منشور کی آئینی حیثیت
یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو ایک حقیقی سیاسی جماعت ہی ہونا چاہیے
پروفیسر سلیم منصور خالد سیاسی حرکیات اور تاریخ پر گہری نگاہ رکھنے والے دانش ور ہیں۔ مسلم لیگ کی منشور کمیٹی بنی تو انھوں نے تبصرہ کیا کہ کیا مسلم لیگ اور کیا اس کی منشور کمیٹی؟۔'نواز شریف نہ کسی منشور پر یقین رکھتے ہیں اور نہ کسی کمیٹی پر۔ وہ خود منشور ہیں، خود ہی کمیٹی بلکہ خود ہی پاکستان ہیں'۔
ہماری سیاست میں برس ہا برس کی بدگمانیوں کے بعد پیدا ہونے والی تقسیم نے کسی جماعت کی کسی سیاسی کوشش خواہ وہ اچھی ہی کیوں نہ رہی ہو، اسے کم و بیش اسی انداز میں دیکھا جاتا ہے۔
پھر جب یہ خبر سامنے آئی کہ کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر عرفان صدیقی صاحب نے زندگی کے تیس بتیس اہم ترین امور کے بارے میں ذیلی کمیٹیاں قائم کر دی ہیں اور انھیں ہدایت کی ہے کہ وہ متعلقہ شعبوں کے لوگوں اور اہم اسٹیک ہولڈرز سے وسیع پیمانے پر مشاورت کر کے اصلاحات اور قانون سازی سمیت دیگر اقدامات کے لیے تجاویز تیار کریں تو پروفیسر صاحب کی رائے میں بھی تبدیلی آئی اور انھوں نے تسلیم کیا کہ یہ تو واقعی ایک سنجیدہ کوشش ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ تجویز بھی پیش کی کہ میاں نواز شریف اگر واقعی اس معاملے میں اتنے سنجیدہ ہیں تو وہ اپنے سیاسی گروہ کو گروہ سے نیم پارٹی بنائیں اور بالآخر اسے مکمل پارٹی میں تبدیل کر دیں۔ اپنے اس تبصرے کی بنیاد پر انھوں نے یہ بیان کیا کہ مسلم لیگ ن کے بارے میں ان کی رائے جو ہے سو ہے، یہ بات خود پارٹی کے اہم لوگ بلکہ اراکین پارلیمنٹ نجی محفلوں میں کرتے ہیں کہ دراصل پارٹی کا قائد ہی اصل میں پارٹی ہوتا ہے۔
مسلم لیگ ن کے لوگ نجی محفلوں میں جیسی باتیں کرتے ہیں ،کیا ایسی باتیں دیگر سیاسی جماعتوں حتیٰ کہ جماعت اسلامی جیسی سنجیدہ اور بے انتہا منظم جماعت کے بارے میں خود اس کے وابستگان نہیں کرتے؟ اس موضوع پر بات بڑھائی جائے تو سچ یہ کہ وہ ایک مناظرے میں بدل جائے گی۔
البتہ یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو ایک حقیقی سیاسی جماعت ہی ہونا چاہیے اور کوئی جماعت کوئی سنجیدہ اور مفید مطلب قومی سرگرمی کا آغاز کرے تو پروفیسر سلیم منصور خالد کی طرح کھلے دل سے اس کا اعتراف بھی کرنا چاہیے۔
جہاں تک کسی سیاسی جماعت کے ایک فرد یا چند افراد میں سمٹ جانے کا معاملہ ہے، اس کا تعلق پاکستان کے خاص حالات سے ہے۔ آسانی کے لیے چند مثالیں کافی ہونی چاہئیں۔ بھٹو صاحب مشکل میں آئے تو یہ صرف محترمہ نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو ہی تھیں جنھوں نے پیپلز پارٹی کو زندہ رکھا ورنہ بھٹو صاحب نے جنھیں اپنا جانشین بنایا تھا، وہ تو پارٹی بیچ چکے تھے۔ مسلم لیگ ن کا تجربہ بھی کم و بیش ایسا ہی ہے۔
