کانگریس کا مستقبل

اپنی پارٹی کے منتخب نمایندوں کے سامنے مودی نے جس اعتماد بھرے لہجے میں تقریر کی ہے اس سے تو ایسے لگتا ہے ...


Kuldeep Nayar May 23, 2014

یہ پہلا موقع نہیں کہ کانگریس کو اتنی بری شکست ہوئی ہے۔ لوک سبھا کی 543 نشستوں میں سے وہ محض 44 حاصل کر پائی۔اسے کم و بیش ویسی ہی ہزیمت ہوئی ہے جس طرح 1977ء میں ایمرجنسی کے بعد ہونے والے انتخابات میں ہوئی تھی۔ مسز اندرا گاندھی اور ان کے صاحبزادے سنجے گاندھی بھی شکست کھا گئے تھے تاہم تین جنوبی ریاستیں آندھرا پردیش' کرناٹک اور کیرالہ کانگریس کے پاس ہی رہیں۔ اس کی مجموعی نشستوں کی تعداد بھی ڈیڑھ سو کے لگ بھگ تھی۔

یہ شکست تو ضرور تھی مگر اس طرح کی تباہ کن نہیں تھی جیسی اب ہوئی ہے۔لیکن جنتا پارٹی کی ناقص کارکردگی دیکھ کر عوام کانگریس کو واپس اقتدار میں لے آئے۔ اس مرتبہ نہ صرف پارٹی کی انتہائی ناقص حکمرانی اور اس پر مستزاد یہ کہ بھاری بھرکم مالیاتی اسکینڈل یکے بعد دیگرے منظر عام پر آتے رہے چنانچہ اب مایوسی پہلے سے کہیں زیادہ گہری ہے اور ان کو یقین آ گیا ہے کہ یہ پارٹی صاف شفاف حکومت کرنے کے قابل ہی نہیں۔اگر نریندر مودی اور اس کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اپنے تعمیر و ترقی کے ایجنڈے اور نوجوانوں کو روز گار فراہم کرنے کے دعوے پر صحیح معنوں میں عمل کر سکے تب کانگریس کا 2019ء میں ہونیوالے آیندہ انتخابات میں بھی اقتدار میں واپس آنا مشکل ہو جائے گا۔ اب زیادہ تر انحصار مودی پر ہے۔

اپنی پارٹی کے منتخب نمایندوں کے سامنے مودی نے جس اعتماد بھرے لہجے میں تقریر کی ہے اس سے تو ایسے لگتا ہے کہ کم از کم اگلے دس سال تک اسے کوئی نہیں ہلا سکتا۔ اور کانگریس کے لیے آیندہ طویل عرصہ تک اقتدار میں واپس آنا اور زیادہ مشکل ہو جائے گا۔مودی اتنا عقلمند ضرور ہے کہ سمجھ سکے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کا ہندوتوا کا کارڈ جنوبی ریاستوں میں زیادہ کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ اگر متوسط طبقات نرم ہندوتوا سے متاثر نہ ہوئے ہوتے تو مودی کے لیے اس طرح کی زبردست انتخابی فتح ممکن نہ ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ اب مودی زیادہ زور تعمیر و ترقی پر دے رہا ہے۔ وہ یہ دکھانا چاہتا ہے کہ بی جے پی عوام کو غربت کے گڑھے سے باہر نکال سکتی ہے جس میں کہ کم از کم ملک کی ایک تہائی آبادی نہایت برے طریقے سے پھنسی ہوئی ہے۔

یہ درست ہے کہ سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم منموہن سنگھ ایک کھلی کتاب کی مانند تھے مگر اس پر ان کی کارکردگی کے حوالے سے بہت کم تحریر لکھی ہے۔ حد سے زیادہ مہنگائی اور اقتدار کے غرور نے کانگریس کو 8 فیصد شرح نمو کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہونے دیا۔ تاہم کانگریس کا مسئلہ منموہن سنگھ کبھی نہیں رہے، جو کہ بہر حال اب ماضی کی کہانی بن چکے ہیں۔ آج پارٹی کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ خاندانی اقتدار کو پس پشت ڈال کر خود اپنے قدموں پر کیسے کھڑی ہو سکتی ہے۔پارٹی کی صدر سونیا گاندھی اور ان کا بیٹا راہول گاندھی حکومت کو اور پارٹی کو چلاتے رہے ہیں اب جب کہ دونوں ناکام ہو چکے ہیں تو لوگ کس کے پاس جائیں۔ دونوں نے مستعفی ہونے کی پیش کش کی ہے لیکن ورکنگ کمیٹی نے استعفے منظور کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

بہر حال یہ وہی ہیں جو قیادت فراہم کرتے ہیں۔ انھوں نے کسی اور کو سامنے ہی نہیں آنے دیا۔ اب کانگریس کے پاس اس خاندانی اقتدار کے سوا اور کوئی جائے پناہ نہیں ہے جو آزادی کے بعد سے مسلسل پارٹی کی قیادت کرتی رہی ہے۔ جواہر لعل نہرو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بوہڑ کے درخت کی مانند ہیں جو اپنے نیچے کوئی اور پودا پروان چڑھنے نہیں دیتا۔ کانگریس انھی پر انحصار کرتی تھی۔ ظاہر ہے کہ ان کی وفات کے بعد کوئی بھی ان کی جگہ لینے والا نہیں تھا۔ ان کی بیٹی مسز اندرا گاندھی جس کو انھوں نے بطور خاص حکمرانی کے لیے پروان چڑھایا تھا لیکن اس موقع پر وہ پارٹی کے لیے قابل قبول نہیں تھیں۔

