اسرائیل فلسطین تنازع میں مغربی میڈیا کا کردار
انسانیت کی بات کرنے والے مغربی میڈیا کو اپنا محاسبہ خود کرنا چاہیے
شعبہ صحافت، جامعہ پنجاب لاہور
گزشتہ کچھ عرصے میں اور خصوصاً نائن الیون کے بعد مغربی دنیا میں اسلاموفوبیا بڑے پیمانے پر پھیلا ہے۔ اسی عرصے کے دوران پاپولزم اور دائیں بازو کی سیاست اپنے عروج پر پہنچی اور مسلمانوں کو بطور دہشتگرد قوم کے پیش کیا جانے لگا۔
اس سارے عمل میں بہت بڑ اہاتھ میڈیا کا تھا۔ اگرچہ ہم اکثر مغربی میڈیا اور ان کی روایات کو بطور نمونہ پیش کرتے ہیں لیکن جب بات مسلمانوں کے بارے میں آتی ہے تو ہمیں وہ معروضیت اور دیانت داری نظر نہیں آتی، جس کا وہ دعویٰ کرتے ہیں۔
مسلمانوں کے بارے ان کا تصور سٹیریو ٹائپ ہے کہ شاید ہر مسلمان شدت پسند ہوتا ہے اور ان کے ہاں خواتین کو قید کرکے رکھا جاتا ہے۔
یہاں ہم مکمل طور پر مغربی میڈیا کو مورد الزام بھی نہیں ٹھہرا سکتے کہ اس میں بہت بڑا ہاتھ خود مسلم ممالک کی پالیسیوں، مسلم امہ کی خرابیوں، مغربی ممالک کی اندرونی سیاست، اور گزشتہ پانچ دہائیوں سے ان کا مسلسل مسلم دنیا کے ساتھ یا ان میں حالت جنگ میں ہونا بھی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ کسی بھی جنگ میں سب سے پہلی ہلاکت سچ اور حقیقت کی ہوتی ہے۔ جب جنگ کے بادل چھائے ہوتے ہیں اور ہر چیز دھندلی ہوتی ہے ، کھرے کو کھوٹے سے الگ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ یہ ان لوگوں کے ہاں بہت بڑا موقع ہوتا ہے جن کا کاروبار نفرت پھیلا کر اپنی دکان چمکانا ہوتا ہے، جن کے ہاں انسانی جان، اخلاقیات و اقدار کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور جن کے ہاں صحافت ایک مقدس مشن کے بجائے اپنے نظریات کا پرچار کرنے کا محض ایک ذریعہ ہے۔ وہ لوگ اس موقعے کو غنیمت جان کر خوب پراپیگنڈا کرتے ہیں۔
پراپیگنڈا کرنا ہمیشہ سے حکومتوں اور متحارب قوتوں کا کام رہا ہے کہ وہ اپنے مفادات کے لیے سچ اور جھوٹ کو خلط ملط کرکے اور اس کا بار بار پرچار کر کے یوں پیش کرتے ہیں کہ ایک عام ذہن کنفیوز ہو جاتا ہے کہ آخر دعوؤں کے اس انبار میں کیا حقیقت ہے اور کیا فسانہ۔ اب یہاں مقصد کے حصول کے لیے میڈیا کا استعمال کیا جاتا ہے۔
صحافت کا کام محض عوام کو اطلاع پہنچانا یا یہ بتانا نہیں کہ کون سا واقعہ کب رونما ہوا، بلکہ سچائی اور حقیقی صورتحال سے آگاہ کرنا بھی میڈیا کا فرض ہے۔
اگر محض معلومات دینا میڈیا کا کام ہے تو یہ کام بہت بہتر طریقے سے ہر حکومت اور تنظیم کا شعبہ تعلقات عامہ کرتا ہے اور کر سکتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک فریق ہیں اور ان سے یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ وہ ہر بات حقائق پر مبنی بتائیں گے۔ ایک عام آدمی کی اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ ہر خبر کی فیکٹ چیک اور دوسرے ذرائع سے تصدیق کرے۔
