اب سیاسی استحکام کا خواب
اکثر سیاسی پارٹیوں کے خیال میں 8 فروری کو منعقد ہونے والے عام انتخابات سے ملک میں سیاسی استحکام آئے گا
پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی سمیت اکثر سیاسی پارٹیوں کے خیال میں 8 فروری کو منعقد ہونے والے عام انتخابات سے ملک میں سیاسی استحکام آئے گا جب کہ بعض سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ عام انتخابات سے ملک کو سیاسی استحکام نصیب نہیں ہوگا بلکہ سیاسی انتشار مزید بڑھے گا اور سیاسی پارٹیوں میں ایک دوسرے کے خلاف جو نفرت ہے وہ بڑھے گی۔
ملک میں سیاسی مخالفت کو سیاسی دشمنی میں تبدیل کرنے کا آغاز 2011 میں پی ٹی آئی کے چیئرمین نے کیا تھا جب کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) جو 1999 تک دو دو بار اقتدار میں رہی تھیں۔
ان دونوں نے ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات ضرور لگائے تھے اور اپنے اپنے اقتدار میں ایک دوسرے کے خلاف انتقامی کارروائیاں بھی کی تھیں مگر دونوں پارٹیوں کی مخالفت سیاسی مخالفت تک محدود تھی ان کی سیاست ذاتیات تک نہیں آئی تھی مگر 1996 میں پی ٹی آئی بنانے والے اس کے چیئرمین پندرہ سالوں تک کوئی کامیابی حاصل نہ کر سکے تھے۔
انھوں نے چور دروازے سے اقتدار میں آنے کی بڑی کوشش کی تھی اور جمہوریت کے اس نام نہاد سیاستدان نے جنرل پرویز مشرف کو وردی میں صدر بنوانے کے لیے صدارتی ریفرنڈم میں ان کے چیف پولنگ ایجنٹ کا کردار اس لیے ادا کیا تھا کہ جنرل پرویز مشرف صدر بن کر جو انتخابات کرائیں گے اس میں وہ انھیں وزیر اعظم بنا دیں گے۔
چیئرمین پی ٹی آئی صرف خود ہی میانوالی سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہو پائے تھے اور ان کی پارٹی بری طرح ناکام ہوئی تھی۔ جنرل پرویز ایک گھاگ آدمی تھے، اس لیے انھوں نے چیئرمین پی ٹی آئی پر اعتماد نہیں کیا اور مسلم لیگ قائد اعظم نامی کنگ پارٹی بنوائی جس کا صدر مسلم لیگ (ن) کے سابق گورنر پنجاب میاں محمد اظہر کو بنوایا جو ایک ناکام سیاستدان ثابت ہوئے اور صدر (ق) لیگ ہونے کے باوجود 2002 میں اپنے آبائی شہر لاہور سے قومی اسمبلی کا رکن منتخب نہ ہو سکے تھے۔
جنرل مشرف بھی نہیں چاہتے تھے کہ میاں اظہر منتخب ہوں اور وزیر اعظم کے امیدوار بنیں انھیں روکنے کے لیے انھیں ہروایا گیا اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگی خاندان کے میر ظفر اللہ جمالی کو وزیر اعظم بنوانے کے لیے جنرل پرویز کو راضی کیا گیا اور چیئرمین پی ٹی آئی وزیر اعظم نہ بنائے جانے پر جنرل پرویز اور چوہدریوں سے اس قدر خفا ہوئے کہ انھوں نے مولانا فضل الرحمن کو وزیر اعظم کا ووٹ دیا ،مسلم لیگ (ق) کے امیدوار ظفر اللہ جمالی کو ووٹ نہیں دیا مگر ظفراللہ جمالی صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے وزیر اعظم منتخب ہو پائے تھے اور چوہدری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنائے گئے تھے۔
وزیر اعظم جمالی صدر جنرل پرویز کے بہت وفادار تھے اور صدر کو اپنا باس قرار دیتے تھے مگر نہ جانے کیوں جنرل پرویز ان سے مطمئن نہیں تھے اور کچھ عرصہ بعد ظفراللہ جمالی سے استعفیٰ لے کر دو ماہ کے لیے چوہدری شجاعت وزیر بنائے گئے اور جنرل پرویز نے ملک اور ملکی سیاست سے تعلق نہ رکھنے والے شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنایا جو جنرل پرویز کے انتہائی قریب تھے اس لیے 2007 تک جنرل پرویز کے قابل اعتماد وزیر اعظم رہے۔