لال بہادر شاستری ایسے امید وار تھے جن پر پارٹی کا اتفاق رائے ہو گیا تھا حالانکہ مرار جی ڈیسائی نے بھی کھڑا ہونے کی کوشش کی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ انھیں زیادہ ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کی حمایت حاصل ہے لیکن اس وقت کے کانگریس کے صدر کامراج کے نزدیک وہ قابل قبول نہ تھے چنانچہ انھوں نے اندرا گاندھی کو ترجیح دی۔آج کی پارٹی بالکل مختلف ہے کیونکہ کامراج اور اندرا گاندھی دونوں ایک ہی شخصیت میں ضم ہو چکے ہیں اور وہ ہے سونیا گاندھی۔ پارٹی کو اپنی غلطیوں کا جائزہ لینے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ یہ کام سونیا گاندھی کے کرنے کا ہے۔

کیا وہ پارٹی اور ریاستی لیڈروں پر آہنی کنٹرول چھوڑنے پر آمادہ ہو سکتی ہیں؟ کیا وہ اپنے بلند و بالا سنگھاسن سے نیچے اتر کر گراس روٹ کی سطح پر پارٹی کارکن کی حیثیت سے کام کرنے پر تیار ہو سکتی ہیں؟ ایک تجویز یہ ہے کہ پارٹی کے عہدے دار منتخب کیے جائیں تب ہی ان کی حیثیت میں وزن پیدا ہو سکتا ہے۔ لیکن اس طرح کی مشق پہلے بھی کی جا چکی ہے تاہم اس میں بوگس ووٹوں کے ذریعے عہدیداروں کا انتخاب عمل میں آیا تھا۔شاید اگر پارٹی کے سربراہ اور وزیراعظم کے منصب کو مشترکہ کر دیا جائے تب فرق پڑ سکے۔ مسز اندرا گاندھی نے ایسا کیا تھا۔ وزیر اعظم کی حیثیت سے وہ کانگریس کی صدر بھی بن گئی تھیں۔ لیکن ایسا صدارتی طرز حکومت میں ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ بھی جمہوریت کی ایک قسم ہے لیکن اس میں مطلق العنانیت کی گنجائش نکل آتی ہے۔

مودی نے بھی پہلے ہی اعلان کر رکھا ہے کہ وہ نیشنل ڈیمو کریٹک الائنس کی قیادت بھی اپنے ہاتھ میں رکھیں گے۔تاریخ اس قسم کی مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔ سوویت یونین بھی اسی انداز سے چلائی جاتی رہی لیکن کئی دہائیوں کے بعد وہ منہدم ہو گئی کیونکہ سارا اقتدار ماسکو میں مرتکز ہو گیا تھا۔ آج بھی روسی صدر ولادیمئر پیوٹن اسی انداز میں حکومت کر رہے ہیں جس کا اثر یوکرائن میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ امریکا میں اگرچہ صدارتی نظام حکومت ہے لیکن وہاں چیک اینڈ بیلنس اسقدر مضبوط ہے کہ آمریت کا امکان کم پیدا ہوتا ہے۔ امریکی پارلیمنٹ (یعنی کانگریس) خاصی مضبوط ہے۔بھارت میں کانگریس پارٹی دوبارہ اقتدار میں آ سکتی ہے کیونکہ یہاں یہ واحد متبادل ہے۔

لوگوں کے ذہن میں صرف دو پارٹیاں ہیں کانگریس اور بی جے پی۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ ایک پارٹی کی کارکردگی ناقص ہے تو وہ دوسری کی طرح متوجہ ہو جاتے ہیں جسے کہ وہ پہلے مسترد کر چکے ہوتے ہیں۔ وہ دو پارٹیوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔عام آدمی پارٹی (عاپ) جو کہ بنیادی طور پر کرپشن کے خلاف ایک تحریک کے طور پر اٹھی تھی مگر بعد میں سیاسی پارٹی کی حیثیت اختیار کر لی، وہ ایک متبادل پارٹی کا کردار ادا کر سکتی ہے بشرطیکہ وہ اپنی بنیاد میں وسعت پیدا کر لے۔ عاپ نے انتخابات میں %3 سے بھی کم ووٹ حاصل کیے ہیں لیکن اس کے باوجود اس نے بدعنوانی اور کرپشن کے خلاف جو موقف اختیار کیا ہے وہ قابل ستائش ہے لیکن ووٹروں کو راغب کرنے کے لیے اسے ایک نظرئیے اور ویژن کی ضرورت ہے۔

اس کو دہلی میں حکومت کرنے کا ایک بہت اچھا موقع ملا تھا جو اس نے ضایع کر دیا۔ اگرچہ اس پارٹی نے اپنی غلطیوں کو تسلیم کر لیا ہے لیکن اب دیر ہو چکی ہے لہذا اسے دوبارہ کھڑا ہونے کے لیے میدان میں کام کرنا پڑے گا۔ وہ صرف بلند و بانگ نعروں پر ہی انحصار نہیں کر سکتے۔ اس میں بھی تمام اختیارات اوپر کی سطح پر مرتکز ہو چکے ہیں۔ بالخصوص اس کے لیڈر اروند کیجریوال کی ذات میں، ان اختیارات کو پھیلایا جانا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں اور یہی مودی کے لیے بھی فائدہ مند ہو گا۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں