سارے محکمے ٹھیکے پر دیے جائیں
سارے محکمے اور دفاتر ویسے بھی خود مختار ہیں تو حکومت ان کو باقاعدہ نیلام کر کے کچھ ’’ٹکے‘‘ کیوں نہیں کھرے کر لیتی
LONDON:
بڑا زبردست، بڑا ہی انوکھا اور انتہا درجے کا نادر اور نایاب خیال سوجھا ہے۔
اسے ہم حکومت کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت ''خیال'' سن کر خود بخود چاہے گی کہ ہمیں کچھ دے کر نواز دے اور ہم بھی قبول کرنے کو تیار ہیں بشرطیکہ کہ کوئی ایوارڈ نہ ہو کیوں کہ ہمارے حکیم نے ہمیں ''ایوارڈ'' نامی چیزوں سے سخت پرہیز کرنے کو کہا ہے۔
قبول کرنا تو دور کی بات ہے، حکیم صاحب نے کہا ہے کہ اگر ہم نے کسی سرکاری ایوارڈ کو دس گز بانس سے بھی چھوا تو ہم پتھر یا مٹی کے ہو جائیں گے لہٰذا ایوارڈ سے تو معذرت لیکن اگر کوئی ماڑی ماٹھی وزارت ہو تو ہم بسرو چشم بلکہ بہ احباب و اقربا قبول کر لیں گے، خواہ وہ دریا کی لہریں یا سڑک پر گاڑیاں گننے کی وزارت ہی کیوں نہ ہو۔
یہ اچھوتا، انوکھا اور نادر و نایاب خیال ہمیں اس وقت آیا جب ایک اسپتال کے قریب سے گزر رہے تھے تو یہ رسک والا کام ہے کیوں کہ آج کل اسپتالوں کے اندر جانا تو کیا قریب سے گزرنے پر بھی دو چار امراض یا ڈاکٹر لاحق ہونے کا خطرہ ہوتا ہے اور آپ تو جانتے ہیں کہ موخر الذکر ۔۔۔ اول الذکر سے بھی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں لیکن دوسرا کوئی راستہ تھا ہی نہیں، کوئی ڈاکٹر یا مرض تو ہمیں لاحق نہیں ہوا۔
لیکن اسپتال کے عملے کو ہم نے کسی قسم کا احتجاج کرتے ہوئے دیکھا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ اسپتال کو ''پرائیویٹیانے'' کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور یہی وہ موقع تھا جب ہمارے دماغ میں اچانک اس نادر و نایاب خیال نے دھماکا کیا کہ صرف اسپتال ہی کیوں؟
حکومت اپنے سارے محکموں کو فروخت کیوں نہیں کرتی ۔۔۔ ایک ہاتھ بلکہ ہاتھوں میں فوری طور پر کچھ نقد رقم آ جائے گی اور دوسرے یہ روز روز کی کِل کِل سے بھی چھٹکارا مل جائے گا، ویسے بھی عملی طور پر سارے محکمے ایک طرح سے ٹھیکے پر دیے جا چکے ہیں بلکہ ہر دفتر پرائیویٹ سیکٹر کی مانند ایک خود مختار ریاست کی طرح ہے جہاں رشوت و غبن کے اپنے اپنے قاعدے و قانون اور ریٹ چل رہے ہیں۔
جب عملاً سارے محکمے اور دفاتر ویسے بھی خود مختار ہیں تو حکومت ان کو باقاعدہ نیلام کر کے کچھ ''ٹکے'' کیوں نہیں کھرے کر لیتی۔ کم از کم ''سفید ہاتھیوں'' کا چارہ دانہ تو نکل ہی آئے گا۔ اور سفید ہاتھوں کے تو کیا ان کے حالیوں موالیوں کے بھی وارے نیارے ہو جائیں گے۔
مثلاً اگر پولیس کا محکمہ انڈر ورلڈ والوں کو ٹھیکے پر دیا گیا تو ہمیں یقین ہے کہ فی تھانہ دس بیس لاکھ تو کہیں گئے ہی نہیں بلکہ کچھ اپ گریڈ تھانے تو پانچ چھ کروڑ میں بھی خوشی خوشی فروخت ہو جائیں گے۔خالص منافع، نہ ہینگ نہ پھٹکڑی، مطلب یہ کہ نہ تنخواہیں نہ اخراجات اور منافع نقد، اسپتالوں اور تعلیم گاہوں والے محکمے تو ویسے بھی عملاً حکومت کے ہاتھ سے نکل کر پرائیویٹ سیکٹر میں جا چکے ہیں ان کا سارا کاروبار ہی کسی محکمے کے بجائے تجارتی دکانوں کی طرح چل رہا ہے تو پھر کیوں نہ حکومت اس سے فائدہ اٹھائے اور کاغذی طور پر بھی یہ محکمے فروخت کر دے۔
دیکھا جائے تو سڑکیں بھی تقریباً پرائیویٹ سیکٹر میں جا چکی ہیں۔ جگہ جگہ خود مختار چوکیاں، بیریر، چیک پوسٹ وغیرہ قائم ہیں جو نہایت ہی عرق ریزی سے ''لہریں'' گن رہے ہیں۔اب صرف یہ ہو گا کہ ان چوکیوں، چیک پوسٹوں اور بیریروں کو سرعام نیلامی پر چڑھانا ہو گا کہ بھئی لہریں تو تم ویسے بھی گن رہے ہو کچھ ہمیں بھی دیا کرو۔
