صفیہ اختر کی سہیلی کیا کہتی ہے
حیران و پریشان کھڑے تھے کہ پی آئی اے کا ایک افسر برابر سے گزرا گزرتے گزرتے ٹھٹھکا ...
شان الحق حقی کے صاحبزادے شایان حقی تو بہت کام کے آدمی نکلے۔ مسافر غریب ایک رستے میں تھا اور کراچی کے پی آئی اے اسٹیشن پر بھٹک رہا تھا۔ پی آئی اے کے اسٹاف نے ہڑتال کر رکھی تھی۔ لاہور جانے والی ایک فلائٹ کی سُن گُن ملی۔ کتنی مشکلوں سے اس کا ٹکٹ حاصل کیا۔ یہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ وہ فلائٹ تو منسوخ ہو گئی۔ مگر ایک اور فلائٹ تیار تھی۔ مگر کائونٹر پر اتنی لمبی قطار تھی کہ اسے دیکھ کر ہی ہمارے ہاتھ پائوں پھول گئے۔
حیران و پریشان کھڑے تھے کہ پی آئی اے کا ایک افسر برابر سے گزرا گزرتے گزرتے ٹھٹھکا۔ آپ انتظار حسین ہیں۔ جی ہاں۔ میں شان الحق حقی کا بیٹا ہوں۔ آپ کا کوئی مسئلہ ہے تو بتائیے میں شاید کچھ مدد کر سکوں۔ ہم نے بتایا۔ اس نے جھٹ پٹ جانے والی فلائٹ کا ٹکٹ بنوا کر ہمارے حوالے کیا۔ ساتھ میں اپنا کارڈ کیپٹن شایان الحق حقی (پی آئی اے) پھر تھوڑی گفتگو حقی صاحب اور اپنے دادا جان کی ایک تصنیف بھجوانے کا وعدہ۔
بس دوسرے تیسرے دن ہی ہمیں کتابوں کا ایک بنڈل موصول ہوا۔ کتابیں ہی کتابیں۔ شان الحق حقی کی کتابیں بیچ میں ایک چھوٹی سی کتاب ''شہیدان وفا کا خوں بہا کیا'' یہ تھی شایان صاحب کی والدہ شان الحق حقی کی بیگم پروفیسر سلمیٰ شان الحق حقی کی کتاب۔ کچھ تجسس ہوا کہ یہ کس قسم کی تحریر ہے۔ پہلے تو ہمیں اس تحریر کی دلاویزی پر داد دینی چاہیے۔ علی گڑھ یونیورسٹی کی چہل پہل اس بیچ ایک نسوانی چہل پہل۔ کتنے زمانوں بعد مسلمان لڑکی کو گھر کی چہار دیواری سے باہر نکل کر کھلی فضا میں سانس لینے کا موقع میسر آیا تھا۔ گرلز ہوسٹل میں چہکتی مہکتی لڑکیاں،
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے، پا بہ گِل بھی ہے۔ مگر یہ صحبت چند روزہ ہے۔ آگے کس کے نصیب میں کیا لکھا ہے، یہ کسے معلوم ہے۔ مگر سلمیٰ شان الحق کے قلم نے کیا گل کاریاں کی ہیں۔ اس ہنستی بولتی مخلوق کو کیا خوب بیان کیا ہے۔ ایک نام بیچ میں بار بار آتا ہے۔ صفیہ۔ ابھی یہ مجازؔ کی بہن کے طور پر جانی جاتی ہے۔ کس درد بھری آواز میں بھائی کی نظم سنا رہی ہے۔
اے غم دل کیا کروں،
اے وحشت دل کیا کروں۔
''خود اس قدر نازک دل کہ پڑھتے پڑھتے اس کے بھی آنسو نکل آئے اور دیکھنے اور سننے والوں کے بھی دل افسردہ ہو گئے۔ وہ پر کیف غم آگیں لمحے میری نظر میں ہیں'' تب ہی تو ان سے تقاضا ہوا تھا کہ جب تم صفیہ اختر کو اتنا قریب سے جانتی ہو، آتے جاتے موسموں میں باہم اتنے شب و روز بسر کیے ہیں تو کچھ زبان کھولو۔ اور اس کے متعلق ہمیں بتائو۔
