتے ہیں کیونکہ بطخیں ہر قسم کی خوراک کھانے کی عادی ہوتی ہیں اور ان کی خوراک مرغیوں سے زیادہ ہوتی ہے۔

پولٹری انڈسٹری کے ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ مرغی کے انڈوں کی ذخیرہ اندوزی قیمتوں میں اضافہ کی اہم وجہ ہے، موسم سرما کے لیے انڈے دو سے تین ماہ قبل ہی اسٹاک کرلیے جاتے ہیں جو ریٹ بڑھنے پر مارکیٹ میں لائے جاتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق انڈے 24ڈگری سینٹی گریڈ پر 2سے ڈھائی ماہ تک قابل استعمال رہتے ہیں اور درجہ حرارت مزید کم پر رکھنے کی صورت میں انڈوں کی شیلف لائف بڑھ جاتی ہے، کمرے کے درجہ حرارت (روم ٹمپریچر) پر انڈے دو ہفتوں تک آسانی قابل استعمال رہتے ہیں جبکہ فریج میں رکھنے کی صورت میں 20سے 24روز تک قابل استعمال رہتے ہیں۔

انڈوں کی ذخیرہ اندوزی کے لیے مضافاتی علاقوں اور فارمز میں بھی بڑے اسٹوریج بنائے گئے ہیں اور اسٹاک کیے جانے کی وجہ سے مارکیٹ میں انڈوں کی سپلائی کم ہورہی ہے جس سے طلب و رسد کاتوازن بگڑ رہا ہے اور قیمت میں اضافہ کا رجحان ہے۔

مرغی کے انڈوں میں بھی تازہ اور پرانے انڈوں کا فرق ہوتا ہے، پرانے انڈے خراب نہ بھی ہوں تو ان کی غذائیت اور معیار میں کمی آتی ہے۔ ماہرین کے مطابق انڈوں میں پائی جانے والی قدرتی نمی (موائسچر) وقت کے ساتھ کم ہوتا رہتا ہے جس سے انڈے اندر سے خشک اور گاڑھے ہوجاتے ہیں۔

انڈوں کی تازگی کا اندازہ فرائی کرنے کی صورت میں موائسچر کے تیل میں آواز کے ساتھ جلنے سے ہوتا ہے، ابالے جانے کی صورت میں کم موائسچر والے پرانے انڈوں کی زردی کی رنگت سرمئی مائل ہوجاتی ہے۔
Load Next Story