''لہریں گننے'' کا قصہ تو امید ہے سب کو یاد ہو گا لیکن تازہ ترین تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بادشاہ کا وہ سُسر جسے لہریں گننے پر مامور کیا گیا تھا پاکستان سے ''بیلانگ'' کرتا تھا۔ ہمیں اس پر اصرار نہیں لیکن علامہ بریانی کی تحقیق یہی ہے بلکہ مزید اضافہ وہ یہ بھی کرتے ہیں کہ بادشاہ کا وہ سسر پاکستان کا ایک سابق وزیر تھا۔ خیر جو بھی ہو لہریں اچھی گنتا تھا بلکہ ہمیں تو شک ہے کہ تمام سرکاری محکموں اور وزارتوں میں اسی کا وضع کردہ نصاب زیر عمل ہے۔
بات سرکاری محکموں کو فروخت کرنے یا ٹھیکے پر دینے کی چل رہی ہے تو لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیں کہ کونسا محکمہ کن لوگوں کو ٹھیکے پر دیا جا سکتا ہے۔ پولیس کا تو ہم نے بتا دیا ہے کہ انڈر ورلڈ والے نہایت ذوق و شوق سے اسے خریدنے کے لیے بولیاں لگائیں گے۔ یہ تو اندرونی تحفظ کا محکمہ ہوا، بیرونی تحفظ کا کام امریکا کو دیا جا سکتا ہے کیونکہ ویسے بھی اس کا سامان یہیں پڑا ہوا ہے۔ نئے سرے سے کوئی بندوبست کرنے یا سامان اور مشینریاں لانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ خیر یہ تو سب ہو جائے گا کیوں کہ عقل مند کے لیے اشارہ بھی کافی ہوتا ہے۔
بنیادی تجویز ہم نے دے ڈالی ہے۔ اب حکومت اپنے محکمے اور ادارے کیسے بیچتی ہے یا ٹھیکے پر دیتی ہے یہ اس کا کام ہے چونکہ تجویز ہماری ہے اس لیے اس کے فوائد کا بھی ہمیں اچھی طرح پتہ ہے۔ سب سے پہلا اور بڑا فائدہ تو اس کا یہ ہو گا کہ حکومت کے وزیر لوگ فارغ ہو جائیں گے اور نہایت آرام سے بیرونی دورے کر سکیں گے یا تقریبات میں مہمان خصوصی بن کر اپنے مونہوں سے ہیرے موتی بکھر سکیں گے۔ آپ کو نہیں معلوم کہ آج کل بے چاروں کی جان کس مصیبت میں ہے۔ دن بھر تو تقریبات اور دوروں میں پسینے پسینے ہو جاتے ہیں۔ رات کو ''کھانے پینے'' میں مصروف ہوتے ہیں۔
صبح بیانات کی جگالی کرنا پڑتی ہے چنانچہ اپنے محکمے چلانے کے لیے وقت ہی نہیں بچتا۔ چنانچہ وہاں ان کا کوئی چمچہ یا کفگیر ان کی جگہ کام کرتا ہے۔ یقین نہ ہو تو سروے کر لیجیے۔ تقریباً ہر وزیر کا محکماتی کام اس کی ''کیٹلری'' کرتی ہے۔
بھلے ہی وہ دفاتر میں نہ بیٹھتے ہوں لیکن کام سارا کرتے ہیں۔ اگر محکمے کو ٹھیکے یا لیز پر دیا جائے یا فروخت کر دیا جائے تو یہ بے چارے فارغ ہو کر آرام سے تقاریب میں، بیرونی دوروں میں، اور یہاں وہاں خاص طور پر اخباروں اور ٹی وی اسکرینوں پر نہایت اطمینان سے قوم کی خدمت کر سکیں گے۔ عوام کو بھی فائدہ ہو گا کیوں کہ پھر تو دکان داری ہو جائے گی اور دکان دار جو بھی ہو جیسا بھی ہو جہاں بھی ہو کم از کم اپنی دکان تو بھری رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ گاہگوں سے اشیائے صرف کی لوڈ شیڈنگ تو نہیں کراتا، کہیں سے بھی کر کے کسی طرح بھی کر کے کسی بھی بھاؤ اشیائے صرف موجود رکھتا ہے۔
یہ نہیں کہ چیز دکان میں ہے بھی نہیں اور نرخ بڑھاتے جاؤ، جیسا کہ اب حکومتی سیکٹر میں ہو رہا ہے۔ کوئی دکاندار اگر منہ مانگے دام لے کر بھی وقت پر ضرورت کی چیز دے دے تو وہ خوش رہتا ہے لیکن اگر قیمت بھی منہ مانگی لی جائے اور ایک کلو چیز کی جگہ اس کی ہتھیلی پر چٹکی بھر چیز رکھی جائے تو بے چارے کے دل پر چھریاں چل جاتی ہیں۔
پرائیویٹ دکانیں بننے کے بعد یہ سلسلہ نہیں رہے گا۔ دکاندار ایڑی چوٹی بلکہ سر کے بالوں سے پیروں کے ناخنوں تک کا زور لگا کر مطلوبہ چیز مہیا کر کے رہے گا۔ گویا عوام بھی خوش ۔۔۔۔ اور وزیر تو پہلے سے خوش ہوں گے۔ گویا کسی کو کوئی گلہ، کوئی تکلیف اور کوئی بھی مسئلہ نہیں رہے گا۔ امید ہے یہ زرین مشورہ دینے پر حکومت ہمارا بھی خیال رکھے گی اور جیسا کہ ہم نے کہا بھی ہے کوئی ماڑی ماٹی اور کونے کھدرے والی وزارت ہمیں بھی مرحمت فرمائے گی۔