تو اب جگر تھام کے بیٹھو اور ان سے سنو صفیہ پر مضمون لکھنے کی ایک پرانی فرمائش کے ساتھ جو مانگے تانگے کی کتاب ''حرف آشنا'' پڑھنے کو ملی۔ بہت دن ہمت باندھنے کے بعد دل پر جبر کر کے اسے پڑھنا شروع کیا تو وہ پوری رات جو اس کے پڑھنے میں تمام ہوئی بلکہ اس کے بعد کی مسلسل کئی راتیں اور اب ہر وہ رات جب اس دکھیاری لڑکی کی یاد آ جائے تو دل کسی کام کا نہیں رہتا اور نیند ایسی اچٹتی ہے کہ صبح ہو جاتی ہے۔
''یہ خط کیا ہیں اس کی تنہا زندگی کی داستان ہے۔ اس روگن بروگن کا قصہ ہے جس نے ہر مشکل، ہر مصیبت اکیلے جھیل لی اور آن بچا کر جان دیدی۔ جگر کا مشہور شعر ہے؎
جان ہی دیدی جگر نے آج پائے یار پر
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا
یہ خط کیا ہیں، سلمیٰ شان الحق کے لفظوں میں ''یوں معلوم ہوتا ہے وہ کسی انسان سے نہیں دیوار سے مخاطب ہے۔ وہ غیور لڑکی اپنے دل کے داغ کسی کو کیوں دکھاتی۔ یہ تو یوں کہیے کہ ایک خود کلامی کی کیفیت ہے جسے عالم خیال میں وہ سپرد قلم کرتی گئی ہے۔ البتہ اس قدر دانی کی زہرناکی کا بھی جواب نہیں کہ اس کے یہ خط اس کے پارہ ہائے جگر بہت احتیاط سے بطور البم سجائے جاتے رہے اور اپنے دل کے وہ زخم جو اس نے اپنے معتبر دوستوں کی نظر سے بچائے رکھے تھے اس کے مرتے ہی کتاب کی صورت میں شایع ہوئے اور اس اشتہار کے ساتھ گلی گلی بکنے لگے کہ ''یہ صفیہ کے خطوط ہیں جاں نثار کے نام۔ انھیں خرید لیجیے۔ اس سے جو رقم وصول ہو گی اس سے صفیہ کا سنگ مر مر کا مزار تعمیر ہو گا۔''
آگے بتاتی ہیں کہ ''علی گڑھ میں صفیہ کی بہت پرانی سہیلی سعیدہ قدوائی کو جب ''زیر لب'' مذکورہ اشتہار کے ساتھ پیش کی گئی تو ان کا جواب تھا ''اتنے دن سے اس کے مزار ہی کی تو تیاری ہو رہی تھی۔ سو وہ پوری ہو گئی۔ مزید کسی تکلف کی ضرورت نہیں۔ جائیے اٹھا لے جائیے، یہ کتاب۔ میں ہر گز نہیں خریدوں گی۔ ہرگز نہیں پڑھوں گی۔''
آگے کی سنو ''یہ سن سنتالیس کی بات ہے۔ صفیہ اپنے چھوٹے کو لے کر میرے پاس آئی۔ ہم دونوں خوش ہو کر وہیں برآمدے میں چوکی پر بیٹھ گئے۔ بچہ بڑا کمزور ہو رہا تھا۔ اسے دست آ رہے تھے۔ شاید دانتوں پر تھا۔ میں یوں ہی چھیڑنے کو بولی ''تمہیں زندگی بھر پلاننگ سے واسطہ رہا۔ یہاں کوئی پلاننگ کام نہیں آئی۔'' بے ساختہ جواب ملا ''اے سلمیٰ، اس کے آنے سے تو میری زندگی میں استواری آ گئی ہے۔''