ایک ذمہ دار میڈیا کا کام ہے کہ وہ اپنے صارفین کے لیے یہ فریضہ سر انجام دے جس میں بدقسمتی سے حماس اور اسرائیل کی حالیہ جنگ کے دوران مغربی میڈیا ناکام ہو چکا ہے۔ اگرچہ دہائیوں سے مغربی میڈیا فلسطین اور اسرائیل کے حوالے سے ایک خاص نکتہ نظر پیش کر رہا ہے، جو کہ ان کی حکومتوں کا ہے۔
اس سوچ کے تحت فلسطینیوں کو ایک منظم انداز میں کسی کمتر انسان کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے لیکن سات اکتوبر 2023 کے بعد سے جب سے یہ مسئلہ عالمی شہہ سرخیوں کا دوبارہ سے حصہ بنا ہے، مغربی میڈیا کا کردار مجرمانہ رہا ہے۔
پہلے یہ خبر پھیلائی گئی کہ حماس نے 200 بچوں کے سر قلم کیے ہیں، یہ خبر تمام مغربی میڈیا نے بڑھا چڑھا کر پیش کی، مختلف جرائد کے سرورق پر اسے شائع کیا گیا، ٹی وی پر طویل نشریات چلائی گئیں، امریکی صدر نے اس کو ٹویٹ کیا اور کہا کہ میں نے خود وہ تصاویر دیکھی ہیں۔ لیکن بعد میں وہ سب جھوٹ نکلا، اس کو رپورٹ کرنے والی سی این این کی رپورٹر نے اس کی تردید کی۔
بات یہاں پر نہیں رکتی۔ 70 سال سے نہتے فلسطینی عوام اسرائیلی جبر تلے جی رہے ہیں، دن رات وہ مر رہے ہیں لیکن مغربی دنیا کی ہر بات سات اکتوبر سے شروع ہوتی ہے۔ یوں جیسے سات اکتوبر سے پہلے سب امن تھا اور لوگ خوش باش رہ رہے تھے۔
غزہ اور مغربی کنارے کے لوگوں کیلیے ہر دن جہنم کی طرح ہے اور تھا۔ یہ کوئی اب سے شروع نہیں ہوا۔ سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کے بقول، حماس کے حملے کسی خلا میں نہیں ہوئے۔
مغربی میڈیا میں اسرائیلی ہلاکتوں کو بڑ ھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے، کوئی شک نہیں کہ سویلنز کی ہلاکتوں کا کوئی جواز نہیں ہوتا، لیکن ہمیں یہی جذبہ اور مذمت دوسری طرف کی ہلاکتوں اور اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے جنگی جرائم پر نظر نہیں آتی۔
اگر حماس دہشت گرد ہے جیسا کہ امریکہ، برطانیہ اور مغربی دنیا کے میڈیا کا دعویٰ ہے تو اسی اصول کی بنا پر اسرائیل کو بھی دہشت گرد کہنا چاہیے۔
آخر ہسپتالوں پر ٹارگٹڈ حملے کرنا، صحافیوں پر فائرنگ، بچوں کا قتل عام، 20 لاکھ افراد کا پانی، خوراک اور بجلی بند کر کے ان کو محصور کر کے ان پر اندھا دھند بمباری اور پھر ٹینکوں کے ذریعے زمینی کارروائی کرنا، لاکھوں لوگوں کو بے گھر کرنا اور برسوں سے ان کی نسل کشی کرنا، کیا دہشتگردی نہیں ہے؟
جب الآہلی ہسپتال پر اسرائیل کی جانب سے حملہ ہوا اور اس پر دنیا بھر سے تنقید ہونے لگی تو اسرائیل اور اس کے ترجمانوں نے، جو پہلے اس کو فخریہ طور پر اپنی کارروائی کے طور پر پیش کر رہے تھے ، اس قتل عام کو حماس پر ڈال دیا اور مغربی میڈیا نے اس اسرائیلی بیانیے کو ہی آگے بڑھانا شروع کر دیا۔
وہ حماس جس کے سینکڑوں راکٹ حملوں میں بھی کبھی درجن بھر لوگ ہلاک نہیں ہوئے، اس پر پانچ سو لوگوں کی ہلاکت کا الزام لگا دیا گیا۔ باوجود اس کے کہ خود اسرائیلی اس ہسپتال کو پہلے سے متنبہ کر رہے تھے اور عملے کو دھمکا رہے تھے۔
