اپنے ملک کو توانا کیجیے
پہلے پچیس کروڑ عوام کو پینے کا صاف پانی تو مہیا کر دیجیے، بعد کے حالات پھر دیکھے جائیں گے
ملک کیسے مضبوط ہوتے ہیں، کیونکر اپنے شہریوں کے لیے آسانیاں فراہم کرتے ہیں، ان سوالات کا کوئی ایک درست جواب نہیں ہے۔
موجودہ دنیا کا ہر ملک اپنے شہریوں کی فلاح وبہبود کو اولین فریضہ گردانتا ہے۔ غور سے دیکھیے تو ترقی کرنے کے لیے ہر ملک کا راستہ دوسرے سے مختلف ہے۔ چین نے سوشلزم اور کیپٹلزم کے جس ہائبرڈ ماڈل کے ذریعے ترقی کی، وہ جرمنی سے بالکل متضاد ہے۔ امریکا نے سرمایہ دارانہ نظام کے جس اصول کو اپنایا، وہ روس سے بالکل مختلف ہے۔
دنیا کا کوئی ایک ملک اٹھا لیجیے، اگر وہ ترقی کی دوڑ میں آگے نکل رہا ہے تو اس کی اپنی مخصوص پالیسیاں اور منصوبہ بندی نظر آئے گی۔ مطلب یہ ہوا کہ آج کی دنیا میں ملکی مسائل کے حل کے لیے صرف ایک طرح کا پروگرام ممکن نہیں ہے۔ ہر ملک کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے مسائل کو اپنے طور پر حل کرنے کی ہرممکن کوشش کرے۔
داخلی اور خارجی استحکام حاصل کرے اور اپنے شہریوںکی بھرپور مدد کرے۔ہر ملک اپنے فیصلے صرف اور صرف اپنے قومی مفاد کے تحت کرتا ہے۔ قومی ریاستوں (Nation States) کا نظام مستحکم ہونے کے بعد، ماضی کے فلسفے متروک ہو چکے ہیں۔ اخلاقیات کے وہ قلعے جن پر پرانی عمارتیں قائم تھیں، مکمل طور پر ختم ہو چکی ہیں۔
جو قومیں یہ باریک نکتہ سمجھ چکی ہیں ان کا ریاستی اور سماجی ردعمل حددرجہ سادہ ہے۔ وہ اپنے مفاد کو دوسروں کے مفاد پر ترجیح دیتی ہیں۔ مگر ہمارے ملک میں عام لوگ، سیاسی قیادت اور حکومتیں اس اصول سے مبرا ہو کر سوچتی ہیں بلکہ اس نیشن اسٹیٹس کے قانون کے برعکس کام کرنا شروع کر دیتی ہیں۔
المیہ یہ بھی ہے کہ ان نقائص پر بات کرنا ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ وہ وہ تاویلیں تراشی گئی ہیں کہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ آسانی سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔ اپنے ملک کی مجموعی داخلی سوچ سے مختلف گزارشیں کرنا چاہتا ہوں۔
برصغیر میں ہم مسلمانوں کو ایسے ایسے مفروضوں کا شکار بنایا گیا ہے جس سے بحیثیت مسلم قوم ترقی کے سفر پر گامزن نہیں ہو پائے۔ہندوستان میں مسلمانوں کے جس روشن خیال قائد نے سب سے پہلے قدیم مفروضوں کو ہر سطح پر چیلنج کیا، وہ سرسید احمد خان تھے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ مسلمانوں نے جس شدت سے سرسید کی تضحیک کی، وہ بھی ہماری تاریخ کا ایک باب ہے۔آج پاکستان میں سر سید کے افکار کو تعلیمی نصاب کا حصہ نہیں بننے دیا گیا۔
سر سید کے نظریات پر بحث کرنا مشکل بنا دیا گیا ہے۔ دراصل متحدہ ہندوستان کے مسلمان تین چار سو سال سے جس ذہنی جمود کا شکار ہیں، وہ آج بھی اسی طرح موجود ہے۔ سرسید پر کافر ہونے کا فتویٰ بھی دیا گیا اور یہ بتانا مشکل نہیں ہے کہ یہ کافر اور مسلمان ہونے کی سند کون کون سے اکابر اور مقامی ادارے جاری کر رہے تھے۔ صاحب ایمان ہونے یا نہ ہونے کا فتویٰ آج بھی انھیں قوتوں کے پاس ہے ۔ برصغیر میں جس مسلمان لیڈر نے، اپنی قوم کو جگانے کی کوشش کی، وہ ان قوتوں کی جانب سے کافر ضرور قرار دیا گیا۔