چوہدری پرویز الٰہی نے بھی وفاداری نبھائی اور پرویز مشرف کو وردی میں دس بار صدر منتخب کرانے کا اعلان کیا تھا مگر جنرل مشرف کا پیمانہ وفاداری مختلف تھا۔ انھوں نے چیئرمین پی ٹی آئی کو نظرانداز رکھا اور چوہدری پرویز الٰہی کے وفادارانہ کردار کے باوجود وہ مسلم لیگ (ق) سے مطمئن نہیں تھے اور انھوں نے 2007 میں یو اے ای جا کر بے نظیر بھٹو سے ملاقات کی تھی اور وہ چاہتے تھے کہ 2007 کے انتخابات میں بے نظیر اگر وزیر اعظم بنتی ہیں تو انھیں (جنرل مشرف) بھی صدر منتخب کرائیں مگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔
بے نظیر تیسری بار وزیر اعظم بن سکیں نہ جنرل پرویز صدر رہ سکے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد (ق) لیگ ہار گئی اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے اکثریت حاصل کرکے حکومت بنائی اور پی ٹی آئی نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔
پی ٹی آئی کی اس وقت اگرچہ کوئی سیاسی حیثیت نہیں تھی اور اس نے بے نظیر بھٹو کے قتل کی بنیاد پر (ن) لیگ سمیت بعض سیاسی پارٹیوں کو الیکشن کے بائیکاٹ پر آمادہ کیا تھا تاکہ ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہو مگر آصف زرداری الیکشن کے بائیکاٹ کے خلاف تھے اور انھوں نے میاں نواز شریف کو راضی کر لیا کہ وہ پی ٹی آئی کی باتوں میں نہ آئیں اور 2008 کے انتخابات میں حصہ لے جس پر (ن) لیگ نے بھی الیکشن میں حصہ لیا جس سے چیئرمین پی ٹی آئی کا ملک میں سیاسی عدم استحکام کا منصوبہ ناکام ہوا۔
پی پی اور (ن) لیگ نے ملک میں پہلی بار مل کر حکومت بنائی جو اگرچہ ججز بحالی کے مسئلے پر چند ماہ ہی چل سکی مگر وفاق میں پی پی اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں نے اپنی اپنی مدت پوری کی اور ملک میں عدم استحکام پیدا نہ کیا جاسکا جو چیئرمین پی ٹی آئی کی مرضی کے خلاف تھا اور مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے اپنے لندن معاہدے کے تحت باہمی مفاہمت برقرار رکھی اور 2013 کے عام انتخابات میں نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے جن کی حکومت کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی نے ملک سے باہر رہنے اور ملک میں سیاسی انتشار بڑھانے والے اپنے سیاسی کزن سے مل کر اسلام آباد میں 126دن کا بے مقصد دھرنا دے کر ملک میں سیاسی عدم اعتماد پیدا کرنے کی جو کوشش کی تھی اسے ناکام بنانے میں پیپلز پارٹی نے (ن) لیگ حکومت کا مکمل ساتھ دیا تھا جس پر چیئرمین پی ٹی آئی دونوں بڑی جماعتوں کے خلاف چلے آ رہے ہیں۔
پی ٹی آئی حکومت میں اس کے وزیر اعظم نے بڑی پارٹیوں کی پیش کش کے باوجود ملک میں سیاسی استحکام پیدا نہیں ہونے دیا اور اپنی برطرفی کے بعد سے وہ ملک میں سیاسی استحکام نہیں بلکہ صرف اقتدار چاہتے ہیں۔