اسرائیل کی جانب سے یہ کوئی پہلی بار تو نہیں کیا گیا، اس کی اس طرح کی کارروائیوں کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ گزشتہ برس اس کی فورسز نے الجزیرہ کی امریکی شہریت رکھنے والے رپورٹر کو قتل کر دیا اور ہمیں مغربی میڈیا میں کوئی غصہ دکھائی نہیں دیا، اس مغربی میڈیا میں کہ جس نے جمال خشوگی کے قتل پر ابھی تک سعودی ولی عہد کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ اس سارے پراپیگنڈے اور مہم جوئی کے پیچھے ایک خاص مائنڈ سیٹ ہے اور وہ یہ کہ فلسطینیوں کو اتنا ظالم دکھاؤ اور ان کی اتنی تذلیل کرو کہ وہ انسان ہی نہ لگیں اور خود ان کی اپنی عوام کی رائے یہی بن جائے کہ شاید ان کے قتل سے اتنا فرق نہیں پڑتا۔ بالکل وہی ذہنیت جو ہٹلر کے نازی جرمنی میں یہودیوں کے قتل عام کا جواز ڈھونڈنے کے لیے پیش کی گئی۔
اسی بنا پر ہم دیکھتے ہیں کہ بی بی سی جب اسرائیل کی ہلاکتوں کو رپورٹ کرے گا تو بتائے گا کہ ان کو کس نے مارا ہے لیکن دوسری طرف کے لیے رویہ بدل جاتا ہے۔ اتنے فلسطینی مر گئے، اب خدا جانے کیسے، کس نے مارا، کوئی طوفان آیا یا عذاب۔ اس سارے منظرنامے میں اگر کوئی اختلافی آواز اٹھتی ہے تو اس کو یہود مخالف اوراینٹی سیمیٹک بولا جاتا ہے۔
اگر کوئی احتجاج کرتا ہے تو پورا مغرب اس پر پابندی عائد کرتا ہے۔ ہارورڈ کے طلباء کے ساتھ جو ہوا، ابھی وہ تازہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مغربی میڈیا اپنا محاسبہ کرے، پراپیگنڈا کے بجائے اپنا کام کرے، مفادات کے بجائے انسانیت کا سوچے اور ایک دفعہ پھر عراق جنگ والا گنا ہ نہ دہرائے۔
گزشتہ کچھ عرصے میں اور خصوصاً نائن الیون کے بعد مغربی دنیا میں اسلاموفوبیا بڑے پیمانے پر پھیلا ہے۔ اسی عرصے کے دوران پاپولزم اور دائیں بازو کی سیاست اپنے عروج پر پہنچی اور مسلمانوں کو بطور دہشتگرد قوم کے پیش کیا جانے لگا۔
اس سارے عمل میں بہت بڑ اہاتھ میڈیا کا تھا۔ اگرچہ ہم اکثر مغربی میڈیا اور ان کی روایات کو بطور نمونہ پیش کرتے ہیں لیکن جب بات مسلمانوں کے بارے میں آتی ہے تو ہمیں وہ معروضیت اور دیانت داری نظر نہیں آتی، جس کا وہ دعویٰ کرتے ہیں۔
مسلمانوں کے بارے ان کا تصور سٹیریو ٹائپ ہے کہ شاید ہر مسلمان شدت پسند ہوتا ہے اور ان کے ہاں خواتین کو قید کرکے رکھا جاتا ہے۔
یہاں ہم مکمل طور پر مغربی میڈیا کو مورد الزام بھی نہیں ٹھہرا سکتے کہ اس میں بہت بڑا ہاتھ خود مسلم ممالک کی پالیسیوں، مسلم امہ کی خرابیوں، مغربی ممالک کی اندرونی سیاست، اور گزشتہ پانچ دہائیوں سے ان کا مسلسل مسلم دنیا کے ساتھ یا ان میں حالت جنگ میں ہونا بھی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ کسی بھی جنگ میں سب سے پہلی ہلاکت سچ اور حقیقت کی ہوتی ہے۔ جب جنگ کے بادل چھائے ہوتے ہیں اور ہر چیز دھندلی ہوتی ہے ، کھرے کو کھوٹے سے الگ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ یہ ان لوگوں کے ہاں بہت بڑا موقع ہوتا ہے جن کا کاروبار نفرت پھیلا کر اپنی دکان چمکانا ہوتا ہے، جن کے ہاں انسانی جان، اخلاقیات و اقدار کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور جن کے ہاں صحافت ایک مقدس مشن کے بجائے اپنے نظریات کا پرچار کرنے کا محض ایک ذریعہ ہے۔ وہ لوگ اس موقعے کو غنیمت جان کر خوب پراپیگنڈا کرتے ہیں۔