اس کے خط پڑھنے کے بعد اس کا یہ فقرہ یکایک کانوں میں گونج اٹھا۔ میں نے کیا غضب کیا۔ سُن کے چپکی ہو گئی۔ بس پھر وہ آگے کچھ نہ بولی۔ پھر ہاتھ دھونے چلی گئی۔ آج مجھے کتنا قلق ہے کہ اس کی بات کیوں نہ سمجھی۔ اس سے کچھ نہ پوچھا۔ وہ تو جب سے ہم الگ ہوئے تھے آج پہلی دفعہ میرے پاس آئی تھی اور وہی آخری دفعہ بھی ہو گئی۔ آج شاید اس کے صبر کا دامن چھوٹ رہا تھا۔ وہ یقینا مجھ سے کچھ کہنے آئی تھی۔ شاید وہ معذرت بھی کرتی کہ تم نے تو مجھے اس راہ سے باخبر کر دیا تھا۔ میں نے ہی تمہیں غلط سمجھا۔ پھر گھبرا کر بچے کی چیزیں سمیٹ اسے کندھے سے لگا واپس چلی گئی۔''
یہ حال ہے اس بی بی کا جس سے ہماری دنیائے ادب اس کے مرنے کے بعد روشناس ہوئی۔ اس سے پہلے بس لوگ جاں نثار اختر کو ایک شاعر کے طور پر جانتے تھے۔ ایک ترقی پسند شاعر کے طور پر عجب ثم العجب ترقی پسند فکر اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ یا شاید یوں تھا کہ پتھر کو جونک نہیں لگا کرتی۔ نہ ترقی پسند فکر اس مورکھ کو سنوار سکی نہ صفیہ کی درد بھری التجائیں اس کے پتھر دل کو موم کر سکیں۔ ہاں اس کے کاروباری ذہن نے ان درد بھرے خطوں میں ایک کمرشل ویلیو دریافت کر لی تھی۔ جب ہی تو اس نے انھیں سنگھوا کر رکھا اور لکھنے والی کے مرنے کے بعد جھٹ پٹ مرتب کر کے چھپوا ڈالا۔
بس اس کے ساتھ ہی ترقی پسندی کا سارا ملمع اتر گیا اور جان نثار اختر کا اصلی چہرہ نظر آنے لگا۔ اور یہ بھی عجب ہوا کہ شقی القلب شوہر نے کہ اب تک شاعر کے طور پر جانا جاتا تھا خود ہی اپنے چہرے پر کالک ملنے کا اہتمام کیا اور کس ذوق و شوق سے یہ اہتمام کیا ہے۔ ورنہ بالعموم ہوتا یوں ہے کہ کوئی محقق سات پردوں میں چھپی ہوئی ایسی داستان کو کھود کر برآمد کرتا ہے۔ خالص نجی حیثیت میں لکھی ہوئی ایسی ڈائری یا ایسے خطوط جب منظر عام پر آتے ہیں تو اس حساب سے کہ؎
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پڑھنے والوں کا دل جیت لیتے ہیں اور انھیں دکھی دل کی آواز ہونے پر اور سچا اظہار ہونے کے ناتے ادب کا درجہ مل جاتا ہے۔
کسی بگڑے دل قاری یا نقاد کو یہاں ایک ہی اعتراض ہو سکتا ہے کہ یہ بی بی احتجاج کیوں نہیں کرتی مگر جس زمانے میں یہ واقعہ گزر رہا تھا اس زمانے تک ہمارے معاشرے کی پسی ہوئی عورت سب کچھ سہہ لینے ہی کو اپنی نسائی معراج سمجھتی تھی۔ یہ زمانہ تو اب آیا ہے کہ یہ پسی ہوئی عورت اب چپ کی داد حاصل کرنے پر قانع نہیں ہے۔ اس نے بولنا شروع کر دیا ہے۔ خیر یہ الگ بحث ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ جاں نثار اختر نے شاعر کے طور پر ابتدا کی تھی۔ انجام کار ایک شقی القلب شوہر کی بدنامی مول لی۔ اب یہی ان کی وجہ شہرت ہے۔ ادھر صفیہ اختر جب تک جیتی رہیں اندر ہی اندر گھلتی رہیں۔ جان سے گزر گئیں تو صابر عورت کی مثال بن گئیں اور اپنے درد و غم کو جس حد تک خطوط کی صورت جمع کر سکیں اس کے حوالے سے اردو ادب کی تاریخ میں مقام حاصل کرنے کی حق دار بن گئیں۔ یہ انسانی زندگی کے عجائبات ہیں۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے۔