یہ الگ بات ہے کہ انھیں قائدین کی حکمت عملی کے تحت آج ہم ایک آزاد ملک میں سانس لے رہے ہیں ورنہ معاملہ اگر ہمارے جذبات پسند لوگوں میں چلا جاتا تو شاید اب تک ہم دیوار میں چنوا دیے جاتے اور گلہ کرنے کی بھی اجازت نہ ہوتی۔ سرسید نے مسلم لڑکیوں کو انگریزی تعلیم دلوانی چاہیے۔ ان سے پہلے بچیوں کی تعلیم صرف دین کی چند معلومات تک محدود تھی۔ سرسید کا یہ اتنا بڑا احسان ہے جس کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔ ہمارے علماء اور مشائخ نے مسلمانوں کے مغربی تعلیم حاصل کرنے پر قدغن لگا رکھی تھی۔
یعنی وہ تعلیم جس سے ہمارے نوجوان برصغیر میں ترقی کر سکتے تھے، اس کو کافرانہ طرزعمل بتایا گیا تھا۔ یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ آج بھی یہ سوچ کسی نہ کسی طرز پر موجود ہے۔ عرض کروں گا کہ قائداعظم کے افکار سے سیاسی شکست کھانے والے افراد، چھلانگ لگا کر پاکستان آ گئے اور ڈھٹائی سے اس نئے ملک کی فکری تشکیل نو کرنے میں مصروف ہو گئے جس کے وجود میں آنے کو وہ ''گناہ'' کہتے تھے۔
ان مخصوص افراد نے ہمارے معاشرے کو ذہنی طور پر منتشر کر دیا ہے۔ نوجوان نسل تو ہر لحاظ سے کنفیوژ ہے کہ قدیم روایات کو جدت کیسے بخشی جائے۔ ویسے علامہ اقبال نے اپنی کتاب ''The Reconstruction of Religious Thought in Islam'' میں مذہب اور دنیاوی ترقی کے معاملہ پر حددرجہ سنجیدہ بحث فرمائی ہے۔ یہ کتاب انگریزی زبان میں لکھی گئی تھی اور اس کا علمی مغز علامہ کی شاعری سے بالکل متضاد اور منفرد ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ اس عظیم کتاب کو لکھنے کا علامہ کوبھی خمیازہ بھگتنا پڑا۔ وہ بھی کافر اور ملحد قرار دیے گئے اور ان کے دشمن بھی وہی عناصر تھے جنھیں سرسید کے نظریات سے بغض تھا۔ قصہ کوتاہ یہ کہ برصغیر میں جس نے بھی مسلمانوں کی ترقی کے لیے تگ ودو کی، اسے مسلمانوں ہی نے نشان عبرت بنانے کی پوری کوشش کی۔ یہ رویہ آج بھی موجود ہے۔
زندگی کی جس پختہ منزل پر کھڑا ہوں۔ وہاں صرف اور صرف ایک نظریہ مستند گردانتا ہوں اور وہ ہے ،ایک طاقتور، مضبوط اور توانا پاکستان۔ ایسا پاکستان جس کے اداروں کی دنیا میں مثال دی جائے۔ ایسا ملک جس کی علمی، اقتصادی اور فکری ترقی پورے کرہ ارض کو چکاچوند کر دے۔ یقین مانیے، اپنے ملک کی بہتری کے سوا کوئی اور نکتہ سوجھتا ہی نہیں ہے۔
اس لیے وہ نازک ترین نکات بیان کرنے کی جسارت کر رہا ہوں جسے آزادانہ طور پر لکھنا کم ازکم ہمارے سماج میں زیرعتاب آنے والی بات ہے۔ زندگی بہت محدود ہے۔ قیامت یہ بھی ہے کہ فکری زندگی تو اس سے بھی محدود تر ہے۔ لہٰذا بات کرنی اشد ضروری نظر آتا ہے۔
موجودہ حالات میں غزہ کے مسلمانوں پر اسرائیل نے قیامت برپا کر دی ہے۔ حماس نے تقریباً ڈیڑھ ماہ قبل اسرائیل پر اچانک حملہ کر کے حیران کن کام تو کردیا، اسرائیل کو جانی نقصان بھی پہنچایا، اسرائیلی اور دیگر مغربی ملکوں کے متعدد شہریوں کو یرغمال بھی بنا لیا لیکن اسرائیل کو قیامت خیز جنگ شروع کرنے کا موقع اور جواز بھی فراہم کردیا ہے ۔