انھوں نے اپنی آئینی برطرفی قبول نہیں کی جس کی وجہ سے ملک میں سیاسی استحکام ختم ہو چکا اور پی ٹی آئی کی سیاست ذاتی دشمنی میں تبدیل ہو چکی جس نے اسے تنہا کر دیا ہے اگر ایسے حالات میں انتخابات ہوئے تو ملک میں سیاسی استحکام کبھی نہیں آ سکے گا۔ سیاسی انتشار مزید بڑھے گا جس سے اگر غیر آئینی اقدام ہوا تو شاید بعد میں سیاسی قوتوں کو سیاسی استحکام کی ضرورت پڑ جائے۔
ملک میں سیاسی مخالفت کو سیاسی دشمنی میں تبدیل کرنے کا آغاز 2011 میں پی ٹی آئی کے چیئرمین نے کیا تھا جب کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) جو 1999 تک دو دو بار اقتدار میں رہی تھیں۔
ان دونوں نے ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات ضرور لگائے تھے اور اپنے اپنے اقتدار میں ایک دوسرے کے خلاف انتقامی کارروائیاں بھی کی تھیں مگر دونوں پارٹیوں کی مخالفت سیاسی مخالفت تک محدود تھی ان کی سیاست ذاتیات تک نہیں آئی تھی مگر 1996 میں پی ٹی آئی بنانے والے اس کے چیئرمین پندرہ سالوں تک کوئی کامیابی حاصل نہ کر سکے تھے۔
انھوں نے چور دروازے سے اقتدار میں آنے کی بڑی کوشش کی تھی اور جمہوریت کے اس نام نہاد سیاستدان نے جنرل پرویز مشرف کو وردی میں صدر بنوانے کے لیے صدارتی ریفرنڈم میں ان کے چیف پولنگ ایجنٹ کا کردار اس لیے ادا کیا تھا کہ جنرل پرویز مشرف صدر بن کر جو انتخابات کرائیں گے اس میں وہ انھیں وزیر اعظم بنا دیں گے۔
چیئرمین پی ٹی آئی صرف خود ہی میانوالی سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہو پائے تھے اور ان کی پارٹی بری طرح ناکام ہوئی تھی۔ جنرل پرویز ایک گھاگ آدمی تھے، اس لیے انھوں نے چیئرمین پی ٹی آئی پر اعتماد نہیں کیا اور مسلم لیگ قائد اعظم نامی کنگ پارٹی بنوائی جس کا صدر مسلم لیگ (ن) کے سابق گورنر پنجاب میاں محمد اظہر کو بنوایا جو ایک ناکام سیاستدان ثابت ہوئے اور صدر (ق) لیگ ہونے کے باوجود 2002 میں اپنے آبائی شہر لاہور سے قومی اسمبلی کا رکن منتخب نہ ہو سکے تھے۔
جنرل مشرف بھی نہیں چاہتے تھے کہ میاں اظہر منتخب ہوں اور وزیر اعظم کے امیدوار بنیں انھیں روکنے کے لیے انھیں ہروایا گیا اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگی خاندان کے میر ظفر اللہ جمالی کو وزیر اعظم بنوانے کے لیے جنرل پرویز کو راضی کیا گیا اور چیئرمین پی ٹی آئی وزیر اعظم نہ بنائے جانے پر جنرل پرویز اور چوہدریوں سے اس قدر خفا ہوئے کہ انھوں نے مولانا فضل الرحمن کو وزیر اعظم کا ووٹ دیا ،مسلم لیگ (ق) کے امیدوار ظفر اللہ جمالی کو ووٹ نہیں دیا مگر ظفراللہ جمالی صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے وزیر اعظم منتخب ہو پائے تھے اور چوہدری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنائے گئے تھے۔
وزیر اعظم جمالی صدر جنرل پرویز کے بہت وفادار تھے اور صدر کو اپنا باس قرار دیتے تھے مگر نہ جانے کیوں جنرل پرویز ان سے مطمئن نہیں تھے اور کچھ عرصہ بعد ظفراللہ جمالی سے استعفیٰ لے کر دو ماہ کے لیے چوہدری شجاعت وزیر بنائے گئے اور جنرل پرویز نے ملک اور ملکی سیاست سے تعلق نہ رکھنے والے شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنایا جو جنرل پرویز کے انتہائی قریب تھے اس لیے 2007 تک جنرل پرویز کے قابل اعتماد وزیر اعظم رہے۔