حیران و پریشان کھڑے تھے کہ پی آئی اے کا ایک افسر برابر سے گزرا گزرتے گزرتے ٹھٹھکا۔ آپ انتظار حسین ہیں۔ جی ہاں۔ میں شان الحق حقی کا بیٹا ہوں۔ آپ کا کوئی مسئلہ ہے تو بتائیے میں شاید کچھ مدد کر سکوں۔ ہم نے بتایا۔ اس نے جھٹ پٹ جانے والی فلائٹ کا ٹکٹ بنوا کر ہمارے حوالے کیا۔ ساتھ میں اپنا کارڈ کیپٹن شایان الحق حقی (پی آئی اے) پھر تھوڑی گفتگو حقی صاحب اور اپنے دادا جان کی ایک تصنیف بھجوانے کا وعدہ۔
بس دوسرے تیسرے دن ہی ہمیں کتابوں کا ایک بنڈل موصول ہوا۔ کتابیں ہی کتابیں۔ شان الحق حقی کی کتابیں بیچ میں ایک چھوٹی سی کتاب ''شہیدان وفا کا خوں بہا کیا'' یہ تھی شایان صاحب کی والدہ شان الحق حقی کی بیگم پروفیسر سلمیٰ شان الحق حقی کی کتاب۔ کچھ تجسس ہوا کہ یہ کس قسم کی تحریر ہے۔ پہلے تو ہمیں اس تحریر کی دلاویزی پر داد دینی چاہیے۔ علی گڑھ یونیورسٹی کی چہل پہل اس بیچ ایک نسوانی چہل پہل۔ کتنے زمانوں بعد مسلمان لڑکی کو گھر کی چہار دیواری سے باہر نکل کر کھلی فضا میں سانس لینے کا موقع میسر آیا تھا۔ گرلز ہوسٹل میں چہکتی مہکتی لڑکیاں،
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے، پا بہ گِل بھی ہے۔ مگر یہ صحبت چند روزہ ہے۔ آگے کس کے نصیب میں کیا لکھا ہے، یہ کسے معلوم ہے۔ مگر سلمیٰ شان الحق کے قلم نے کیا گل کاریاں کی ہیں۔ اس ہنستی بولتی مخلوق کو کیا خوب بیان کیا ہے۔ ایک نام بیچ میں بار بار آتا ہے۔ صفیہ۔ ابھی یہ مجازؔ کی بہن کے طور پر جانی جاتی ہے۔ کس درد بھری آواز میں بھائی کی نظم سنا رہی ہے۔
اے غم دل کیا کروں،
اے وحشت دل کیا کروں۔
''خود اس قدر نازک دل کہ پڑھتے پڑھتے اس کے بھی آنسو نکل آئے اور دیکھنے اور سننے والوں کے بھی دل افسردہ ہو گئے۔ وہ پر کیف غم آگیں لمحے میری نظر میں ہیں'' تب ہی تو ان سے تقاضا ہوا تھا کہ جب تم صفیہ اختر کو اتنا قریب سے جانتی ہو، آتے جاتے موسموں میں باہم اتنے شب و روز بسر کیے ہیں تو کچھ زبان کھولو۔ اور اس کے متعلق ہمیں بتائو۔
تو اب جگر تھام کے بیٹھو اور ان سے سنو صفیہ پر مضمون لکھنے کی ایک پرانی فرمائش کے ساتھ جو مانگے تانگے کی کتاب ''حرف آشنا'' پڑھنے کو ملی۔ بہت دن ہمت باندھنے کے بعد دل پر جبر کر کے اسے پڑھنا شروع کیا تو وہ پوری رات جو اس کے پڑھنے میں تمام ہوئی بلکہ اس کے بعد کی مسلسل کئی راتیں اور اب ہر وہ رات جب اس دکھیاری لڑکی کی یاد آ جائے تو دل کسی کام کا نہیں رہتا اور نیند ایسی اچٹتی ہے کہ صبح ہو جاتی ہے۔