بات ن لیگ کے منشور سے شروع ہوئی تھی۔ نہیں معلوم کہ ماضی میں انتخابی مواقع پر اس جماعت نے اپنا انتخابی منشور کیسے تشکیل دیا تھا اور جماعت اسلامی جیسی نظریاتی جماعتوں سمیت ملک کی دیگر سیاسی جماعتیں کیسے منشور بناتی رہی ہیں لیکن حیرت ہوتی ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد بھی ن لیگ کے سوا کسی اور سیاسی جماعت کی طرف سے اب تک ایسی کسی سرگرمی کے شروع ہونے کی اطلاع نہیں ہے۔
اگر اب تک ایسا نہیں ہوا ہے تو بہ ظاہر یہی سمجھا جا سکتا ہے کہ سیاسی جماعتیں اس معاملے کو ایک رسمی کارروائی سمجھتی ہیں جیسے ہی انتخابی سرگرمیاں زور پکڑیں گی، یہ جماعتیں اپنے پرانے منشور نکال کر ان کی کچھ جھاڑ پھٹک کریں گی اور اس دعوے کے ساتھ قوم کی خدمت میں پیش کر دیں گی کہ قیام پاکستان سے اب تک حالات چوں کہ ایک جیسے ہیں، اس لیے ہمارا منشور بھی وہی ہے جو اب تک پیش کیا جاتا رہا ہے۔
مکرر عرض ہے کہ اس کا مطلب یہی ہے کہ کسی جمہوری معاشرے میں منشور کی جو اہمیت ہے، اس کا اندازہ ہمارے یہاں نہیں کیا جاتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ منشور ایک ایسی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے جس کا تقاضا آئین کرتا ہے ۔ گویا یہ ایک ایسی دستاویز ہے جو آئین کی منشا کو پورا کرتی ہے۔ اس اعتبار سے یہ ایک آئینی دستاویز ہے۔
کسی سیاسی جماعت کا منشور آئینی حیثیت کیسے رکھتا ہے؟ اس سوال کا جواب آئین فراہم کرتا ہے۔ آئین کہتا ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت کسی منشور کے تحت انتخابات جیت کر آتی ہے اور اس منشور کے مطابق وہ آئین میں کچھ بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کی خواہش مند ہے تو یہ کام سادہ طریقے سے آئین میں ترمیم کے ذریعے نہیں ہو گا بلکہ اس کے لیے ایک عوامی ریفرنڈم منعقد کرانا پڑے گا لیکن یہ ریفرنڈم اسی صورت میں ممکن ہو سکے گا اگر وہ بات منشور میں درج ہو گی۔
مثال کے طور پرکسی سیاسی جماعت کے دور حکومت میں یہ بات چلی تھی کہ پاکستان کے پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام حکومت سے بدلا جائے۔ یہ کام صرف آئینی ترمیم کے ذریعے ہو جائے گا دوسری صورت میں اسے ریفرنڈم کرانا پڑے گا۔
اس بنیاد پر یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہی جا سکتی ہے کہ منشور ایک آئینی دستاویز ہے یا کم از کم آئین کی منشا پوری کرنے والی دستاویز ہے۔ اس پس منظر میں ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں بھی اس کی اہمیت کو سمجھیں اور عوام بھی اسے کاغذ کا ایک ٹکڑا سمجھنے کی بجائے اس پر توجہ دیں اور اپنے ووٹ کا حق استعمال کرتے وقت انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں کے منشور کو پڑھنے اور پڑھ کر سمجھنے کے بعد فیصلہ کریں۔