اب غزہ تباہ ہوچکا ہے جبکہ فلسطینی برباد کردیے گئے۔ کوئی بتائے حماس بذات خود کدھر ہے؟ عام فلسطینی گاجر مولی کی طرح کاٹے جا رہے ہیں لیکن وہ قائدین جنہوں نے اس جنگ کو شروع کیا ، وہ غزہ سے باہر ہیں۔
نیویارک پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق حماس کی اعلیٰ ترین قیادت اسماعیل ہانیہ، خالد مشعل اور ابو مرذوق اپنے خاندانوں کے ہمراہ قطر میں ہیں، وہاں ہمارے جیسے ملکوں کی قیادت سے ملاقاتیں کررہے ہیں، فوٹو سیشنز ہورہے ہیں، میڈیا کوریج جاری ہے لیکن غزہ میں عام فلسطینیوں کے بچے شہید ہورہے ہیں، خواتین دربدر ہیں، بوڑھے والدین جوان اولادوں کی لاشیں اٹھا رہے ہیں ۔
پاکستان میں عوام کو مسلسل فکری بحران کا شکار کیا جارہاہے ۔ ہمارے شہروں کی سڑکوں پر چندہ مانگنے والوں کے کیمپ لگ چکے ہیں، لیکن وہ اپنی ذاتی دولت اس نیک کام کے لیے وقف نہیں کریں گے۔ تمام مسلمان ملک غزہ پر مظالم کی لفظی مذمت کر رہے ہیں ، امریکا اور یورپ کے ملکوں سے غزہ کے شہریوں کے لیے مالی مدد کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ اپنی دولت خرچ نہ کرنی پڑے ، جنگ کا ایندھن بننے کے لیے ہمارے جیسے ملکوں کے مسلمان حاضر ہیں، جنھیں تاریخ کا وہ شعور دیا ہی نہیں گیا جس کی بنیاد پر آج کی دنیا قائم ہے۔
حضور! اپنے ملک کی فکر پہلے کیجیے۔ پہلے پچیس کروڑ عوام کو پینے کا صاف پانی تو مہیا کر دیجیے، بعد کے حالات پھر دیکھے جائیں گے! مگر یہ کوئی بھی نہیں کرے گا! کوئی بھی نہیں۔
موجودہ دنیا کا ہر ملک اپنے شہریوں کی فلاح وبہبود کو اولین فریضہ گردانتا ہے۔ غور سے دیکھیے تو ترقی کرنے کے لیے ہر ملک کا راستہ دوسرے سے مختلف ہے۔ چین نے سوشلزم اور کیپٹلزم کے جس ہائبرڈ ماڈل کے ذریعے ترقی کی، وہ جرمنی سے بالکل متضاد ہے۔ امریکا نے سرمایہ دارانہ نظام کے جس اصول کو اپنایا، وہ روس سے بالکل مختلف ہے۔
دنیا کا کوئی ایک ملک اٹھا لیجیے، اگر وہ ترقی کی دوڑ میں آگے نکل رہا ہے تو اس کی اپنی مخصوص پالیسیاں اور منصوبہ بندی نظر آئے گی۔ مطلب یہ ہوا کہ آج کی دنیا میں ملکی مسائل کے حل کے لیے صرف ایک طرح کا پروگرام ممکن نہیں ہے۔ ہر ملک کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے مسائل کو اپنے طور پر حل کرنے کی ہرممکن کوشش کرے۔
داخلی اور خارجی استحکام حاصل کرے اور اپنے شہریوںکی بھرپور مدد کرے۔ہر ملک اپنے فیصلے صرف اور صرف اپنے قومی مفاد کے تحت کرتا ہے۔ قومی ریاستوں (Nation States) کا نظام مستحکم ہونے کے بعد، ماضی کے فلسفے متروک ہو چکے ہیں۔ اخلاقیات کے وہ قلعے جن پر پرانی عمارتیں قائم تھیں، مکمل طور پر ختم ہو چکی ہیں۔
جو قومیں یہ باریک نکتہ سمجھ چکی ہیں ان کا ریاستی اور سماجی ردعمل حددرجہ سادہ ہے۔ وہ اپنے مفاد کو دوسروں کے مفاد پر ترجیح دیتی ہیں۔ مگر ہمارے ملک میں عام لوگ، سیاسی قیادت اور حکومتیں اس اصول سے مبرا ہو کر سوچتی ہیں بلکہ اس نیشن اسٹیٹس کے قانون کے برعکس کام کرنا شروع کر دیتی ہیں۔