پراپیگنڈا کرنا ہمیشہ سے حکومتوں اور متحارب قوتوں کا کام رہا ہے کہ وہ اپنے مفادات کے لیے سچ اور جھوٹ کو خلط ملط کرکے اور اس کا بار بار پرچار کر کے یوں پیش کرتے ہیں کہ ایک عام ذہن کنفیوز ہو جاتا ہے کہ آخر دعوؤں کے اس انبار میں کیا حقیقت ہے اور کیا فسانہ۔ اب یہاں مقصد کے حصول کے لیے میڈیا کا استعمال کیا جاتا ہے۔
صحافت کا کام محض عوام کو اطلاع پہنچانا یا یہ بتانا نہیں کہ کون سا واقعہ کب رونما ہوا، بلکہ سچائی اور حقیقی صورتحال سے آگاہ کرنا بھی میڈیا کا فرض ہے۔
اگر محض معلومات دینا میڈیا کا کام ہے تو یہ کام بہت بہتر طریقے سے ہر حکومت اور تنظیم کا شعبہ تعلقات عامہ کرتا ہے اور کر سکتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک فریق ہیں اور ان سے یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ وہ ہر بات حقائق پر مبنی بتائیں گے۔ ایک عام آدمی کی اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ ہر خبر کی فیکٹ چیک اور دوسرے ذرائع سے تصدیق کرے۔
ایک ذمہ دار میڈیا کا کام ہے کہ وہ اپنے صارفین کے لیے یہ فریضہ سر انجام دے جس میں بدقسمتی سے حماس اور اسرائیل کی حالیہ جنگ کے دوران مغربی میڈیا ناکام ہو چکا ہے۔ اگرچہ دہائیوں سے مغربی میڈیا فلسطین اور اسرائیل کے حوالے سے ایک خاص نکتہ نظر پیش کر رہا ہے، جو کہ ان کی حکومتوں کا ہے۔
اس سوچ کے تحت فلسطینیوں کو ایک منظم انداز میں کسی کمتر انسان کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے لیکن سات اکتوبر 2023 کے بعد سے جب سے یہ مسئلہ عالمی شہہ سرخیوں کا دوبارہ سے حصہ بنا ہے، مغربی میڈیا کا کردار مجرمانہ رہا ہے۔
پہلے یہ خبر پھیلائی گئی کہ حماس نے 200 بچوں کے سر قلم کیے ہیں، یہ خبر تمام مغربی میڈیا نے بڑھا چڑھا کر پیش کی، مختلف جرائد کے سرورق پر اسے شائع کیا گیا، ٹی وی پر طویل نشریات چلائی گئیں، امریکی صدر نے اس کو ٹویٹ کیا اور کہا کہ میں نے خود وہ تصاویر دیکھی ہیں۔ لیکن بعد میں وہ سب جھوٹ نکلا، اس کو رپورٹ کرنے والی سی این این کی رپورٹر نے اس کی تردید کی۔
بات یہاں پر نہیں رکتی۔ 70 سال سے نہتے فلسطینی عوام اسرائیلی جبر تلے جی رہے ہیں، دن رات وہ مر رہے ہیں لیکن مغربی دنیا کی ہر بات سات اکتوبر سے شروع ہوتی ہے۔ یوں جیسے سات اکتوبر سے پہلے سب امن تھا اور لوگ خوش باش رہ رہے تھے۔
غزہ اور مغربی کنارے کے لوگوں کیلیے ہر دن جہنم کی طرح ہے اور تھا۔ یہ کوئی اب سے شروع نہیں ہوا۔ سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کے بقول، حماس کے حملے کسی خلا میں نہیں ہوئے۔