''یہ خط کیا ہیں اس کی تنہا زندگی کی داستان ہے۔ اس روگن بروگن کا قصہ ہے جس نے ہر مشکل، ہر مصیبت اکیلے جھیل لی اور آن بچا کر جان دیدی۔ جگر کا مشہور شعر ہے؎
جان ہی دیدی جگر نے آج پائے یار پر
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا
یہ خط کیا ہیں، سلمیٰ شان الحق کے لفظوں میں ''یوں معلوم ہوتا ہے وہ کسی انسان سے نہیں دیوار سے مخاطب ہے۔ وہ غیور لڑکی اپنے دل کے داغ کسی کو کیوں دکھاتی۔ یہ تو یوں کہیے کہ ایک خود کلامی کی کیفیت ہے جسے عالم خیال میں وہ سپرد قلم کرتی گئی ہے۔ البتہ اس قدر دانی کی زہرناکی کا بھی جواب نہیں کہ اس کے یہ خط اس کے پارہ ہائے جگر بہت احتیاط سے بطور البم سجائے جاتے رہے اور اپنے دل کے وہ زخم جو اس نے اپنے معتبر دوستوں کی نظر سے بچائے رکھے تھے اس کے مرتے ہی کتاب کی صورت میں شایع ہوئے اور اس اشتہار کے ساتھ گلی گلی بکنے لگے کہ ''یہ صفیہ کے خطوط ہیں جاں نثار کے نام۔ انھیں خرید لیجیے۔ اس سے جو رقم وصول ہو گی اس سے صفیہ کا سنگ مر مر کا مزار تعمیر ہو گا۔''
آگے بتاتی ہیں کہ ''علی گڑھ میں صفیہ کی بہت پرانی سہیلی سعیدہ قدوائی کو جب ''زیر لب'' مذکورہ اشتہار کے ساتھ پیش کی گئی تو ان کا جواب تھا ''اتنے دن سے اس کے مزار ہی کی تو تیاری ہو رہی تھی۔ سو وہ پوری ہو گئی۔ مزید کسی تکلف کی ضرورت نہیں۔ جائیے اٹھا لے جائیے، یہ کتاب۔ میں ہر گز نہیں خریدوں گی۔ ہرگز نہیں پڑھوں گی۔''
آگے کی سنو ''یہ سن سنتالیس کی بات ہے۔ صفیہ اپنے چھوٹے کو لے کر میرے پاس آئی۔ ہم دونوں خوش ہو کر وہیں برآمدے میں چوکی پر بیٹھ گئے۔ بچہ بڑا کمزور ہو رہا تھا۔ اسے دست آ رہے تھے۔ شاید دانتوں پر تھا۔ میں یوں ہی چھیڑنے کو بولی ''تمہیں زندگی بھر پلاننگ سے واسطہ رہا۔ یہاں کوئی پلاننگ کام نہیں آئی۔'' بے ساختہ جواب ملا ''اے سلمیٰ، اس کے آنے سے تو میری زندگی میں استواری آ گئی ہے۔''
اس کے خط پڑھنے کے بعد اس کا یہ فقرہ یکایک کانوں میں گونج اٹھا۔ میں نے کیا غضب کیا۔ سُن کے چپکی ہو گئی۔ بس پھر وہ آگے کچھ نہ بولی۔ پھر ہاتھ دھونے چلی گئی۔ آج مجھے کتنا قلق ہے کہ اس کی بات کیوں نہ سمجھی۔ اس سے کچھ نہ پوچھا۔ وہ تو جب سے ہم الگ ہوئے تھے آج پہلی دفعہ میرے پاس آئی تھی اور وہی آخری دفعہ بھی ہو گئی۔ آج شاید اس کے صبر کا دامن چھوٹ رہا تھا۔ وہ یقینا مجھ سے کچھ کہنے آئی تھی۔ شاید وہ معذرت بھی کرتی کہ تم نے تو مجھے اس راہ سے باخبر کر دیا تھا۔ میں نے ہی تمہیں غلط سمجھا۔ پھر گھبرا کر بچے کی چیزیں سمیٹ اسے کندھے سے لگا واپس چلی گئی۔''