چوہدری پرویز الٰہی نے بھی وفاداری نبھائی اور پرویز مشرف کو وردی میں دس بار صدر منتخب کرانے کا اعلان کیا تھا مگر جنرل مشرف کا پیمانہ وفاداری مختلف تھا۔ انھوں نے چیئرمین پی ٹی آئی کو نظرانداز رکھا اور چوہدری پرویز الٰہی کے وفادارانہ کردار کے باوجود وہ مسلم لیگ (ق) سے مطمئن نہیں تھے اور انھوں نے 2007 میں یو اے ای جا کر بے نظیر بھٹو سے ملاقات کی تھی اور وہ چاہتے تھے کہ 2007 کے انتخابات میں بے نظیر اگر وزیر اعظم بنتی ہیں تو انھیں (جنرل مشرف) بھی صدر منتخب کرائیں مگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔
بے نظیر تیسری بار وزیر اعظم بن سکیں نہ جنرل پرویز صدر رہ سکے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد (ق) لیگ ہار گئی اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے اکثریت حاصل کرکے حکومت بنائی اور پی ٹی آئی نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔
پی ٹی آئی کی اس وقت اگرچہ کوئی سیاسی حیثیت نہیں تھی اور اس نے بے نظیر بھٹو کے قتل کی بنیاد پر (ن) لیگ سمیت بعض سیاسی پارٹیوں کو الیکشن کے بائیکاٹ پر آمادہ کیا تھا تاکہ ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہو مگر آصف زرداری الیکشن کے بائیکاٹ کے خلاف تھے اور انھوں نے میاں نواز شریف کو راضی کر لیا کہ وہ پی ٹی آئی کی باتوں میں نہ آئیں اور 2008 کے انتخابات میں حصہ لے جس پر (ن) لیگ نے بھی الیکشن میں حصہ لیا جس سے چیئرمین پی ٹی آئی کا ملک میں سیاسی عدم استحکام کا منصوبہ ناکام ہوا۔
پی پی اور (ن) لیگ نے ملک میں پہلی بار مل کر حکومت بنائی جو اگرچہ ججز بحالی کے مسئلے پر چند ماہ ہی چل سکی مگر وفاق میں پی پی اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں نے اپنی اپنی مدت پوری کی اور ملک میں عدم استحکام پیدا نہ کیا جاسکا جو چیئرمین پی ٹی آئی کی مرضی کے خلاف تھا اور مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے اپنے لندن معاہدے کے تحت باہمی مفاہمت برقرار رکھی اور 2013 کے عام انتخابات میں نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے جن کی حکومت کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی نے ملک سے باہر رہنے اور ملک میں سیاسی انتشار بڑھانے والے اپنے سیاسی کزن سے مل کر اسلام آباد میں 126دن کا بے مقصد دھرنا دے کر ملک میں سیاسی عدم اعتماد پیدا کرنے کی جو کوشش کی تھی اسے ناکام بنانے میں پیپلز پارٹی نے (ن) لیگ حکومت کا مکمل ساتھ دیا تھا جس پر چیئرمین پی ٹی آئی دونوں بڑی جماعتوں کے خلاف چلے آ رہے ہیں۔
پی ٹی آئی حکومت میں اس کے وزیر اعظم نے بڑی پارٹیوں کی پیش کش کے باوجود ملک میں سیاسی استحکام پیدا نہیں ہونے دیا اور اپنی برطرفی کے بعد سے وہ ملک میں سیاسی استحکام نہیں بلکہ صرف اقتدار چاہتے ہیں۔
انھوں نے اپنی آئینی برطرفی قبول نہیں کی جس کی وجہ سے ملک میں سیاسی استحکام ختم ہو چکا اور پی ٹی آئی کی سیاست ذاتی دشمنی میں تبدیل ہو چکی جس نے اسے تنہا کر دیا ہے اگر ایسے حالات میں انتخابات ہوئے تو ملک میں سیاسی استحکام کبھی نہیں آ سکے گا۔ سیاسی انتشار مزید بڑھے گا جس سے اگر غیر آئینی اقدام ہوا تو شاید بعد میں سیاسی قوتوں کو سیاسی استحکام کی ضرورت پڑ جائے۔