المیہ یہ بھی ہے کہ ان نقائص پر بات کرنا ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ وہ وہ تاویلیں تراشی گئی ہیں کہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ آسانی سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔ اپنے ملک کی مجموعی داخلی سوچ سے مختلف گزارشیں کرنا چاہتا ہوں۔
برصغیر میں ہم مسلمانوں کو ایسے ایسے مفروضوں کا شکار بنایا گیا ہے جس سے بحیثیت مسلم قوم ترقی کے سفر پر گامزن نہیں ہو پائے۔ہندوستان میں مسلمانوں کے جس روشن خیال قائد نے سب سے پہلے قدیم مفروضوں کو ہر سطح پر چیلنج کیا، وہ سرسید احمد خان تھے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ مسلمانوں نے جس شدت سے سرسید کی تضحیک کی، وہ بھی ہماری تاریخ کا ایک باب ہے۔آج پاکستان میں سر سید کے افکار کو تعلیمی نصاب کا حصہ نہیں بننے دیا گیا۔
سر سید کے نظریات پر بحث کرنا مشکل بنا دیا گیا ہے۔ دراصل متحدہ ہندوستان کے مسلمان تین چار سو سال سے جس ذہنی جمود کا شکار ہیں، وہ آج بھی اسی طرح موجود ہے۔ سرسید پر کافر ہونے کا فتویٰ بھی دیا گیا اور یہ بتانا مشکل نہیں ہے کہ یہ کافر اور مسلمان ہونے کی سند کون کون سے اکابر اور مقامی ادارے جاری کر رہے تھے۔ صاحب ایمان ہونے یا نہ ہونے کا فتویٰ آج بھی انھیں قوتوں کے پاس ہے ۔ برصغیر میں جس مسلمان لیڈر نے، اپنی قوم کو جگانے کی کوشش کی، وہ ان قوتوں کی جانب سے کافر ضرور قرار دیا گیا۔
یہ الگ بات ہے کہ انھیں قائدین کی حکمت عملی کے تحت آج ہم ایک آزاد ملک میں سانس لے رہے ہیں ورنہ معاملہ اگر ہمارے جذبات پسند لوگوں میں چلا جاتا تو شاید اب تک ہم دیوار میں چنوا دیے جاتے اور گلہ کرنے کی بھی اجازت نہ ہوتی۔ سرسید نے مسلم لڑکیوں کو انگریزی تعلیم دلوانی چاہیے۔ ان سے پہلے بچیوں کی تعلیم صرف دین کی چند معلومات تک محدود تھی۔ سرسید کا یہ اتنا بڑا احسان ہے جس کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔ ہمارے علماء اور مشائخ نے مسلمانوں کے مغربی تعلیم حاصل کرنے پر قدغن لگا رکھی تھی۔
یعنی وہ تعلیم جس سے ہمارے نوجوان برصغیر میں ترقی کر سکتے تھے، اس کو کافرانہ طرزعمل بتایا گیا تھا۔ یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ آج بھی یہ سوچ کسی نہ کسی طرز پر موجود ہے۔ عرض کروں گا کہ قائداعظم کے افکار سے سیاسی شکست کھانے والے افراد، چھلانگ لگا کر پاکستان آ گئے اور ڈھٹائی سے اس نئے ملک کی فکری تشکیل نو کرنے میں مصروف ہو گئے جس کے وجود میں آنے کو وہ ''گناہ'' کہتے تھے۔