یہ حال ہے اس بی بی کا جس سے ہماری دنیائے ادب اس کے مرنے کے بعد روشناس ہوئی۔ اس سے پہلے بس لوگ جاں نثار اختر کو ایک شاعر کے طور پر جانتے تھے۔ ایک ترقی پسند شاعر کے طور پر عجب ثم العجب ترقی پسند فکر اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ یا شاید یوں تھا کہ پتھر کو جونک نہیں لگا کرتی۔ نہ ترقی پسند فکر اس مورکھ کو سنوار سکی نہ صفیہ کی درد بھری التجائیں اس کے پتھر دل کو موم کر سکیں۔ ہاں اس کے کاروباری ذہن نے ان درد بھرے خطوں میں ایک کمرشل ویلیو دریافت کر لی تھی۔ جب ہی تو اس نے انھیں سنگھوا کر رکھا اور لکھنے والی کے مرنے کے بعد جھٹ پٹ مرتب کر کے چھپوا ڈالا۔
بس اس کے ساتھ ہی ترقی پسندی کا سارا ملمع اتر گیا اور جان نثار اختر کا اصلی چہرہ نظر آنے لگا۔ اور یہ بھی عجب ہوا کہ شقی القلب شوہر نے کہ اب تک شاعر کے طور پر جانا جاتا تھا خود ہی اپنے چہرے پر کالک ملنے کا اہتمام کیا اور کس ذوق و شوق سے یہ اہتمام کیا ہے۔ ورنہ بالعموم ہوتا یوں ہے کہ کوئی محقق سات پردوں میں چھپی ہوئی ایسی داستان کو کھود کر برآمد کرتا ہے۔ خالص نجی حیثیت میں لکھی ہوئی ایسی ڈائری یا ایسے خطوط جب منظر عام پر آتے ہیں تو اس حساب سے کہ؎
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پڑھنے والوں کا دل جیت لیتے ہیں اور انھیں دکھی دل کی آواز ہونے پر اور سچا اظہار ہونے کے ناتے ادب کا درجہ مل جاتا ہے۔
کسی بگڑے دل قاری یا نقاد کو یہاں ایک ہی اعتراض ہو سکتا ہے کہ یہ بی بی احتجاج کیوں نہیں کرتی مگر جس زمانے میں یہ واقعہ گزر رہا تھا اس زمانے تک ہمارے معاشرے کی پسی ہوئی عورت سب کچھ سہہ لینے ہی کو اپنی نسائی معراج سمجھتی تھی۔ یہ زمانہ تو اب آیا ہے کہ یہ پسی ہوئی عورت اب چپ کی داد حاصل کرنے پر قانع نہیں ہے۔ اس نے بولنا شروع کر دیا ہے۔ خیر یہ الگ بحث ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ جاں نثار اختر نے شاعر کے طور پر ابتدا کی تھی۔ انجام کار ایک شقی القلب شوہر کی بدنامی مول لی۔ اب یہی ان کی وجہ شہرت ہے۔ ادھر صفیہ اختر جب تک جیتی رہیں اندر ہی اندر گھلتی رہیں۔ جان سے گزر گئیں تو صابر عورت کی مثال بن گئیں اور اپنے درد و غم کو جس حد تک خطوط کی صورت جمع کر سکیں اس کے حوالے سے اردو ادب کی تاریخ میں مقام حاصل کرنے کی حق دار بن گئیں۔ یہ انسانی زندگی کے عجائبات ہیں۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے۔