منشور کی اس اہمیت کو سمجھنے کے بعد یہ سمجھنا بھی آسان ہو جاتا ہے کہ مسلم لیگ ن نے سینیٹر عرفان صدیقی جیسے صاحب علم کو منشور کمیٹی کا سربراہ کیوں بنایا ہے۔ شاید عرفان صدیقی ہی ایسا کر سکتے تھے کہ ایک عمومی سیاسی رویے کے مطابق وہ اس عمل کو ون مین شو بنانے کے بجائے صحیح معنوں میں عوامی مسائل اور امنگوں کا ترجمان بنانے کے لیے زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے پارٹی راہنماؤں اور کارکنوں کو اس میں جگہ دے سکیں اور زندگی کے تمام طبقات کے نمائندوں سے حتی المقدور ذاتی طور پر اور ان کمیٹیوں کے ذریعے رابطہ کر کے رائے حاصل کر سکیں۔
عرفان صدیقی صاحب نے منشور میں عوامی امنگوں کی ترجمانی کے لیے کن کن شعبوں کی کمیٹیاں قائم کی ہیں، ان کے موضوعات کی تفصیل جان کر قومی امور اور حالات کی نبض پر ان کی گرفت کا اندازہ ہوتاہے۔ ان موضوعات میں آئین کی بالادستی دستی، آئینی اصلاحات ، اقتصادی امور اور غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ، قدرتی وسائل ، صنعت و تجارت ، خارجہ امور، احتساب ، کرپشن کا خاتمہ، سمندر پار پاکستانی، خارجہ امور، تعلیم، انفارمیشن ٹیکنالوجی ، زراعت، نوجوانوں اور محنت کشوں کے مسائل ، توانائی کے وسائل میں اضافہ اور اسے سستا کرنے کے طریقوں سمیت بہت سے دیگر موضوعات شامل ہیں ۔
میاں نواز شریف نے مینار پاکستان پر اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ان کے دل میں کسی کے لیے کوئی خفگی نہیں سوائے اس خواہش کہ ان کے ہم وطن خوش حال ہو جائیں۔
عرفان صدیقی صاحب اگر میاں صاحب کی اسی تمنا کو پیش نظر رکھتے ہوئے منشور کی تیاری پر توجہ دے رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ یہ جماعت اس بار بہت سنجیدہ ہے۔ میاں صاحب نے اپنے خطاب میں بیٹھے ہیں ہم تہیہ طوفاں کیے ہوئے تو کچھ اور معنوں میں کہا ہو گا لیکن جن خطوط پر منشور بن رہا ہے، وہ بھی ایک طوفان ہی ثابت ہو گا، ایک ایسا طوفان جو تمام کاٹھ کباڑ کا صفایا کر کے فضا کو شفاف، صحت مند اور خوبصورت بنا دیتا ہے۔
ہماری سیاست میں برس ہا برس کی بدگمانیوں کے بعد پیدا ہونے والی تقسیم نے کسی جماعت کی کسی سیاسی کوشش خواہ وہ اچھی ہی کیوں نہ رہی ہو، اسے کم و بیش اسی انداز میں دیکھا جاتا ہے۔
پھر جب یہ خبر سامنے آئی کہ کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر عرفان صدیقی صاحب نے زندگی کے تیس بتیس اہم ترین امور کے بارے میں ذیلی کمیٹیاں قائم کر دی ہیں اور انھیں ہدایت کی ہے کہ وہ متعلقہ شعبوں کے لوگوں اور اہم اسٹیک ہولڈرز سے وسیع پیمانے پر مشاورت کر کے اصلاحات اور قانون سازی سمیت دیگر اقدامات کے لیے تجاویز تیار کریں تو پروفیسر صاحب کی رائے میں بھی تبدیلی آئی اور انھوں نے تسلیم کیا کہ یہ تو واقعی ایک سنجیدہ کوشش ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ تجویز بھی پیش کی کہ میاں نواز شریف اگر واقعی اس معاملے میں اتنے سنجیدہ ہیں تو وہ اپنے سیاسی گروہ کو گروہ سے نیم پارٹی بنائیں اور بالآخر اسے مکمل پارٹی میں تبدیل کر دیں۔ اپنے اس تبصرے کی بنیاد پر انھوں نے یہ بیان کیا کہ مسلم لیگ ن کے بارے میں ان کی رائے جو ہے سو ہے، یہ بات خود پارٹی کے اہم لوگ بلکہ اراکین پارلیمنٹ نجی محفلوں میں کرتے ہیں کہ دراصل پارٹی کا قائد ہی اصل میں پارٹی ہوتا ہے۔
مسلم لیگ ن کے لوگ نجی محفلوں میں جیسی باتیں کرتے ہیں ،کیا ایسی باتیں دیگر سیاسی جماعتوں حتیٰ کہ جماعت اسلامی جیسی سنجیدہ اور بے انتہا منظم جماعت کے بارے میں خود اس کے وابستگان نہیں کرتے؟ اس موضوع پر بات بڑھائی جائے تو سچ یہ کہ وہ ایک مناظرے میں بدل جائے گی۔
البتہ یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو ایک حقیقی سیاسی جماعت ہی ہونا چاہیے اور کوئی جماعت کوئی سنجیدہ اور مفید مطلب قومی سرگرمی کا آغاز کرے تو پروفیسر سلیم منصور خالد کی طرح کھلے دل سے اس کا اعتراف بھی کرنا چاہیے۔
جہاں تک کسی سیاسی جماعت کے ایک فرد یا چند افراد میں سمٹ جانے کا معاملہ ہے، اس کا تعلق پاکستان کے خاص حالات سے ہے۔ آسانی کے لیے چند مثالیں کافی ہونی چاہئیں۔ بھٹو صاحب مشکل میں آئے تو یہ صرف محترمہ نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو ہی تھیں جنھوں نے پیپلز پارٹی کو زندہ رکھا ورنہ بھٹو صاحب نے جنھیں اپنا جانشین بنایا تھا، وہ تو پارٹی بیچ چکے تھے۔ مسلم لیگ ن کا تجربہ بھی کم و بیش ایسا ہی ہے۔
بات ن لیگ کے منشور سے شروع ہوئی تھی۔ نہیں معلوم کہ ماضی میں انتخابی مواقع پر اس جماعت نے اپنا انتخابی منشور کیسے تشکیل دیا تھا اور جماعت اسلامی جیسی نظریاتی جماعتوں سمیت ملک کی دیگر سیاسی جماعتیں کیسے منشور بناتی رہی ہیں لیکن حیرت ہوتی ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد بھی ن لیگ کے سوا کسی اور سیاسی جماعت کی طرف سے اب تک ایسی کسی سرگرمی کے شروع ہونے کی اطلاع نہیں ہے۔
اگر اب تک ایسا نہیں ہوا ہے تو بہ ظاہر یہی سمجھا جا سکتا ہے کہ سیاسی جماعتیں اس معاملے کو ایک رسمی کارروائی سمجھتی ہیں جیسے ہی انتخابی سرگرمیاں زور پکڑیں گی، یہ جماعتیں اپنے پرانے منشور نکال کر ان کی کچھ جھاڑ پھٹک کریں گی اور اس دعوے کے ساتھ قوم کی خدمت میں پیش کر دیں گی کہ قیام پاکستان سے اب تک حالات چوں کہ ایک جیسے ہیں، اس لیے ہمارا منشور بھی وہی ہے جو اب تک پیش کیا جاتا رہا ہے۔
مکرر عرض ہے کہ اس کا مطلب یہی ہے کہ کسی جمہوری معاشرے میں منشور کی جو اہمیت ہے، اس کا اندازہ ہمارے یہاں نہیں کیا جاتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ منشور ایک ایسی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے جس کا تقاضا آئین کرتا ہے ۔ گویا یہ ایک ایسی دستاویز ہے جو آئین کی منشا کو پورا کرتی ہے۔ اس اعتبار سے یہ ایک آئینی دستاویز ہے۔
کسی سیاسی جماعت کا منشور آئینی حیثیت کیسے رکھتا ہے؟ اس سوال کا جواب آئین فراہم کرتا ہے۔ آئین کہتا ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت کسی منشور کے تحت انتخابات جیت کر آتی ہے اور اس منشور کے مطابق وہ آئین میں کچھ بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کی خواہش مند ہے تو یہ کام سادہ طریقے سے آئین میں ترمیم کے ذریعے نہیں ہو گا بلکہ اس کے لیے ایک عوامی ریفرنڈم منعقد کرانا پڑے گا لیکن یہ ریفرنڈم اسی صورت میں ممکن ہو سکے گا اگر وہ بات منشور میں درج ہو گی۔
مثال کے طور پرکسی سیاسی جماعت کے دور حکومت میں یہ بات چلی تھی کہ پاکستان کے پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام حکومت سے بدلا جائے۔ یہ کام صرف آئینی ترمیم کے ذریعے ہو جائے گا دوسری صورت میں اسے ریفرنڈم کرانا پڑے گا۔
اس بنیاد پر یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہی جا سکتی ہے کہ منشور ایک آئینی دستاویز ہے یا کم از کم آئین کی منشا پوری کرنے والی دستاویز ہے۔ اس پس منظر میں ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں بھی اس کی اہمیت کو سمجھیں اور عوام بھی اسے کاغذ کا ایک ٹکڑا سمجھنے کی بجائے اس پر توجہ دیں اور اپنے ووٹ کا حق استعمال کرتے وقت انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں کے منشور کو پڑھنے اور پڑھ کر سمجھنے کے بعد فیصلہ کریں۔
منشور کی اس اہمیت کو سمجھنے کے بعد یہ سمجھنا بھی آسان ہو جاتا ہے کہ مسلم لیگ ن نے سینیٹر عرفان صدیقی جیسے صاحب علم کو منشور کمیٹی کا سربراہ کیوں بنایا ہے۔ شاید عرفان صدیقی ہی ایسا کر سکتے تھے کہ ایک عمومی سیاسی رویے کے مطابق وہ اس عمل کو ون مین شو بنانے کے بجائے صحیح معنوں میں عوامی مسائل اور امنگوں کا ترجمان بنانے کے لیے زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے پارٹی راہنماؤں اور کارکنوں کو اس میں جگہ دے سکیں اور زندگی کے تمام طبقات کے نمائندوں سے حتی المقدور ذاتی طور پر اور ان کمیٹیوں کے ذریعے رابطہ کر کے رائے حاصل کر سکیں۔
عرفان صدیقی صاحب نے منشور میں عوامی امنگوں کی ترجمانی کے لیے کن کن شعبوں کی کمیٹیاں قائم کی ہیں، ان کے موضوعات کی تفصیل جان کر قومی امور اور حالات کی نبض پر ان کی گرفت کا اندازہ ہوتاہے۔ ان موضوعات میں آئین کی بالادستی دستی، آئینی اصلاحات ، اقتصادی امور اور غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ، قدرتی وسائل ، صنعت و تجارت ، خارجہ امور، احتساب ، کرپشن کا خاتمہ، سمندر پار پاکستانی، خارجہ امور، تعلیم، انفارمیشن ٹیکنالوجی ، زراعت، نوجوانوں اور محنت کشوں کے مسائل ، توانائی کے وسائل میں اضافہ اور اسے سستا کرنے کے طریقوں سمیت بہت سے دیگر موضوعات شامل ہیں ۔
میاں نواز شریف نے مینار پاکستان پر اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ان کے دل میں کسی کے لیے کوئی خفگی نہیں سوائے اس خواہش کہ ان کے ہم وطن خوش حال ہو جائیں۔
عرفان صدیقی صاحب اگر میاں صاحب کی اسی تمنا کو پیش نظر رکھتے ہوئے منشور کی تیاری پر توجہ دے رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ یہ جماعت اس بار بہت سنجیدہ ہے۔ میاں صاحب نے اپنے خطاب میں بیٹھے ہیں ہم تہیہ طوفاں کیے ہوئے تو کچھ اور معنوں میں کہا ہو گا لیکن جن خطوط پر منشور بن رہا ہے، وہ بھی ایک طوفان ہی ثابت ہو گا، ایک ایسا طوفان جو تمام کاٹھ کباڑ کا صفایا کر کے فضا کو شفاف، صحت مند اور خوبصورت بنا دیتا ہے۔