ان مخصوص افراد نے ہمارے معاشرے کو ذہنی طور پر منتشر کر دیا ہے۔ نوجوان نسل تو ہر لحاظ سے کنفیوژ ہے کہ قدیم روایات کو جدت کیسے بخشی جائے۔ ویسے علامہ اقبال نے اپنی کتاب ''The Reconstruction of Religious Thought in Islam'' میں مذہب اور دنیاوی ترقی کے معاملہ پر حددرجہ سنجیدہ بحث فرمائی ہے۔ یہ کتاب انگریزی زبان میں لکھی گئی تھی اور اس کا علمی مغز علامہ کی شاعری سے بالکل متضاد اور منفرد ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ اس عظیم کتاب کو لکھنے کا علامہ کوبھی خمیازہ بھگتنا پڑا۔ وہ بھی کافر اور ملحد قرار دیے گئے اور ان کے دشمن بھی وہی عناصر تھے جنھیں سرسید کے نظریات سے بغض تھا۔ قصہ کوتاہ یہ کہ برصغیر میں جس نے بھی مسلمانوں کی ترقی کے لیے تگ ودو کی، اسے مسلمانوں ہی نے نشان عبرت بنانے کی پوری کوشش کی۔ یہ رویہ آج بھی موجود ہے۔
زندگی کی جس پختہ منزل پر کھڑا ہوں۔ وہاں صرف اور صرف ایک نظریہ مستند گردانتا ہوں اور وہ ہے ،ایک طاقتور، مضبوط اور توانا پاکستان۔ ایسا پاکستان جس کے اداروں کی دنیا میں مثال دی جائے۔ ایسا ملک جس کی علمی، اقتصادی اور فکری ترقی پورے کرہ ارض کو چکاچوند کر دے۔ یقین مانیے، اپنے ملک کی بہتری کے سوا کوئی اور نکتہ سوجھتا ہی نہیں ہے۔
اس لیے وہ نازک ترین نکات بیان کرنے کی جسارت کر رہا ہوں جسے آزادانہ طور پر لکھنا کم ازکم ہمارے سماج میں زیرعتاب آنے والی بات ہے۔ زندگی بہت محدود ہے۔ قیامت یہ بھی ہے کہ فکری زندگی تو اس سے بھی محدود تر ہے۔ لہٰذا بات کرنی اشد ضروری نظر آتا ہے۔
موجودہ حالات میں غزہ کے مسلمانوں پر اسرائیل نے قیامت برپا کر دی ہے۔ حماس نے تقریباً ڈیڑھ ماہ قبل اسرائیل پر اچانک حملہ کر کے حیران کن کام تو کردیا، اسرائیل کو جانی نقصان بھی پہنچایا، اسرائیلی اور دیگر مغربی ملکوں کے متعدد شہریوں کو یرغمال بھی بنا لیا لیکن اسرائیل کو قیامت خیز جنگ شروع کرنے کا موقع اور جواز بھی فراہم کردیا ہے ۔
اب غزہ تباہ ہوچکا ہے جبکہ فلسطینی برباد کردیے گئے۔ کوئی بتائے حماس بذات خود کدھر ہے؟ عام فلسطینی گاجر مولی کی طرح کاٹے جا رہے ہیں لیکن وہ قائدین جنہوں نے اس جنگ کو شروع کیا ، وہ غزہ سے باہر ہیں۔
نیویارک پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق حماس کی اعلیٰ ترین قیادت اسماعیل ہانیہ، خالد مشعل اور ابو مرذوق اپنے خاندانوں کے ہمراہ قطر میں ہیں، وہاں ہمارے جیسے ملکوں کی قیادت سے ملاقاتیں کررہے ہیں، فوٹو سیشنز ہورہے ہیں، میڈیا کوریج جاری ہے لیکن غزہ میں عام فلسطینیوں کے بچے شہید ہورہے ہیں، خواتین دربدر ہیں، بوڑھے والدین جوان اولادوں کی لاشیں اٹھا رہے ہیں ۔
پاکستان میں عوام کو مسلسل فکری بحران کا شکار کیا جارہاہے ۔ ہمارے شہروں کی سڑکوں پر چندہ مانگنے والوں کے کیمپ لگ چکے ہیں، لیکن وہ اپنی ذاتی دولت اس نیک کام کے لیے وقف نہیں کریں گے۔ تمام مسلمان ملک غزہ پر مظالم کی لفظی مذمت کر رہے ہیں ، امریکا اور یورپ کے ملکوں سے غزہ کے شہریوں کے لیے مالی مدد کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ اپنی دولت خرچ نہ کرنی پڑے ، جنگ کا ایندھن بننے کے لیے ہمارے جیسے ملکوں کے مسلمان حاضر ہیں، جنھیں تاریخ کا وہ شعور دیا ہی نہیں گیا جس کی بنیاد پر آج کی دنیا قائم ہے۔
حضور! اپنے ملک کی فکر پہلے کیجیے۔ پہلے پچیس کروڑ عوام کو پینے کا صاف پانی تو مہیا کر دیجیے، بعد کے حالات پھر دیکھے جائیں گے! مگر یہ کوئی بھی نہیں کرے گا! کوئی بھی نہیں۔