مغربی میڈیا میں اسرائیلی ہلاکتوں کو بڑ ھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے، کوئی شک نہیں کہ سویلنز کی ہلاکتوں کا کوئی جواز نہیں ہوتا، لیکن ہمیں یہی جذبہ اور مذمت دوسری طرف کی ہلاکتوں اور اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے جنگی جرائم پر نظر نہیں آتی۔
اگر حماس دہشت گرد ہے جیسا کہ امریکہ، برطانیہ اور مغربی دنیا کے میڈیا کا دعویٰ ہے تو اسی اصول کی بنا پر اسرائیل کو بھی دہشت گرد کہنا چاہیے۔
آخر ہسپتالوں پر ٹارگٹڈ حملے کرنا، صحافیوں پر فائرنگ، بچوں کا قتل عام، 20 لاکھ افراد کا پانی، خوراک اور بجلی بند کر کے ان کو محصور کر کے ان پر اندھا دھند بمباری اور پھر ٹینکوں کے ذریعے زمینی کارروائی کرنا، لاکھوں لوگوں کو بے گھر کرنا اور برسوں سے ان کی نسل کشی کرنا، کیا دہشتگردی نہیں ہے؟
جب الآہلی ہسپتال پر اسرائیل کی جانب سے حملہ ہوا اور اس پر دنیا بھر سے تنقید ہونے لگی تو اسرائیل اور اس کے ترجمانوں نے، جو پہلے اس کو فخریہ طور پر اپنی کارروائی کے طور پر پیش کر رہے تھے ، اس قتل عام کو حماس پر ڈال دیا اور مغربی میڈیا نے اس اسرائیلی بیانیے کو ہی آگے بڑھانا شروع کر دیا۔
وہ حماس جس کے سینکڑوں راکٹ حملوں میں بھی کبھی درجن بھر لوگ ہلاک نہیں ہوئے، اس پر پانچ سو لوگوں کی ہلاکت کا الزام لگا دیا گیا۔ باوجود اس کے کہ خود اسرائیلی اس ہسپتال کو پہلے سے متنبہ کر رہے تھے اور عملے کو دھمکا رہے تھے۔
اسرائیل کی جانب سے یہ کوئی پہلی بار تو نہیں کیا گیا، اس کی اس طرح کی کارروائیوں کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ گزشتہ برس اس کی فورسز نے الجزیرہ کی امریکی شہریت رکھنے والے رپورٹر کو قتل کر دیا اور ہمیں مغربی میڈیا میں کوئی غصہ دکھائی نہیں دیا، اس مغربی میڈیا میں کہ جس نے جمال خشوگی کے قتل پر ابھی تک سعودی ولی عہد کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ اس سارے پراپیگنڈے اور مہم جوئی کے پیچھے ایک خاص مائنڈ سیٹ ہے اور وہ یہ کہ فلسطینیوں کو اتنا ظالم دکھاؤ اور ان کی اتنی تذلیل کرو کہ وہ انسان ہی نہ لگیں اور خود ان کی اپنی عوام کی رائے یہی بن جائے کہ شاید ان کے قتل سے اتنا فرق نہیں پڑتا۔ بالکل وہی ذہنیت جو ہٹلر کے نازی جرمنی میں یہودیوں کے قتل عام کا جواز ڈھونڈنے کے لیے پیش کی گئی۔
اسی بنا پر ہم دیکھتے ہیں کہ بی بی سی جب اسرائیل کی ہلاکتوں کو رپورٹ کرے گا تو بتائے گا کہ ان کو کس نے مارا ہے لیکن دوسری طرف کے لیے رویہ بدل جاتا ہے۔ اتنے فلسطینی مر گئے، اب خدا جانے کیسے، کس نے مارا، کوئی طوفان آیا یا عذاب۔ اس سارے منظرنامے میں اگر کوئی اختلافی آواز اٹھتی ہے تو اس کو یہود مخالف اوراینٹی سیمیٹک بولا جاتا ہے۔
اگر کوئی احتجاج کرتا ہے تو پورا مغرب اس پر پابندی عائد کرتا ہے۔ ہارورڈ کے طلباء کے ساتھ جو ہوا، ابھی وہ تازہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مغربی میڈیا اپنا محاسبہ کرے، پراپیگنڈا کے بجائے اپنا کام کرے، مفادات کے بجائے انسانیت کا سوچے اور ایک دفعہ پھر عراق جنگ والا گنا ہ نہ دہرائے۔